بلا سفیمی ایکسٹریم ازم رپورٹ اور سوشل میڈیا

238

برطانیہ جرائم:
لندن میں ایک گھنٹے کے اندر 24 فون چھیننے والے 28 سالہ ڈاکو نے گرفتاری کے بعد اعترافِ جرم کرلیا۔ جی ہاں میں کراچی کی نہیں بلکہ لندن، یعنی یو کے، یعنی برطانیہ کی بات کررہا ہوں۔ خبر رساں ادارے کی رپورٹ کے مطابق لندن میں ہر 6منٹ میں ایک موبائل فون چوری یا چھین لیا جاتا ہے۔ سرکاری اعداد و شمار کے مطابق گزشتہ برس ایک لاکھ 21 ہزار سے زائد موبائل فون چوری ہوئے یا چھین لیے گئے۔ 2020ء سے 2024ء کے درمیان برطانیہ میں اجتماعی قتل کی 9 خونیں وارداتیں ہوچکی ہیں۔ یہ لرزہ خیز ’’اجتماعی قتل عام‘‘ جن میں 7 لوگ قتل ہوئے اور 34 افراد شدید زخمی و معذور ہوئے، کیا یہ انسانیت کی مثال ہیں؟ یہ بھی جان لیں کہ ان میں کوئی قاتل مسلمان نہیں۔ ارے سب چھوڑیں، برطانیہ میں صرف سڑکوں پر مرنے والوں کی تعداد 2022ء میں 1766 تھی۔ 28 ہزار وہ ہیں جو معذور اور زخمی ہوئے۔ یہ تعداد ہر سال 10 فیصد بڑھ رہی ہے۔ اتنے ہزار انسانوں کے مرنے سے برطانیہ میں کیا پیدا ہورہا ہے؟ اس پر کب تحقیق ہوگی؟ بات ابھی ختم نہیں ہوئی۔ 2022-23ء میں برطانوی پولیس ریکارڈ کے مطابق 602 افراد قتل ہوگئے، حوالہ موجود ہے چیک کرلیں۔ میں کسی بغض اور نفرت میں نہیں، بطور صحافی صرف وہ تعداد بتا رہا ہوں جو مغرب نے رپورٹ کی ہے۔

https://www.statista.com/statistics/283093/

homicides-in-england-and-wales/

یہ 602 وہ ہیں جنہیں ایک سال میں کسی نے قتل کیا۔ برطانیہ میں حال یہ ہے کہ 3سال تو چھوڑیں صرف2021ء اور 2022ء میں 11ہزار خودکشیاں ہوئیں۔

یہ سرکاری ویب سائٹ کا ڈیٹا ہے، میں نے گھر پر نہیں بنایا۔ (بحوالہwww.ons.gov.uk)

ہولناک پہلو:
ڈیوڈ ولسن برطانیہ کے مشہور ماہرِ جرمیات میں سے ہے، اُس نے برطانوی تاریخ میں 1888ء تا2020ء یعنی 132 سال کے دوران برطانیہ میں ہونے والے ’سیریل کلرز‘ (تواتر سے لوگوں کو قتل کرنے والوں)کے احوال جمع کرکے کتاب لکھی ہے’’ہسٹر ی آف برٹش سیریل کلنگ‘‘۔ یہ ایک نہیں، کئی کتب اور بھی موجود ہیں جو بتا رہی ہیں کہ 132 سال سے دھڑا دھڑ لوگ بلاوجہ قتل ہورہے ہیں۔ جب ایک شخص کئی کئی قتل کرنے لگ جاتا ہے وہ اُس کو باقاعدہ ’’سیریل کلر‘‘ کا عنوان دیتے ہیں۔ اس پر کتابیں لکھی جاتی ہیں، فلمیں بنتی ہیں۔ برطانیہ میں جرائم پر مبنی فلمیں، ڈرامے سرمائے کی ایک پوری ترتیب بن چکے ہیں جو جرائم بھی بڑھا رہے ہیں اور سرمایہ بھی۔ باقی جو عمومی قتل کے واقعات مارچ 2023ء تک رپورٹ ہوئے وہ بھی 590 ہیں، ان میں 13 سال کے بچوں سے لے کر 75 سال تک کے مرد و خواتین شامل ہیں۔ یہ بھی سب قانون ہاتھ میں ہی لینا ہے۔ ان میں ضرب لگانے اور کک مارنے یعنی بغیر ہتھیار کے قتل 19 فیصد ہیں۔ اس سے آپ قتل کی سنگینی کا اندازہ لگائیں۔

