انکل! جمال نے سکوت کی اس جھیل میں جیسے ایک پوری چٹان ہی دے ماری ہو، انسپکٹر حیدر علی اتنی زور سے چونکے کہ اگر گرم گرم چائے کی پیالی اہل کار نے ان کی میز پر رکھ دی ہوتی تو وہ یقیناً گر چکی ہو تی۔ ان کے اس طرح چونک جانے کے انداز کو چائے لانے والا اہل کار بھی بہت حیرت سے دیکھ رہا تھا لیکن کچھ کہنے کی اس میں شاید جرات ہی نہیں تھی یا آفس ڈیکورم اس بات کی اجازت ہی نہیں دیتا تھا کہ وہ زوردار طریقے سے چونک جانے کا سبب معلوم کر سکے۔ اس نے خاموشی کے ساتھ چائے میز پر رکھی اور سلوٹ کر کے آفس سے باہر نکل گیا۔
سوری بچو! بات یہ ہے کہ میں جیسے یہاں تھا ہی نہیں لیکن تھا کہاں، یہ مجھے بھی نہیں معلوم۔ جمال کی آواز مجھے بہت دور سے آتی معلوم ہوئی تو میں اس لیے چونک پڑا کہ مجھے بہت زیادہ فاصلے سے کون پکار رہا ہے۔
ہاں جمال! تم کیا کہنا چاہ رہے تھے۔
کچھ نہیں سر! آپ ہی نے ہمیں رک جانے کا اشارہ کیا تھا تو سوچا کہ روکے لیے جانے کا سبب دریافت کر لیا جائے۔ ہمیں آپ بہت زیادہ الجھے الجھے نظر آئے، سینٹرل جیل جانے کے دوران بھی آپ پرانے والے انکل نہیں لگ رہے تھے اور واپسی پر تو اور بھی زیادہ اجنبی اجنبی محسوس ہوئے۔ لگتا ہے کہ آپ پر جیسے کسی کا دباؤ ہو۔ ہمیں نہیں معلوم کہ جیل میں آپ کو کس قیدی سے ملنا ضروری تھا اور اس سے آپ نے کیا باتیں کی پھر آپ جیلر صاحب سے ملے اور آپ اور ان کے درمیان کیا گفتگو ہوئی لیکن قیدی سے ملنے کے بعد بھی اور جیلر سے ملاقات کے بعد، ہر دونوں مرتبہ آپ بہت زیادہ یا تو دباؤ میں محسوس ہوئے یا پھر الجھے الجھے، کیا آپ بتانا پسند کریں گے کہ ایسا کیوں ہے۔ آپ ایک جری، بہادر اور مضبوط اعصاب کے مالک ہوتے ہوئے بھی اتنے ڈسٹرب اور پریشان کیوں ہیں۔
انسپکٹر حیدر علی نے کہا کہ مجھے تم دونوں کی بہت ساری صلاحیتوں کا پہلے ہی بہت اعتراف ہے لیکن یہ جان کر بھی بہت خوشی ہو رہی ہے کہ تم دونوں چہرے پڑھنے میں بھی طاق ہو۔
ہاں جمال اور کمال! یہ سچ ہے کہ میں واقعی بہت سخت الجھن میں ہوں۔ میں پہلے ہی تمہیں بتا چکا ہوں کہ معاملہ ایک غریب کسان کے قتل کا ہے۔ جس نے اقرا و اعتراف جرم کیا ہے وہ بے شک ایک بہت بڑے زمیندار کا ایک اعلیٰ ملازم ہے۔ اس کی ساری فصلوں اور ان کی خرید و فروخت سے لیکر ہر قسم کی ڈیل اور لین دین کی ذمہ داری اسی کے کاندھوں پر تھی۔ میری اس سے متعدد بار ملاقات رہی ہے۔ میں نے اس کو بہت ہی سمجھدار اور ٹھنڈے دماغ کا ایک اچھا، شائستہ و شستہ انسان ہی پایا ہے۔ ملنے جلنے کی وجہ سے میں بڑی حد تک اس کے خاندانی افراد کو بھی اچھی طرح جانتا ہوں۔ زمینداری سے تعلق رکھنے والے یا ان کے ساتھ کام کرنے والے بیشتر افراد کا بیک گراؤنڈ عموماً مارپیٹ اور کبھی کبھی کسی کو قتل تک کر دینے جیسے جرم میں ملوث پایا جاتا ہے لیکن جو شخص اپنے منہ سے اقرار بھی کرتا ہو، بنا کسی دباؤ یہ بھی کہتا ہو کہ قتل اسی نے کیا ہے تو پھر ایسے شخص کو کس طرح بے گناہ قرار دیا جا سکتا۔ یہی وہ پریشانی ہے جس کی وجہ سے میں شدید ذہنی اذیت کا شکار ہوں۔ یہ بھی درست ہے کہ کونسا انسان شریف سے کمینہ ہو جائے اور کب کوئی فرشتہ صفت شیطان کا روپ دھار لے، اس کے متعلق کیا کہا جا سکتا ہے۔ جس طرح انسان کی زندگی کی کوئی ضمانت نہیں دی جا سکتی کہ کب ختم ہو جائے، جو سانس باہر خارج ہوا ہے وہ اندر جانے سے رک جائے اور جو اندر داخل ہوا ہے قیامت تک باہر ہی نہ نکل سکے اسی طرح انسان کے رویے کا بھی کوئی بھروسہ نہیں کیا جا سکتا۔ ممکن ہے کہ وہی اصل قاتل ہو اور قتل کرنے کے بعد اس کا ضمیر اسے ملامت کرتا ہو جس کی وجہ سے وہ چاہتا ہو کہ اسے دنیا میں ہی قتل کے بدلے موت کی سزا مل جائے تاکہ یومِ حشر وہ جواب دہی سے بچ سکے۔ لیکن یہ بات تو طے ہے کہ کوئی بھی قتل کر دینے جیسا قدم بنا کسی وجہ تو نہیں اٹھا سکتا۔ اب ایک جانب تو اعلیٰ حکام کی جانب سے مجھ پر یہ دباؤ ہے کہ کچھ بھی ہو، قاتل کو بے گناہ قرار دیا جائے کیونکہ جہاں سے یہ احکامات آ رہے ہیں وہ اعلیٰ حکام اسے اور اس کے خاندان کے ایک ایک شخص کی مکمل ہسٹری رکھتے ہیں اور اگر اس کو بے گناہ قرار نہیں دلوا سکتے تو پھر اس کے قاتل بن جانے کی حقیقی وجہ سامنے لائی جائے۔ اب تم دونوں خود فیصلہ کرو کہ ایک شخص ہر مجسٹریٹ اور ذمہ داروں کے سامنے مسلسل قتل کا اعتراف کئے جا رہا ہو، انتہائی تنہائی میں بھی وہ قتل کا معترف ہو، اس کو بے گناہ کیونکر ثابت کیا جا سکتا ہے۔
انکل! یہ بھی تو ایک حقیقت ہے کہ ہمارے زمیندار اکثر اپنے خلاف تمام شواہد مٹانے کے لیے کسی بھی بندے کو اپنے راستے سے صاف کرا دیتے ہیں۔ جرم کا ارتکاب خود کرتے ہیں یا ان کا کوئی خاص الخاص بندہ کرتا ہے اور وہ اپنے ہی اندر سے کسی کو قاتل یا مجرم بنا کر پولیس کے سامنے کردیتے۔ اس طرح راستے کا پتھر بھی ہٹ جاتا ہے اور اصل مجرم پر بھی ایک دبیز پردہ پڑجاتا ہے۔ اقراری مجرم کو اس بات کا پورا پورا یقین دلا دیا جاتا ہے کہ جو بھی ہو گا، وہ کسی نہ کسی طرح اس کو سزا سے بچا لیں گے۔ دوسرا طریقہ یہ بھی اختیار کیا جاتا ہے کہ اگر تم نے اقرارِ جرم نہیں کیا تو تم تو کسی نہ کسی اور طریقے سے مار ہی دیئے جاؤ گے لیکن تمہارے بیوی بچے، ماں بہن یا بھائی کی زندگی کو ہمیشہ کے لیے اجاڑ کر رکھ دیا جائے گا۔ اس امید پر کہ یا تو زمیندار اسے سزا سے بچا لے گا یا کچھ عرصے سزا کاٹ کر بالآخر وہ سلاخوں سے باہر آہی جائے گا یا ممکن ہے کہ وہ بھی موت کی سزا کا مستحق قرار دیکر پھانسی پر چڑھا دیا جائے لیکن کم از کم اس کا کنبہ تو بچ رہے گا، وہ زمیندار کی بات ماننے پر مجبور ہو جاتا ہے۔
اصل میں ان ہی پہلوؤں پر غور و فکر کرنے اور کسی بھی بے گناہی کے حقیقی شواہد تک پہنچنے کے لیے بے شک مجھے کافی مہلت تو دی گئی ہے لیکن ایک جانب تو بے گناہی کے نہایت ٹھوس شواہد تلاش کرنا ہی بہت ضروری ہیں تو دوسری جانب یہ کہ اگر قاتل ہر فورم پر بنا ہچکچاہٹ یہی کہتا پایا گیا کہ ”ہاں ہاں میں نے ہی اسے قتل کیا ہے” تو معاملہ بہت ہی زیادہ الجھ کر رہ جائے گا اور شاید ہی کوئی عدالت اس صورتِ حال میں کسی مجرم کو بے گناہ قرار دے سکے۔(جاری ہے)