آئو اجالا پھیلائیں

213

نواں سالانہ حریم ادب کنونشن کا دعوت نامہ سامنے دیکھ کر زبان سے بے ساختہ نکلا ’’ارے واہ! کیا بات ہے۔‘‘ہماری تیاری کے ارادے بھانپ کر میاں صاحب نے موبائل سے نظر ہٹائی اور چشمہ نیچے کرکے بولے ’’ذرا خیال سے محترمہ! ہیٹ اسٹروک چل رہا ہے، اتنی گرمی میں شاید ہی کوئی جائے۔‘‘

کھڑکی سے چمکتی دھوپ اور صاحب کے جملے سے ارادہ کچھ متزلزل ضرور ہوا مگر دل نے سرزنش کی کہ صاحبِِ قلم ہوکر موسم سے ڈرتی ہو! دل کا یہ طعنہ ہی اتنا قوی تھا کہ ہمارا پہلا قدم سورج پر تو دوسرا ادارہ نورِ حق میں حریم کے سجے پنڈال میں اترا… اور یہ دیکھ کر خوش گوارحیرت ہوئی کہ موسم کی سختی کے باوجود حریم کے موتی اور نگینے ہال میں چاروں طرف بکھرے ہوئے ہیں۔

استقبالیہ کے ساتھ کتابوں کے اسٹال تھے اور اسٹیج فل اسکرین کے ساتھ پھولوں اور خوشبوؤں کا مرقع بنا ہوا تھا۔ سب سے پہلے ہم نے سائڈ میں رکھے ٹھنڈے لیموں پانی سے اپنی پیاس بجھائی اور بھاگم بھاگ ایک نشست پر براجمان ہوکر ڈائری قلم سنبھالا، کیوں کہ پروگرام شروع ہی ہوا چاہتا تھا۔

اناؤنسمنٹ کی ذمے داری نادیہ سیف اور راحت کی تھی۔ پروگرام کا آغاز تلاوتِ کلام پاک اور نعتِ رسولؐ سے ہوا، بعد ازاں صائمہ راحت نے نگراں حریم ادب کراچی محترمہ عشرت زاہد کو اسٹیج پر آنے کی دعوت دی کہ وہ حریم ادب کا تعارف پیش کریں۔ انہوں نے کہا کہ حریم ادب ایک ادبی و اصلاحی انجمن ہے جس کا مقصد اہلِ قلم طبقے کو مربوط و متحرک کرکے ادب میں مثالی اقدار و تہذیب کو متعارف کروانا اور ادبی سرگرمیوں کے ذریعے معاشرے میں صحت مند مزاج کو فروغ دینا ہے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حریم کے پلیٹ فارم سے نومبر 2023ء سے مئی 2024ء تک دس سے گیارہ کتابوں کی اشاعت ہوئی جو حریم ادب کے لیے اعزاز کی بات ہے۔

حریم کے دو اور دمکتے ستارے نیر کاشف ملک اور فرح مصباح نے بھی حریم ادب سے اپنی محبت کے اظہار میں خوب صورت نظمیں پیش کیں۔ یک دم ہی اسکرین متحرک ہوئی اور مختلف ادبی اصنافِ شاعری، ادبِ اطفال، بلاگز، مضمون، کہانی، افسانہ نگاری کے شعبوں میں نمایاں کارکردگی کے حامل لکھاریوں کے نام اوّل، دوم اور سوم پوزیشن کے لیے تیار تھے۔ نادیہ سیف نے تجسس برقرار رکھتے ہوئے نام پکارے اور انعام یافتگان نے دھڑکتے دل اور خوشی سے بھرپور چہروں کے ساتھ شیلڈز، اسناد اور تحائف وصول کیے۔

کتابوں کی مصنفین روشن چہروں کے ساتھ ہال میں موجود تھیں، اُن کی کاوشوں کے اعتراف میں حریم ادب نے ’’کتبِ رونمائی‘‘ کی باقاعدہ تقریب کا اہتمام کیا تھا جس کی میزبانی عالیہ زاہد بھٹی کے ذمے تھی۔ کتابوں کی رونمائی ادب کی دنیا کے معتبر نام منزہ سہام مرزا، عذرا رسول، محترمہ افشاں نوید اور غزالہ عزیز کے ہاتھوں ہوئی۔ تمام مصنفات کو حریم ادب کی جانب سے ’’حریم ادب کنونشن2024‘‘ ایوارڈ کی شیلڈ اور تحائف پیش کیے گئے۔

