آلودگی کا نام سنتے ہی آدمی کے کان بجنے لگتے ہیں، ایک کراہیت سی محسوس ہوتی ہے، اور سامنے نظر آنے والی شے کو دیکھ کر آدمی اس سے بچنے کی کوشش کرتا ہے۔ یہ آلودگی صرف کھانے پینے کی اشیا تک محدود نہیں ہے بلکہ ہر وہ چیز جس سے انسان کا سابقہ پڑتا ہے اُس میں آلودگی کی موجودگی انسان کے لیے نقصان دہ ہے۔ اس کے برخلاف خالص اور پاکیزہ چیزوں کو ہر سطح پر پسند کیا جاتا ہے جو کہ نہ صرف جسمانی، روحانی اور اخلاقی بالیدگی کی ضامن ہیں بلکہ اللہ کو بھی مطلوب ہیں۔ اللہ پاکیزہ ہے اور پاکیزگی کو پسند کرتا ہے۔ ’’واﷲ یحب المطہرین۔‘‘ (اللہ طاہر لوگوں سے محبت کرتا ہے۔‘‘
آلودگی کا دائرہ بہت وسیع ہے۔ میں سب سے پہلے ایمان و عقیدے کی آلودگی کی بات کروں گا۔ آدم علیہ السلام سے لے کر اللہ کے آخری رسول صلی اللہ علیہ وسلم تک ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام دنیا میں تشریف لائے جنہوں نے توحید و رسالت اور فکرِ آخرت کی تعلیمات لوگوں کو دیں۔ یاد رہے کہ آدمؑ کے ساتھ ہی شیطان بھی دنیا میں بھیجا گیا جو انسان کا ازلی دشمن ہے، جو ہزاروں سال کی کوششوں کے بعد اب اس میں کامیاب ہوچکا ہے کہ اس نے اسلام کے سوا تمام مذاہب کے ماننے والوں کو شرک میں مبتلا کردیا ہے۔ دنیا کے آٹھ ارب انسانوں کی آبادی میں اربوں انسان مذہبی عقیدہ رکھنے کے باوجود شرک، اور فکر ِ آخرت سے مبرا ہوکر شیطان کی پیروی کرتے ہیں۔ ان کی الہامی کتابوں میں بھی تحریف ہو چکی ہیں۔
اسلام کا عقیدۂ توحید و رسالت، فکر ِ آخرت اور خاندانی نظام اس لیے محفوظ ہے کہ قرآن اور سیرت النبی صلی اللہ علیہ وسلم چودہ صدیاں گزر جانے کے بعد بھی محفوظ ہیں۔ قرآن کا محافظ تو خود اللہ ہے جس نے اپنے کروڑوں بندوں کے سینے میں اس کو زیر و زبر کے ساتھ محفوظ کردیا ہے۔ لیکن یہ بات درست ہے کہ شیطان مسلمانوں کی کثیر تعداد کو عملی طور پر گمراہ کرنے میں کامیاب ہے۔ توحید و رسالت، فکرِ آخرت اور قرآن پر ایمان لانے کے باوجود مسلمانوں کا بڑا طبقہ اللہ کے سوا دوسروں کو بھی اپنا ملجا و ماوا گردانتا ہے۔ مسلمان آج مختلف فرقوں اور گروہوں میں منقسم ہیں۔ براہِ راست بت پرستی کے بجائے مزار پرستی اور شخصیت پرستی جیسے شرک میں مبتلا ہیں۔ کلمہ پڑھنے کے بعد بھی اپنا ہادی اور رہبر دنیا کے مختلف انسانوں کو مانتے ہیں۔ دنیا کے کسی ملک میں قرآن وسنت کا نظام قائم نہیں ہے۔ یہ عقیدے کی آلودگی ہے۔ انسان نظریۂ اسلام کی جگہ سیکولرزم، کمیونزم اور دیگر نظریات کی حکمرانی پر عمل پیرا ہے۔
اگر نیک اعمال بھی اخلاص سے خالی ہوں تو وہ ثواب کے بجائے عذاب کا سبب بن جائیں گے۔ سورہ الماعون میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے کہ ’’ہلاکت ہے ان نمازیوں کے لیے جو نماز تو پڑھتے ہیں مگر ریا کاری نہیں چھوڑتے۔‘‘ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ہر عمل کا دار و مدار نیت پر ہے۔‘‘ ایک شہید جہنم میں اس لیے ڈالا جائے گا کہ وہ بہادر کہلانے کی خاطر لڑا اور مارا گیا، ایک عالم جب اپنی علمیت کو دین کی خدمت کے بجائے نام و نمود اور مال کمانے کی غرض سے استعمال کرے گا تو وہ بھی جہنم کا حق دار ہوگا۔ سخی بھی اس لیے جہنم میں ڈال دیا جائے گا کہ وہ لوگوں کو اس لیے دیتا تھا تاکہ لوگ اس کو سخی کہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’ضرورت مند کو ایک ہاتھ سے دو تو دوسرے ہاتھ کو پتا نہ چلے۔