علامات کا بڑھتا رحجان ۔۔۔۔اسلامی نقطہ نظر

141

علامات(Symbols, Insignias, Icons) فرد، ملک، قوم اور ادارے کی شناخت کے اظہار میں اہم مقام رکھتی ہیں۔ انھیں اپنی معاشرتی اور ثقافتی روایات کو پیش نظر رکھتے ہوئے بڑے غوروخوض کے بعد منتخب کیا جاتا ہے۔ پھر کئی طریقوں سے انھیں ظاہر کیا جاتا ہے۔ دھاتی سکّے، دھاتی اجسام، پتھر، کپڑا، لکڑی، ٹائلیں کسی بھی چیز پر اپنی شناختی علامات کندہ اور نقش کی جاتی ہیں۔ کبھی روشنیوں کے ذریعے نمایاں کیا جاتا ہے اور کبھی کشیدہ کاری کے ذریعے۔

سومائٹکس (somaitics) علم کی ایک اہم شاخ ہے۔ سمبل ازم (symbolism) ایک باقاعدہ سائنس اور آرٹ ہے کہ ’علامات‘ کی معنویت، تاثیر اور مزاجوں پر اثرانداز ہونے کی قوت کا جائزہ لیا جائے۔ انھیں اس طرح تشکیل دیا جائے کہ یہ افراد، اقوام اور اداروں کے نظریات، ذہنی تصورات، خیالات، اوصاف اور جذبات کی درست نمایندگی کرسکیں۔ یہ علامات الفاظ اور اشیاکا لغوی معنی سے کہیں گہرا مفہوم اور تصور پیش کرتی ہیں، مثلاً فاختہ محض ایک پرندہ نہیں بلکہ امن اور سکون کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ سرخ گلاب محبت اور رومانس کو ظاہر کرتا ہے وغیرہ۔ فی الواقع شناختی علامت زبردست نفسیاتی قوت کی مالک ہے۔

زمانہ ٔ قدیم سے میدانِ جنگ میں ’علَم بردار‘ خاص اہمیت کا حامل رہا۔ یہ شرف اس جواں مرد کو حاصل ہوتا جو دلیر، جرأت مند اور قومی غیرت سے معمور ہوتا۔ علَم کو ہر طرح کے حالات میں بلندرکھنا قومی عزت، غیرت اور وقار کی علامت قرار دیا جاتا جا رہا ہے۔ معرکۂ کارزار میں دشمن کا سب سے زیادہ نشانہ علَم بردار ہوتا اور غیرت مند علَم بردار جھنڈا بلند رکھنے کے لیے جان پر کھیل جاتے۔

غزوئہ موتہ میں یکے بعد دیگرے تین سپہ سالار اسلام کا جھنڈا سربلند رکھنے کے لیے شہادت سے ہم کنار ہوگئے۔ حضرت جعفرؓ بن ابوطالب کی جاں فشانی تو ضرب المثل بن گئی۔ دشمن نے جھنڈا گرانے کے لیے دائیں ہاتھ پر وار کیا تو انھوں نے جھٹ سے بائیں ہاتھ میں اْٹھا لیا۔ بایاں ہاتھ بھی کٹ گیا تو اسے منہ سے تھام لیا۔ دشمن نے سر پر وار کیا تو جھنڈے کو گرنے سے بچانے کے لیے حضرت عبداللہؓ بن رواحہ آگے بڑھے۔ ان کے جامِ شہادت نوش کرنے پر حضرت خالدؓ بن ولید نے آگے بڑھ کر اسے بلند کردیا اور پھر نہایت سُرعت اور حکمت سے اسلامی لشکر کو دشمن کے نرغے سے بچاکر لے آئے۔ علَم کی حفاظت کے لیے دونوں بازو کٹوا دینے پر حضرت جعفرؓ کو جنت میں دو پَر عطا کیے جانے کی بشارت ملی۔ چنانچہ وہ ’’جعفر طیارؓ‘‘ کے نام سے معروف ہیں۔ حضرت خالدؓ بن ولید کو اللہ کی تلواروں میں سے ایک تلوار قرار دیا گیا،’’سیف اللہ‘‘ ان کے نام کا جزو بن گیا۔

