کوک اور سوشل میڈیا

319

کیا سافٹ ڈرنک بھی سیاسی ہوتا ہے؟ جی ہاں۔ ’برگر ‘ اور ’ بروسٹ‘ کے بعد جان لیں کہ یہ ’’چینی سے بھری دکان ‘‘یعنی سافٹ ڈرنک بھی مکمل سیاسی ہوگئی ہے۔ ویسے غور کریں تو یہ تینوں یعنی ’برگر‘ ۔ ’بروسٹ‘ اور’سافٹ ڈرنک‘ کبھی ہمارے تھے ہی نہیں ۔ ان تینوںنے ہماری معاشرت پر کیا اثرات ڈالے یہ الگ موضوع ہے۔ مگر یہ ہمارا موضوع نہیں ۔ ہمارا موضوع ’سیاسی کولا‘ یعنی ایک ’مشروب‘ کا ’سیاسی ‘ ہوجانا ہے۔جیسے کہا جاتا ہے کہ نائن الیون کے بعد دنیا ایک نئی تقسیم کے دور میں داخل ہوئی۔ ٹھیک اسی طرح ہمیں یہ لگ رہا ہےکہ 7 اکتوبر کے بعد مزید لکیریں کھنچ گئی ہیں۔ امریکہ، اسرائیل ، بھارت ، فرانس، برطانیہ سمیت بہت سوں کے چہرے اُن کے دعوؤں کے برخلاف سامنےآئے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں اَب کوئی ’برگر‘ ، ’سافٹ ڈرنک‘ بھی نیوٹرل نہیں رہی۔ سوشل میڈیا پر مستقل اس ہفتے بھی پاکستان کے کئی شہروں میں غیر ملکی مصنوعات و برانڈز کے باہر احتجاج اور عوام کو اِس کی اہمیت سمجھانے کی کئی وڈیوز گردش کرتی رہیں۔ بائیکاٹ مہم کی صورتحال پاکستان میں بھی جاری ہے۔ آج ہی سوشل میڈیاپر یہ تصویر نظر آئی ، جس میں ایک متنازعہ کمنپی کے فرج واپس جا رہے تھے۔یہاں تک کہ ٹی ٹوئنٹی کرکٹ ورلڈ کپ میں ’پیپسی‘ کا اشتہار دیکھ کر بھی لوگوں نے میچ دیکھنے کے بائیکاٹ کا اعلان کیا۔ وہ الگ بات ہے کہ پاکستانی ٹیم ’پیپسی‘ کے بوجھ تلے کوئی کار کردگی نہ دکھاسکی۔جب سوشل میڈیا پر خون میں ڈوبے برگر اور گولیوں کے ساتھ منسلک کوکا کولا کی بوتل دکھائی جاتی ہے تو پیغام بہت زور سے منتقل ہوتا ہے۔ ہم نے کچھ ماہ قبل ایسی بائیکاٹ کی وڈیوز کا اثرات کا ذکر بھی کیاتھا ۔میڈیا بے شک انسانی ذہن کو کنٹرول کرتا ہے مگر کبھی کبھی پلٹا بھی مار دیتا ہے۔ ہم نے دیکھا ہے کہ اگر ایک وڈیو آپ کو کسی چیز کے زہریلے اثرات چھپا کر ، بس مزے کی لت لگا کر کوئی مشروب پینے پر مجبور کر دیتی ہے تو ایک اوروڈیو یا وہی وڈیو کبھی الٹ رد عمل دے کر آپ کو وہ پینے سے روک بھی دیتی ہے ۔

