آخر شب کے ہم سفر

132

روانگی کے وقت اس نے باگھیر ہاٹ پر کہا تھا’’ شوکتی! تم اکیلے میں زندگی سے ڈرنا ہرگز نہیں۔ شوکتی یاد رکھو۔ مرد موت کا مقابلہ موت ہے۔ مگر عورت موت کا مقابلہ زندگی سے کرتی ہے۔‘‘

’’ہا ہا ہا… ‘‘وہ دل میں شدید تلخی سے ہنسی۔ اور پلنگ پر سر جھکائے بیٹھی اپنے داہنے پائوں کے انگوٹھے کو غور سے دیکھا۔ ’’زندگی!‘‘ اس نے سوچا۔ ’’زندگی! تونے میرے ساتھ یہ کیا کیا؟‘‘

وہ صبح ڈھاکے سے شانتی نکیتن واپس پہنچی ہے سوچتے سوچتے اس کا دماغ مائوف ہوچکا ہے۔ رات کو اسے بھیانک سپنے دکھلائی دیتے ہیں۔ دن میں وہ گم صم رہتی ہے۔ ایسا میرے ساتھ کیوں ہوا؟

’’چار سو بیس۔ دھوکے باز۔ ٹھگ۔‘‘
’’میری بڑی خوفناک غلطی یہ تھی۔‘‘ اس نے بال سمیٹتے ہوئے خود سے کہا ’’کہ قومی اور بین الاقوامی جدوجہد کو نظر انداز کرکے میں ایک ذاتی جذباتی جھمیلے میں پڑ گئی۔‘‘

شرمناک… افسوسناک۔ اس نے ہاتھ کی پشت سے آنکھیں پونچھیں اور دبے پائوں اُٹھی‘ کھڑکی میں رکھی صُراحی میں سے پانی انڈیل کر پیا۔ گلاس صراحی پر واپس رکھ کر باہر جھانکا۔ چاند بادلوں میں کہیں بہہ چکا تھا۔

’’ساری عمر بات نہیں کروں گی۔ پہچان کے نہیں دوں گی۔ دھوکے باز۔‘‘
’’دھوکے باز… باغ بہت سنسان ہے۔ رات چیتے کی آنکھ کی طرح مجھے گھور رہی ہے۔ عمر بھر بات نہیں کروں گی۔ ارے آپ کی اصلیت تو مجھے اب معلوم ہوئی بچہ جی۔ کُروک۔‘‘

برآمدے میں مدھم بلب روشن تھا۔ مرے ہوئے برساتی پتنگوں کا مختصر سا ڈھیر بلب کے عین نیچے فرش پر پڑا تھا۔ برآمدے کے باہر کرشن چوڑا کی ڈالیاں ٹھنڈی ہوا میں سرسرا رہی تھیں‘ مینڈک خاموش ہوچکے تھے۔ کبھی کبھی جھینگر چلا اُٹھتا۔

اسے ایک دم سردی سی لگی۔ وہ کھڑکی میں سے ہٹ آئی۔ نیم تاریکی میں ہاتھ بڑھا کر سرہانے کی میز پر رکھا ہوا۔ اٹیچی کیس کھولا۔ اور ٹٹول ٹٹول کر ایک مٹی کا ہاتھ نکالا۔ ہاتھی تکیے پر رکھ کر اسے بڑی بہادری اور دھیان سے دیکھنے لگی۔ چھوٹا سا بے چارا مسخرا سُرخ اور زرد نقش و نگار والا مٹی کا ہاتھی۔

ابوالقاسم کی آمد کے بعد وہ مولوی ابوالہاشم کے کہے پر کیا جھٹ پٹ کشتی سے اُتر آئی تھی۔ ایک ایک بات بڑی تفصیل سے یاد ہے۔ ایک ایک بات۔ اس رات وہ اور ریحان ٹہلتے ہوئے ایک بستی کی طرف گئے تھے تو وہاں… وہاں کمہار کی دکان پر مٹی کے کھلونوں کی قطار میں سجایہ ہاتھی کتنا کیُوٹ لگا تھا۔ وہ ٹھٹھک کر اسے دیکھنے لگی۔ تو ریحان نے خرید کر اسے دیتے ہوئے بڑی سنجیدگی سے کہا ’’جب تم بہت دُکھی ہو اسے الٰہ دین کے چراغ کی طرح گھسنا۔ میں فوراً آجائوں گا۔ سنبھال کر رکھنا اسے تبرک کی طرح۔‘‘

