فیض احمد فیض
بول
بول کہ لب آزاد ہیں تیرے
بول زباں اب تک تیری ہے
تیرا ستواں جسم ہے تیرا
بول کہ جاں اب تک تیری ہے
دیکھ کہ آہن گر کی دکاں میں
تند ہیں شعلے سرخ ہے آہن
کھلنے لگے قفلوں کے دہانے
پھیلا ہر اک زنجیر کا دامن
بول یہ تھوڑا وقت بہت ہے
جسم و زباں کی موت سے پہلے
بول کہ سچ زندہ ہے اب تک
بول جو کچھ کہنا ہے کہہ لے
احسان دانش
کچھ لوگ جو سوار ہیں کاغذ کی ناؤ پر
تہمت تراشتے ہیں ہوا کے دباؤ پر
موسم ہے سرد مہر لہو ہے جماؤ پر
چوپال چپ ہے بھیڑ لگی ہے الاؤ پر
سب چاندنی سے خوش ہیں کسی کو خبر نہیں
پھاہا ہے ماہتاب کا گردوں کے گھاؤ پر
اب وہ کسی بساط کی فہرست میں نہیں
جن منچلوں نے جان لگا دی تھی داؤ پر
سورج کے سامنے ہیں نئے دن کے مرحلے
اب رات جا چکی ہے گزشتہ پڑاؤ پر
گلدان پر ہے نرم سویرے کی زرد دھوپ
حلقہ بنا ہے کانپتی کرنوں کا گھاؤ پر
یوں خود فریبیوں میں سفر ہو رہا ہے طے
بیٹھے ہیں پل پہ اور نظر ہے بہاؤ پر
موسم سے ساز غیرتِ گلشن سے بے نیاز
حیرت ہے مجھ کو اپنے چمن کے سبھاؤ پر
اعجاز رحمانی
ہوا کے واسطے اک کام چھوڑ آیا ہوں
دیا جلا کے سرِ شام چھوڑ آیا ہوں
کبھی نصیب ہو فرصت تو اس کو پڑھ لینا
وہ ایک خط جو ترے نام چھوڑ آیا ہوں
ہوائے دشت و بیاباں بھی مجھ سے برہم ہے
میں اپنے گھر کے در و بام چھوڑ آیا ہوں
کوئی چراغ سر رہ گزر نہیں نہ سہی
میں نقشِ پا کو بہر گام چھوڑ آیا ہوں
ابھی تو اور بہت اس پہ تبصرے ہوں گے
میں گفتگو میں جو ابہام چھوڑ آیا ہوں
یہ کم نہیں ہے وضاحت مری اسیری کی
پروں کے رنگ تہہِ دام چھوڑ آیا ہوں
وہاں سے ایک قدم بھی نہ جا سکی آگے
جہاں پہ گردشِ ایام چھوڑ آیا ہوں
مجھے جو ڈھونڈھنا چاہے وہ ڈھونڈھ لے اعجازؔ
کہ اب میں کوچۂ گمنام چھوڑ آیا ہوں
اجمل سراج
تیرے سوا کسی کی تمنا کروں گا میں
ایسا کبھی ہوا ہے جو ایسا کروں گا میں
گو غم عزیز ہے مجھے تیرے فراق کا
پھر بھی اس امتحان کا شکوہ کروں گا میں
آنکھوں کو اشک و خوں بھی فراہم کروں گا میں
دل کے لیے بھی درد مہیا کروں گا میں
راحت بھی رنج، رنج بھی راحت ہو جب تو پھر
کیا اعتبارِ خواہش دنیا کروں گا میں
رکھا ہے کیا جہان میں یہ اور بات ہے
یہ اور بات ہے کہ تقاضا کروں گا میں
یہ رہ گزر کہ جائے قیام و قرار تھی
یعنی اب اس گلی سے بھی گزرا کروں گا میں
یعنی کچھ اس طرح کہ تجھے بھی خبر نہ ہو
