عالمی و علاقائی پریس کی نظر میں
بھارت کے عام انتخابات کو دنیا بھر میں الگ الگ طریق سے دیکھا اور سمجھا گیا ہے۔ ایک بات تو طے ہے، اور وہ یہ کہ دنیا نے سمجھ لیا ہے کہ مودی کا جادو کمزور پڑچکا ہے۔ اہلِِ ہند سمجھ گئے ہیں کہ تمام معاملات نریندر مودی اور بھارتیہ جنتا پارٹی کے ہاتھ میں دینا انتہائی خطرناک ثابت ہوگا۔
چین میں سرکاری کنٹرول والے اخبار ’گلوبل ٹائمز‘ نے بھارتی پارلیمنٹ کے ایوانِِ زیریں لوک سبھا کے انتخابات اور انتخابی نتائج پر تبصرے اور رپورٹنگ میں کہا کہ نریندر مودی کی یہ خواہش اب شاید کبھی پوری نہ ہوسکے گی کہ کسی نہ کسی طور مینوفیکچرنگ سیکٹر میں چین کے برابر آنے کی کوشش کی جائے۔ خطے کے اندر اور باہر کے اخبارات نے بھارتی انتخابات کو مختلف انداز سے دیکھا اور پرکھا ہے۔ آئیے، دیکھتے ہیں کہ کس نے کیا دیکھا اور کیا سمجھا۔
بیشتر نیوز اور میڈیا آؤٹ لیٹس نے لکھا کہ نریندر مودی کی تمام توقعات پوری نہ ہوئیں اور لینڈ سلائیڈ یا سوئپنگ قسم کی فتح نصیب نہ ہوسکی۔ امریکا کے نیویارک ٹائمز سے ملائشیا کے دی اسٹار تک کم و بیش تمام ہی اخبارات نے لکھا کہ نریندر مودی تیسری بار بھی وزیراعظم تو بنیں گے مگر اُن کی طاقت وہ نہیں ہوگی جو وہ چاہتے تھے، اور یوں وہ تمام معاملات پر اپنی گرفت بھی مضبوط نہیں رکھ سکیں گے۔
چین کے گلوبل ٹائمز نے بی جے پی کی نشستوں کی تعداد میں کمی کو نریندر مودی کی طاقت میں کمی سے تعبیر کرتے ہوئے یہ رائے دی ہے کہ وہ بھارت کے معیشتی ارتقا میں خاطر خواہ کردار ادا کرنے کے قابل نہیں رہیں گے۔ اس کا مطلب یہ ہوا کہ وہ بھارت میں کاروبار کے ماحول کو بہتر بنانے میں کامیاب نہ ہوسکیں گے۔
نیویارک ٹائمز نے لکھا ہے کہ مودی کو اب مدد کی ضرورت ہے۔ اخبار نے بھارتی جمہوریت کو سراہا تو ہے مگر ساتھ ہی ساتھ یہ بھی کہا ہے کہ لوگ اب کسی ایک پر تکیہ کرنے کی ذہنیت سے دور ہورہے ہیں۔ بی جے پی کی قیادت میں نیشنل ڈیموکریٹک الائنس نے کامیابی ضرور حاصل کی ہے مگر اُسے اپوزیشن کی طرف سے اب ٹف ٹائم ملنے والا ہے۔ اپوزیشن نے 232 نشستوں کے ساتھ ایوان میں اپنی پوزیشن خاصی مضبوط کرلی ہے۔ ایسے میں اُس کی آواز دبانا اور اپنی مرضی کے مطابق چلنا آسان نہ ہوگا۔ نیویارک ٹائمز لکھتا ہے کہ ایگزٹ پول اور ماہرین کی رائے سے کچھ اندازہ نہ ہوتا تھا کہ اپوزیشن اتنی بہتر پوزیشن میں آجائے گی۔ اس اعتبار سے بیرونی میڈیا کو بھارتی انتخابات کے نتائج بہت حیران کن لگے ہیں۔
نیویارک ٹائمز مزید لکھتا ہے کہ نریندر مودی کو اب اقتدار میں رہنے کے لیے مدد کی ضرورت ہے، مگر ایک بڑا مسئلہ یہ ہے کہ وہ اب بھی یہ سمجھتے ہیں کہ وہ ناقابلِ تسخیر ہیں۔ اخبار لکھتا ہے کہ بی جے پی حکومت تو کرے گی مگر سب کچھ ایسا آسان نہ ہوگا۔ بی جے پی بھی اتحادیوں کی مدد سے حکومت کرے گی۔ اُسے اتحادیوں کو ہر حال میں خوش رکھنا ہوگا۔ اس بار انتخابات ایک ایک نشست پر لڑائی سے تعبیر رہے ہیں۔ اِس سے اندازہ ہوتا ہے کہ بھارت کے عوام کا ذہن کتنا بدل چکا ہے۔
