انسان کے ہاتھوں ماحول کو جو نقصان پہنچ رہا ہے اُس کے سنگین نتائج بھگتنے کی منزل بھی آہی چکی ہے۔ دنیا بھر میں موسموں کا پیٹرن بُری طرح تبدیل ہورہا ہے۔ کہیں اچانک گرمی پڑتی ہے اور کہیں سردی۔ جہاں کبھی برف باری کا سوچا بھی نہیں گیا تھا وہاں برف گررہی ہے۔ غیر معمولی بارشوں نے کئی خطوں کو تاراج کیا ہے۔ شہری علاقوں میں سیلاب کا کبھی نہیں سُنا تھا، اب بارشیں شہروں کو بھی تباہی سے دوچار کررہی ہیں۔ دبئی اور یو اے ای کے دیگر علاقوں میں حالیہ بارشوں نے جو تباہی مچائی وہ اِتنی زیادہ تھی کہ یو اے ای کی حکومت نے تباہی سے متعلق فوٹیج سوشل میڈیا پر اَپ لوڈ کرنے کی ممانعت کردی کیونکہ اِس سے ملک کی کاروباری ساکھ کو شدید دھچکے لگ رہے تھے۔
پاکستان سمیت جنوبی ایشیا کے بیشتر ممالک اس وقت شدید گرمی کی لپیٹ میں ہیں۔ بھارت کا دارالحکومت نئی دہلی ہے جو دہلی سے سَٹا ہوا ہے۔ نئی دہلی کی آبادی بہت کم ہے جبکہ دہلی کی آبادی کم و بیش دو کروڑ ہے۔ اِسے ریاست یعنی صوبے کا درجہ حاصل ہے اور اس کا وزیرِاعلیٰ بھی ہے۔ دہلی میں اب کے شدید گرمی پڑی ہے۔ اس شہر میں متعدد مقامات پر درجہ حرارت کی پیمائش کا اہتمام کیا گیا ہے۔ منگیش پور کے ویدر اسٹیشن پر 29 مئی 2024ء کو درجہ حرارت 52.3 سینٹی گریڈ ریکارڈ کیا گیا۔ یہ دہلی کی معلوم تاریخ کا بلند ترین درجہ حرارت تھا۔ این ڈی ٹی وی نے تو یہ دعویٰ بھی کیا کہ یہ ملک کی معلوم تاریخ کا بلند ترین درجہ حرارت تھا۔
جنوبی ایشیا کے کم و بیش 90 کروڑ یا اِس سے زیادہ باشندوں کو اس وقت موسمِ گرما کی شدت اور ہیٹ ویوز کا سامنا ہے۔ شدید گرمی کی لہروں نے کئی بار آکر لوگوں کو بے حال کیا ہے۔ جب کہیں بہت گرمی پڑتی ہے تو بہت سی طبی پیچیدگیاں بھی پیدا ہوتی ہیں۔ بچوں میں پیچش، ہیضہ، گیسٹرو، متلی، قے اور دیگر بیماریاں نمودار ہوتی ہیں اور بڑوں میں بھی ایسے ہی مسائل پیدا ہوتے ہیں۔
آج کل پاکستان سمیت جنوبی ایشیا میں اسپتال شدید گرمی سے پیدا ہونے والی بیماریوں میں مبتلا افراد سے بھرے ہوئے ہیں۔ گرمی ہر ایک سے برداشت نہیں ہوتی۔ کسی کو غش آتے دیر نہیں لگتی اور چکراکر گر پڑتا ہے۔ کوئی مستقل متلی کی سی کیفیت سے دوچار رہتا ہے۔ بہت سوں کو شدید گرمی کے باعث قے آتی رہتی ہے۔ ہوا کے گزر کا معقول اہتمام نہ ہو تو بچوں کے لیے زیادہ الجھنیں پیدا ہوتی ہیں۔
شدید گرمی میں انسان اس قدر بے حال ہوجاتا ہے کہ ڈھنگ سے دو گھڑی بیٹھنا بھی دوبھر ہوجاتا ہے، اور اگر ایسے میں بجلی کی لوڈشیڈنگ کا عذاب بھی سہنا پڑے تو سمجھ لیجیے، گئے کام سے۔ اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ شدید گرمی سے کیا صرف نقصان پہنچتا ہے؟ اللہ کے نظام میں کوئی بھی چیز، کوئی بھی کیفیت بے مصرف نہیں۔ شدید گرمی میں فصلیں پکتی ہیں، درختوں پر پھل پکتے ہیں۔ شدید گرمی بہت سوں کے لیے کمائی کا زمانہ بھی ہوا کرتی ہے۔ دنیا کا نظام اِسی طور چلتا ہے۔ ایسے میں یہ بھی سوچا جاسکتا ہے کہ ہیٹ ویوز سے بھی کوئی نہ کوئی فائدہ تو پہنچتا ہی ہوگا۔
