چراغ سے چراغ جلے

65

’’بات سنیں ڈاکٹر صاحب! حج کا ارادہ بنائیں‘ میرا دل بہت بے تاب ہے‘ مجھے خانہ کعبہ میں حاضری دینی ہے۔‘‘
رخسانہ روز اپنے شوہر نامدار کو رغبت دلاتیں اور پھر آخر کار وہ دن آہی گیا جب دونوں سفر حج سے فیض یاب ہوئے۔

رخسانہ جب واپس آئیں تو انہیں اپنا دوپٹہ سر سے اتارنا بہت گراں گزرنے لگا۔ چالیس دن بڑا سا اسکادف اوڑھ کر رکھا اور اب وہ ان کی ذات کا جیسے حصہ بن گیا تھا۔ سچ ہے ماحول کا اثر قبول کرنا آسان ہو جاتا ہے۔ خاندان کی دعوتوں میں کسی نے ان کے سر سے دوپٹہ کھینچا اور کسی نے یہ کہا کہ ’’تمہاری قمیض کے گلے کا کام تو بالکل چھپ گیا ہے‘‘ لیکن رخسانہ نے پروا نہ کی۔ دوپٹہ سر سے اتارنا انہیں کھلنے لگا تھا۔

ڈاکٹر صاحب چوں کہ پورے علاقے میں مشہور تھے۔ اللہ نے ان کے ہاتھ میں بڑی شفا رکھی تھی اور نہلے پہ دہلا یہ کہ ان کا اخلاق بھی بہترین تھا۔

اب رخسانہ سے ملنے ان کے محلے سے خواتین آنے لگیں۔ جن کا مقصد یہ تھا کہ رخسانہ قرآن کی ترجمے والی کلاس میں شرکت کریں۔

رخسانہ نے حج کرنے کے بعد اپنے اندر قرآن سے بہت زیادہ قربت محسوس کرنے کے بعد کلاس شروع کی تھی۔

رخسانہ جیسے جیسے قرآن پاک پڑھتے گئی اتنا ہی وہ اللہ سے قریب ہوتے گئیں، صرف سر ڈھانپنے پر ہی اکتفا نہ کیا بلکہ حجاب بھی اوڑھ لیا اور جب قرآن پاک مکمل بہ ترجمہ پڑھ لیا تو رخسانہ نے فیصلہ کیا کہ وہ اپنے چہرے پر بھی نقاب ڈالیں گی۔

پہلے ہی وہ بلدیاتی انتخابات میں دونوں میاں‘ بیوی کونسلر منتخب ہو گئے تھے جس کی وجہ سے رخسانہ کو کالجوں اور اسکولوں میں بلایا جانے لگا۔ پہلے نقاب کے بغیر رخسانہ کو اگلی نشست پر بٹھایا جاتا اور خوب پزیرائی ملتی لیکن حجاب کے بعد لوگوں کا رویہ رخسانہ کو حیران کر گیا۔

جب وہ نقاب کے ساتھ اسکول کے پروگرام میں گئیں تو وہاں انہیں ایک کونے میں بیٹھنے کی جگہ ملی۔

رویوں کی سرد مہری رخسانہ کے لیے دل شکن تھی لیکن حکمِ خداوندی کے سامنے سب ہیچ تھا۔ ان کے دل میں قرآن اور اس کے احکامات کی محبت مزید بڑھ گئی اور انہوں نے اپنے گھر کو قرآنِ سے روشن کیا اور ہر ہفتے محلے کی خواتین کو بلا کر ترجمہ قرآن سنانا شروع کیا۔

آج ڈاکٹر صاحب اس دنیا میں نہیں ہیں‘ رخسانہ کی بیٹی ڈاکٹر ہے اور آسٹریلیا میں رہائشی پزیر ہے۔ اپنے بچوں کو قرآن خفظ کروا رہی ہے۔ غیر اسلامی ملک میں رہنے کے باوجود ان کا گھر قرآن کی روشنی سے منور ہے۔ رخسانہ کی بہوئیں بھی حجاب پہنتی ہیں اور قرآن کو سمجھ کر پڑھتی ہیں۔
سچ ہے کہ ایک عورت پوری نسل سنوارتی ہے لیکن شرط یہ ہے کہ اس کا کردار مضبوط ہو اور یہ مضبوطی کلامِ الٰہی کی بہ دولت ہی ملتی ہے جو عورت کو عزت کی بلند منزلیں عطا کرتی ہے۔ شاعر نے کیا خوب کہا ہے:
’’یہ رتبہ بلند ملا جس کو مل گیا‘‘

حصہ