کوک کاشور:
کوکا کولا کمپنی 1886 میں اٹلانٹا، جارجیا میں جان سٹیتھ پیمبرٹن نے قائم کی تھی۔یہ دنیا کی سب سے بڑی مشروبات کمپنیوں میں سے ایک بن گئی ہے.500 سے زیادہ برانڈز تیار کرتی ہے اور 200 سے زیادہ ممالک میں فروخت کرتی ہے۔کوکا کولا نے بڑا مہنگا تحقیقی قسم کا اشتہار بنگلہ دیش کے عوام کے لیے بنایا اور 9 جون کو سوشل میڈیا پر لانچ کیا ۔اب جس جس غیرت مند انسان نے وہ اشتہار دیکھا تو بجائے کوک فروخت ہونے کے الٹا ہی رد عمل آگیا۔60سیکنڈ کے اشتہار سے غیرت مند وں کی تعداد خاصی بڑھ گئی تو رد عمل بھی شدید ہوگیا۔ کوک والوں کی تو حالت خراب ہوگئی انہوں نے یوٹیوب چینل سے اُس کو چھپا لیاگیا ۔اندازہ کرلیں کہ یہ رد عمل اسکو ایک ماڈرن سیکولر ملک میں ملا ہے جہاں وہ 50 سال سے مستقل ذہن سازی کر رہا ہے۔اس ذہن سازی کا عالم یہ ہے کہ کوکا کولا نے بنگلہ دیش میں اپنی بوتل پر نام بھی ’’بنگلہ ‘‘زبان میں ہی لکھا ہے۔خیر کوکا کولا نے کمنٹ کرنے کی پابندی لگا کر اسکو دوبارہ سوشل میڈیا پر ڈال دیا۔کمنٹ سے روکنے کا مطلب واضح تھا کہ ’کوکا کولا‘آپ سے اپنی وڈیوپر تبصرہ کرنے کا حق چھین چکا ہے اور صرف یکطرفہ بہاؤ چاہتا ہے۔رد عمل کا عالم اتنا شدید تھا کہ ہدایت کار و اداکار سمیت سب کو معافی کی سطح پر آنا پڑگیا۔اشتہار میں بنگلہ دیش کے 2معروف اداکاروں نے کام کیا جس میں ایک تو ہدایتکار بھی تھا ،اُس نے وضاحت پیش کری کہ وہ تو ’’انسانیت‘‘ کا بڑا حامی ہے، اشتہار میں اپنی شرکت کا دفاع کرتے ہوئے کہا کہ انہیں کوکا کولا کی ایجنسی نے جومعلومات د ی اُس کی بنیاد پر ہدایت کاری اور کام کیا تھا۔ اس اشتہار نے سوشل میڈیا پر مشروب کی عالمی سطح پر بدنامی ، بنگلہ دیش میں بائیکاٹ کی لہر کو مضبوط کرنے ، ڈائیوسٹمنٹ تحریک کو متحرک کرنے کے موضوعات چھیڑ دیے۔یہ ٹھیک ہے کہ اشتہار مکمل بنگلہ زبان میں تھا ، اسکے سامعین و ناظرین بنگلہ جاننے والے تھے لیکن سوشل میڈیا کی بدولت اب اسکے اثرات مزید پھیل چکے ہیں ۔ہم اسکو اردو میں ڈسکس کر رہے ہیں، الجزیرہ اسکو انگریزی اورعربی میں پیش کر چکا تو اندازہ کریں کہ اسکا دائرہ کہا ں تک پھیل گیا ہے۔

اشتہارکیا کرتا ہے:
کوکا کولا و دیگر مشروبات کے عمومی اشتہار جو ہوتے تھے ،،اُن سب میں اس مشروب کو کھانے کے ساتھ یا کھانے کےبعد ’محض مزے‘ کے نام پر پینے کی ترغیب دی جاتی تھی۔زیادہ سے زیادہ یہ ہوتا کہ کسی مشہور شخصیت سے یہ بات کہلوا دیتے تھے۔ دھندا چل رہا تھا، خوب چل رہا تھا، لوگ بے وقوف بن کر زہر پیئے جا رہے تھے۔دنیا بھر کے ڈاکٹر لاکھ وڈیوز ڈالتے رہے کہ خدارا یہ زہر ہے مت پیا کرو، مگر لوگ جھوٹے اشتہار کے مزوں میں گم رہے اور موت کے منہ میں جانے تک پیتے ہی رہے۔کوکا کولا نے اس کے ساتھ جنوبی ایشیا ئی ممالک میں ’’کوک اسٹوڈیو‘‘ کے نام سے بھی ایک مہلک ایمان و اخلاق مہم بھی شروع کر رکھی ہے ۔ تبھی تو ہم کہتے ہیں کہ مشروب بھی سیاسی ہے۔خیر ان کا دھندا ٹھیک ٹھاک چل رہا تھا۔مگر 7 اکتوبر 2023 کے طوفان الاقصیٰ نے ایک عجیب بریک لگا دیا۔

