جب گھر ہی نہ رہے

217

بستر پر لیٹے لیٹے ہی میں نے سر گھما کر دیکھا، ڈرپ ختم ہونے والی تھی۔ اسی وقت مستعد اسٹاف نرس نے دروازے سے جھانکا اور ڈرپ بند کردی۔ کچھ دیر میں کینولا بھی نکال دیا اور ٹیپ سے روئی چپکا دی۔ سوئی کی چبھن ختم ہوئی تو میں پُرسکون ہوگئی۔ یکدم خیال آیا کہ میں کتنے آرام سے یہاں لیٹی ہوں۔ یہ خطرہ نہیں ہے کہ کوئی جہاز بم گرا کر اسپتال کو تباہ و برباد کردے گا، ہر طرف چیخ پکار اورآہ و بکا ہوگی، لوگ اپنے پیاروں کو آوازیں دیتے ڈھونڈتے پھر رہے ہوں گے، مرنے والوں میں شدید زخمی بھی ہوں گے اور بہترین ڈاکٹر بھی، جو زخموں پر مرہم رکھتے اور تسلی دلاسے دیتے تھے اب وہ خود بھی نہیں رہے۔

یہاں سفید اجلے بستر پر لیٹے اطراف میں لگی مسیحا مشینوں پر نظر دوڑائی۔ مریض کی ہر ممکنہ ضرورت سے آراستہ کمرہ امید دلاتا تھا کہ بس اب تکلیف دور ہونے والی ہے۔ اور ایک غزہ کے اسپتال ہیں جہاں بے رحم یہودیوں کے حملوں سے زخمی بچے زمین پر پڑے ہیں اور ماں ایک ہاتھ سے ڈرپ پکڑے کھڑی ہے اور دوسرے ہاتھ سے دوسرے بچے کو تھامے ہوئے ہے۔ اس وقت اس کے دل پر کیا گزر رہی ہوگی! لیکن غزہ کے باسی تو عزیمت اور صبر کے کوہِ گراں ہیں، انہیں کسی سے گلہ شکوہ نہیں، وہ ہم سے کچھ نہیں مانگتے۔ وہ رب کو تھامے ہوئے ہیں۔ البتہ وہ مسلمان بہن بھائیوں سے دعاؤں کی درخواست کرتے ہیں۔

عالمِ کفرو شرک ملّتِ واحدہ بنا ہوا ہے۔ ایک مشرک صدر، یہود کی مدد کے لیے خود اسلحے سے بھرا ہوا جہاز پہنچا رہا ہے اور مسلمان حکمران ریت میں سر دیئے بیٹھے ہیں۔ کسی میں غیرتِ ایمانی کی رمق تک نہیں ہے، کسی کے منہ سے یہ بات نہیں نکلی کہ میں اپنی جیبِ خاص سے فلسطینیوں کو مدد پہنچاؤں گا۔

ہمارے ان حکمرانوں سے ہزار گنا بہتر تو ہماری گھریلو ملازمہ سرداراں ہے۔ غزہ میں جنگ چھڑے دس بارہ دن ہوئے ہوں گے، میں نے اُس سے پوچھا ’’سرداراں! تمہیں پتا ہے یہودی مسلمانوں پر حملے کررہے ہیں، اُن کے گھر اور اسکول تباہ کررہے ہیں، معصوم بچوں سمیت ہزاروں لوگوں کو شہید کرچکے ہیں۔‘‘

اُس نے کہا ’’جی باجی! مجھے پتا ہے۔‘‘

اس نے مجھے یہ بتا کر حیران کردیاکہ ’’یہ وہ جگہ ہے جہاں سے ہمارے نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم آسمانوں پر گئے تھے۔ یہ تو ہمارا پہلا قبلہ ہے، اس جگہ کی حفاظت ہم سب پر فرض ہے، ہم خود تو وہاں نہیں جا سکتے لیکن ان کے لیے دعا کرسکتے ہیں، ان کی پیسوں سے مدد تو کرسکتے ہیں۔‘‘