جی ہاں، ایسا ہی ہے۔ ماہرین کا کہنا ہے کہ ہیٹ ویوز کے بھی چند فوائد ہیں اور اُن فوائد کا ہماری صحت سے گہرا تعلق ہے۔
ایک خصوصی رپورٹ میں بھارت کے معروف جریدے انڈیا ٹوڈے نے لکھا ہے کہ ہیٹ ویو سے انسان بے حال ہوجاتا ہے اور ایسے میں کوئی یہ سوچنے کے قابل نہیں رہتا کہ اِس سے کوئی فائدہ بھی پہنچتا ہوگا۔ حقیقت یہ ہے کہ ہیٹ ویو کے بھی چند فوائد ہیں۔ جسم کو اس کیفیت میں کچھ نہ کچھ فائدہ بھی پہنچتا ہے۔ سب سے بڑا فائدہ یہ ہے کہ جسم کا مدافعتی نظام بہتر ہوتا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ خلیوں کی شکست و ریخت کا عمل سُست پڑتا ہے اور جسم کو تیزابیت سے بہت حد تک نجات ملتی ہے۔ انتہائی نوعیت کی ہر موسمی کیفیت چونکہ اللہ کی طرف سے ہوتی ہے اس لیے اُس کے ظاہری نقصانات کے پہلو بہ پہلو چند ایک فوائد بھی ہونے ہی چاہئیں۔ اُن تمام فوائد کی تفہیم سے ہم اپنے لیے راحت و استقامت کا سامان کرسکتے ہیں۔
کبھی آپ نے سوچا ہے کہ جو لوگ گرمی میں یعنی دھوپ میں رہتے ہوئے کام کرتے ہیں اُن کے لیے چند ایک مسائل ضرور پیدا ہوتے ہیں تاہم جسم کو چند فوائد بھی پہنچتے ہیں؟ شدید گرمی پٹھوں کا کِھنچاؤ گھٹا دیتی ہے۔ جسم میں نئے خلیوں کی تشکیل کا عمل تیز ہوتا ہے۔ شدید گرمی بعض کیڑوں مکوڑوں کو ختم بھی کردیتی ہے یعنی اُن سے پیدا ہونے والی بیماریوں کی راہ بھی مسدود ہوجاتی ہے۔ اس صورت میں جسم کے لیے زیادہ طبی پیچیدگی کی راہ بھی مسدود ہوتی ہے۔
ماہرین کہتے ہیں کہ جسم میں پانی کی کمی نہ ہونے دینا گرمی سے مؤثر بچاؤ کا اہم طریقہ ہے۔ بیشتر مسائل اُس وقت پیدا ہوتے ہیں جب شدید گرمی میں پانی مطلوب مقدار کے مطابق نہ پیا جائے۔ جو لوگ جسم کو پانی سے محروم رکھتے ہیں اُن کے لیے پیچیدگیاں بڑھتی جاتی ہیں۔ شدید گرمی میں جسم کو پانی کی کمی سے دور رکھنا بہت سی طبی پیچیدگیوں کی راہ مسدود کرتا ہے۔
تین بھارتی صدور کے معالج کی حیثیت سے خدمات انجام دینے والے ڈاکٹر محسن ولی بھارت کے اعلیٰ سول اعزاز پدم شری سے بھی نوازے جاچکے ہیں۔ وہ دہلی کے سر گنگا رام اسپتال کے ڈپارٹمنٹ آف انٹرنل میڈیسن میں سینئر کنسلٹنٹ ہیں۔ اُن کا کہنا ہے کہ شدید گرمی میں ہمارے جسم میں ہیٹ شاک پروٹینز پیدا ہوتے ہیں۔ اِسی طور شدید سردی ہمارے جسم میں کولڈ شاک پروٹینز پیدا کرتی ہے۔ اِن پروٹینز کے پیدا ہونے سے ہمارے جسم کا مدافعتی نظام مضبوط ہوتا ہے۔ یہ پروٹینز اس بات کو یقینی بناتے ہیں کہ جن خلیوں کو جس وقت موت آنی چاہیے اُس وقت ہی آنی چاہیے۔ جب جسم میں کینسر پیدا ہوچکا ہو تب خلیوں کی پیدائش اور موت کا عمل بے قابو ہوجاتا ہے۔ شدید موسم ہمارے جسم میں خلیوں کی دوبارہ پیدائش کا عمل تیز کرتا ہے۔ اس کے نتیجے میں مدافعتی نظام بہتر ہوتا ہے اور جسم پر مرتب ہونے والے دباؤ میں کمی واقع ہوتی ہے۔ دباؤ میں کمی واقع ہونے سے ذہن توانا رہتا ہے۔