میرے لیے یہ غیر ضروری ہے کہ بنگلہ دیش میں کوئی لوکل سافٹ ڈرنک ہے یا نہیں۔ اہم یہ ہے کہ کوکا کولا کی فروخت23 فیصد نیچے آگئی۔یہ بڑی کمپنی والے لاکھوں کروڑوں روپے دے کر مارکیٹنگ ماہرین رکھتے ہیں جو ان کی فروخت کو بڑھانے کے لیے جتن کرتے ہیں ۔کمپنی نے ملک میں اپنی اشتہاری مہم بڑھائی، پورے پورے صفحے کے اخباری اشتہارات سے لے کر نیوز ویب سائٹس پر نمایاں جگہوں تک جگہ لیں۔کمپنی کو لگا کہ ہمیں بائیکاٹ مہم میں سے کوکا کولا کو باہر نکالنا ہوگا،اس کام کے لیے انہوں نے پھر وڈیو اشتہار کی مدد لی جو کہ گلے پڑگئی۔وہ کہتے ہیں کہ اشتہار کا مقصد بس یہ بتانا تھا کہ ’’کوکا کولا یہیں بنگلہ دیشی ہی ہے اور اس ’’تاثر‘‘ کو دور کرنا تھا کہ کوکا کولا اسرائیلی پروڈکٹ ہے۔اس کی دلیل انہوں نے اشتہار میں ڈالی وہ یہ تھی کہ ’’ 138 سالوں سے 190 ممالک میں لوگ کوک پی رہے ہیں۔‘‘

اب آئیے ذرا کوکا کولا کی عظیم تحقیق اورباریک کام دیکھتے ہیں ۔

اشتہار کی زبان:
بنگالی زبان میں نشر ہونے والا یہ اشتہار ایک محلے کے دکاندار و گاہگ کے درمیان مکالمہ ہے جو آپس میں اچھے واقف کار بھی ہیں۔دکاندار اپنے موبائل پر کوک اسٹوڈیو کا گانا دیکھ رہا ہے، ایک نوجوان گاہگ دکان پر آتا ہے اورشدت گرمی کا اظہارکرتا ہے ۔پسینے میں شرابور گاہک کی طرف ٹیبل فین موڑتے ہوئے دکاندار پوچھتا ہے کہ “کیسے ہو سہیل؟ کیا میں آپ کو کوک کی ایک بوتل دوں؟

نوجوان جواب دیتا ہے : “نہیں ببلو بھائی، میں اب یہ چیزیں نہیں پی رہا ہوں۔”دکاندار وجہ پوچھتا ہے تو نوجوان کہتا ہے: ’’یہ سامان اُس جگہ کا ہے۔‘‘

اب یہاں وہ “جگہ” کا نام نہیں لیتا لیکن یہ سب پر واضح ہے کہ وہ کیا کہہ رہا ہے۔دکاندارپوچھتا ہے تمہیں کس نے یہ بات بتائی ، سہیل اپنے دوست سلطان کا حوالہ دیتا ہے ۔اگلےمنظر میں ببلو دکاندار سلطان سے پوچھتا ہے کہ تم نے سہیل کو بتائی ’’ وہ جگہ ‘‘ ۔ تو سلطان جواب دیتا ہےکہ یہ تو بشر نے بتائی تھی ۔اب دکاندار کیمرے کی جانب مخاطب ہوکر بتاتا ہے کہ ’’سہیل کو بتائی سلطان نے، سلطان کو بشر نے اوربشر کو بھی کسی نے ‘‘۔تو اب دکاندار اگلے منظر میں تینوں کو اپنی دکان کے سامنے سمجھاتا ہے کہ ،’’’’سنو، کوک اس جگہ سے نہیں ہے۔ گزشتہ 138 سالوں سے 190 ممالک میں لوگ کوک پی رہے ہیں۔ وہ اسے ترکی، اسپین اور دبئی میں پیتے ہیں۔ یہاں تک کہ فلسطین میں بھی کوک کی فیکٹری ہے۔‘‘ یہ سن کر سہیل ،کندھے اچکاتا ہوا خاص چہرہ بناتاہے، جیسے اسکو لگا کہ کوئی اسکو بے وقوف بنا رہا تھا۔اس لیے وہ آواز مانگ کر کوک کی بوتل مانگ لیتا ہے ۔اورسب یہ بوتل پینے لگتے ہیں۔

سماجی میڈیا رد عمل:
اشتہار میں بےشک ترغیب دی گئی مگر عوام نے بوتل پینے کے بجائے الٹی کر دی ۔اندازہ کریں کہ یہ کمرشل سب سے پہلے بنگلہ دیش میں ہندوستان پاکستان ٹی ٹوئنٹی کرکٹ میچ کے دوران نشر کیا گیا تھا ۔جیسے ہی یہ نشر ہوا، غم و غصہ آن لائن اور آف لائن ظاہر ہونا شروع ہو گیا، بہت سے بنگلہ دیشیوں نے اشتہار کی “غیر حساسیت” اور غلط کاری کی مذمت کی۔دارالحکومت ڈھاکہ کی ایک یونیورسٹی کی غیرت مند طالبہ نے اس پر تبصرہ کرتے ہوئے کہا، ’’اگر شرمندگی اور جرم چھپانے کا کوئی لفظی چہرہ ہے ، تو یہ اشتہار ہوگا۔‘‘ اگر اس اشتہار سے کوک کی فروخت کو نقصان نہیں پہنچے گا تو مجھے نہیں معلوم کہ پھر مزید کس سے نقصان ہوگا۔