اصل موضوع کیا ہے:
بات شروع تو سوشل میڈیا ہی سے ہوئی ہے۔ ٹوئٹر پر ’’بلاسفیمی‘‘ اور ’’ایکسٹریم ازم‘‘کے دو ٹرینڈز مستقل گھومتے نظر آئے۔ وہ تھے تو سوات (مدین) والے معاملے پر، مگر لپیٹا سب کو جارہا تھا۔ دیسی لبرلز، سرخے، لنڈے کے لبرل سب کو عجیب قے لگی ہوئی تھی۔ اس پر ہم بعد میں بات کریں گے۔ تاہم اس کے ذیل میں جو اہم بات ہے، وہ ہے سوشل میڈیا پر بار بار استعمال ہونے والی اصطلاح ’’ایکسٹریم ازم‘‘، جس کو پوری منصوبہ بندی سے ڈسکس کرایا جاتا ہے۔

صورتِ حال یہ ہے کہ پہلے فنڈامنٹلسٹ۔ پھر ’’ٹیررسٹ‘‘۔ پھر ’’ایکسٹریمسٹ‘‘ اور اس کے بعد اب ’’بلاسفیمی اکسٹریمسٹ‘‘ کے نام سے نئی اصطلاح لانچ کرنے کی تیاری ہے۔ اصطلاحات کا معاملہ یہ ہے کہ پہلے یہ ان کو لانچ کرتے ہیں، استعمال عام کراتے ہیں پھر ان کو گالی بنا دیتے ہیں اور سادہ لوح مسلمان اس پر عجیب انداز سے دفاعی پوزیشن اختیار کرلیتے ہیں۔ یہ ہے مسائل کی جڑ۔ یعنی اپنی اصطلاح، اپنے علم، اپنے ورلڈ ویو سے انسان جبراً لاعلم ہوجائے اور ایک دوسرے ورلڈ ویو کی اصطلاح قبول کرکے اس کے دفاع میں ہی زندگی لگادے۔

ایکسٹریم ازم کیا ہے؟
برطانیہ نے سرکاری سطح پر اس اصطلاح کی جو تعریف کی ہے اس کا ترجمہ یہ ہے: ’’تشدد، نفرت یا intolerance پر مبنی کسی نظریے کی ترویج کرنا، جس کا مقصد دوسروں کے بنیادی اور جمہوری حقوق اور آزادیوں کی نفی یا انہیں ختم کرنا ہو، یا برطانیہ کے لبرل پارلیمانی جمہوریت کے نظام کو کمزور کرنا، اُلٹنا یا تبدیل کرنا ہو، یا جان بوجھ کر دوسروں کے لیے ایسا کرنے کا ماحول بنانا۔‘‘ (بحوالہ www.gov.uk)

یہ کوئی لازمی یا حتمی تعریف نہیں کہ یہ فکس رہے، اس میں کوئی بھی بات کبھی بھی شامل کی جا سکتی ہے۔ اچھا، اب ہم سے کیا غلطی ہوتی ہے، ہم اس کا زبردستی اپنی زبان میں ’ترجمہ‘ کردیتے ہیں۔ اصطلاح کا عمومی متفقہ اصول ہے کہ اس کا ترجمہ کسی زبان میں نہیں ہوسکتا۔ یہ ایسے ہے جیسا آپ کا نام… جو چین، جاپان سب جگہ وہی رہے گا، اس کا ترجمہ نہیں ہوگا۔ ہم پر دبائو آتا ہے تو ہم غلط ترجمہ کرکے معذرتیں کرتے رہ جاتے ہیں۔ یہ ہم نے مغربی مرعوبیت میں اِن ساری اصطلاحات کے ساتھ بھی کیا۔ اب بھلا بتائیںکہ ’’برطانیہ کے لبرل پارلیمانی جمہوری نظام کو کمزور کرنے‘‘ کے تعلق سے جو اصطلاح بنے گی وہ ’آفاقی‘کیسے ہوگی؟ ہم تو مسلمان ہیں، ہمارا کلمہ ہی ’لا‘ یعنی انکار سے شروع ہوتا ہے، اس میں ’شرک‘ کی گنجائش ہے ہی نہیں، جبکہ intolerance کا سادہ مطلب ہی ہر قسم کا شرک برداشت کرنا ہے۔ مسلمان تو پیدا ہی ’مالک کا غلام‘ہوتا ہے۔ یہ بات کرتے ہیں آزادی کی، تو کیسے ممکن ہے کہ اس اصطلاح کا کوئی بھی ’شدت پسندی‘ سے ترجمہ کرے۔

