قناعت و شکر گزاری کا اظہار صرف زبان سے نہیں بلکہ عملاً کرنا چاہیے۔ ہم میں سے اکثر لوگ بظاہر صبر و شکر کرنے کا اظہار وقتاً فوقتاً کرتے رہتے ہیں لیکن جب صحیح معنوں میں اس کا وقت آتا ہے تو اپنے ہی زبانی وکلامی اقوال پر پورا اترنے سے قاصر رہتے ہیں۔
یاد رکھیں ہر شخص دنیا میں وہی کچھ پائے گا جو اس کے نصیب میں لکھ دیا گیا ہے۔ موجودہ دور میں بے چینی، ذہنی تنائو اور اضطراب کی سب سے بڑی وجہ اللہ کی طرف سے دی گئی نعمتوں کی ناشکری، اور لامتناہی خواہشات کا پورا نہ ہونا ہے۔ آج کی نوجوان نسل کو قناعت، صبر و شکر جیسی اسلامی اور اخلاقی اقدار کے بارے میں معلوم ہونا بے حد ضروری ہے۔
شکر اور شکر گزاری کا حکم قرآن مجید میں تقریباً 75 مقامات پر مختلف انداز میں آیا ہے اور اس کی بڑی فضیلت ہمیں قرآن وسنت سے معلوم ہوتی ہے۔
شیطان ہر موقع پر اس کوشش میں رہتا ہے کہ وہ انسان کو ناشکرا بنائے، اسی لیے وہ اُن تمام نعمتوں کو انسان سے بھلائے رہتا ہے جو انسان کے نصیب میں ہوتی ہیں، اور اُن چند نامیسر ہونے والی چیزوں کی یاد دلاتا رہتا ہے۔ اس طرح وہ انسان کو مایوسی اور دکھ میں مبتلا رکھتا ہے تاکہ بندہ اپنے غم کو سینے سے لگائے رکھے اور رب کی رحمتوں سے مایوس رہے۔ لہٰذا اپنی کسی محرومی کا احساس ہونے لگے تو ضرور اپنی نعمتوں کو شمار کریں۔
ناشکری دراصل شیطان کی اطاعت گزاری ہے اور انسان کو اس سے بچنے کی ضرورت ہے۔ اسی طرح پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت پر نظر ڈالیں تو معلوم ہوگا کہ آپؐ ہر حال میں اللہ کا شکر ادا کرنے والے تھے۔ آپؐ کی دن بھر کی دعاؤں کا اگر جائزہ لیا جائے تو وہ اسی جذبے کے اظہار پر مشتمل نظر آتی ہیں۔
اسی طرح آپؐ کی حدیث کا مفہوم ہے کہ بندۂ مومن کا معاملہ بھی عجیب ہے، اس کے لیے ہر حال میں خیر ہی خیر ہے۔ اگر اسے راحت پہنچے تو اس پر وہ اپنے رب کا شکر گزار ہوتا ہے، اور اگر اسے کوئی تکلیف یا رنج پہنچے اور وہ اس پر صبر کرلے تو یہ اس کے لیے باعثِ خیرو برکت ہے۔
پچھلی دو دہائیوں میں نفسیات کے میدان میں انسانی جذبات واحساسات کو سمجھنے پر خاصی تحقیق ہوئی ہے اور اس موضوع پر لکھی گئی کتابیں اس بات کی دلیل ہیں کہ یہ ایک اہم انسانی صفت ہے جسے ماہرینِ نفسیات اور فلاسفرز مختلف انداز میں بیان کرتے ہیں۔ ’’سیلف ہیلپ‘‘ پر کئی کتابیں لکھنے والی مصنفہ میلوڈی بیٹی کے مطابق ’’شکر گزاری ماضی کو قابلِ فہم، آج کو پُرسکون اور آنے والے کل کو مقاصد تخلیق کرنے کے قابل بناتی ہے۔‘‘
اسی طرح ایک فرانسیسی جرنلسٹ اور ناولسٹ شکر گزاری کے تحت زندگی کو مثبت انداز میں دیکھنے کے عادی ہیں اور کہتے ہیں کہ ’’کچھ لوگ شکایت کرتے ہیں کہ گلاب کے پھول کے ساتھ کانٹے ہوتے ہیں، جب کہ میں اس بات کا شکر ادا کرتا ہوں کہ کانٹوں کے ساتھ گلاب ہیں۔‘‘
یاد رکھیں شکایات اور لامتناہی خواہشات کی موجودگی انسان کی خوشیوں اور سکون کے لیے زہر قاتل ہے، جب کہ شکر کا اظہار نہ صرف ہماری جسمانی صحت، طاقت اور اعتماد کو بڑھاتا ہے بلکہ ہمارے روزمرہ کے معاملات اور تعلقات کو بھی خوب صورت بناتا ہے۔
شکر گزار بننے کے لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث پر عمل کرلینا ہی کافی ہے۔ حضرت ابوہریرہ رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے روایت ہے کہ آپؐ نے ارشاد فرمایا ’’دنیا کے معاملے میں اُس کو دیکھو جو تمہارے نیچے ہے، اُس کو نہ دیکھو جو تمہارے اوپر ہے۔ اس طرح تم اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو حقیر نہ سمجھو گے۔‘‘ (ترمذی)
یعنی اگر آدمی اپنا مقابلہ اُس شخص سے کرے جو بظاہر اُس کو اپنے سے کم نظر آتا ہے تو اُس کے اندر شکر کا جذبہ پیدا ہوگا۔ اِس کے برعکس اگر آدمی اپنا مقابلہ اُس شخص سے کرے جو بظاہر اسے اپنے سے زیادہ دکھائی دیتا ہے تو اُس کے اندر ناشکری کا احساس ابھرے گا۔
شکر گزار بننے کے لیے صرف انسانی کوشش ہی کافی نہیں بلکہ دعا کو بھی اپنے معمول کا حصہ بنانے کی ضرورت ہے۔ دعا کرنے سے اللہ کی مدد شاملِ حال ہوجاتی ہے اور پھر اس کام کو انجام دینا مشکل نہیں رہتا۔
nn