‘‘ اسی طرح جو دینی تحریکیں قرآن و سنت کی بالادستی کے لیے برپا ہوتی ہیں، وہ اُس وقت اللہ کی تائید و نصرت سے محروم ہوجاتی ہیں جب وہ دین کی بالادستی قائم کرنے کے بجائے نظام باطل کے علَم برداروں سے مل کر ایوانوں میں کامیابی کی جدوجہد کرنے لگتی ہیں، نیز اس تحریک کے علَم بردار نام و نمود اور شہرت کو ترجیح دینے لگتے ہیں۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے تو نوافل عبادت کو بھی مخفی رکھنے کی ہدایت کی ہے۔ وقت کے ولیوں اور بزرگوں نے ایسی مثالیں قائم کیں جن کی وجہ سے ہزاروں سال پہلے اللہ والے بغیر کسی تشہیر اور ذرائع ابلاغ کے عالم میں مشہور ہیں اور ان کے مزارات خلقِ خدا کے عقیدت واحترام سے جگمگا رہے ہیں۔
سورہ مومن اور سورہ البینات میں اللہ نے عبادات کو اخلاص سے مشروط کیا ہے۔
جنید بغدادیؒ نے ایک بار رمضان المبارک میں بازار سے گزرتے ہوئے ایک دکان سے پھل اٹھا کر کھا لیا۔ جب شاگردوں نے پوچھا: یا شیخ آپ نے روزہ توڑ دیا؟ تو آپ نے کہا: میں کفارہ ادا کردوں گا، میں نے یہ اس لیے کیا کہ لوگ مجھ کو زیادہ متقی اور پرہیزگار نہ سمجھیں۔ رابعہ بصریؒ سے کسی نے پوچھا: آپ اتنی عبادت کیا جنت کے لیے کرتی ہیں؟ تو آپؒ نے کہا: نہیں، میں اس لیے عبادت کرتی ہوں کہ اللہ کا حکم ہے۔ جو کام صرف اور صرف خوشنودیِ رب کے لیے کیا جائے اُس کا صلہ صرف جنت ہے جس کا وعدہ اللہ نے کیا ہے۔
طائف میں اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم جب لہولہان ہوکر ایک باغ میں بیٹھے تو آپؐ نے یہی کہا ’’اے میرے رب! آپ میری اس حالت میں خوش ہیں تو میں بھی راضی ہوں۔‘‘
رہ گئی رسمِ اذاں روحِ بلالی نہ رہی
فلسفہ رہ گیا تلقینِ غزالیؒ نہ رہی
یہ اک سجدہ جسے تُو گراں سمجھتا ہے
ہزار سجدوں سے دیتا ہے آدمی کو نجات
جو میں سر بہ سجود ہوا کبھی تو زمیں سے آنے لگی صدا
تیرا دل تو ہے صنم آشنا تجھے کیا ملے گا نماز میں
اب اُن آلودگیوں کی بات کروںگا جو نہ صرف انسانوں بلکہ ہر جان دار کے لیے نقصان دہ ہیں، جو کہ خود انسانوں کی پیدا کردہ ہیں، جن کی وجہ سے فضا، دریا، سمندر، کھانے پینے کی اشیا آلودہ ہوکر ناقابلِ علاج بیماریوں کا سبب بن چکی ہیں۔ اللہ انسانوں اور تمام جان دار مخلوقات کے لیے ہر شے خالص فراہم کرتا ہے مگر یہ انسان ہے جس کی صنعتوں اور دیگر کیمیائی کارخانوں سے نکلنے والی زہریلی و مضر صحت گیسوں نے پوری فضا کو آلودہ کردیا ہے اور تازہ آکسیجن گیس میں کاربن ڈائی آکسائیڈ گیس کی مقدار بڑھ جانے سے انسانی صحت کو شدید ترین خطرات لاحق ہوچکے ہیں۔ گرین ہائوس گیسوں کے اخراج کی وجہ سے دنیا کا موسم تبدیل ہوچکا ہے۔ جنگلات کی کٹائی کی وجہ سے بارشوں میں کمی ہوگئی ہے جس سے زمین کا بڑا حصہ بنجر ہوتا جارہا ہے۔ سیلاب کی غیر معمولی آمد کی وجہ سے بہت سے ملکوں میں بڑی تباہی ہوئی ہے جن میں پاکستان سرفہرست ہے۔ کیمیائی فضلے جو سمندر اور دریاؤں میں بہائے جا رہے ہیں ان سے آبی حیات کو شدید خطرات لاحق ہوچکے ہیں یہاں تک کہ بہت سی آبی حیات کی نسلیں ناپید ہورہی ہیں۔ ان دریائوں کا آلودہ پانی فصلوں کی آبیاری اور پینے میں استعمال ہوتا ہے، جس سے مضر صحت فصلیں پیدا ہورہی ہیں اور بہت سی بیماریاں پھیل رہی ہیں۔ پانی کے بغیر تو کوئی جان دار زندہ نہیں رہ سکتا۔ یہ انسان اور پودوں کی زندگی ہے۔ آج دنیا کے 70 فیصد انسان صاف پانی سے محروم ہیں۔ گاؤں، دیہات میں تو ایک ہی تالاب سے آدمی اور جانور دونوں پانی پیتے ہیں۔ نہ صاف ہوا میسر ہے، نہ صاف پانی، پھر کیسے صحت مند معاشرے کی امید ہو!