آج بھی ہر ملک کا اپنا جھنڈا ہے اور اس کا خاص مفہوم۔ جھنڈا کپڑے کا ایک ٹکڑا ہی نہیں ایک اہم علامت ہے، ایک قوم کی پہچان ہے۔ ہر قوم اپنی علامت، اپنی شناخت پر فخر کرتی ہے، اسے بلند رکھنے کی آرزومند ہے۔

اقوام، ممالک اور ادارے اپنی مخصوص امتیازی علامات رکھتے ہیں جنھیں رنگ، تصویر اور گرافک ڈیزائن کے ذریعے ظاہر کیا جاتا ہے۔ جنگ کے میدان ہوں یا کھیل کے، تقریبات میں اقوام و ممالک کی نمائندگی ہو یا بحروبر کا سفر… مخصوص علامات افراد اور اقوام کا تعارف بن جاتی ہیں، لہٰذا علامات کا تعین بڑی سوچ بچار کے بعد ہوتا ہے۔ تصویر کی صورت میں یہ علامت ایک خاموش پیغام ہے جو کسی فرد، گروہ یا قوم کی شناخت کے علاوہ ان کے یقین، ایمان، ارادے، عزائم اور مقاصد کو ظاہر کرتے ہیں۔ ان کی قوت اور مرتبے کا اظہار ہیں۔

مختلف رنگ مختلف معنی رکھتے ہیں۔ ہر تصویر کا اپنا ایک پیغام ہے۔ ’سفید جھنڈا‘ صلح کی خواہش کو ظاہر کرتا ہے۔ میدانِ جنگ میں سفید جھنڈے کا لہرایا جانا ہتھیار ڈالنے یا جنگ بندی کا اعلان سمجھا جاتا ہے۔ ’سیاہ جھنڈا‘ جنگ پر آمادگی یا دشمن کو شکست دینے کے عزم کا اظہار ہے۔ نیلارنگ آفاقیت اور امن کا اعلان ہے تو سرخ رنگ رومانس یا خطرے کی علامت۔ سبزرنگ پاکیزگی، خوش حالی اور شادابی کے معنی رکھتا ہے۔ ٹریفک منضبط رکھنے کے لیے سرخ، زرد اور سبز رنگ کا اپنا اپنا مفہوم ہے۔ ’سرخ بتی‘ پر چلنے والا یہ کہہ کر قانون کی گرفت سے چھوٹ نہیں سکتا کہ وہ اس کے پیغام سے واقف نہیں تھا۔

تصاویر بھی اپنا مفہوم رکھتی ہیں۔ ’ہلال‘ اُمت مسلمہ کی پہچان بن چکا ہے اور صلیب عیسائیت کا نشان۔ سرخ رنگ، ہتھوڑا اور درانتی کمیونزم کی پہچان رہے ہیں اور سواستیکا نازی جرمنی کا۔ برطانیہ کا جھنڈا صلیب کی برتری اور زمین کے چاروں گوشوں تک اس کے غلبے کی آرزو کا اظہار ہے۔ پانچ کونوں والا ستارہ اہلِ اسلام کے ساتھ اور چھے کونوں والا ستارہ صہیونیت کے ساتھ وابستہ سمجھا جاتا ہے۔

اقوامِ متحدہ:
سیاسی اور بین الاقوامی تنظیمیں اپنا اپنا پرچم اور نشان رکھتی ہیں۔ عالمی سطح پر سب سے بڑے ادارے اقوام متحدہ کا اپنا جھنڈا اور اپنا نشان ہے۔ اس کے ذیلی اداروں کی اپنی اپنی علامات ہیں۔ اقوام متحدہ کا نشان (insignia / logo) منتخب کرنے کے لیے ماہرین کی ایک کمیٹی کئی روز کام کرتی رہی۔ کمیٹی کے انتخاب کو جنرل اسمبلی سے ایک قرارداد کے ذریعے باضابطہ منظور کیا گیا۔ یہ منظوری 7 دسمبر 1946ء کو قرارداد نمبر A/RES/92(1)کے ذریعے حاصل کی گئی۔

اقوام متحدہ کے جھنڈے اور نشان میں نیلا اور سفید رنگ نمایاں ہیں۔ نیلا رنگ آفاقیت، امن اور سکون کی علامت کے طور پر رکھا گیا ہے۔ سفیدرنگ امن اور اقوامِ عالم کے مابین صلح کی خواہش کا اظہار ہے۔ جھنڈے پر دنیا کے آباد علاقوں کا نقشہ ہے۔ جہاں امن اور ترقی کا قیام اور فروغ اقوام متحدہ کا عزم ہے۔ اس نقشے کو زیتون کی دو شاخوں نے گھیر رکھا ہے۔ زیتون بھی امن کی علامت ہے۔ دنیا کا نقشہ پانچ دائروں میں مقید ہے جنھیں درمیان سے ایک لائن منقطع کررہی ہے۔