اس احتیاط سے تجھے دیکھا کروں گا میں
ہے دیکھنے کی چیز تو یہ التفات بھی
دیکھو گے تم گریز بھی ایسا کروں گا میں
حیران و دل شکستہ ہوں اس حال زار پر
کب جانتا تھا اپنا تماشا کروں گا میں
ہاں کھینچ لوں گا وقت کی زنجیر پاؤں سے
اب کے بہار آئی تو ایسا کروں گا میں
راغب دہلوی
وہ ذرہ جس میں اک عالم نہاں تھا
ادب کا ایک بحر بیکراں تھا
وہ نبضِ وقت کو پہچانتا تھا
وہ رہبر تھا وہ میرِ کارواں تھا
اسے آتا تھا لفظوں کا برتنا
زباں رکھتا تھا وہ اہلِ زباں تھا
اخوت کا تھا وہ پرچم اٹھائے
نہ اپنی فکر نہ خوفِ جہاں تھا
چٹاں کا عزم دھارے کی روانی
جھکا قدموں پہ اس کے آسماں تھا
جو سب چپ چاپ سہہ لیتے ہیں صدمے
وہ ان سب بے زبانوں کی زباں تھا
وطن اس کی رگ و جاں میں بسا تھا
وہ دل دلی کا خود ہندوستاں تھا
اسے ڈھونڈے گا اب راغبؔ زمانہ
کہ اس جیسا زمانے میں کہاں تھا
فانی بدایونی
آنکھ اٹھائی ہی تھی کہ کھائی چوٹ
بچ گئی آنکھ دل پہ آئی چوٹ
درد دل کی انہیں خبر کیا ہو
جانتا کون ہے پرائی چوٹ
آئی تنہا نہ خانۂ دل میں
درد کو اپنے ساتھ لائی چوٹ
تیغ تھی ہاتھ میں نہ خنجر تھا
اس نے کیا جانے کیا لگائی چوٹ
یوں نہ قاتل کو جب یقیں آیا
ہم نے دل کھول کر دکھائی چوٹ
اور کیا کرتے ہم بلا کش غم
جو پڑی دل پہ وہ اٹھائی چوٹ
کہیں چھپتی بھی ہے لگی دل کی
لاکھ فانیؔ نے گو چھپائی چوٹ
داغؔ دہلوی کے اہم اشعار
ہزاروں کام محبت میں ہیں مزے کے داغؔ
جو لوگ کچھ نہیں کرتے کمال کرتے ہیں
ملاتے ہو اسی کو خاک میں جو دل سے ملتا ہے
مری جاں چاہنے والا بڑی مشکل سے ملتا ہے
وفا کریں گے نباہیں گے بات مانیں گے
تمہیں بھی یاد ہے کچھ یہ کلام کس کا تھا
سب لوگ جدھر وہ ہیں ادھر دیکھ رہے ہیں
ہم دیکھنے والوں کی نظر دیکھ رہے ہیں
ہمیں ہے شوق کہ بے پردہ تم کو دیکھیں گے
تمہیں ہے شرم تو آنکھوں پہ ہاتھ دھر لینا
عاشقی سے ملے گا اے زاہد
بندگی سے خدا نہیں ملتا
شب وصال ہے گل کر دو ان چراغوں کو
خوشی کی بزم میں کیا کام جلنے والوں کا
غضب کیا ترے وعدے پہ اعتبار کیا
تمام رات قیامت کا انتظار کیا
لپٹ جاتے ہیں وہ بجلی کے ڈر سے
الٰہی یہ گھٹا دو دن تو برسے
خوب پردہ ہے کہ چلمن سے لگے بیٹھے ہیں
صاف چھپتے بھی نہیں سامنے آتے بھی نہیں
فلک دیتا ہے جن کو عیش ان کو غم بھی ہوتے ہیں
جہاں بجتے ہیں نقارے وہاں ماتم بھی ہوتا ہے