پوری دنیا میں ڈیڑھ ارب مسلمان ہر سال سنتِ ابراہیمیؑ کی ادائی میں کروڑوں جانوروں کی قربانی کرتے ہیں اور پوری دنیا سے لاکھوں مسلمان فریضۂ حج ادا کرنے کے لیے مکہ مکرمہ میں مسجد حرام کا طواف، صفاو مروہ کی سعی، وقوف عرفہ اور منیٰ میں خطبۂ حج کے بعد شیطان کو کنکریاں مارتے اور قربانی کرتے ہیں۔ دراصل یہ وہ سنتیں ہیں جو حضرت ابراہیم علیہ السلام، حضرت اسماعیل علیہ السلام اور حضرت ہاجرہ نے اللہ تعالیٰ کے حکم کی تعمیل میں ادا کیں۔
ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’تم مجھے یاد کرو میں تمہیں یاد کروں گا، میری نعمتوں کا شکر ادا کرو اور کفرانِ نعمت نہ کرو۔‘‘ (البقرہ)
ابراہیم علیہ السلام کی پوری زندگی للہیت، خدا سے اٹوٹ محبت، بے لوث بندگی اور لازوال قربانیوں سے عبارت ہے۔
سورہ البقرہ کی آیت 124 میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’جب ابراہیم کو اس کے رب نے چند باتوں میں آزمایا تو اس نے انہیں پورا کردیا، پھر اللہ نے کہا میں تمہیں لوگوں کا امام بنانے والا ہوں۔ ابراہیم نے کہا: اور میری اولاد کو؟ اللہ نے کہا: میرا عہد ظالموں کو نہیں پہنچتا۔‘‘
حضرت ابراہیمؑ کی آزمائش تو اُس وقت سے ہی شروع ہوگئی جب انہوں نے نمرود کی خدائی اور اصنام پرستی سے یہ کہہ کر انکار کیا کہ ’’میں نے ہر باطل معبود سے منہ موڑ کر اپنا رُخ اُس کی طرف کر لیا جو زمین و آسمان کا خالق ہے اور میں مشرکوں میں سے نہیں ہوں۔‘‘ (سورۃ الانعام 79)
یہ چند الفاظ پر مشتمل کلمہ نہیں تھا بلکہ ایک برق تپاں تھی جو نمرود اور اس کی قوم پر گری۔ صنعتِ آذر پر لرزہ طاری ہوگیا، ماں باپ کی شفقت و محبت بھی کافور ہوگئی۔ آپؑ نے نہایت ہی حکمت سے بتوں کو توڑ کر بڑے بت کے گلے میں کلہاڑا ڈال دیا، لیکن بدبخت قوم یہ نہ مانی کہ یہ کارستانی بڑے بت کی ہے اور کہنے لگی کہ یہ تو حرکت نہیں کرسکتا۔ آپؑ نے کہا: نہ یہ دیکھ سکتا ہے، نہ حرکت کرسکتا ہے، نہ سنتا ہے، نہ بولتا ہے تو یہ تمہاری حاجت روائی کیسے کرسکتا ہے؟ مگر گمراہ تو دلیل نہیں مانتے اور ابراہیمؑ کو آگ میں ڈالنے کا فیصلہ ہوا۔ بڑا الاؤ روشن کیا گیا اور پھر منجنیق کے ذریعے آپؑ کو آگ میں پھینک دیا گیا۔
پھر کیا تھا، حضرت ابراہیم ؑکی للہیت اور اللہ سے محبت کا امتحان شروع ہوا۔
بے خطر کود پڑا آتشِ نمرود میں عشق
عقل ہے محوِ تماشائے لبِ بام ابھی
روایت میں آتا ہے کہ حضرت جبرائیل علیہ السلام آپؑ کے پاس آئے اور کہا ’’اللہ نے مجھے آپ کے پاس بھیجا ہے، میں آپ کی کیا مدد کروں؟‘‘ آپ نے کہا ’’میرا اللہ جانتا ہے وہ کیا کرے گا۔‘‘
پھر رحمت ِ خداوند عالم جوش میں آئی اور آگ کو حکم ہوا ’’اے آگ میرے ابراہیم کے لیے گل وگلزار ہو جا۔‘‘