لندن کا اخبار دی ٹائمز لکھتا ہے کہ بھارت کے عام، غریب آدمی نے موقع ملتے ہی بی جے پی پر وختا ڈال دیا ہے۔ اس نے بی جے پی کو واضح اکثریت نہ دے کر این ڈی اے میں شامل جماعتوں پر انحصار پر مجبور کیا ہے۔ ایسے میں بی جے پی کو ہر اقدام سوچ سمجھ کر کرنا ہوگا۔
دی ٹائمز نے مزید لکھا ہے کہ مودی کے لیے انتخابات ایک جاں گُسل مرحلہ تھے کیونکہ اُنہیں اپنی پارٹی کی فتح کے لیے تمام ہی اتحادیوں سے بہت مل کر چلنا پڑا۔ ایسا نہیں تھا کہ بی جے پی مٹی میں ہاتھ ڈال کر سونا نکال سکتی تھی۔ سونا نکالنے میں اتحادیوں نے کلیدی کردار ادا کیا۔ اب بدلے میں وہ بھی کچھ نہ کچھ چاہیں گے۔ کیا بھارتی معیشت اور عوام ایسی کوئی کیفیت برداشت کرسکیں گے؟ اخبار لکھتا ہے کہ انتخابی نتائج کے اعلان کے بعد مودی کے لیے لازم ہوگیا کہ اتحادیوں کو زیادہ سے زیادہ اعتماد میں لیں۔ بی جے پی اس وقت مجموعی طور پر اِتنی مضبوط پوزیشن میں نہیں کہ اتحادیوں کے بغیر حکومت بناسکے۔ یہ سب کچھ کانگریس کے حق میں جاتا ہے اور وہ ذہانت سے پتے کھیلے تو صورتِ حال سے بھرپور فائدہ اٹھا سکتی ہے۔
جرمن نشریاتی ادارے ڈوئچے ویلے نے بھارت کے انتخابی نتائج کو نریندر مودی کے لیے دھچکے سے تعبیر کیا ہے۔ ادارے نے اپنی مرکزی خبر کی سُرخی میں لکھا کہ وزیراعظم مودی کو جھٹکا لگ چکا ہے۔ ڈوئچے ویلے نے لکھا کہ مودی کی سربراہی میں قائم اتحاد این ڈی اے نے اکثریت حاصل تو کرلی ہے مگر اب ایسا نہیں ہے کہ وہ ہر معاملے میں صرف اپنی مرضی کے مطابق کام کرسکے گا۔ ایک مضبوط اپوزیشن اُس کے محاسبے کے لیے تیار ہے۔ یہ انتخابات اپوزیشن کے لیے زیادہ مسعود ثابت ہوئے ہیں کیونکہ وہ انتہائی کمزور پوزیشن سے جان چُھڑاکر ایسی مضبوط پوزیشن میں آئی ہے کہ تھوڑی محنت سے ایوان ہائے اقتدار تک بھی آسانی سے پہنچ سکتی ہے۔
فرانس کے اخبار لی مونڈے نے لکھا ہے کہ نریندر مودی کی تمام توقعات پوری نہ ہوسکیں اور وہ لینڈ سلائیڈ وکٹری یقینی بنانے کی منزل سے بہت دور رہے۔ اخبار لکھتا ہے کہ مودی وزیراعظم تو رہیں گے مگر بھرپور اکثریت کے ساتھ نہیں۔ یہ گویا اُن کی پوزیشن میں واقع ہونے والی کمزوری ہے۔ پورے 10 سال تک خاصی آسانی کے ساتھ بھارت پر حکومت کرنے کے بعد اب مودی کو ایک کمزور حکومت چلانا ہوگی۔ کوئی ایک بڑی غلطی اُن کے لیے تباہ کن ثابت ہوسکتی ہے۔
