کراچی میں بجلی کا بحران ،اسباب،اثرات اور حل کی راہیں

191

کراچی، پاکستان کا معاشی اقتصادی مرکز اور سب سے بڑا شہر، گزشتہ کئی برسوں سے شدید بجلی کے بحران کا شکار ہے۔ بجلی کی غیر متواتر فراہمی، طویل لوڈشیڈنگ، اور اضافی بلوں نے شہریوں کی زندگی کو اجیرن بنا دیا ہے۔ کراچی میں بجلی کے بحران کے اسبا ب میںکراچی الیکٹرک ، شہر کی بجلی کی فراہمی کی ذمہ دار کمپنی، بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافے میں ناکام رہی ہے۔ 2009 میں کراچی کے صارفین کی تعداد 18 لاکھ تھی، جو آج 36 لاکھ ہو چکی ہے، مگر بجلی کی پیداواری صلاحیت میں کوئی خاطر خواہ اضافہ نہیں ہوا۔اسی طرح کے الیکٹرک کی ٹرانسمیشن اور ڈسٹری بیوشن کے نقصانات بھی سرکاری اور دیگر بجلی کمپنیوں سے زیادہ ہیں۔ اس کے نتیجے میں، صارفین کو طویل لوڈشیڈنگ کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔کے الیکٹرک پر کرپشن اور بدانتظامی کے الزامات بھی لگتے رہے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق، کمپنی نے غیر ضروری اخراجات اور بدانتظامی کے ذریعے شہریوں پر بوجھ ڈال رکھا ہے۔پھر وفاقی اور صوبائی حکومتوں کی ناکامی: وفاقی اور صوبائی حکومتوں نے بجلی کے بحران کو حل کرنے کے لیے کوئی ٹھوس اقدامات نہیں کیے ہیں۔ بجلی کے پیداواری منصوبے اور انفراسٹرکچر کی بہتری پر مناسب توجہ نہیں دی گئی۔

بجلی کی عدم دستیابی نے کراچی کی صنعتوں اور کاروباروں کو شدید نقصان پہنچایا ہے۔ کارخانوں کی بندش اور پیداوار میں کمی کی وجہ سے معیشت کو بڑے پیمانے پر نقصان ہوا ہے۔لوڈشیڈنگ کے باعث تعلیمی ادارے بھی متاثر ہوتے ہیں۔ طلباء کی پڑھائی میں خلل پیدا ہوتا ہے، اور امتحانات کی تیاری متاثر ہوتی ہے۔گرمی کے موسم میں بجلی کی عدم دستیابی ہیٹ ویوز کے دوران شہریوں کی جان لے سکتی ہے۔ 2015 میں شدید گرمی کے دوران کے الیکٹرک کی لوڈشیڈنگ کی وجہ سے بڑی تعداد میں شہری اپنی جان گنوا بیٹھے امسال بھی لوگوں کی ہلاکتوں کی خبریں آرہی ہیں۔ اسی طرح بجلی کی غیر متواتر فراہمی نے شہریوں کی روزمرہ زندگی کو مشکل بنا دیا ہے۔ پانی کی فراہمی بھی متاثر ہوتی ہے کیونکہ پمپنگ اسٹیشنز بجلی کے بغیر کام نہیں کر سکتے۔

اس صورتحال کے خلاف جماعت اسلامی نے بدھ کو شاہراہ فیصل واٹر بورڈ ہیڈ آفس کے سامنے احتجاجی دھرنا دیا۔ احتجاج میں شہر بھر سے پانی کی قلت کے ستائے عوام نے بڑی تعداد میں شرکت کی۔ انہوں نے سندھ حکومت، قبضہ میئر، اور واٹر بورڈ کے خلاف غم و غصے کا اظہار کرتے ہوئے پُرجوش نعرے لگائے اور مطالبہ کیا کہ کراچی کو اس کے حصے کا پورا پانی دیا جائے۔احتجاجی دھرنے میں جماعت اسلامی کے امیر کراچی، منعم ظفر خان نے شرکاء سے خطاب کرتے ہوئے کہا کہ جماعت اسلامی نے عوامی مزاحمتی تحریک کا آغاز کر دیا ہے۔ ان کا کہنا تھا کہ پیپلز پارٹی کراچی کے عوام سے سیاسی انتقام نہ لے، اور اہل کراچی کو پانی فراہم کیا جائے۔ انہوں نے مطالبہ کیا کہ K-4 منصوبہ فوری مکمل کیا جائے، پانی چوروں، ٹینکر مافیا، اور غیر قانونی ہائیڈرینٹس کی سرکاری سرپرستی ختم کی جائے، اور پانی کی منصفانہ تقسیم کا نظام بنایا جائے۔