مغرب کی فکر:
یہ مادر پدر آزاد ’تصور آزادی‘ پرکھڑی ہے۔ ہر قسم کی آزادی… بولنے، لکھنے، سوچنے، کچھ کرنے، یہاں تک کہ جنس بھی خود پسند کرنے کی آزادی تک جا چکے ہیں۔ ’آزادی‘ اُن کی ایک اہم قدر ہے، جس کے مزید تحفظ کے لیے ’’ہیومن رائٹس‘‘کی ایک تہہ انہوں نے چڑھائی ہوئی ہے۔ ہیومن رائٹس کو آپ ’’آزادی‘‘ دلانے کا ’’ہتھیار‘‘ بھی کہہ سکتے ہیں۔ جن ممالک نے بھی اِن مغربی اقدار کو اپنایا امریکا سے لے کر یورپ تک، وہاں آپ کو کوئی ’’بلاسفیمی‘‘کا قانون نہیں ملے گا، کیونکہ وہا ں حُرمت کا تصور ہی سرے سے ختم ہوچکا ہوتا ہے۔ اس لیے کسی کو ایسا کوئی حق نہیں دیا جاسکتا کہ وہ اِس پرکوئی ردعمل ظاہر کرے جو اُن کے قوانین سے باہر ہو۔ حالیہ رپورٹس کے مطابق پاکستان سمیت تقریباً80 ممالک میں اس وقت توہینِ مذہب کے کچھ سخت، کچھ نرم سزائوں والے قوانین موجود ہیں۔ ان میں مشرق وسطیٰ، ایشیا اور افریقہ کے ممالک شامل ہیں۔ یہ قوانین انسانی حقوق کے بین الاقوامی خدشات کا مستقل موضوع بنے ہوئے ہیں۔ اقوام متحدہ اور انسانی حقوق کی کئی تنظیمیں آزادیِ اظہار کا حوالہ دیتے ہوئے ان قوانین کی منسوخی کی مستقل کوششیں کررہی ہیں۔ ایسے ماحول میں اب انہوں نے ’’بلاسفیمی ایکسٹریمزم‘‘ کی نئی اصطلاح لانچ کی ہے۔ اِس کا مقصد مزید ختم کرانا ہے، یہی لبرل ورلڈ آرڈر ہے، اس کا صاف اظہار اُس نے اپنی تعریف میں کیا ہے۔

تحقیقی رپورٹ:
الیگزینڈر ملاگرو ہٹچز نامی شخص نے مارچ 2024ء میں ’’برطانوی کمیشن برائے کائونٹرنگ ایکسٹریمزم‘‘ نامی ادارے کو اپنی تحقیق اور سفارشات بھیجی

Understanding and Responding to Blasphemy Extremism in the UK

جو اس سرکاری ادارے کی ویب سائٹ سے ہمیں ملیں۔ ابھی تو برطانیہ نے اس پر عمل نہیں کیا ہے، الیکشن کے بعد ہی وہ ایسی کوئی کوشش کریں گے۔ اس رپورٹ کے اہم نکات کو جاننا ضروری ہے۔ اس رپورٹ کو دیکھ کر میں نے بھی ایک اصطلاح نکالی ہے’تحقیقی جہالت‘، یعنی تحقیق کرکے جہل کو ڈھونڈنا۔ یہ کام اس الیگزینڈر نے کیا ہے۔ اس تحقیق سے صرف مغرب کا بغض، نفرت، جہالت، جھوٹ، منافقت بھرا چہرہ واضح ہوتا ہے۔ رپورٹ میں زبردستی کے مستقبل کا ایک نقشہ کھینچا گیا ہے۔ ریسرچ میتھڈالوجی میں سیمپلنگ، یعنی کسی بڑی آبادی یا گروپ سے ایسے نمائندہ لوگوں کو نکالنا کہ جن سے ڈیٹا، یا جن پر ریسرچ اپلائی کی جا سکے۔ اس کی کوئی معین تعداد نہیں ہوتی مگر اتنی معقول ضرور ہوتی ہے کہ محقق اپنی بات دلیل و حقائق سے ثابت کرسکے۔ یہ سارے اصول میرے نہیں مغرب ہی کے ہیں۔ مگر یہاں 3سال میں صرف 3 واقعات کی بنیاد پر اُس نے پوری برطانوی حکومت کو ایک ایسا ڈرائونا، خوفناک خواب دکھادیا کہ مت پوچھیں۔