اور ریحان نے کہا تھا’’ عاشق۔ بچے۔ وحشی۔ یہ سب فطرت سے بے حد قریب ہوتے ہیں اور تصنع اور مہذب ریاکاری کے پردوں میں اپنے اصل جذبات نہیں چھپا سکتے اور ان سب کو ٹوٹم، منتروں اور تعویذوں کی ضرورت بھی رہتی ہے۔ بچے اپنا پسندیدہ کھلونا سرہانے رکھ کر سوتے ہیں۔ وحشی تعویذ پہنتے ہیں۔ عاشق بھی اسی قسم کی احمقانہ حرکت کرتے ہیں۔ پرانے خطوط، پرانی تصویریں، نشانیاں، یادگاریں۔ محبت کرنے والوں کے ٹوٹم اور تعویذ ہیں۔

لہٰذا شوکتی! مولائی صاحب کے جھونپڑے کی طرف آتے ہوئے اس نے کہا تھا ’’تم ایک چھوٹی سی بچی ہو۔ تمہیں حفاظت کی ضرورت ہے۔ میں تمہارا تعویذ ہوں، جو تمہیں ہر خطرے پر دُکھ سے بچائے گا۔ میں کہ ایک کپالی بیراگی ہوں۔ قوم کو مایا جال سے نکالنے کے لیے تپ کرنے والا مٹھ دھاری گو سائیں۔ تم میری شوکت ہو۔‘‘

’’ہر علامت۔ ہر تصور بے حد بامعنی ہے۔ پیاری بچی…‘‘ پھر اس نے بڑی گمبھیر آواز میں کہا تھا ’’تمہارا یہاں آنا بے حد خطرناک بات تھی۔ مگر میں نے یہ مجرمانہ بے احتیاطی سے کام لے کر تم کو یہاں بلایا کیوں کہ مجھے محسوس ہوا تھا کہ میں نے اگر تم کو جلد از جلد نہ دیکھا تو واقعی مرجائوں گا۔ تم میرے اس جرم کا باعث ہو۔ لیکن چوں کہ تم میرا طلسم ہو۔ اس لیے مجھے معلوم ہے کہ کوئی مصیبت نہیں آئے گی۔‘‘

’’شاید میں بے حد کمزور انسان ہوں۔‘‘
’’بے احتیاطی…؟‘‘ اس نے دفعتاً بے انتہا سراسیمہ ہو کر پوچھا تھا۔
’’ہاں کچھ عرصے سے بڑی فاش غلطیوں کا ارتکاب کیا جارہا ہے۔ مثال کے طور پر جب پہلے روز تم اُدما سے ووڈ لینڈز میں ملیں تو ان کو تمہیں ہر گز یہ نہ بتانا چاہیے تھا کہ نورالرحمٰن میاں دراصل میں ہی تھا۔ اگر تم کو پکڑ کر ایڈزا پہنچائی جاتی اور…‘‘

’’اوہ نو…!‘‘ اس نے دہل کر کہا۔
’’تم صرف سربندر اور اونل سے واقف ہو اور وہ بھی کچھ نہیں جانتے۔ اُدما رائے بھی کچھ نہیں جانتیں۔‘‘

دفعتاً وہ اسے بے حد خوفناک نظر آیا۔ راکھشس۔ پاتال میں رہنے والا ناگ دیوتا… راسپوٹین کا ایسا جادوگر۔ اس نے چاروں طرف دیکھا۔ وہ اندھیرے سندربن میں مہذب دنیا سے سیکڑوں میل دور اس پُراسرار اجنبی کے ساتھ موجود تھی۔ نو عمری میں انسان ایسا DARE DEVIL کیوں ہو جاتا ہے۔ اب کیا ہوگا؟ پولیس اور تھرڈ ڈگری۔

