صرف دو گرم گرم آنسو

260

رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم غزوۂ احد سے واپس تشریف لے آئے تھے۔ اگرچہ حال یہ تھا کہ اس جہاد کی قربان گاہ پر نہ جانے کتنی عورتوں کے سہاگ اور کتنے ماں باپ کے جگر پارے قربان ہوچکے تھے مگر پھر بھی مدینے کی فضائوں پر یہ روحانی مسرت غالب تھی کہ خدا کے رسولؐ ان کے درمیان زندۂ سلامت واپس آگئے ہیں۔

صحابیات کا اس وقت آپ کے یہاں ہجوم تھا اور سب اپنے اعزا کے متعلق سوال کررہی تھیں۔ اتنے میں ایک صحابہ حضرت حمنہؒ بنت جحش سامنے آئیں اور خدا کے رسولؐ نے ان سے کہا:

’’حمنہ! اپنے بھائی عبداللہ بن جحش کو صبر کرلو‘‘۔
اس کے جواب میں خدا اور یوم آخرت پر ایمان رکھنے والی نے صرف اتنا کہا ’’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ ‘‘۔

اور حضورؐ نے ذرا ٹھہر کر دوسری جانکاہ خبر سنائی۔ ’’اپنے ماموں حمزہؓ بن عبدالمطلب کو بھی صبر کرلو…’’اِنَّا لِلّٰہِ وَاِنَّآ اِلَیْہِ رَاجِعُوْنَ‘‘کی ایک آواز کے سوا اب بھی کوئی دوسری آواز سنائی نہ دی۔

حضرت ابو طلحہؓ انصاری کا لڑکا بیمار ہوا۔ وہ صبح اسے بستر مرض پر چھوڑ کر گئے تھے اور ان کی عدم موجودگی میں بچے کا انتقال ہوگیا۔

’’ابو طلحہؓ کو اس کی اطلاع نہ دی جائے‘‘۔ ان کی بیوی ام سلیم نے لوگوں سے درخواست کی۔ شام کو وہ واپس آئے تو کسی طرح یہ محسوس نہ ہوتا تھا کہ ان کے پیچھے اس عورت کے دل پر کیا قیامت گزر چکی ہے۔ انہوں نے آتے ہی بچے کی خیریت معلوم کی۔

’’پہلے سے زیادہ سکون کی حالت میں ہے‘‘ خدا کی بندی نے ذومعنی جواب دیا۔پوری مستعدی سے کھانا پیش کیا اور غیر معمولی بنائو سنگھار کرکے ان کی دلجوئی کرنے لگیں۔ رات ان کے ساتھ پوری دل نوازی کے ساتھ بسر کی۔ صبح ہونے لگی تو کہا:

’’اگر کچھ لوگ کسی کو کوئی شے مانگے کی دے دیں اور پھر واپسی کا مطالبہ کریں کہ اب واپس دے تو کیا ہمیں یہ حق حاصل ہے کہ وہ چیز روک رکھیں؟‘‘

’’ہرگز نہیں‘‘۔ ابو طلحہؓ نے فیصلہ کن جواب دیا۔

’’تو پھر اپنے بیٹے کو صبر کرلیجیے‘‘۔ ام سلیمؓ نے کمال کیفیت ایمانی کے ساتھ حادثے کی خبر سنادی۔

حضرت عبداللہ بن عمرؓ کے بیٹے واقد کی موت کا حادثہ ہوا۔ سپردخاک کرنے کے بعد حضرت عبداللہ نے بدوئوں کو بلایا اور ان میں دوڑ کرائی۔ ابھی غم ناک حادثے کی دردناک فضا پوری طرح قائم تھی اور اس فضا میں یہ دوڑ اور ریس کا مشغلہ! حضڑت عبداللہ بن عمرؓ کے غلام حضرت نافعؓ اپنی حیرت کا اظہار کیے بغیر نہ رہ سکے۔

’’ابھی ابھی تو قبرستان میں اپنے بیٹے کی قبر بناکر آرہے ہیں اور ابھی ابھی بدوئوں کی دوڑ کا لطف لینے لگے!…‘‘

’’اے نافع!‘‘ حضرت عبداللہ بن عمر نے جی کی چاہتوں کے خلاف خدا کی خوشی میں خوش ہونے کی مومنانہ شان سے ارشاد فرمایا: جب خدا کی مشیت اپنا کام کرچکی تو بندگی کا تقاضا یہ ہوا کہ اس کے نتائج کو بھلادیا جائے‘‘۔