علاماتِ طب:
اقوامِ متحدہ کے ذیلی اداروں کے اپنے جھنڈے ہیں۔ سب میں نیلااور سفید رنگ موجود ہے۔ عالمی ادارۂ صحت (WHO) کے جھنڈے میں ایسکلیپئس کا عصا (Rod of Aesculapius) اور اس کے گرد لپٹا ہوا سانپ ہے۔ یونانی دیومالائی روایات کے مطابق یہ علامت ’صحت کے دیوتا‘ سے متعلق خیال کی جاتی ہے۔

صحت کا دیوتا: ایسکلیپئس اپالو کا بیٹا ہے۔ اسے ’صحت کا دیوتا‘ قرار دیا گیا ہے۔ وہ بیماروں کو شفا بخشتا ہے اور مُردوں کو زندہ کرنے کی قوت رکھتا تھا۔ اس پر دیوتائوں کے بادشاہ زیس (Zeus) نے اسے ہلاک کرڈالا کیوں کہ اس طرح وہ فطرت کے کاموں میں مداخلت کا مرتکب ہو رہا تھا۔

دنیا بھر میں صحت کی پیشہ ور تنظیموں اور اداروں میں سے بیش تر نے اس علامت کو اپنی شناخت بنا رکھا ہے۔ شعبۂ طب اور دواسازی سے متعلق اداروں میں ایک اور علامت بھی بہت معروف ہے۔ اسے کیڈوسیس(Caduceus) کہا جاتا ہے۔ پاکستان کے کم و بیش تمام طبی اور دواسازی کے تعلیمی اداروں نے اسی نشان کو اپنایا ہوا ہے۔ تاہم، کچھ ادارے ایسکلیپئس کا نشان بھی رکھتے ہیں۔ غالباً کوئی ایسا طبی ادارہ نہیں جو اس نشان سے پاک ہو۔ دنیا بھر میں تجارتی بنیادوں پر صحت کی سہولتیں فراہم کرنے والے اداروں میں سے 67 فی صد نے کیڈوسیس کا نشان اپنا رکھا ہے۔ ’عصا‘ کے گرد لپٹا ہواسانپ دنیا بھر میں شعبۂ طب و دواسازی کی معروف علامت ہے۔ طبی تعلیمی ادارے، دو اساز کمپنیاں، شفاخانے شاید ہی کوئی اس سے بے نیاز ہو۔

کیڈوسیس اولیمپک دیوتا ہرمیز(Hermes) سے منسوب عصا ہے۔ اس عصا کے اُوپر دو پھیلے ہوئے پَر ہیں اور اس کے گرد بڑے توازن سے دو سانپ اس طرح لپٹے ہوئے ہیں کہ اُوپر جاکر دونوں کے منہ آمنے سامنے ہیں۔ یونانی عقیدے کے مطابق ہرمیز خدا اور انسانوں کے درمیان پیغام رساں تھا۔

’عصا‘ اس کی دانش اور قوت کا اظہار ہے۔ یونانی شاعر ہومر کا کہنا ہے کہ ’عصا‘ انسان کی آنکھوں کو مسحور کرنے کی اہلیت رکھتا ہے۔ ’عصا‘ کے اُوپر پھیلے ہوئے پَر ہرمیز کے اس مرتبہ و مقام کو ظاہر کرتے ہیں جو اسے زمین اور اس پر رہنے والوں میں حاصل تھا۔ وہ اہلِ زمین کی رہنمائی کا فریضہ انجام دیتا تھا۔ مسافروں کا نگہبان تھا۔ تجارتی قافلوں کی حفاظت کرتا اور لین دین میں معاونت کرتا۔ عصا کے گرد لپٹے ہوئے سانپ تجارت، طلاقت لسانی، فصاحت، فریب کاری، شعبدہ بازی اور گفت و شنید کے فن میں مہارت سے منسلک رہے ہیں۔ ہرمیز کو یہ ’عصا‘ اپالو (سورج دیوتا) نے دیا جو صحت و شفا اور شاعری و موسیقی کا دیوتا ہے۔ ایک اور روایت کے مطابق اسے یہ عصا دیوتائوں کے بادشاہ زیس (Zeus) نے عطا کیا تھا۔