اچانک وہ ہنسا۔ اور کہنے لگا ’’چنانچہ شوکتی! میں تم کو ہیرے جواہرات تو تحفے میں اور نشانی کے طور پر دے نہیں سکتا۔ تم مٹی کے اس حقیر کھلونے کو ہی احتیاط سے رکھنا۔ یہ تم کو ہر آفت سے بچائے گا۔‘‘

دیپالی ہاتھی کو تکتی رہی۔ پرانے خط۔ تصویریں۔ نشانیاں۔ محبت کرنے والوں کے ٹوٹم ہیں۔ اس نے غم و غصے سے ریحان کے الفاظ دل میں دہرائے۔ بیدکی ایک صندوقچی میں رکھی ہوئی ایک پرانی تصویر بھی تو ٹوٹم ہے۔ تم اسے بھول گئے۔

دوسری رات وہ تاریک دریا پر برستی بارش میں باگھیرہاٹ کی سمت روانہ ہوگئے تھے۔ اس، پہلے روز کے بعد سے ریحان نے شیو نہیں کیا تھا۔ بال بڑھا لیے تھے۔ کھُلنا کے داڑھی دار مچھیرے کا بھیس بدل کر وہ گھپ اندھیری رات کے سمندر میں ایک بار پھر غائب ہوگیا۔ اسی طرح اندھیری راتوں میں سفر کرتا وہ کلکتے پہنچا ہوگا یا جہاں کہیں بھی پہنچا ہو۔ اب اسے معلوم ہوچکا تھا۔ اب تک جو کچھ بھی وہ جانتی تھی انڈر گرائونڈ کے اصل معاملات اس سے بالکل مختلف تھے۔ ایسی پُر خطر زندگی، کون کس پر بھروسہ کرے گا؟۔

’’کیا تمہاری آئیڈیالوجی بھی کہیں ایک اور ٹوٹم تو نہیں؟‘‘
اس نے ہاتھی تکیے کے نیچے سرکا دیا۔ اور لیٹ کر آنکھیں بند کرلیں۔ کچھ دیر بعد اسے نیند آگئی۔

عجیب عجیب شکلوں والے آدمی گھاٹ پر پھر آن کھڑے ہوئے۔ ایسے انسان، جن کے چہرے ہی نہیں ہیں، دریا پر براتیوں سے لدے اسٹیمر بھونپو بجا رہے تھے۔
پالکی چولے… پالکی چولے ہو… ہو… قدموں کی تال کے ساتھ گاتے اگیا بیتال کہاروں نے پالکی لا کر گھاس پر پٹخ دی۔
پالکی خالی ہے۔
جہاں آرا سامنے کھڑی ہے۔

اسٹیمر بھونپو، بجا رہا ہے۔ اسٹیمر چھٹنے والا ہے۔ اسٹیمر کا نام ’’عمر رواں‘‘ اندھیرے میں فاسفورس کی طرح چمکتا ہے۔ ’’عمر رواں‘‘ کیسا بھیانک نام ہے۔ ’’عمر رواں‘‘ نام ایک دم چمک کر غائب ہوگیا۔ اسٹیمر نے چلنا شروع کیا جہاں آراء غائب ہوگئی۔ پالکی خالی رکھی ہے۔

رونا مسلسل رونا۔ رونے کی آواز… دور جاتے اسٹیمر کی سیٹھی سے اُونچی ہوگئی۔ تارا منڈل میں گونجنے لگی۔ دولہا ہاتھی پر بیٹھا ہے۔

صبح ہوگئی… سہانی، ابر آلود، آشاڑھ کی صبح دور تک پھیل گئی۔
باہر باغ میں سے اُڑیہ مالی کی چھوٹی بچی کے رونے کی آواز آرہی تھی۔ جہاں آراء تُو تو یقیناً یہاں تک میرا تعاقب نہیں کرسکتی۔

جہاں آراء۔ میری سکھی۔ میری بہن، میں نے تجھ سے تیرا آدمی چھینا۔ مجھے معلوم نہیں تھا آپا… اب نہیں چھینوں گی۔ واپس کردوں گی۔ مجھے معاف کردینا۔ اس انجانی غلطی کو معاف کردینا آپا۔