حضرت عبداللہؓ بن زبیر جب حجاج سے معرکہ آرا ہوئے تو ان کی والدہ حضرت اسماؓ بنت ابی بکر علیل تھیں۔ وہ ان کی خدمت میں حاضر ہوئے۔ ان کی مزاج پرسی کے بعد انہوں نے حالات کی نازک پیچیدگیوں اور ماں کی بیماری کے احساسات کا رخ ایمانیات کی نورانی فضائوں کی طرف پھیرنے کی کوشش کی۔

’’موت میں سکون ہی سکون اور آرام ہی آرام ہے اور اماں جان!‘‘ انہوں نے کہا۔

لیکن ماں ان حالات کو ایک اور ہی نظر سے دیکھ رہی تھیں۔ وہاں نزاکتوں سے عہدہ برآ ہونے اور سختیوں اور دشواریوں سے ٹکرا کر خدا کی بارگاہ میں کوئی اچھا مقام تلاش کرنے کی شدید تڑپ موجزن تھی۔ بیمار بڑھاپے میں ایمان و عزیمت کی جوانی دیدنی تھی۔

’’شاید تمہیں مرنے کی آرزو ہے!‘‘ انہوں نے بیٹے کے جذبات کو جھٹکادے کر عزیمت ایمانی کے رخ پر لانے کی کوشش کی ہے۔ ’’لیکن سن لو! کہ جب تک دو باتوں میں سے ایک بات نہ ہوجائے، میں مرنا پسند نہیں کروں گا یا تم اللہ کی راہ میں شہادت کا سہرا باندھ چکو اور میں ثابت کروں کہ میں نے خدا کی مرضی پر صبر و استقامت کا امتحان پاس کرلیا یا پھر تمہیں جنگ میں فتح و کامرانی حاصل ہو اور تمہیں فرائض کی فاتحانہ لڑائی میں کامیاب دیکھ کر میری آنکھیں ٹھنڈی ہوں‘‘۔

اور… یہ الفاظ خالص عملی زندگی کا ولولہ شوق تھے۔ بیٹے کی لاش کو تختہ دار پر لٹکا ہوا دیکھ کر انہوں نے کہا: ’’کیا ابھی اس سوار کے لیے یہ وقت نہیں آیا کہ یہ اپنے گھوڑے سے نیچے اتر آئے؟‘‘۔

گویا ان کی نظر میں یہ موت عین زندگی تھی۔

اور جب حجاج نے اعصابی شکست خوردگی سے نجات حاصل کرنے کے لیے حضرت عبداللہ بن زبیرؓ کے جسم کشتہ کی طرف حضرت اسما کو متوجہ کرکے اسے ان کی ہار ثابت کرنا چاہا تو مومنہ ماں نے بیٹے کی روحانی جیت پر وجد کرتے ہوئے جواب دیا ’’تو نے اس کی دنیا خراب کردی۔ یہی نا! لیکن اس نے تیری آخرت برباد کردی۔ اس کے بعد انہوں نے ایک بات اور کہہ دی۔ ظالم حکمران کے سامنے کھڑے ہوکر ظلم کو ظلم کہہ ڈالا۔

حضورؐ نے فرمایا: اسماؓ نے اعلائے کلمۃ الحق عند سلطان جائر پر مجاہدانہ عمل کرنے کی شان سے کہا: ’’ثقیف میں ایک کذاب اور ایک ہلاکو پیدا ہوگا۔ (مسلیمہ) کو ہم دیکھ چکے۔ میرا خیال ہے کہ ہلاکو خود تو ہے!‘‘