یہ خودی، للہیت اور خدا سے محبت کی معراج تھی۔
خودی کو کر بلند اتنا کہ ہر تقدیر سے پہلے
خدا بندے سے خود پوچھے بتا تیری رضا کیا ہے
مگر یہاں تو ابراہیم علیہ السلام نے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو واپس کر دیا اور کہا:
میری خودی کو نہیں گوارا
جو دینا ہے تو مجھ کو بے طلب دے
اللہ تعالیٰ نے اس ایثار اور فدا کاری کو قبول کرتے ہوئے آپ کو اپنا ’’خلیل‘‘ کہا اور ’’آپ ابراہیم خلیل اللہ ہو گئے۔‘‘
ابراہیم علیہ السلام کا یہ پہلا امتحان تھا۔ اس کے بعد آزمائشوں کا ایک لامتناہی سلسلہ شروع ہوا اور آپ ہر آزمائش میں پورے اترے۔ بڑھاپے میں آپ کو حضرت اسماعیل علیہ السلام جیسی اولاد کی نعمت سے نوازا گیا مگر ساتھ ہی ساتھ اللہ نے حکم دیا کہ ’’اپنی بیوی حضرت ہاجرہ اور شیر خوار اسماعیلؑ کو وادیِ ذی زرع (آج جہاں بیت اللہ موجود ہے) میں چھوڑ آئو۔‘‘
آپ جب ماں، بیٹے کو چھوڑ کر جانے لگے تو حضرت ہاجرہ نے استفسار کیا تو آپ نے کہا ’’اللہ نے حکم دیا ہے۔‘‘ پھر للہیت کی اور اعلیٰ مثال یہ دیکھیے کہ حضرت ہاجرہ نے فرمایا ’’جس اللہ نے آپ کو حکم دیا ہے وہی ہماری حفاظت فرمائے گا۔‘‘ پھر پانی کے لیے صفا اور مروہ کے درمیان سعی اور اسماعیل علیہ السلام کی ایڑیوں سے آبِ زَم زَم کا چشمہ جاری ہونا جو آج پانچ ہزار سال گزرنے کے بعد بھی جاری ہے اور اسماعیل علیہ السلام کو قربان کرنے کا خواب اور اس کو پورا کرنے کا عزم مصمم اور اللہ نے اس کو قبول کر کے دنبے کی قربانی کرائی جس کی سنت آج تک ادا کی جا رہی ہے اور تاقیامت ادا ہوتی رہے گی۔
حج اور عمرہ کے تمام مناسک ابراہیم علیہ السلام ، حضرت ہاجرہ اور اسماعیل علیہ السلام کی سنتیں ہیں۔ اس کو اللہ نے لا زوال بنا دیا۔ ابراہیم علیہ السلام نے یہ کہہ دیا کہ ’’میری نماز، میرے تمام مراسم عبودیت، میرا جینا اور مرنا سب اللہ کے لیے ہے۔‘‘ (سورۃ الانعام: 162)
میری زندگی کا مقصد تیرے دیں کی سرفرازی
میں اسی لیے مسلماں میں اسی لیے نمازی
ہر دور کے انبیا اور رسولوں نے اپنی پوری زندگی اللہ کے دین یعنی توحید، رسالت اور فکرِ آخرت کی دعوت میں تمام تر مصائب اور اپنی قوم کی زیادتیوں کو برداشت کرکے گزاری اور رب کی رضا پر خوش رہے۔ حضرت ابراہیم علیہ السلام کی قربانی، للہیت اور خودی کی معراج ہے کہ اللہ تعالیٰ نے تاقیامت ہر صاحبِ ایمان کے لیے اس کو ادا کرنا لازم قرار دیا۔
اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’میں کوئی نیا دین لے کر نہیں آیا، اپنے باپ حضرت ابراہیم علیہ السلام کے دین کی تکمیل کرنے آیا ہوں۔ تم ملتِ ابراہیم ہو اور تمہارا نام مسلم ہے۔‘‘ لہٰذا آپؐ کے ساتھ بھی مشرکینِ مکہ اور کافروں نے وہی سلوک کیا جو آپؐ کے جدِّ امجد حضرت ابراہیم علیہ السلام کے ساتھ کیا تھا، اور آپؐ کو بھی اور آپؐ کے اصحاب اولون و سابقون کوبھی اسی طرح کی آزمائش کی بھٹی سے گزرنا پڑا۔