’’ارے دیپالی…‘‘ ابانی نے غسل خانے کی طرف جاتے ہوئے حیرت سے پوچھا۔ ’’صبح صبح رو کیوں رہی ہو۔ کیا ہوا؟ گھر پہ تو سب خیریت ہے؟ تم تو بالکل کسی بھیربی کی ایسی ہونق معلوم ہورہی ہو‘‘۔

وہ گھبرا کر اُٹھ بیٹھی۔ اس کا چہرہ اور تکیہ آنسوئوں سے بھیگ چکا تھا۔

’’سب خیریت ہے ابانی…‘‘ اس نے جلدی جلدی آنسو پونچھ کر ناک سنکتے اور بال سمیٹتے ہوئے آہستہ سے جواب دیا۔ اور ذرا آگے جھک کر سنگھار میز کے آئینے میں اپنا عکس دیکھا۔ بھیربی…! بال بکھرائے شیو کی جوگن!! ’’ہر علامت ہرا میجری بے حد بامعنی ہے۔ پیاری بچی‘‘۔ ویشنو بیراگی کا بچہ… ڈیم… ڈیم… ڈیم

اُس نے پلنگ سے پائوں اُتار کر چپلیں اپنی طرف سرکائیں۔
زندگی کی ہر نئی صبح آفاقی رات کے اتھاہ سمندر کے کنارے ایک نیا اجنبی ساحل ہے جس پر ہم اپنے خوشگوار یا اذیت دہ خوابوں کی کشتی سے مسرور یا مغموم، بشاش یا خوفزدہ اُترتے ہیں۔

نیند کی نوکارات کے دریا پر ساری زندگی بہتی رہتی ہے۔ ہم اپنی عمر عزیز کے کئی برس بغیر پتوار کی اس نوکا میں گزار دیتے ہیں۔ عمر رواں کی ہر نئی سبح جب ہم جاگتے ہیں۔ ہمارے خوابوں کی نوکا ایک دم غائب ہوجاتی ہے اور دوسری رات تک کے لیے ہماری منتظر جا کر پھر اپنے ساحل سے لگ جاتی ہے۔ نیند کی پُرسکون یا طوفانی پدما پر خوابیدہ انسانوں کے سپنوں کی اَن گنت نوکائیں رواں ہیں۔ ایک دوسرے کے پاس سے گزر جاتی ہیں۔ ایک دوسرے سے ٹکرا کر ڈوب جاتی ہیں یا کبھی کبھی دو نوکائیں اکٹھی گھاٹ کی سمت بڑھتی ہیں جہاں مقدر کی زینب بی بی اپنے کالے سوکھے مضبوط ہاتھوں میں سُرخ ساری کا بنڈل سنبھالے دلہن کی منتظر ہے۔

چپلیں پیروں میں ڈال کر اُس نے اپنی ریسٹ واچ اُٹھانے کے لیے تکیہ سرکایا اور تب اس کی نظر مٹی کے ہاتھی پر پڑی۔ اس نے ایک لمبا سانس لیا۔ ہاتھی کو اُٹھا کر کھڑکی میں گئی۔ چند لحظوں تک ٹھٹکی رہی۔ پھر ایک دم بڑے زور سے اسے باہر پھینک دیا۔ پل کے پل میں وہ بے چارا کھڑکی کے نیچے اُگی ہوئی برساتی گھاس میں غائب ہوگیا۔ ہاتھی ڈبائو گھاس۔ اس نے مسکرا کر دل میں کہا۔ اور بانہیں پھیلائیں۔ اب میں آزاد ہوں۔ میں ہر جادو ٹونے۔ ٹوٹم، ٹوٹکے، تعویذ اور طلسم کے اثر سے مطلق آزاد ہوں۔ ہُرّے۔

خود کو بے حد ہلکا پھلکا محسوس کرنے کی سعی کرتی ہوئی وہ برآمدے میں چلی گئی۔(جاری ہے)

حصہ