میں نے پوچھا ’’کیا تم سو، پچاس روپے دینا چاہتی ہو؟‘‘

کہنے لگی ’’باجی سو، پچاس میں کیا ہوتا ہے، میری تنخواہ سے 500 روپے بھجوا دینا۔‘‘

ذرا اندازہ کیجیے میرے گھر سے ملنے والے کُل پانچ ہزار روپوں میں سے وہ کتنے اخلاص کے ساتھ ایک حصہ اہلِ غزہ کو پیش کررہی ہے۔ افسوس یہ اربوں کے اثاثے رکھنے والے حکمران خدا کو کیا منہ دکھائیں گے!

اس خیال کے آتے ہی ذہن میں ایک جھماکا سا ہوا، ہم اگر اپنے گھریلو بجٹ میں سے ضروریات نہیں بلکہ تعیشات میں ہی کٹوتی کرلیں تو بہت کچھ اپنے فلسطینی بہن بھائیوں کو پیش کرسکتے ہیں۔ ایثار کرلیں، تھوڑے کم معیار کی چیز خرید لیں مثلاً من پسند مہنگی برانڈڈ اشیا کے بجائے مقامی اشیا استعمال کرلیں، کبھی مقدار میں کمی کرکے ایثار کی مثال بن جائیں، مثلاً اِس سال پیٹیاں بھر بھر آم خریدنے کے بجائے جب دل چاہے چند کلو لے لیں اور بقایا بچت کو محفوظ کرلیں۔ اپنی اس بچت کو فوری طور پر اخراجات سے الگ کرکے ایک لفافے میں جمع کریں ورنہ یہ گھر ہی میں خرچ ہوجائیں گے، اور اللہ کی رضا کے لیے اہلِ فلسطین کی نذر کردیں۔ مشروبات اور گھریلو استعمال کی بیشتر اشیا ایسی ہیں جو مہنگی ہیں اور جن کی کمپنیاں اسرائیل کی معاونت بھی کرتی ہیں، ہم ان کے نعم البدل استعمال کرلیں اور معیار پر سمجھوتا کرلیں۔ دنیا ہی سب کچھ نہیں، اس طرح مومن کے لیے اللہ کے پاس جو کچھ ہے ہم اسے حاصل کرسکیں گے۔

سوچ کا سلسلہ جاری رہا اور یوں محسوس ہوا کہ کراچی کی 3 کروڑ آبادی میں سے اگر دس فیصد لوگ بھی اس انداز میں کوشش کریں اور اپنے بجٹ میں سے 8 یا 10 فیصد کی گنجائش نکال سکیں تو بات کہاں پہنچے گی۔ میں اپنی بیماری کو بھول کر اسی حساب کتاب میں لگی تھی کہ میرا بیٹا کمرے میں داخل ہوا اور اسپتال سے چھٹی ہوجانے کی خوش خبری سنائی۔

اسپتال کتنا ہی جدید اور آرام دہ ہو مگر گھر جانے کی خوشی الگ ہی ہوتی ہے… لیکن میری تو آنکھوں میں آنسو آگئے اور میں دوبارہ غزہ کی وادی میں پہنچ گئی۔ میں تو اپنے آرام دہ گھر میں واپس چلی جاؤں گی اور میرے مظلوم بھائی بہنیں جن کا بے سر و سامانی میں کسی طور کچھ علاج ہو بھی جائے تو گھر ہی کہاں رہا جہاں واپس جا سکیں۔ وہ تو بس اب جلی ہوئی دیواروں، سریے اور ملبے کے ڈھیر میں بدل چکے ہیں …اللہ اکبر۔

جب جنگ سے محفوظ ممالک کے حکمرانوں اور آسودہ حال عوام سے انواع و اقسام کے کھانوں اور پُرتعیش رہائش گاہوں کے بارے میں سوال کیا جائے گا تو بھلا ان کے پاس کیا جواب ہوگا؟
nn

حصہ