جاپان کے معروف اخبار دی جاپان ٹائمز نے بھارتی انتخابات کو نریندر مودی اور اُن کی پارٹی کے لیے حیرت انگیز مایوسی سے تعبیر کیا ہے۔ جاپان ٹائمز لکھتا ہے کہ بی جے پی اکثریت برقرار نہیں رکھ پائی تاہم نریندر مودی اب بھی اقتدار میں رہیں گے۔ ہاں، اُنہیں اپوزیشن سے ٹف ٹائم ضرور ملے گا۔
اخبار لکھتا ہے کہ 73 سالہ نریندر مودی کے لیے انتخابی نتائج مایوس کن رہے ہیں۔ انہوں نے پارٹی کو اپنے گرد گھما رکھا ہے۔ این ڈی اے حکومت تو بنائے گا تاہم یہ حکومت اِتنی مضبوط نہیں ہوگی کہ این ڈی اے میں شامل تمام جماعتوں کو خوش رکھ سکے۔ اختلافات بھی ابھر سکتے ہیں۔ وزیراعظم کی حیثیت سے مودی کا اپنا مستقبل بھی زیادہ محفوظ اور روشن نہیں۔ اب وہ معیشت کے حوالے سے سخت اور ناپسندیدہ فیصلے آسانی سے نہیں کرسکیں گے اور ہندو انتہا پسندی کے ایجنڈے کو بھی زیادہ کامیابی کے ساتھ آگے نہیں بڑھا سکیں گے۔
جنوبی ایشیا اور جنوب مشرقی ایشیا کے اخبارات نے بھی بھارت کے عام انتخابات کے حوالے سے سیرحاصل تبصرے کیے ہیں۔ ان ممالک کے لیے بھارت کے عام انتخابات بہت اہم رہے ہیں کیونکہ بھارت کی پالیسیوں سے ان ممالک پر بھی کچھ نہ کچھ اثرات مرتب ہوتے ہی ہیں۔ 10 سالہ اقتدار کے دوران مودی نے بھرپور اکثریت کے ساتھ وزارتِ عظمیٰ کی مسند پر براجمان ہونے کا بھرپور فائدہ اٹھایا ہے اور جتنا بھی دباؤ علاقائی ممالک پر ڈال سکتے تھے، ڈالا ہے۔
چین کا اخبار گلوبل ٹائمز مودی کی فتح کو چین بھارت تعلقات کے آئینے میں دیکھتا ہے۔ سرکاری ملکیت والے اخبار نے بھارتی انتخابی نتائج پر سرخی لگائی کہ مودی اتحاد کے ساتھ معمولی اکثریت والی فتح کا دعویٰ کر رہے ہیں۔
گلوبل ٹائمز لکھتا ہے کہ چینی ماہرین اس خیال کے حامل ہیں کہ اب مودی کے لیے معیشت کے میدان میں چین کا ڈھنگ سے سامنا کرنا آسان نہ ہوگا۔ بھارتی وزیراعظم کی خواہش رہی ہے کہ اُن کا ملک مینوفیکچرنگ سیکٹر میں چین کی برابری کرنے کے قابل ہو جائے، مگر اب یہ منزل بھارت سے مزید دور ہوچکی ہے۔ بھارت میں کاروبار کا ماحول بہتر حالت میں رکھنا بھی اب مودی کے لیے آسان نہ ہوگا۔
دی سینٹرل کمیٹی آف دی چائنیز کمیونسٹ پارٹی کا اخبار گلوبل ٹائمز مزید لکھتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی غیر معمولی یا واضح اکثریت حاصل کرنے میں ناکام رہی ہے، اس لیے یہ کہنا بے جا نہ ہوگا کہ معاشی اصلاحات کے ایجنڈے پر خاطر خواہ حد تک عمل کرنا اب مشکل ثابت ہوگا۔
بنگلہ دیش کے اخبار دی اسٹار نے لکھا ہے کہ این ڈی اے کو لوک سبھا الیکشن میں ایسی فتح ملی ہے جس پر اُس کی طرف سے عجز کا اظہار تو بنتا ہے۔ اخبار نے اپنی شہ سُرخی میں بھی بی جے پی اور اتحادیوں کی فتح کو humbling یعنی قدرے جھکنے پر مجبور کرنے والی قرار دیا۔
ڈھاکا کا اخبار لکھتا ہے کہ نریندر مودی کی ہندو قوم پرست پارٹی پارلیمنٹ میں واضح اکثریت سے محروم ہوچکی ہے۔ انتخابی نتائج خاصے حیرت انگیز ہیں۔