انسٹی ٹیوٹ آف کائٹولوجی اینڈ جینیٹکس کے ماہر میخائل پورومائنکو کہتے ہیں کہ جب ہمارے جسم کے خلیے اپنی نمو کے لیے درکار عمومی درجۂ حرارت سے کچھ زیادہ گرمی کا سامنا کرتے ہیں تب جسم میں ہیٹ شاک پروٹینز پیدا ہوتے ہیں۔ یہ ایک عالمگیر حقیقت ہے۔ ایسا انسانوں سمیت تمام حیوانات میں بھی ہوتا ہے اور نباتات میں بھی۔ یہ بات مُول چند اسپتال کے انسٹی ٹیوٹ آف مینٹل ہیلتھ کے چیئرمین ڈاکٹر جیتندر ناگپال نے بتائی۔ ان کا کہنا ہے کہ ہیٹ شاک پروٹینز اور کولڈ شاک پروٹینز ہماری سوچنے سمجھنے کی صلاحیت پر غیر معمولی مثبت اثرات مرتب کرتے ہیں۔ چند شاک پروٹینز نسیان اور رعشہ کے امراض کی شدت میں کمی کا ذریعہ بھی بنتے ہیں۔ یہ پروٹینز دماغ کے خلیوں میں رونما ہونے والی شکست و ریخت کے عمل کی رفتار کم کرتے ہیں۔ ڈاکٹر جیتندر ناگپال بتاتے ہیں کہ ڈپریشن کے مریضوں میں انفرا ریڈ ٹریٹمنٹ کے ذریعے مثبت نتائج ممکن بنائے جاسکتے ہیں۔
خیر، اب ایسا بھی نہیں ہے کہ شدید گرمی پڑ رہی ہو، لُو چل رہی ہو یا ہیٹ ویو آئی ہو اور کوئی جاکر کھلے میدان میں کھڑا ہوجائے اور اُس کے مثبت فوائد بٹورنے کی کوشش کرے۔ دہلی کے نزدیک فرید آباد کے فورٹز ایسکورٹز اسپتال میں انٹرنل میڈیسن کے کنسلٹنٹ ڈاکٹر انوراگ اگروال کہتے ہیں کہ شاک پروٹینز ہمارے جسم میں ہونے والی ٹوٹ پھوٹ کا توڑ کرتے ہیں مگر یہ سب کچھ چند شرائط کے تحت ہوتا ہے۔ بعض مخصوص کیفیتوں کی پابندی کی جائے تو کچھ بہتری آتی ہے ورنہ نہیں۔ اگر کوئی احتیاط کے ساتھ کچھ دیر کے لیے شدید گرمی میں کھڑا ہو یا کام کرے تو دل کی کارکردگی بھی بہتر ہوتی ہے۔ شدید گرمی میں دل کی دھڑکن کی رفتار تیز ہوتی ہے، خون کا بہاؤ بہتر ہوتا ہے اور پسینہ آتا ہے جو جسم کی کارکردگی کا گراف بلند کرنے کے لیے بہت ضروری ہوتا ہے۔ اس کے نتیجے میں جسم سے فاضل اور نقصان دہ مادوں کا اخراج ممکن ہوتا ہے۔ کچھ دیر کے لیے، حفاظتی تدابیر اختیار کرتے ہوئے، گرمی میں رہنے سے خوراک کو جسم کا حصہ بنانے یعنی اُس سے توانائی کشید کرنے میں تیزی سے کامیابی ملتی ہے۔ یہ عمل وزن کو متوازن رکھنے اور میٹابولک ہیلتھ برقرار رکھنے میں معاون ثابت ہوتا ہے۔
جو لوگ کچھ دیر شدید گرمی کا سامنا کرتے ہیں اُن میں پٹھوں کا کھنچاؤ کم ہوتا ہے، درد گھٹتا ہے اور جوڑوں کی کارکردگی بہتر ہوتی ہے۔ بہت سے ماہرین کہتے ہیں کہ نیم گرم پانی سے جسم کو جو فائدہ پہنچتا ہے وہی فائدہ شدید گرمی کے دوران کچھ دیر کے لیے، احتیاطی تدابیر کے ساتھ، دھوپ میں بیٹھنے سے بھی پہنچتا ہے۔ جوڑوں کے درد میں مبتلا یا پٹھوں کے کھنچاؤ سے دوچار افراد کچھ دیر کے لیے سورج کی طرف پیٹھ کرکے دھوپ لیں تو جسم کو بہرحال مطلوب گرمی ملتی ہے۔ لُو کی حالت میں ایسا کرنا خطرناک ہوسکتا ہے، تاہم عمومی شدید گرمی میں یہ پریکٹس فوائد دے سکتی ہے۔
