اسلامی کلینڈر کی ضرورت کیوں ؟

152

اسلامی کلینڈر میں ایک نئے سال کا اضافہ ہوا اور ہجرت مدینہ نے 1445 سال مکمل کر لیے۔ دنیا میں اس وقت تین بڑے کلینڈر رائج ہیں بکرمی‘ عیسوی اور ہجری۔ دنیا کی بڑی تہذیبیں اپنی تاریخ کو زندہ رکھنے کے لیے کلینڈر استعمال کرتی ہیں۔
ہجری سال کی خصوصیت یہ ہے کہ یہ مروجہ کلینڈروں میں سب سے زیادہ جدید اور قمری کلینڈر ہے۔ سوال یہ ہے کہ کسی تہذیب کو کلینڈر کی ضرورت کیوں محسوس ہوتی ہے؟ بہ حیثیت مسلمان ہم ہر چیز کو سمجھنے کے لیے قرآن کی طرف رجوع کرتے ہیں۔
اللہ تعالیٰ سورہ آل عمران میں فرماتے ہیں ’’زمین اور آسمانوں کی پیدائش میں اور رات اور دن کے باری باری آنے میں ہوش مند لوگوں کے لیے بہت سی نشانیاں ہیں۔‘‘
اسی طرح سورہ یاسین میں ارشاد ہوتا ہے ’’چاند کے لیے ہم نے منزلیں مقرر کر دی ہیں یہاں تک کہ ان سے گزرتا ہوا وہ کھجور کی سوکھی شاخ کی مانند ہو جاتا ہے۔‘‘
سورہ توبہ میں اللہ تعالیٰ ارشاد فرماتے ہیں ’’حقیقت ہے مہینوں کی تعداد جب سے اللہ نے آسمان و زمین پیدا کیے اللہ کے نوشتے میں بارہ ہی ہے۔‘‘
اس طرح اللہ تعالیٰ نے قمری کلینڈر کے ذریعے آسمان پر ایک قدرتی کلینڈر لگا دیا اور نظامِ کائنات کو ایک حکیمانہ نظام سے جوڑ دیا اور اس کے ذریعے انسانوں میں یہ اخلاقی حس پیدا کی کہ اللہ نے انسان کو عقل و تمیز دی ہے اور اسے تصرف کے اختیارات دیے ہیں اس لیے اس کے دنیاوی اعمال پر اس سے ضرور باز پرس ہوگی اور زمانے کی قسم کھا کر اسے گزرتے ہوئے وقت کی اہمیت اور انسان کے خسارے کا احساس دلایا۔
دینِ اسلام اس کائنات کا آخری سچا دین ہے اور نبی آخر الزماںؐ انسانیت کے سچے مسیحا ہونے کے ناتے دنیا کو آخری کلینڈر دے گئے جو قیامت تک مسلمانوں کو اپنی تاریخ مدون کرنے میں مددگار ثابت ہوگا اور مسلمانوں کے اس تابناک ماضی کی گواہی دے گا جس کا آغاز ریاست مدینہ سے ہوا۔
ریاستَ مدینہ کی تاریخ میں پہلی بار کلینڈر کی ضرورت اُس وقت محسوس ہوئی جب 21 ہجری میں حضرت عمرؓ کو ایک خط موصول ہوا جس پر شعبان لکھا ہوا تھا اور یہ اندازہ نہیں ہو رہا تھا کہ کس سال کے شعبان کا ذکر ہے۔ تو پھر مسلمانوں کی باہمی مشاورت سے یہ فیصلہ ہوا کہ ہجرت مدینہ سے اسلامی سال کا آغاز کیا جائے۔
زندہ قومیں اپنی تہذیب سے پہچانی جاتی ہیں۔ اگر وہ اپنی تہذیب و روایات کو برقرار نہ رکھیں تو دوسری قوموں میں ضم ہو جاتی ہیں۔ مسلمان قوم ایک کامل تہذیب اور رسم و رواج رکھتی ہے‘ اپنی شناخت اور تاریخ کو برقرار رکھنے کے لیے ضروری ہے کہ ہم اپنے کلینڈر کی اہمیت سے آگاہ ہوں۔ یہ حقیقت ہے کہ آج ہم ملکی اور بین الاقوامی سطح پر عیسوی کلینڈر کو اختیار کرنے پر مجبور ہیں جو اس بات کی نشانی ہے کہ وہ حاکم قوم ہیں اور ہم تہذیبی اور ثقافتی طور پر ذہنی غلامی اور مرعوبیت کا شکار ہیں۔ اپنی تہذیب کو زندہ رکھنے اور اسے اپنی زندگی کا حصہ بنانے کے لیے ضروری ہے کہ ہم ایک حاکم اور غالب قوم بنیں تب ہی دنیا میں ہماری شناخت ہو سکتی ہے۔ آج دنیا میں شاید ہی کوئی مسلمان ایسا ہو جسے اپنی تاریخ پیدائش ہجری سال کے مطابق معلوم ہو۔ اگر آج ہم نے اپنے اس ہجری سال کو رواج دینے کی کوشش نہ کی تو آنے والی نسلیں اس سے بالکل انجان رہیں گی۔
اللہ تعالیٰ ہمیں اپنے اسلاف کی عظیم روایات اور تہذیب کو زندہ کرنے اور اپنی زندگیوں میں جاری و ساری کرنے والا بنائے آمین۔

حصہ