جان اور ایمان میں کس کو کس کے اوپر نثار کیا جائے؟ یہ ہے وہ مقام جہاں بڑے بڑی قلب و جگر، رسائی حاصل کرنے کی حسرت میں سلگ الگ کر راکھ ہوجاتے ہیں لیکن ’’لاالٰہ الا اللہ‘‘ میں نہ جانے کون سا جذبہ فلک رسا پنہاں ہے کہ اس کا سہارا ملا تو مرد تو مرد، عورتیں بھی ایک ہی جست میں اس مقام عرش رسا تک جا پہنچی تھیں… اور… آج آنکھ یہ منظر دیکھتی ہے اور دل کو یقین نہیں آتا کہ اسی لاالٰہ الا اللہ کو ہزاروں بار زبان سے پڑھنے والے انسان فرش زمین کی ان سیاہ فام پستیوں میں اوندھے منہ پڑے ہوئے ہیں کہ جہاں لاالٰہ الا اللہ سے محروم لوگ بھی عملی حیثیت اور جسارت زندگی کے لحاظ سے اونچے دکھائی دے رہے ہیں! کیا واقعی وہ زمانہ ہمارے سروں پر اپنا بھیانک سایہ ڈال چکا ہے کہ جب یہ کلمہ حلق میں پھنسنے کا موڑ آنے کی خبر دی گئی تھی؟ کیا خدانخواستہ سینکڑو ایسے لوگ جن کو اللہ نے ’’مسلمان پیدا کیا تھا، کفر سے بھی نیچے گر کر نفاق کی بدترین کھائی میں دفن ہوچکے ہیں؟ کیا ہم… آہ… کیا ہم مسلمان ہیں؟؟… ضرورت ہے کہ دوسرے کے منہ سے اپنے آپ کو مسلمان سن کر مطمئن ہونے کے بجائے خود اپنی آنکھ سے اپنے اندر جھانک کر ایک بار تو یہ دیکھا جائے کہ ہمارے اندروں میں کہیں زلزلہ قیامت تو نہیں آچکا ہے اور کہیں ایمان و یقین کے آسمان و زمین کی بساط تو نہیں الٹ چکی ہے؟

ایک بار حضرت عبداللہؓ بن عمر کا مدینے سے مضافات سے گزر ہوا… ایک چرواہا… جی ہاں۔ محض ’’چرواہا‘‘ جو نہ کوئی مضمون نگار تھا نہ مقرر… جس کو کتاب و قلم کی ہوا تک نہ لگی تھی، دکھائی دیا۔ اس کا چہرہ کہہ رہا تھا کہ خدا کے خدا ہونے کا یقین کیا ہوتا ہے؟… حضرت عبداللہ بن عمر کو اس کے اندر تقویٰ کی کشش محسوس ہوئی۔ احترام اور رشک و عقیدت کے جذبات نے اندر ہی اندر سر اٹھایا اور اس کو دعوت طعام پیش کی گئی۔

’’میں روزے سے ہوں‘‘ بکریاں چرانے والے آدمی کا جواب تھا۔ لیکن سوال تھا کہ یہ روزہ آخر کون سا روزہ ہے؟… وہ روزہ جس کے بارے میں خدا کے رسولؐ نے کہا تھا کہ اس کے رکھنے والے کے پاس بھوک اور پیاس کے کچھ بھی نہیں ہوتا، جس کے متعلق خدا تعالیٰ کو ذرا بھی اس کی پروا نہیں ہوگی کہ کس نے کھانا اور پینا ترک کردیا یا نہیں۔ کیا یہ روزہ وہ بندگی کا اعلیٰ ترین مظاہرہ تھا کہ جس کے متعلق خدا نے فرمایا ہے ’’یہ میرے لیے ہے اور میں اس کے لیے ہوں‘‘… اور اس سوال کا جواب تلاش کرنے کے لیے حضرت عبداللہؓ بن عمر کے ذہن نے ایک خاکہ اندر ہی اندر بنا ڈالا۔ پھر دفعتاً سوال کیا: ’’کیا ان بکریوں میں سے ایک بکری ہمارے ہاتھ فروخت کرسکوگے؟ ہم قیمت بھی دیں گے اور افطار کے لیے سید الطعام گوشت بھی نذر کریں گے‘‘۔

’’لیکن یہ بکریاں میری ہیں کب؟… یہ میرے آقا کی ہیں‘‘۔ چرواہے نے اپنے روزے کے اخلاقی حسن کی جھلک دکھاتے ہوئے جواب دیا۔

’’لیکن آقا یہاں تو موجود نہیں ہے وہ… لیکن یہ بات پوری سننے سے پہلے ہی نفرت کے ساتھ اس صحر نورد مسلمان نے منہ پھیرلیا اور زمین پر کھڑے ہوئے ’’بندے‘‘ نے آسمان کی طرف انگلی سے اشارہ کیا۔

’’خدا… میرا خدا تو یہاں بھی موجود ہے… خدا کہاں چلا جائے گا؟‘‘

ایمان بالغیب میں سے عین الیقین کا یہ سیلاب رنگ و نور ابلتا ہوا دیکھ کر حضرت عبداللہؓ بن عمروجد میں آگئے۔ اور بار بار… رہ رہ کر چرواہے کے یہ زلزلہ انگیز یقین کی پکار ان کے لبوں پر وجد کرنے لگی۔ ’’خدا… خدا کہاں چلا جائے گا؟‘‘۔