مکہ کی 13 سالہ زندگی میں طائف کی سنگ باری، شعب ابی طالب کی محصوری، مدینہ ہجرت، بدر و احد کے معرکے برداشت اور شہادتوں کے نذرانے پیش کرنے پڑے۔ مکہ میں آلِ یاسر کی قربانی، حضرت سمیہؓ کی شہادت، حضرت بلال حبشیؓ کے سینے پر پتھر اور ننگی پیٹھ کاگرم ریت پر گھسیٹا جانا، حضرت خبابؓ کو انگاروں پر لٹا کر شہادتِ حق سے دستبردار ہونے کے لیے دبائو ڈالنا۔ مگر للہیت اور رب کو راضی کرنے اور جنت کی تڑپ نے ایسی مثالیں قائم کیں کہ آج تک دنیا کے مسلمان آزمائشوں میں اس سے جِلا حاصل کرتے ہیں۔
للہیت اور خودی کیا ہے؟ اس کو علامہ اقبال نے احسن طریقے سے بیان کیا:
خودی کا سرِ نہاں لا الٰہ الا اللہ
خودی ہے تیغ فساں لا الٰہ الا اللہ
یہ دور اپنے براہیم کی تلاش میں ہے
صنم کدہ ہے جہاں لا الٰہ الا اللہ
یہ نغمہ فصل گُل و لالہ کا نہیں پابند
بہار ہو کہ خزاں لا الٰہ الا اللہ
یہ مال و دولتِ دنیا یہ رشتہ و پیوند
بتانِ وہم و گماں لا الٰہ الا اللہ
اگرچہ بت ہے جماعت کی آستینوں میں
مجھے ہے حکمِ اذاں لا الٰہ الا اللہ
للہیت اور خودی رب کے سامنے خود کو حوالے کردینے اور راضی بہ رضا رہنے کا نام ہے۔ یعنی بندے کو نفسِ مطمئنہ حاصل ہوجائے۔ جب اس پر کوئی آزمائش یا مصیبت آئے تو صبر کرے، جس کا صلہ یہ ہے کہ اللہ صبر کرنے والوں کے ساتھ ہوتا ہے۔
جس نے کہا اللہ ہمارا رب ہے اور اس پر مستقیم ہوجائے تو فرشتوں کا نزول ہوتا ہے اور وہ بندے کو جنت کی بشارت دیتے ہیں جس کا وعدہ ان کے رب نے کیا ہے، جس نے کہا ہے کہ ’’ہم اس دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی تمہارے دوست اور مددگار ہیں، اور تمہارے لیے وہاں ہر وہ نعمت ہے جسے تمہارا جی چاہے، اور تمہارے لیے وہاں وہ تمام چیزیں ہیں جو تم طلب کرو۔ یہ تمہارے رب کی جانب سے ہے جو بڑا غفور الرحیم ہے۔ (حم السجدہ)
اور جب اللہ والے بندوں کو دنیا میں نعمت حاصل ہوتی ہے تو وہ اپنے رب کا شکر ادا کرتے ہیں۔ پھر اللہ ارشاد فرماتے ہیں:
’’اور یاد کرو جب تمہارے رب نے فرمایا تم میرا شکر ادا کرو تو تمہیں اور دوں گا، اور اگر کفرانِِ نعمت کرو گے تو شدید عذاب دوں گا۔ موسیٰ علیہ السلام نے کہا اگر ساری دنیا ناشکری ہوجائے اس سے اللہ کا کچھ نہیں بگڑے گا۔‘‘ (سورہ ابراہیم۔ آیت 8)
