راز دوام زندگی

113

’’بیٹا آج میرا قرآن مجید مکمل ہو گیا ہے، آپ دیکھیے گا اللہ کے حکم سے سارے مسائل حل ہوں گے۔ سمجھیں اللہ پاک نے رشتہ ملوا دیا۔‘‘

صبح نماز فجر کے بعد ابو کو سلام کیا اور ان کی یہ مدلل اور ایمان افروز بات سن کر بوجھل دل میں ایک نئی تازگی آ گئی۔ یہ ان دنوں کی بات ہے جب میں اور میری نند مل کر اپنے دو دیوروں کے لیے رشتے ڈھونڈ رہے تھے اور میرے سسر مرحوم محترم شہاب الدین صاحب دونوں بیٹوں کی شادی کے فرض سے ایک ساتھ دست بردار ہونا چاہتے تھے۔ مسائل بڑھتے جا رہے تھے وقت کم ہوتا جا رہا تھا۔ رشتے ملنے اور طے ہونے کے مراحل سر پر تھے اور پھر واقعتاًچند ہی دنوں میں معاملات رواں ہو گئے۔

وہ میری فکر کو جانتے تھے اور ہمیشہ پُراثر نصیحت کے ساتھ مجھے ہر پہلو پر غور کرواتے تھے۔ میں نے بڑی بہو ہونے کے ناتے اپنے سسر شہاب الدین صاحب کے ساتھ شفقت بھرے ساڑھے آٹھ برس گزارے اور اس مختصر سے ساتھ نے مجھے یہ کہنے اور لکھنے پر مجبور کر دیا کہ میں نے ابو جیسی پُروقار، وضع دار، دور اندیش، درویش اور قرآن کا ایسا پکا ساتھی کوئی نہ دیکھا۔

ایمان اور صحت کی سلامتی کے لیے فکر مند رہتے تھے۔ اپنی اور ہم سب گھر والوں کی صحت کے لیے اچھے اور صحت بخش کھانے پر توجہ دلاتے۔ کھانے کی مختلف اشیا پھل سبزیوں اور اجناس وغیرہ کے فوائد بتا کر بچوں کو صحت بخش غذائیں کھانے پر راغب کرتے، بالکل ایک ڈاکٹر کی طرح۔

دوسری طرف ایک مربی کی طرح وہ ہم گھر والوں کو نیکی کی طرف دوڑنے کی ترغیب دیتے تھے۔ میں نے کبھی یہ نہیں دیکھا کہ انہوں نماز، روزہ‘ فرض و نفل، تہجد، تلاوت، انفاق اور صلہ رحمی کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے دیا ہو۔

وقت سے پہلے ذہن اور فکر کی تیاری کرنا اور گھر والوں سے کروانا بہت ضروری سمجھتے تھے۔ اکثر مجھ سے کہتے ’’اگر آپ کا ذہن تیار ہے تو آپ میدان میں اتر کر ضرور کامیابی حاصل کریں گے۔‘‘

گھر کے کاموں کو بہ خوبی انجام دینے کی ترغیب دیتے ہوئے انہوں نے مجھے ایک مرتبہ سمجھایاکہ ’’بیٹا! اگر آپ نے کوئی کام شروع کیا اور اسے ادھورا چھوڑ دیا تو یہ ایسا ہی ہے کہ آپ نے وہ کام کیا ہی نہیں، ہر کام کو بہ حسن خوبی وقت پر مکمل کرنا ہی اس کا حق ہے۔‘‘

گھر والوں کی ہر چھوٹی بڑی کامیابی اور خوشی پر وہ بہت خوش ہوتے تھے۔ ہر خوشی کو بھرپور طریقے سے celebrate کرنا ان کی زندہ دلی کی علامت تھی. تحفے لے کر آنا، اچھا کھانا پکوانا، اپنے الفاظ کے ذریعے سے سراہتے۔ اپنی حکمت اور رہنمائی کے ذریعے بہتری کی طرف راستوں کو اجاگرکرتے تھے۔

میں نے انہیں کبھی مایوس نہیں دیکھا‘ انہیں مایوسی کی باتیں اور جملے بالکل پسند نہیں تھے۔ مضبوط اعصاب اور منور ذہن کے ساتھ پیہم جدوجہد کرتی زندگی

خودی کو جس نے فلک سے بلند تر دیکھا
وہی ہے مملکتِ صبح و شام سے آگاہ

ان کا شفقت بھرا ایک جملہ میری ساری تھکان دور کر دیتا تھا۔ ان کا مشورہ ذہن کی گرہوں کو کھولنے کا کام کرتا تھا۔ ہر فیصلے سے پہلے استخارہ کرتے‘ ہر معاملے سے پہلے سورہ یاسین پڑھتے۔ قرآن سے ان کا عشق اس بات کی دلیل ہے کہ اپنے ہر مسئلے کے لیے نماز اور قرآن سے رجوع کرتے، چاہے وہ گھر کی چھوٹی سی دعوت ہو یا تحریک کی بڑی ذمہ داریاں‘ ہر حال میں نیکی کی دعوت دیتے اور نیتوں کو خالص کرنے کی فکر کرتے۔

ابو نے مجھے سکھایا کہ ’’صلۂ رحمی‘‘ کیا ہوتی ہے۔ اس کتابی اصطلاح کو عملی زندگی میں نافذ کر کے دکھایا اور آخری دَم تک ہمیں اس کی تلقین کرتے رہے۔ بچوں سے ابو کی محبت بہت منفرد اور نمایاں تھی۔ اپنے پوتے پوتیوں اور نواسے سے بے انتہا محبت کرتے تھے۔ ان کی ذہنی اور جسمانی نشوونما پر توجہ دلاتے۔ بچوں کے لیے اکثر کہتے ’’اصل سے سود پیارا ہوتا ہے، ہمارا ان بچوں سے روح کا تعلق ہے۔‘‘

اور اس حقیقت کو آج میں سمجھ پائی کہ بہت سے ظاہری تعلق جو ہم نے محض اس دنیا سے جوڑ رکھے ہیں وہ تو دل کی دھڑکن یا سانس کے رک جانے سے چھوٹ جاتے ہیں مگر وہ دیرپا تعلق ہمیشہ باقی رہنے والا ہے جو ہم نے خالقِ حقیقی سے بنایا ہو۔ یہی دنیا میں ہماری عبادات اور معاملات کی بنیاد ہوگا اور یقینا مرنے کے بعد ہمارا ساتھی ہوگا۔گویا:
’’ہے یہی اے بے خبر رازِ دوامِ زندگی‘‘
اللہ رب العالمین سے دعا ہے کہ ہمیں اور ہماری اولاد کو بھی اعلیٰ اوصاف سے مزین فرمائے‘آمین۔
خرد مندوں سے کیا پوچھوں کہ میری ابتدا کیا ہے
کہ میں اس فکر میں رہتا ہوں میری انتہا کیا ہے

حصہ