’’خدا کہا چلا جائے گا آخر؟‘‘ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ چرواہے کے ان سادہ الفاظ نے حضرت عبداللہؓ بن عمر کی نظروں کے سامنے ان کے اور اس چرواہے اور ان بکریوں اور زمین و آسمان کے تنہا مالک خدا کو سامنے لاکھڑا کیا ہے! مدینے واپس آکر انہوں نے اس آدمی کے قدموں پر آزادی کا تحفہ اور ان بکریوں کا ہدی بے تابانہ لٹا دیا اور وہ اس طرح کہ اس کے آقا سے اس کو آزاد کرادیا اور بکریاں خریدکر اس کے حوالے کردیں… اور گویا یہ ایک ادنیٰ خراج عقیدت تھا جو اس جیسے ایمان و عمل والے بادشاہ کو خدا کا ایک حقیقی بندہ پیش کررہا تھا۔ کون کہہ سکتا ہے کہ ایسے سعید لوگوں کو خود خدا کی بارگاہ عالی سے کیا ملنے والا ہے!

اور… ہمیں بھی دعویٰ ہے کہ یہ یقین جو عرب کے ایک ان پڑھ چرواہے کے اندر تھا۔ ہمارے اندر بھی موجود ہے لیکن مومن تو کیا، دنیا کے وہ لوگ بھی اس یقین کے کھوٹ پر صاف صاف پھبتیاں کس رہے ہیں کہ جن کے دیدہ و دل پر کفر کی سیاہ رات ہزار تاریکیوں کے پردے ڈالے کھڑی ہے… ہاں وہ بھی انہیں جو خراج عقیدت دے رہے ہیں۔ اس میں ٹھوکروں اور لاتوں کے سوا اور کوئی شے نہیں… لیکن یہ مسلسل… پے بہ پے ٹھوکریں بھی شاید ابھی تک ہماری غیرت ایمانی کو بیدار و بے قرار نہیں کرسکیں۔ اس لیے کہ ابھی تک ہم دنیا کی کافر قوموں کی کاسہ لیسی کرکے اپنی دنیا بنانے کے جنوں میں گرفتار ہیں اور ابھی تک خدا کے در پر اشک آلود آنکھیں ملاکر ہم نے اس کا ثبوت نہیں دیا کہ ’’ہمارا خدا موجود ہے… خدا کہاں چلا جائے گا آخر؟‘‘

حضرت عبداللہؓ کے والد ماجد حضرت عمرؓ بن خطاب نے بھی ایک بار اسی طرح ایک مومن کے ایمان کو خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے اپنی مسند خلافت چھوڑ کر اس مسند پر اس مومن جگہ کو دی تھی… یہ خبابؓ تھے۔

’’اس اعزاز کے مستحق صرف ایک شخص اور ہیں‘‘۔ انہوں نے حضرت خبابؓ کی شخصیت کو پر شوق نظروں سے دیکھتے ہوئے فرمایا:

’’اور وہ شخصیت سیدنا بلالؓ کی ہے…‘‘

’’لیکن خبابؓ نے تحدیث نعمت کے عاجزانہ انداز میں فرمایا: ’’وہ میرے برابر کیسے ہوسکتے ہیں جب کہ مشرکوں میں ان کے مددگار بہت سے تھے مگر میرا پرسان حال میرے خدا کے سوا اور کوئی بھی نہ تھا…‘‘

لیکن یہ آواز صرف شکر نعمت کی آواز تھی جس میں غرور کا نام و نشان تک نہ تھا۔ اس کا عملی ثبوت جان دیتے ہوئے انہوں نے دیا۔ جب اپنا کفن دیکھا اور آنکھوں میں آنسو تیرنے لگ اور یہ درد بھری آواز سنائی دی۔ ’’خوش نصیب تھے حمزہؓ جن کو پورا کفن بھی ہاتھ نہ آیا… ذرا سی چادر میں کفنائے گئے کہ سر ڈھکا جاتا تو پائوں کھل جاتے تھے اور پائوں ڈھکتے تھے تو سر کھل جاتا تھا… اور آخر گھاس سے پائوں چھپائے گئے…‘‘