ماہرین کا کہنا ہے کہ شدید گرمی سے فوائد بٹورنے کی کوشش اپنے طور پر نہیں کرنی چاہیے۔ جس طرح کوئی دوا اپنے طور پر نہیں لی جاسکتی بالکل اُسی طرح شدید گرمی میں جسم کو توانا رکھنے کی مشق بھی اپنی رائے یا پسند و ناپسند کی بنیاد پر نہیں کرنی چاہیے۔ اس کے لیے ماہرین سے مشاورت لازم ہے۔ عام طور پر شدید گرمی کے دوران دھوپ میں رہنے کا دورانیہ دس سے بیس منٹ ہونا چاہیے۔ اِس سے زیادہ دیر دھوپ میں رہنے سے انسان شدید پیچیدگیوں سے دوچار ہوسکتا ہے۔
ہیٹ ویو کے دوران بھی جسم کو فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے۔ اس کے لیے بنیادی شرط یہ ہے کہ جسم کو پانی کی کمی کا کسی طور سامنا نہ ہو۔ شدید گرمی میں یعنی دن کے وقت سات یا آٹھ گلاس پانی پینا لازم ہے۔ شام کے اوقات میں، جب دھوپ کا سامنا نہ ہو تب کم پانی پینے سے بھی گزارا ہوجاتا ہے۔ شدید گرمی میں باہر نکل کر دھوپ سے فوائد حاصل کرتے وقت جسم میں پانی کی مقدار مطلوبہ معیار تک ہونی چاہیے۔ اور یہ بھی لازم نہیں کہ شدید گرمی میں گھر سے باہر نکل کر ہی جسم کو کچھ فائدہ پہنچایا جاسکتا ہے۔ ماہرین کہتے ہیں کہ معقول دورانیے کی اِن ڈور ورزش بھی کارگر ثابت ہوسکتی ہے۔
بھاپ کا غسل جسم کے درجہ حرارت کو بڑھاتا ہے۔ جو لوگ باقاعدگی سے بھاپ کا غسل کرتے ہیں اُن کے دماغ، پھیپھڑوں اور جلد کو تقویت ملتی رہتی ہے۔ اُن میں تیزابیت اور جلن کی شکایت بھی کم پائی جاتی ہے۔ باقاعدگی سے بھاپ کا غسل کرنے والوں میں دل کے امراض بھی کم پائے جاتے ہیں۔
نیم گرم پانی سے غسل اچھی بات ہے مگر ایسا نہیں ہے کہ شدید گرمی میں قدرے ٹھنڈے پانے کا شاور جسم کو نقصان ہی پہنچاتا ہے۔ ورزش ختم کرنے کے کچھ دیر بعد نارمل ٹھنڈے پانی کا شاور بھی جسم کو راحت بخشتا ہے اور اندرونی کارکردگی بہتر بنانے میں مدد ملتی ہے۔
شدید گرمی میں ہر وقت گھر ہی میں بیٹھے رہنا مناسب نہیں۔ ذرا سی دیر کو باہر نکل کر حقیقی گرمی سے جسم کو متعارف ہونے کا موقع دینا چاہیے۔ اس سے جسم کا درجہ حرارت مطلوب و معقول حد تک رکھنے میں کامیابی ملتی ہے۔ ہولی فیملی اسپتال (دہلی) میں انٹرنل میڈیسن کے شعبے سے وابستہ ڈاکٹر انوپما سردانہ کہتی ہیں کہ شدید گرمی میں اچانک دھوپ میں جاکھڑا ہونا کسی بھی اعتبار سے سُودمند نہیں۔ اس معاملے میں احتیاط لازم ہے۔ جسم میں پانی کی مقدار معقول ہو تب ہی گھر سے باہر قدم رکھنا چاہیے۔ کچھ دیر دھوپ میں رہنا جسم کو فائدہ ضرور پہنچاتا ہے تاہم چند شرائط کی تکمیل ہی سے ایسا ممکن ہوپاتا ہے۔ ڈاکٹر انوپما سردانہ کے خیال میں شدید گرمی صرف اس لیے نہیں ہوتی کہ انسان گھر میں بند رہے۔ جسم کو فائدہ پہنچانے کے لیے دھوپ میں نکلنا چاہیے مگر غیر معمولی احتیاط کے ساتھ، کیونکہ ایسا نہ کرنے سے جسم کو فائدے کے بجائے نقصان پہنچتا ہے۔ خیر، نقصان کے خوف سے جسم کو فائدہ پہنچانے کے عمل سے دور نہیں رہا جاسکتا۔