خدشے، امکان، لگتا ہے، اندیشہ ہے… اس بنیاد پر ’جعلی‘ تحقیق جمع کرادی۔

رپورٹ بتا رہی ہے کہ محقق کو لگ رہا ہے ’’مسلم شعائر کے خلاف برطانیہ میں جو کام ہورہے ہیں، اُن ’گستاخیوں‘ کے خلاف مسلمانوں کی احتجاجی سرگرمیاں اپنا دائرہ بڑھا رہی ہیں۔‘‘

ظاہر ہے، عمل کرو گے تو ردعمل تو آئے گا۔ یہ کون سی تحقیق ہے؟ محقق کو لگتا ہے کہ یہ احتجاج منظم کارروائی بن رہا ہے۔ وہ لکھتا ہے کہ اس کو تکلیف ہے احتجاجوں میں شامل نعروں سے، باتوں سے جن کی کڑیاں پاکستان کی ایک سیاسی مذہبی جماعت سے ملتی ہیں۔

عجیب محقق ہے، مسلمان پوری دنیا میں جہاں ہوگا وہ شعائرِ اسلام کے خلاف گستاخی پر ایک ہی جیسی بات کرے گا۔ صرف پاکستان ہی نہیں… بھارت، بنگلہ دیش، فرانس کے احتجاجوں میں بھی ایسی ہی باتیں ہوتی ہیں۔

برطانیہ کے جعلی ماہرین نے سال کے تین واقعات کو روکنے یعنی محرک ختم کرنے کے بجائے اس کے رد عمل پرتحقیق کرکے حکومت کو یہ بتایا کہ ایک نئی قسم کے گستاخی مخالفین سامنے آئے ہیں جنہوں نے برطانوی مسلمانوں کے لیے ’’گستاخیوں‘‘ کوبہت اہم مسئلہ بنا کر پیش کیا ہے۔ جیسے پہلے مسلمان تو بالکل غور ہی نہیں کرتا تھا، اب شروع کیا ہے۔

رپورٹ یہ بھی بتارہی ہے کہ ان تینوں واقعات سے جڑے مظاہرے بالکل پُرامن اور جمہوری تھے۔ تاہم مظاہروں میں کچھ نعرے پاکستان میں توہینِ رسالت کے خلاف پُرتشدد انتہا پسندوں سے کاپی کیے گئے تھے۔ یہ پاکستان سے کاپی شدہ نعروں میں کوئی بات ہے جو سامعین کو توہینِ رسالت کے معاملے پر ’فنڈامنٹلسٹ‘ بنانے کی صلاحیت رکھتی ہے۔ آپ سمجھ گئے ہوں گے، کس نعرے کی بات ہورہی ہے۔

اب معاملہ یہ ہے کہ تمہارے ملک میں ہزاروں لوگ خود اپنے آپ کو مار دیتے ہیں، ایک دوسرے کو قتل کردیتے ہیں۔ وہ تمہیں نظر نہیں آتا؟ اُس سے کوئی فرق نہیں پڑتا۔ مگر صرف تین واقعات جن میں ایک کھڑکی کا شیشہ بھی نہیں ٹوٹا اُس پر تم ایسی جعلی سفارشی رپورٹیں بنا رہے ہو؟ جتنا تشدد تمہاری اپنی تاریخ میں بھرا ہے، جتنا تشدد تمہارے اپنے ملک میں لوگ ویسے ہی کررہے ہیں۔ یہ گیارہ ہزار خودکشیاں کم ہیں کیا؟ ہرمہینے 50 بندے قتل ہو جاتے ہیں، اس کو تو روکو پہلے۔

میں نے دیکھا کہ عالم اسلام میں دو بے ضرر سے معذور افراد، وہیل چیئر پر بیٹھے بیٹھے پوری اسلام دشمن اقوام کے لیے جتنے بڑے خوف کی علامت بن چکے ہیں اس کی کوئی مثال نہیں۔ یہ نام اور ان کی اشکال آج بھی فیس بک، انسٹا گرام وغیرہ پر ’بین‘ہیں۔ بس اس پر ہی خوشی منا لو کہ اُن کے بعد کم از کم اس صدی میں کوئی دوسرا نہیں آنے والا۔ ’من سب نبیا‘ نعرہ نہیں، یہ عقیدے کے طور پر اب تاقیامت گونجتا رہے گا خواہ کسی کو کتنا ہی ناگوار گزرے۔

حصہ