منعم ظفر خان نے اپنے خطاب میں کہا کہ پیپلز پارٹی نےگزشتہ 16 برسوں میں کراچی کے لیے ایک گیلن پانی کا اضافہ نہیں کیا۔ عبد الستار افغانی نے حب ڈیم سے کراچی کے لیے پانی کا انتظام کیا تھا، جبکہ نعمت اللہ خان نے K-3 منصوبہ مکمل کیا۔ K-4 منصوبے کے تحت 650 ملین گیلن یومیہ کراچی کو ملنا چاہئے تھا، لیکن وہ آج تک نہیں ملا۔ K-4 منصوبے میں کٹوتی کر کے پانی آدھا کر دیا گیا ہے، جو کہ ابھی تک مکمل نہیں ہوا۔ٹینکر مافیا کرپشن کے پس منظر میں ان کا کہنا تھا کہ کراچی میں ٹینکر مافیا بڑے زور و شور سے کام کر رہی ہے اور اس کی سرپرستی سندھ حکومت، پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کر رہی ہیں۔ پیپلز پارٹی نے کرپشن اور نااہلی کی انتہا کر دی ہے۔ رپورٹ کے مطابق صوبائی حکومت نے ہائیڈرینٹس کے ذریعے 1 ارب 86 کروڑ روپے کمائے، جبکہ نلکوں میں پانی نہیں آتا۔ کراچی وطن عزیز کا معاشی انجن ہے، جسے وفاق اور صوبے نے نظرانداز کر دیا ہے۔منعم ظفر خان نے کہا کہ کے الیکٹرک کی بدترین لوڈشیڈنگ کے باعث بڑی تعداد میں شہری ہیٹ ویوز میں اپنی جان گنوا بیٹھے ہیں۔ کے الیکٹرک کو پیپلز پارٹی اور ایم کیو ایم کی سرپرستی حاصل ہے۔ انہوں نے کہا کہ 2009 میں 18 لاکھ صارفین تھے، جو آج 36 لاکھ ہو گئے ہیں، لیکن بجلی کی پیداواری میں کوئی اضافہ نہیں ہوا۔ وفاقی حکومت نے اس بجٹ میں بھی کے الیکٹرک کو سبسڈی کے نام پر اربوں روپے سے نوازا ہے، جبکہ شہریوں پر درجنوں قسم کے ٹیکس لگا دیے گئے ہیں۔

اس وقت کراچی شہر کو بجلی فراہم کرنے کے لیے مختلف جہتوں میں ک کام کرنے کی ضرورت ہے بجلی کی پیداواری صلاحیت میں اضافے کے لیے نئے پاور پلانٹس کی تعمیر اور موجودہ پلانٹس کی اپ گریڈیشن کی ضرورت ہے۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو اس معاملے میں ”کے ایـ“ کے ساتھ مل کر کام کرنا چاہئے لیکن ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا ہے۔ جدید ٹیکنالوجی اور انفراسٹرکچر کی بہتری سے نقصانات کم کیے جا سکتے ہیں۔قابل تجدید توانائی کے ذرائع جیسے شمسی اور ہوا سے بجلی پیدا کرنے کے منصوبے شروع کرنے کی ضرورت ہے۔ یہ ذرائع نہ صرف ماحول دوست ہیں بلکہ سستی بجلی فراہم کرنے میں بھی مددگار ثابت ہو سکتے ہیں۔لیکن ریاست اس کو بھی مشکل بنارہی ہےاسی طرح بجلی کی چوری اور بدانتظامی کو روکنے کے لیے سخت قوانین اور نگرانی کی ضرورت ہے جس میں کے الیکٹرک ناکام ہے اور بل دینے والی عوام سے قیمت وصول کررہی ہے۔ کے ای کو شفافیت کے ساتھ کام کرنا چاہئے اور حکومت کو بھی اس پر نظر رکھنی چاہئے لیکن دونوں عادی مجرم بنے ہوئے ہیں ۔اصل با ت یہ ہے کہ اس کے ساتھ عوامی شعور کو بڑھانے اور بجلی کی بچت کے طریقوں کو اپنانے کے لیے آگاہی مہمات کی ضرورت ہے۔ عوام کو بھی بجلی کے غیر ضروری استعمال سے بچنے کے لیے تعاون کرنا چاہئے۔

کراچی میں بجلی کے بحران کا حل ایک مشترکہ کوشش کا متقاضی ہے۔ امید ہے کہ حکومت اور متعلقہ ادارے اس جانب سنجیدگی سے اقدامات کریں گے تاکہ کراچی کے شہری ایک بہتر اور روشن مستقبل کی طرف بڑھ سکیں۔

حصہ