مصعب ایک چھوٹا سا پیارا سا بچہ تھا اس کو بکرے اور گائے دیکھنے کا بہت شوق تھا وہ اپنی امی سے ہر وقت بکرے اور گائے کی کہانیاں سنتا رہتا تھا اب بقرعید قریب آنے والی تھی تو اس نے اپنے دادا ابو سے کہا ” دادا ابو جلدی سے بکرے لے آئیے گا“۔
دادا ابو نے اس کا شوق دیکھتے ہوئے چاند ہوتے ہی بکرے لے آئے ابھی بقرعید آ نے میں نو دن باقی تھے مصعب بہت خوش تھا اس نے بکروں کے ساتھ بہت کھیلا ان کو پانی پلایا ، گھاس کھلائی۔ اور رات کو جب تھک گیا تو اوپر آگیا۔صبح اٹھتے ہی اس نے دونوں پھپو کو فون کر دیا اور احمد ، علی ، یوسف اور عفان کو بھی بتا دیا کہ ان کے گھر بکرے آگئے ہیں بچوں نے جب سنا کہ نانا ابو بکرے لے کر آگئے ہیں تو وہ سب بھی اپنے نانا کے ہاں آگئے۔اب بچے تھے اور بکرے تھے مصعب کیونکہ چھوٹا سا تھا اس لیے دادا ابو مصعب کے لیے بغیر سینگ والا بکرا لائے تھے ۔ شام ہوئی تو سب بچے پکڑوں کو ٹہلانے نکل گئے۔ شام سے رات تک سب بچے بکروں کے ساتھ ہی رہے سب کو بہت مزہ آ رہا تھا کوئی بچہ بھی واپس اوپر آنے کے لیے تیار نہیں تھا ، رات زیادہ ہو گئی تو نانو نے سب بچوں کو ڈانٹ کر اوپر بلایا اور کہا۔
”چلو اب آ کر سو جاؤ ورنہ میں بکروں کے ساتھ ہی باندھ کر سلا دوں گی ۔“
جب سب بچے اوپر آ گئے ماموں اور نانا سب بکروں کو باندھنے لگے مصعب بھی دادا ابو کے ساتھ تھا اچانک مصعب کا بکرا رسی چھڑا کر بھاگا اور سیڑھیاں چڑھ کے اوپر اگیا ۔مصعب گھبرا کر رونے لگا ۔ ابھی بچے سب اوپر ہی آئے تھے تو دروازہ کھلا ہوا تھا بکرا گھر کے اندر آ گیا۔ آپی نے بکرے کو اس طرح اندر آتے دیکھا تو زور سے چیخ ماری اور تخت کے اوپر چڑھ گئی ۔ سب بچوں نے ان کو چیخ مارتے دیکھا تو وہ بھی ادھر ادھر بھاگنے لگے بکرا ایک دم گھبرا گیا اور اس کی سمجھ نہیں آیا کہ وہ کہاں جائے وہ سب بچوں کے کمرے میں گھس گیا اب بچے آگے آگے اور بکرا پیچھے پیچھے پورے گھر میں گڑبڑ بچ گئی ماموں جلدی سے اوپر آئے اور انہوں نے بکرے کی رسی پکڑی اور اس کو واپس نیچے لے جا کر باندھ دیا اب سب بچوں کی جان میں جان آئی اور ایک دوسرے کو دیکھ کر ہنسنے لگے کہ ہم ڈرنے کیوں لگے تھے۔ اور اس طرح سب باتیں کرتے کرتے سوگئے کیونکہ صبح صبح ان کو دوبارہ بکروں کو ساتھ لے کر جانا تھا۔