سری لنکا کے دارالحکومت کولمبو سے شائع ہونے والے اخبار ’دی آئی لینڈ‘ نے بی جے پی کی قیادت میں قائم اتحاد کی انتخابی فتح پر ’’فتح، مگر گھٹی ہوئی اکثریت کے ساتھ‘‘ کے الفاظ کے ساتھ سرخی جمائی۔ دی آئی لینڈ نے لکھا کہ نریندر مودی مسلسل تیسری بار وزیراعظم بننے کی تیاری کررہے ہیں تاہم اُن کی پوزیشن بہت اچھی نہیں اور اتحادیوں کی طرف سے راہ بدلنے کا خدشہ لاحق رہے گا۔ تمام توقعات پوری نہ ہوسکیں اور جتنی اکثریت درکار تھی یا جس کی خواہش تھی وہ نہ مل پائی۔ اس کے نتیجے میں حکومت کو بھی بعض معاملات میں سمجھوتے کرنا پڑیں گے۔
انڈونیشیا کے اخبار دی جکارتہ پوسٹ نے لکھا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت میں سیاسی اتحاد جیت تو گیا ہے مگر ملک میں اقلیتوں کے حوالے سے خدشات و تفکرات بہت زیادہ ہیں۔ نریندر مودی اور اُن کے ساتھی سب کچھ اپنے ساتھ بہا لے جانے والی اکثریت تو یقینی نہ بناسکے تاہم اتنا ضرور ہے کہ وہ حکومت بنا بھی لیں گے اور چلانے میں بھی کامیاب ہوسکیں گے۔ اخبار مزید لکھتا ہے کہ نریندر مودی نے انتخابی مہم کے دوران بھارت کے 20 کروڑ مسلمانوں کے بارے میں غلط سلط باتیں کہیں اور اُن کی حب الوطنی مشکوک بنانے کی کوشش کی۔ اس کے نتیجے میں بھارت میں اقلیتوں کے حوالے سے خدشات مزید تقویت پاگئے ہیں۔ ہندو اکثریت کے جذبات مسلمانوں اور دیگر اقلیتوں کے حوالے سے بھڑکانے کی کوشش کو نشانے پر لگایا جانے والا تیر قرار دے کر مبصرین اور رائے عامہ کے جائزے مرتب کرنے والوں نے مودی اور اُن کے ساتھیوں کی بھاری اکثریت سے فتح کی پیش گوئی کی تھی۔
ملائشیا کے اخبار دی اسٹار نے لکھا ہے کہ بی جے پی نے نشستوں کے معاملے میں ڈبکی لگائی ہے۔ انتخابات مجموعی طور پر حیرت انگیز نتائج کے حامل رہے ہیں۔
سنگاپور کا اخبار دی اسٹریٹ ٹائمز لکھتا ہے کہ بھارت میں اب اتحادوں کی سیاست چل رہی ہے۔ کوئی بھی سیاسی جماعت ملک کو تنِ تنہا چلانے کی پوزیشن میں نہیں۔ اخبار نے انتخابی نتائج پر سُرخی جمائی کہ مودی کی بی جے پی جیت تو گئی تاہم ایک عشرے سے قائم اکثریت کو برقرار رکھنے میں ناکام رہی۔
دی اسٹریٹ ٹائمز لکھتا ہے کہ بھارتیہ جنتا پارٹی کی قیادت میں این ڈی اے نے مسلسل تیسری مدت کے لیے بھی اقتدار میں رہنے کی گنجائش پیدا کی ہے، گو کہ اکثریت وہ نہیں رہی جو اب تک رہی ہے۔ مودی کے لیے بھی یہ کمتر فتح ہے۔ اب انہیں ایک ایسی مخلوط حکومت کی سربراہی نصیب ہوگی جو کمزور ہوگی اور اُن کی کارکردگی پر شدید منفی اثرات بھی مرتب کرے گی۔ اب وہ پالیسی میکنگ میں بھی کمزور رہیں گے اور ہوسکتا ہے کہ ہندو انتہا پسندی (ہندُتوا) کے ایجنڈے کو بھی زیادہ تیزی سے آگے نہ بڑھا پائیں۔