مالِ مفت دلِ بے رحم

107

ایک کسان نے ایک کوٹھری میں غلے کا ذخیرہ کر رکھا تھا تا کہ وقت ضرورت کام آسکے۔ ایک ہوشیار چوہے کو جب اس کا پتا چلا تو اس نے بڑی چالاکی کے ساتھ چاروں طرف سے نقب لگائی اور بہت ساغلہ وہاں نکال کر اپنے بل میں جمع کر لیا۔ جب اچھا خاصا غلہ جمع ہو گیا تو اسے غرور پیدا ہوا۔ بڑائی کی خاطر اس نے تمام ساتھیوں کو دعوتِ عام دی۔ محلے کے تمام چو ہے اس کی دعوت پر اس بل میں حاضر ہوئے اور کچھ دوست احباب اس کی خوشامد میں مصروف ہو گئے ۔ وہ ہر دم اس کی تعریف و توصیف کرتے رہتے اور چوہا بھی خوش ہو کر خوب خوب بڑائی ہانکتا اور ترنگ میں آکر خوب خرچ کرتا، اس اُمید پر کہ یہ بے حساب غلہ بھی ختم نہیں ہو سکتا ہر روز ایک کثیر مقدار اپنے مصاحبوں پر صرف کرتا اور انجام کا مطلق خیال نہ کرتا۔
اسی دوران جب چو ہے یہ مزے لوٹ رہے تھے، اچانک زبردست قحط پڑ گیا اور لوگ بھوکوں مرنے لگے۔ چوہا اس صورتِ حال سے بے خبر اور اپنے غرور میں مست دوستوں کے لیے دستر خوان بچھاتا رہا۔ اسے نہ قحط کی خبر تھی نہ لوگوں کی فاقہ کشی کی۔ یہاں تک کہ ایک دن کسان جو خود ہڈیوں کا ڈھانچہ بن چکا تھا۔ اس کو ٹھری کا دروازہ کھول کر اندر آیا۔ دیکھا کہ تمام غلہ صاف ہو چکا ہے۔ بے حد افسوس کرنے لگا اوریہ سوچ کر کہ یہ غلہ بھی چوہے نہ لے جائیں تمام بچا ہوا غلا سمیٹ کر دوسرے گائوں جانے کا ارادہ کیا۔
جب کسان نے غلہ سمیٹنا شروع کیا تو چوہا خواب غفلت میں سویا ہوا تھا۔ اسے اس کی خبر نہ ہوئی۔ البتہ اس کے ایک ساتھی نے سوراخوں میں سے جھانک کر دیکھا تو صورتحال اس کی سمجھ میں آگئی۔ اس نے فوراً جا کر اپنے تمام ساتھیوں کو یہ بات بتا دی اور وہ تمام چوہے جو اس کی رفاقت کا دم بھرتے تھے اسے تنہا چھوڑ کر بھاگ گئے۔ دوسرے دن جب چوہا جاگا تو ادھر ادھر نظر ڈالی نہ دوست احباب تھے اور نہ غلہ تھا۔ بہت تلاش کے باوجود جب کسی کو نہ پایا تو بے حد رنجیدہ ہوا اور سرپٹک پٹک کر رونے لگا یہاں تک کہ اس کا سر پھٹ گیا اور وہ مر گیا۔

حصہ