بزمِ یارانِ سخن کراچی نے کلری جھیل مشاعرے کا اہتمام کیا۔ صبح 10 بجے یہ گروپ کلری جھیل پہنچا اور ایک شان دار ہٹ میں مقیم ہوا۔ اس پروگرام میں مشاعرہ اور کلری جھیل میں سوئمنگ شامل تھی۔ پہلے دور میں مشاعرہ ہوا جس کی صدارت رفیع الدین راز نے کی۔ مہمانانِ خصوصی میں افتخار ملک ایڈووکیٹ اور عابد شیروانی شامل تھے۔ مظہر ہانی اس مشاعرے میں مہمان اعزازی تھے۔ پروگرام کی انتظامیہ کمیٹی میں محمد علی گوہر اور کامران صدیقی شامل تھے۔ کشور عروج نے نظامت کے فرائض انجام دیے اور مشاعرے کی غرض و غایت پر روشنی ڈالتے ہوئے کہا کہ پکنک منانے کے ساتھ ساتھ مشاعرہ ہونا ایک نئی روایت ہے جس کا سہرا بزمِ یارانِ سخن کو جاتا ہے۔ بزم یارانِ سخن کراچی کے صدر سلطان صدیقی نے کہا کہ ہماری تنظیم نے کلری جھیل مشاعرے کا تجربہ کیا ہے دیکھیے ہم اس میں کس حد تک کامیاب ہوتے ہیں۔ کراچی کے جھمیلوں سے آزادی حاصل کرنے کے لیے ہم نے کلری جھیل کا انتخاب کیا ہے۔ مظہر ہانی نے کہا کہ بزمِ یاران سخن کا یہ پروگرام ایک یونیک پروگرام ہے ہم اس سے بہت لطف اندوز ہو رہے ہیں۔ سارے انتظامات اچھے ہیں۔ افتخار ملک ایڈووکیٹ نے کہا کہ آج کا دن ہمارے لیے اس لیے یادگار ہے کہ ہم کراچی میں بے حد مصروف دن گزارتے ہیں یہاں آکر ہمیں آزادی کا لطف آرہا ہے۔ مشاعروں سے زندگی میں تازگی پیدا ہوتی ہے۔ شاعری سے ہمیں ذہنی سکون ملتا ہے‘ ہماری معلومات میں اضافہ بھی ہوتا ہے۔ مشاعرے ہمیں زندہ رکھتے ہیں‘ ہر زمانے میں یہ ادارہ کام کرتا ہے۔ کراچی میں بہت شان دعار ادبی اور علمی پروگرام ہو رہے ہیں۔ شعرائے کرام بھی ہمارے لیے بہت اہم کام کرتے ہیں۔ شاعری سے ہمارے دل و دماغ میں نئے تجربات جنم لیتے ہیں‘ ہم شاعری سے بہت کچھ سیکھتے ہیں۔ جو لوگ شعر کہہ رہے ہیں ان کی حوصلہ افزائی کرنا ہمارا فرض ہے۔ مشاعرے میں رفیع الدین راز‘ افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ مظہر ہانی‘ سلمان صدیقی‘ زاہد حسین جوہری‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار احمد‘ محمد علی گوہر‘ مرتضیٰ چشتی‘ کامران عشرت‘ کامران صدیقی‘ کشور عروج‘ عفت مسعود اور حنا سجاول نے کلام پیش کیا۔
ہانی ویلفیئر آرگنائزیشن کے زیر اہتمام مشاعرہ
ہانی ویلفیئر آرگنائزیشن کے تحت 5 جولائی 2024ء بروز جمعہ اختر سعیدی کی صدارت میں توقیر اے خان ایڈووکیٹ کے اعزاز میں مشاعرہ ترتیب دیا جس میں محمود خان مہمان خصوصی تھے۔ محمد علی گوہر نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ مظہر ہانی نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ شاعری سے معاشرے کی اصلاح کی جا سکتی‘ ہر شاعر اپنے ماحول پر گہری نظر رکھتا ہے اور وہ حالات و واقعات کو شاعری میں ڈھال کر پیش کرتا ہے اس کے ساتھ ساتھ وہ ہمیں بہت سے مسائل کا حل بھی بتاتا ہے۔ مزاحمتی شاعری نے قیام پاکستان میں اہم کردار ادا کیا ہے‘شاعر ظلم و استحصال کے خلاف لکھتا ہے کہ یہ شاعری کا نصاب ہے۔ توقیر اے خان ایڈووکیٹ نے کہا کہ وہ ہانی آرگنائزیشن کے شکر گزار ہیں کہ اس نے میرے لیے یہ تقریب سجائی۔ میری شاعری کے دو مجموعے شائع ہوچکے ہیں جب کہ تیسرا مجموعہ کلام بھی بہت جلد آپ کے ہاتھوں میں ہوگا۔ فنونِ لطیفہ کی تمام شاخوں مین سب سے زیادہ مؤثر صنف شاعری ہے۔ انہوں نے مزید کہاکہ جو تنظیمیں مشاعرے‘ مذاکرے اور دیگر ادبی تقریبات آرگنائز کر رہی ہیں وہ قابل ستائش ہیں۔ محمود احمد خان نے کہا کہ وہ ہر سال کراچی میں عالمی مشاعرے کا اہتمام کرتے ہیں‘یہ ایک انتہائی مشکل کام ہے لیکن میں اپنے ساتھیوںکی مدد سے کامیابی سے ہم کنارہوتا ہوں۔ ہمارا یہ مشاعرہ ایک یادگار ایونٹ ہے جس میں کراچی کے علاوہ دیگر شہروں سے بھی بہت اہم لوگ شریک ہوتے ہیں۔ انہوں نے مزید کہا کہ شعر و سخن کی ترقی کے لیے کام کرنا ہماری ذمہ داری ہے‘ مشاعرے بھی ہماری روایات کا حصہ ہیں۔ اختر سعیدی نے مہمان اعزازی توقیر اے خان ایڈووکیٹ کو منظوم خراج تحسین پیش کرنے کے ساتھ ساتھ اپنے صدارتی خطبے میں کہا کہ محمود خان بھی اردو زبان و ادب کی ترقی کے لیے کام کر رہے ہیں اور مظہر ہانی بھی اپنی تنظیم کے تحت علمی و ادبی تقریبات منعقد کرتے ہیں۔ آج کے مشاعرے میں جو کلام پڑھا گیا وہ زندگی کا آئینہ دار ہے۔ ہر شاعر نے ہمیں ذہنی آسودگی فراہم کی۔ شاعری بھی ایک زندہ صنف ہے جو کہ معاشرے میں تحریک پیدا کرتی ہے۔ ہمیں چاہیے کہ ہم شعر و سخن کے لیے کام کرتے رہیں۔ مشاعرے میں اختر سعیدی‘ توقیر اے خان ایڈووکیٹ‘ سحرتابرومانی‘ کاشف علی غائر‘ کشور عدیل جعفری‘ محمد علی گوہر‘ مظہر ہانی‘ مرزا عاصی اختر‘ افضل ہزاروی‘ اسحاق خان اسحاق اور کامران صدیقی نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ محمد علی گوہر نے کلماتِ تشکر اداکیا۔