’’لیکن تمہیں تو خوش ہونا چاہیے کہ کل تک اپنے جنتی ساتھیوں سے جاملو گے…‘‘ لوگوں نے خبابؓ کی عظیم ایمانی قربانیوں پر وجد کرتے ہوئے کہا:

خبابؓ نے یہ سنا تو پھوٹ پھوٹ کر رونے لگے۔ ان کے ہونٹ پر سوز انداز میں ہل رہے تھے۔

’’مجھ کو موت کا نہیں اس کا اندیشہ کھائے جارہا ہے کہ کہیں…آہ… کہیں ثواب آخرت کے بجائے مجھے یہ دنیا ہی نہ مل گئی ہو!…‘‘

کبھی اہل ایمان دنیا کو پاکر آخرت کے اس خوف سے رہ سکتے تھے اور آج عالم یہ ہے کہ ہمیں دنیا نہ ملنے کا شدید رنج ستا رہا ہے اور وہ بھی اس وقت جب کہ دین کے لیے ہم نے بے حسی کے ظالمانہ سلوک کے سوا اور کچھ بھی تو کرکے نہیں دیا!… کیا آخرت سے خدانخواستہ مکمل دست برداری دی جاچکی ہے… کیا دائمی خسارے کے الفاظ ہی ہمارے جذبہ خوف کے لیے اپنے تمام معنی کھوچکے ہیں؟… اگر نہیں تو زندگی نے جس حقیقت کے لیے خون جگر کا ثبوت طلب کیا تھا وہ ہم سے دو گرم گرم آنسوئوں کا پانی طلب کرتی ہے… الفاظ نہیں… آنسو!… صرف دو آنسو!!

الٹی ہوئی بستیاں!
تہ و بالا آبادیاں!

انسانی ضمیر کی گھنائونی لاشوں سے ابکائیاں لیتے ہوئے ویرانے!

عذاب سے پسی ہوئی انسانی ہڈیوں کے مکروہ تودے، اجاڑ کھنڈروں میں ٹھوکریں کھاتے ہوئے… یہ تھی قوم ثمود کی بستی!… جہاں اللہ کی زمین پر کھڑے ہوکر شیطانیت کے نابینا پجاریوں نے خدا کے اٹل قانون کو للکارا تھا… یہ جسارت تو تاریخ کے اوراق میں خواب پریشاں کی طرح گم ہوکر رہ گئی لیکن اس کا خوں چکاں انجام عذاب رسیدہ کھنڈروں کی صورت میں باقی رہ گیا۔ جیسے زمن کے سینے کا کبھی نہ بھر سکنے والا کوئی گھائو ہو! ہاں یہ قہر الٰہی کی غضب ناک آندھیوں اور زلزلوں کی گزرگاہ تھی جہاں انسانی گناہ کے بوجھ سے زمین کا دل پھٹا تھا اور دنیا کے اندر سے ہی جہنم نمودار ہوا تھا جہاں قیامت سے پہلے قیامت کا شور سنائی دیا اور پھر موت کا سناٹا چھا گیا اور آج جب کہ اسی خاک پر حضورؐ کی قیادت میں بندگان خدا کا قافلہ مدینے سے تبوک کی طرف جاتے ہوئے گزر رہا تھا تو یہ کھنڈر جیسے چونک اٹھے تھے۔ ان کھنڈروں میں ان قدموں کی آہٹ سنائی دے رہی تھی جن کو خدا سے ملاقات کے شوق میں شہادت حق کی آرزو گھروں سے باہر اور موت سے پہلے ہی جہاد و شہادت کی طرف کھینچ لائی تھی… آہ… یہ خدا سے ہمکنار ہوجانے کی مقدس تڑپ! متاع جسم و جاں نذر کرکے باغ ارم خریدنے کا سودا!… زندگی لٹا کر موت پر فتح پانے کا مجاہدانہ یقین!!

اور اتنے اچھے لوگ دوسروںکے مہلک گناہوں کو یاد کرکے اللہ کے خوف سے لرزتے اور روتے جارہے تھے! لیکن… ہم ان کے ہی اخلاف ہیں مگر پھر بھی ہمیں خود اپنے گناہوں کی تباہ کاری رلاتی ہے۔ لرزاتی نہیں ہے۔ دنیا پر رال ٹپکانے والوں کی بے پناہ بھیڑ میں دنیا پر آنسو ٹپکانے والے آخر کہاں ہیں؟… کہاں ہیں… کہاں چلے گئے؟؟ کیا ہم بتاسکتے ہیں؟… کیا…؟

حصہ