اشیائے خورونوش کی آلودگی نے تو قیامت برپا کررکھی ہے۔ چاول میں کنکر، دودھ میں ملاوٹ، تیل، گھی، آٹا، گوشت میں پانی، جعلی دوائیں۔ ہر چیز میں ملاوٹ نے انسانی صحت کا جنازہ نکال کر رکھ دیا ہے جس میں پاکستان، بھارت، بنگلہ دیش اور تیسری دنیا کے ترقی پذیر ممالک سرفہرست ہیں۔
ان تمام آلودگیوں کا ذمے دار خود انسان ہے۔ دیہات میں تو گھروں کا کوڑا کرکٹ کھیتوں میں ڈال کر قدرتی کھاد بنالی جاتی ہے، مگر آج زیادہ سے زیادہ پیداوار حاصل کرنے کے لیے مصنوعی کھاد کے استعمال نے اشیائے خورونوش کو صحت کے لیے نقصان دہ بنادیا ہے۔ شہروں کی آبادی کا بڑا مسئلہ گھروں سے روزانہ کی بنیاد پر نکلنے والا ہزاروں ٹن کوڑا کرکٹ ہے۔ جن بڑے شہروں میں اس کو ٹھکانے لگانے کا مؤثر انتظام نہیں ہے وہاں اس سے تعفن پھیلا رہتا ہے جو مختلف بیماریوں کی وجہ ہے، بالخصوص سانس کی بیماریاں۔
بڑے شہروں میں آلودگی کی ایک بڑی قسم شور ہے جو سڑکوں پر لاکھوں کی تعداد میں چلنے والی گاڑیوں کی وجہ سے پیدا ہوتا ہے، جس نے بڑی تعداد کو بہرے پن اور اعصابی بیماری میں مبتلا کردیا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے بعد سے تمام بڑی طاقتوں بالخصوص امریکا، روس، فرانس، برطانیہ، چین کی جانب سے مسلسل ایٹمی، کیمیائی اور حیاتیاتی ہتھیاروں کے تجربات اور مسلسل جنگوں میں بے پناہ بارودی اور مختلف آتشیں اسلحے کے استعمال نے زمین کی حرارت میں بہت زیادہ اضافہ کردیا ہے جس سے بڑے بڑے گلیشیئر پگھلنے لگے ہیں اور سمندر کی سطح تیزی سے بلند ہورہی ہے۔ ماہرینِ ارضیات کا کہنا یہ ہے کہ آئندہ دہائی میں بڑے بڑے سونامی اُن بہت سے ممالک کو غرقاب کردیں گے جو بڑے سمندروں کے ساتھ آباد ہیں۔ زمین کی ایک خاص بلندی پر اللہ تعالیٰ نے زمین کی حرارت کو معتدل رکھنے کے لیے اوزون گیس کی تہ قائم کردی ہے جو سورج سے نکلنے والی بالا بنفشئی شعاعوں کو براہِ راست زمین پر آنے سے روکتی ہے، مگر ان ہتھیاروں کے تجربات نے اوزون کی سطح کو متاثر کردیا ہے جس سے Ultra Violet Rays بھی زمین کی حرارت کو بڑھا رہی ہیں اور مختلف بیماریوں کا سبب بن رہی ہیں۔
تازہ ہوا، صحت مند غذا اور صاف پانی قدرت کی جانب سے عطا ہوئے ہیں مگر خود انسان ان نعمتوں کو آلودہ کرکے اپنی صحت اور اللہ کی اس خوب صورت جنت نظیر زمین کو جہنم بنارہا ہے۔ قرآن مجید میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے:
’’خشکی اور تری میں جو فساد برپا ہے وہ سب تمہارے اپنے ہاتھوں کی کمائی ہے تاکہ اللہ تمہیں تمہارے ہاتھوں کی کمائی کا مزا چکھائے۔‘‘ (سورہ الروم 41)
پوری دنیا میں 2020ء کی ابتدا میں کورونا وائرس کی وبا پھیلی جس سے کروڑوں انسان ہلاک ہوئے اور دنیا کی معیشت کا پہیہ جام ہوگیا جس کے اثراتِ بد آج بھی موجود ہیں۔ یہ وائرس بھی تو انسانوں نے ہی بنا کر فضا میں چھوڑا جس نے پوری دنیا کو اپنے لپیٹ میں لے لیا۔
ہمارے عیبوں نے ہمیں کہیں کا نہ چھوڑا
رب سے فریاد کرنے میں بھی شرم آتی ہے
کعبہ کس منہ سے جاؤ گے غالبؔ
شرم تم کو مگر نہیں آتی