میدانِ بدر میں اسلام اور کفر کے معرکۂ عظیم میں جسے ’’یومِ فرقان‘‘ کہا جاتا ہے، حضرت عبیدہ بن الجراحؓ نے اپنے کافر باپ کو جہنم واصل کیا اور ’’امین الامت‘‘ کہلائے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے اپنے کافر ماموں کو جہنم واصل کیا۔ آپؐ صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباسؓ قیدی بنے۔ گویا للہیت یہی ہے کہ کفر اور اسلام میں رشتوں کا تعلق صرف ایمان کا رہ جاتا ہے۔ حضرت نوح کو ڈوبتے بیٹے کو بچانے سے اللہ نے یہ کہہ کر روک دیا کہ ’’یہ تیرا بیٹا نہیں ہے۔‘‘ لوطؑ کی بیوی عذاب الٰہی سے نہ بچی۔
توحید تو یہ ہے کہ خدا حشر میں کہہ دے
یہ بندہ زمانے سے خفا میرے لیے ہے
قرآن مجید نے للہیت کا معیار خود قائم کردیا ہے۔ سورۃ التوبہ میں ارشاد باری تعالیٰ ہے ’’اے ایمان والو! اپنے باپوں اور بھائیوں کو اپنا رفیق نہ بناؤ اگر وہ کفر کو ایمان پر ترجیح دیں، جو ایسا کرے گا وہ ظالم ہے۔‘‘
اگلی آیت میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اے محمد صلی اللہ علیہ وسلم! لوگوں سے کہہ دیجیے کہ تمہارے باپ، تمہارے بیٹے، تمہارے بھائی، تمہاری بیویاں، تمہارے رشتے دار، تمہارے مال، تمہاری تجارت جس کے ماند پڑ جانے کا خدشہ ہے، تمہارے یہ مکانات جن کو تم عزیز رکھتے ہو اگر یہ اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی محبت اور جہاد فی سبیل اللہ سے عزیز تر ہیں تو انتظار کرو، اللہ اپنا فیصلہ نازل کردے، اور اللہ فاسقوں کو ہدایت نہیں دیتا۔‘‘
ان دونوں آیاتِ مبارکہ میں درج دنیا کے وہ دائرے ہیں جن کی محبت میں ایک صاحب ِایمان اپنی آخرت کھوٹی کر لیتا ہے، اور دنیا کی چیزوں کو اللہ والوں نے اللہ کی محبت میں کوئی اہمیت نہیں دی بلکہ وقت آنے پر ان سب کو اللہ کے راستے میں قربان کردیا۔ تمام انبیا اور رسولوں کی حیاتِ طیبہ، عیسیٰ علیہ السلام کے حواریوں اور اصحابِ رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگیاں اعلیٰ ترین مثالیں ہیں۔
دورِ جدید میں للہیت اور خودی کی معراج دیکھنی ہو تو غزہ کے پُر عزم، جری اور اللہ پر کامل بھروسہ رکھنے والے مجاہدین کی مزاحمت کو دیکھا جا سکتا ہے کہ وہ کس طرح تنِ تنہا یہود ونصاریٰ اور ہنود کے اتحادِ خبیثہ کی سفاکی اور درندگی کا سامنا کررہے ہیں اور پوری مسلم دنیا قبلہ اوّل مسجد اقصیٰ کے مجاہدوں کی مدد تو درکنار، درپردہ اسرائیل کی حمایت اور مدد کر رہی ہے ۔
اپنے بھی خفا مجھ سے ہیں بیگانے بھی نا خوش
میں زہرِ ہلاہل کو کبھی کہہ نہ سکا قند
یہی مومن کی خود داری اور للہیت ہے کہ وہ نفع و نقصان سے ماورا ہر حال میں حق کے ساتھ کھڑا رہتا ہے۔ امام حسینؓ اور اہلِ بیعت کی کربلا میں شہادت اس کی لا فانی مثال ہے۔
میں حر ہوں مگر لشکرِ یزید میں ہوں
میرا حسین ابھی کربلا نہیں پہنچا
آج غزہ کا محاصرہ اور ہر روز کربلا حر صفت حریت پسندوں کو بلا رہا ہے۔