’طب‘ کے ساتھ اس عصا کا تعلق صدیوں سے چل رہا ہے۔ بعض اوقات اسے کیمیا، نفع اور دانائی کے ساتھ بھی جوڑا جاتا ہے۔ تیسری صدی عیسوی میں ایک ماہر امراضِ چشم کی مہر میں اس عصا کی شبیہ پائی گئی ہے غالباً اس لیے کہ عصا آنکھوں پر سحر طاری کردیتا ہے۔ پندرھویں صدی عیسوی میں سوئٹزرلینڈ میں ایک طبی تالیف میں اسے شعبۂ طب سے متعلق ظاہر کیا گیا۔ اس شبیہ میں عصا کے گرد دو سانپ لپٹے تھے اور اس کے اُوپر ایک فاختہ بیٹھی تھی۔ اس کے ساتھ بائیبل کی ایک آیت درج تھی: ’’تم سانپ کی طرح ہوشیار، دانش مند اور فاختہ کی مانند بے ضرر بن جائو‘‘۔

انیسویں صدی کے آخر میں امریکا میں اسے شعبۂ طب کی علامت کے طور پر اختیار کیا گیا حتیٰ کہ 1902ء میں شعبۂ طب نے باضابطہ طور پر اس نشان کو اپنا لیا۔ کہا گیا کہ ’’عصا غیر جانب داری کی علامت ہے‘‘۔ اس کی مزید تشریح کرتے ہوئے بیان کیا گیا کہ ’’عصاقوت کی علامت ہے، سانپ دانش مندی اور دو پَر قوتِ کار اور فعالیت کو ظاہر کرتے ہیں‘‘۔

جنگوں میں طبی خدمات انجام دینے والے عملہ اور گاڑیوں (ایمبولینس) وغیرہ پر اسے غیرجانب داری کی علامت کے طور پر ثبت کیا جاتا۔ اس سے ان کی حفاظت مقصود تھی تاکہ وہ کسی حملے کی زد میں نہ آئیں۔ یہ نشان تجارتی بحری جہازوں پر بھی آویزاں کیا جاتا رہا۔ اس سے نہ صرف ہرمیز کی سرپرستی کے حصول کا جذبہ کارفرما تھا جو نفع بخش تجارت کا ذمہ دار دیوتا ہے، بلکہ یہ اظہار بھی ہوتا کہ یہ بحری جہاز کوئی جارحانہ عزائم نہیں رکھتا۔

کئی دانش ور کیڈوسس کی اس علامت کو شعبۂ طب سے منسلک کرنے پر معترض ہیں۔ اس لیے نہیں کہ یہ بت پرستی کی علامت ہے بلکہ ان کا خیال ہے کہ یہ فیصلہ بہت سی غلط فہمیوں اور فکری انتشار کا نتیجہ ہے کیوں کہ ہرمیز نہ صرف تجارت اور تاجروں کا سرپرست ہے بلکہ چوروں، ٹھگوں، جواریوں اور جھوٹوں کا بھی پشت پناہ ہے۔ دیوتائوں کے نمائندے کی حیثیت سے وہ مسافروں اور بحری سفر کرنے والے تاجروں کا محافظ تھا اور زمین پر امن و سکون قائم کرنے والا بھی! چاہے یہ سکون ’موت کا سکون‘ ہو۔ وہ اپنی چرب زبانی سے بُری سے بُری چیز اور حالات کو عمدہ قرار دے سکتا تھا۔

اسٹوارٹ ایل ٹائسن کہتا ہے ’’اس کی ان صفات کو دیکھتے ہوئے ہرمیز کا یہ نشان طبیب کی گاڑی کے بجاے تابوت پر زیادہ سجتا ہے‘‘۔

لیوک وان آرڈن کی رائے ہے ’’تجارتی ذہن رکھنے والے اطباء کے لیے یہ علامت خاصی حسب ِ حال ہے۔ ان کے جلو میں امن کی خاطر مرنے والوں کی روحیں ہیں تو دانائی، تجارت، قسمت، چرب زبانی، دھوکادہی اور قذاقی بھی ہم رکاب ہیں۔ بیسویں صدی میں شعبۂ طب کی غالباً یہی شناخت ہے‘‘۔
(جاری ہے)

حصہ