آج اسکول سے آ کر وہ بہت تھکن اور نیند کا شکار تھی، جلدی جلدی ضروری کام نمٹا کر سو گئی، ابھی نیند کی وادی میں گئے کچھ زیادہ دیر نہ گزری تھی کہ گلی میں بچّوں کے بے ہنگم شور سے آنکھ کھل گئی۔ پہلے تو کچھ سمجھ نہ آیا، پھر گھنگھروؤں کی چھن چھن بہت کچھ سمجھا گئی۔
اچھا! لگ رہا ھے کہ گلی میں قربانی کا پہلا جانور آ گیا ہے۔ ہر سال کی طرح اب پورا مہینہ بچے شام کو جانور کو لے کر گھوما کریں گے، ایک دوسرے پر اپنے جانور کی دھاک بٹھائیں گے اور جن بچوں کے گھر جانور نہیں آئے گا انہیں کمتر سمجھا جائے گا۔” لمحہ بھر میں اسرٰی کی سوچ کے دھارے اسے یہاں سے کہیں اور لے گئے۔
اسریٰ بھی سات سالہ بیٹے کی ماں تھی، اور اب اس کا بیٹا بھی اس سے جانور گھر لانے کا تقاضہ کرنے لگا تھا، اسریٰ کے شوہر تو بچّے کی محبت میں اپنی ہمّت اور استطاعت سے بڑھ کر بکرا گھر لانے پر تیار تھے۔ مگر اسریٰ اپنے موقف میں اٹل تھی۔” نہیں زید! ہم نے قربانی اللہ کی رضا کے حصول اور سنّت کی ادائیگی کے لئے کرنی ہے، بچّے کی خوشی کے لیے نہیں، الحمد للہ ہم دونوں ہی پڑھے لکھے باشعور والدین ہیں، اگر ہم نے بھی وہی کیا جو عام طور پر لوگ کرتے ہیں تو ہم میں اور ان میں کیا فرق رہ جائے گا۔”
تین چار راتوں سے اسریٰ اپنے بیٹے حمزہ کو حضرت ابرہیم علیہ السّلام کا واقعہ بہت تفصیل سے سنا رہی تھی، حمزہ ایک ذہین اور حسّاس بچہ تھا، پورا واقعہ سننے کے بعد بہت سی باتیں اسے سمجھ میں آ گئیں۔
’’اچھا امّی! ہم ہر سال قربانی اس لیے کرتے ہیں کہ ہمیں اپنی پسندیدہ چیز اللہ کی خاطر دینے کی عادت ہو جائے، ٹھیک ہے! امّی میں اب ابّو سے گھر پر جانور لانے کی ضد نہیں کروں گا، بلکہ ابّو مدرسہ میں جس گائے میں حصّہ ڈالیں گے، میں ان کے ساتھ وہیں جا کر اسے چارہ اور پانی ڈال آؤں گا۔‘‘ حمزہ نے ماں سے وعدہ کیا۔
’’امّی،اسکول میں جو میرا دوست ہے نا! اس کے ابّو نہیں ہیں۔ اس کی امّی اس کی فیس اور کتابیں وغیرہ بھی بہت دیر سے دلواتی ہیں، ٹیچر نے کلر پینسلیں لانے کا کہا تھا، مگر تین دن ہو گئے ہیں وہ نہیں لا رہا۔ میں ایسا کرتا ہوں کہ خالہ میرے لئے جو نیا کلر پینسل کا سیٹ لائیں ہیں وہ میں اسے دے دیتا ھوں۔ امّی، پھر تو اللہ تعالی مجھ سے خوش ہوں گے نا‘‘حمزہ کے چہرے پر معصومیت کے انوکھے رنگ دیکھ کر اسریٰ نے اس کا منہ چوم لیا۔
وہ سوچ رہی تھی کہ کون کہتا ھے کہ آج کل کے بچے بات نہیں سمجھتے اور کہنا نہیں مانتے، بس حکمت کے ساتھ ان کی تربیت کرنے کی ضرورت ہے۔
ذرا نم تو تو یہ مٹّی بڑی زرخیز ے ساقی