دورانِ پروگرام شرکائے محفل سے دل چسپ سوال و جواب کے سلسلے نے محفل کو گرمائے رکھا۔ پروگرام کی دل چسپی اُس وقت سوا ہوگئی جب اناؤنسر نے پروگرام کی جان ’’ادبی مذاکرہ‘‘ کی اناؤنسمنٹ کی۔ مذاکرے میں شامل مہمانانِ گرامی میں منزہ سہام مرزا (چیف ایڈیٹر دوشیزہ و سچی کہانیاں)، عذرا رسول (مدیرہ ماہنامہ پاکیزہ)، جہاں آرا لطفی (سابق پروفیسر شیخ زید اسلامک سینٹر)، غزالہ عزیز (مصنفہ،کالم نگار انچارج صفحہ صحت، تعلیم، خواتین)، لبنیٰ خیال (مدیرہ جاسوسی ڈائجسٹ)، حمیرا اطہر (شاعرہ، مصنفہ، مدیرہ اخبار خواتین) شامل تھیں۔ تمام معززین کو اہلِ غزہ سے یکجہتی میں فلسطین کے اسکارف پہنائے گئے۔

افشاں نوید کا پہلا سوال تھا ’’کیا سوشل میڈیا کے بڑھتے ہوئے اثرات اور تفریحی مشاغل سے مطالعے کے رجحان میں کمی واقع ہوئی ہے؟‘‘

منزہ سہام مرزا نے سب سے پہلے جواب دیتے ہوئے کہا: ڈائجسٹ آج بھی بڑی تعداد میں پڑھے جاتے ہیں، لوگوں نے پڑھنا کم نہیں کیا… ہاں بزنس پر فرق ضرور پڑا ہے مگر ویب سائٹس پر لوگ بڑی تعداد میں موجود ہیں۔

عالیہ:کیا یہ کتابوں سے عشق کی آخری صدی ہے؟

عذرا رسول: جو کتابوں کے شوقین ہیں کتابیں اُن کے لیے اب بھی نیند کی گولی کی طرح ہیں کہ کھائے بغیر سو نہیں سکتے۔

سوال تھا کہ موجودہ حالات میں سوشل میڈیا اتنا فعال ہے، کیا لفظوں نے اپنی حرمت کھو دی ہے؟

جہاں آرا لطفی صاحبہ کا کہنا تھا کہ لکھا بھی جا رہا ہے اور پڑھا بھی۔ قلم کی قسم اللہ نے قرآن میں کھائی ہے۔ ہمارے دور میں اخبار میں شائع شدہ تحریر کے ذریعے کوئی بات اگرہزاروں یا لاکھوں تک پہنچتی تھی تواب سماجی ابلاغ کے ذریعے وہی بات کروڑوں، اربوں تک پہنچ کر ذہن سازی کررہی ہے۔ ایسے میں ہمیں چاہیے کہ اپنا مثبت کردار ادا کریں۔ ہمارے پرنٹ اور الیکٹرانک میڈیا کو بھی چاہیے کہ لوگوں میں صحیح اور غلط کا شعور پیدا کریں۔

افشاں نوید: ہمارے گھروں میں جوآگ لگی ہوئی ہے اسے بجھانے میں رسالے ’’فائر بریگیڈ‘‘ کا کام کررہے ہیں؟

غزالہ عزیز: ہمارے رسالے بہرحال فائر بریگیڈ کا کام کر رہے ہیں۔ معاشرے کو بہتر کرنے کے لیے قلم کار کا قلم بہترین کردار ادا کرتا ہے، جب کہ ڈرامے عشق کی اکیڈمی بنادیے گئے ہیں۔ اس کے برعکس جرائد میں ماحول کی عکاسی کے ساتھ معاشرتی مسائل اوران کا حل بہتر طور پر پیش کیا جا رہا ہے۔

عالیہ: ہماری تحاریر کس قسم کی ہونی چاہئیں جو جرائد میں جگہ بنا سکیں؟

عذرا رسول: اچھے الفاظ، منظر نگاری، معاشرتی مسائل جیسے سنگل پیرنٹس، خواتین کے مسائل وغیرہ پر لکھیں۔ اسٹارٹ اور اینڈ جان دار ہوں۔

آمنہ حماد نے کہا کہ ہر اچھی تحریر رسالے میں جگہ بنا سکتی ہے، اس کے لیے مطالعہ کیجیے اور مشاہدے کی قوت بڑھائیے۔