ڈھاکہ کے علاقے میرپور سے تعلق رکھنے والے ایک غیرت مند تاجر حسن حبیب نے کہا کہ غزہ پر اسرائیل کے تباہ کن حملے کے بعد سے انہوں نے کوک کا بائیکاٹ کیا ہوا ہے۔ انہوں نے اشتہار کے بارے میں کہا، “اشتہار سے یہ بتانے کی کوشش کہ کوک کا اسرائیل سے کوئی تعلق نہیں ہے، اس کا بائیکاٹ جاری رکھنے کے لیے مجھے مزید مضبوط کرنے کا سبب بنی ہے۔”بنگلہ دیش میں ایک آن لائن جوتوں کی دکان نے احتجاج کے طور پر ایک اشتہار جاری کیا، جس میں دکھایا گیا تھا کہ کوک کی بوتل کو ایک شخص اُس کے جوتے پہن کرلات مار رہا ہے۔بنگلہ دیش کی نارتھ ساؤتھ یونیورسٹی میں مارکیٹنگ کے لیکچرر عمر ناصف عبداللہ نے الجزیرہ کو بتایا کہ کوکا کولا کے اشتہار سے ظاہر ہوتا ہے کہ کمپنی “لوگوں کی نبض پڑھنے میں ناکام رہی اور ناقابل معافی غلطی ہے”۔ممتاز مصنف فیض احمد طیب نے اداکار کے جواز پر تنقید کرتے ہوئے کہا کہ اداکاروں کو اشتہارات میں حصہ لینے سے پہلے اسکرپٹ کی درستگی کی تصدیق کرنی چاہیے۔

جیسے جیسے ردعمل بڑھتا گیا، کوکا کولا نے منگل کو بغیر کسی وضاحت کے اپنے یوٹیوب اور فیس بک کے صفحات سے تقریباً پانچ گھنٹے کے لیے کمرشل ہٹا دیا۔ شام کو، اشتہار خاموشی سے واپس کر دیا گیا، لیکن ناراض پیغامات کی آمد کی وجہ سے دونوں پلیٹ فارمز پر کمنٹس سیکشن کو غیر فعال کر دیا گیا۔تاہم، ٹی وی پر اشتہارات بدستور جاری ہیں۔الجزیرہ نے بنگلہ دیش میں کوکا کولا کے متعدد عہدیداروں سے ان کے اشتہار پر ہونے والے غم و غصے پر موقف کے لیے رابطہ کیا، لیکن انہیں کوئی جواب نہیں ملا۔

بائیکاٹ:
اشتہار کا سب سے خطرنا ک جملہ یہ تھا کہ ’’فلسطین میں بھی کوک فیکٹری ہے‘‘۔ اس نے توغیرت مند لوگوں کو مزید بھڑکا دیا۔اب حقیقت کیا ہے یہ بھی جان لیں، کوکا کولا کی فیکٹری مقبوضہ مغربی کنارے میں واقع ہے، جو ایک اسرائیلی بستی ہے ، بین الاقوامی قوانین کے تحت اس جگہ فیکٹری بنانا غیر قانونی سمجھا جاتا ہے۔

کوکا کولا ، مسلم معاشرت میں پہلی بار زیر عتاب نہیں آیا۔ اس کے نام اور انگریزی میں بنائے گئے لوگو کے بارے میں ہم بچپن سے ہی ہمیشہ سے سنتے آئے ہیں کہ اس کے نام کا مطلب عربی میں ’’ لا مکہ لا محمد‘‘ ہے ۔ مجھے یاد نہیں کہ میں نے کبھی اپنی زندگی میں پھر اس کو خریدا ہو ۔پیپسی کے نام کے بارے میں بھی ایسا ہی کہا گیا کہ وہ ’اسرائیل کو بچانے کے لیے ہے‘ ۔اب 2024 میں تو یہ ساری باتیں بہت واضح ہوکر سامنے آ چکی ہے۔خیر ہم تو اس کو تیزابی مادوں، کیفین، سوڈیم بینزوئیٹ ، فوڈ کلر ، چینی یعنی کار بن کی بہتات کی وجہ سے ہی ناقابل استعمال قرار دیتے ہیں ، جو اسے کامل زہر بنا دیتے ہیں،پھر خود سے زہر خریدنے اور پینے کی کوشش خودکشی یعنی حرام موت کا سبب ہے۔تو دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں کے ساتھ آپ بھی شعوری بائیکاٹ مہم کا حصہ بن جائیے۔

حصہ