عالیہ: بہت ساری تحاریر آپ کی نظر سے گزرتی ہیں۔ رائٹر کا کتابوں سے کتنا تعلق ہوتا ہے؟

حمیرا اطہر: رائٹر کا مطالعہ اتنا گہرا نہیں ہے۔ لکھنے والے کو مطالعے کی ضرورت زیادہ ہوتی ہے، پڑھنے سے سلیقہ آتا ہے، مگر آج کا رائٹر کوشش نہیں کرتا۔

افشاں نوید: لکھاری آپ کے جرائد میں جو زبان استعمال کرتا ہے اس سے آپ مطمئن ہیں؟

لبنیٰ خیال: ٹی وی کے برعکس جرائد میں لکھنے والے بہتر اردو لکھ رہے ہیں۔

عالیہ:کیا قاری کو سیاہ و سفید کے ساتھ گرے بھی دکھانا چاہیے؟

عزیزہ انجم: مصنف سیاہ کو سیاہ یا سفید کو سفید نہیں کہہ سکتا۔ ادیب کا کام یہ ہے کہ بات کو توازن، خوب صورتی، اعتدال اور قرآن کے اصولوں سے پیش کرے تاکہ قاری کو گرے محسوس ہو۔

ان گراں قدر خیالات کو سمیٹتے ہوئے افشاں نوید صاحبہ نے معزز مہمانوں کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ:

’’تیرے ہاتھ میں قلم ہے تیرے ذہن میں اجالا…

آدم کوعلم کی بنیاد پر سجدہ کرایا گیا۔ آپ کا قلم ہزاروں لوگوں کی سوچ اور احساسات کا ترجمان ہے۔ ہم اپنے حصے کا خیر پھیلائیں گے۔ مطالعہ کیجیے، مشاہدے کی قوت بڑھائیے، اللہ سے الفاظ کا رزق مانگیے، قرآن اور پاکیزہ عمل کے ذریعے اپنا نور بڑھائیے تاکہ ہم اپنے حصے کا کام کر جائیں۔ حریم ادب آپ کو اکٹھا کرکے یہ بتاتی ہے کہ اس صلاحیت کا بھی حساب ہوگا۔ میرے اللہ میرا حوصلہ جواں کردے، میں تیرے قرب کا تجھ سے سوال کرتی ہوں، میرے خدا مجھے یہ گہر عطا کردے۔ صبح پڑھی ہوئی آیت ذہن میں گونجی’’اور جو دلِ گرویدہ لیے ہوئے آیا ہے۔‘‘ اللہ پاک عاجزی کے ساتھ ہم سب حاضر ہیں، قبول فرما۔‘‘

آخر میں ناظمہ کراچی محترمہ جاوداں فہیم صاحبہ نے اپنے خطاب میں شرکائے محفل کی آمد کا شکریہ ادا کرتے ہوئے کہا کہ اس دور میں آپ قلم سے جہاد کا حق ادا کررہی ہیں۔ قلم میں بہت طاقت ہے، اس کی نوک سے نکلی ہوئی تحریریں لوگوں کے خیالات کو جلا بخشتی ہیں اور ذہن سازی کرتی ہیں۔ تاریخ کے تناظر میں دیکھیں تو وہی تہذیبیں غلبہ پاتی ہیں جو قلم کی حرمت کا پاس رکھتی ہیں۔ انھوں نے اس خوب صورت پروگرام کے انعقاد پر حریم ادب کو مبارک باد پیش کی اور اس کی ادبی، فکری و تخلیقی کاوشوں کو سراہا۔ پروگرام کا اختتام نائب ناظمہ حریم ادب کی دعا پر ہوا۔گرم چائے کے ساتھ بھرپور ناشتا مزا دے گیا۔ اسٹیج پر موجود حریم کی ذمے داران ایک بھر پور پروگرام کے بعد اگلی پلاننگ میں مصروف تھیں۔ دس کتابیں اور مختلف جرائد میں حریم کے قلم کاروں کا جگہ بنانا آسان تو نہیں تھا، ان کی نیت کا خلوص، ٹیم اسپرٹ اور جدوجہد ہی تو ہے جو ظلمت کے اندھیروں میں نور پھیلارہی ہے۔ چاروں طرف سحر کا نور بننے کے لیے صاحبِ قلم کی بہار رواں دواں تھی۔ ہم نے قلم اور ڈائری اٹھائی اور فخر سے ان میں شامل ہوگئے کہ اس کارواں کا ایک حصہ ہم بھی تو ہیں۔

حصہ