ہماری خالہ

144

محاورتاً کہا جاتا ہے ’’ماں مرے موسی جیے‘‘۔ بظاہر لگتا یہ ہے کہ جیسے ماں کو مرنے اور خالہ کو جینے کا کہا جارہا ہے۔ مگر اس کا مفہوم یہ ہے کہ اگر ماں نہیں تو خالہ اس کا نعم البدل ہیں۔ یعنی ماں کے بعد سب سے قریب ترین رشتہ خالہ کا ہی ہے۔

اب بات کرتے ہیں اپنی خالہ مرحومہ کی، تو وہ ہماری واحد ننھیالی رشتے دار تھیں جو پاکستان میں آباد تھیں۔ دیگر تمام لوگ تو اپنے آبائی شہر غازی پور بھارت اور دہلی میں رہائش پذیر ہیں۔ امی اپنی شادی کے بعد رخصت ہوکر کراچی آئیں، جب کہ خالہ شادی کی نیت سے یہاں لائی گئیں بلکہ بلوائی گئیں۔

1969ء میں گرمیوں کی تعطیلات میں امی مجھے اور حمیرہ کو لے کر ہندوستان گئیں۔ اُس وقت تک صرف بڑے ماموں بیاہے گئے تھے۔ خالہ اپنی تعلیم بی اے، بی ایڈ مکمل کرچکی تھیں۔ شاید غازی پور کے کسی اسکول میں پڑھا بھی رہی تھیں۔ خالہ کی عمر اُس وقت بہ مشکل بائیس سال ہوگی، مگر خاندانی جسمانی ساخت کی وجہ سے خاصی بڑی لگتی تھیں۔ نانا نانی ان کے لیے بہت پریشان تھے کیوں کہ اُس دور میں بچیوں کے لیے مناسب اور ہم پلہ رشتوں کا بحران تھا۔ لڑکیاں پڑھ لکھ گئی تھیں اور لڑکے نہ صرف تعلیم میں ان کے ہم پلہ نہ تھے بلکہ برسرِ روزگار بھی نہ تھے۔

نانی، خالہ کو لے کر اکتوبر 1969ء میں پاکستان آگئی تھیں۔ ان کی آمد اور صفیہ کی ولادت کے بعد زور شور سے رشتے کی تلاش شروع ہو گئی۔ بہت لوگ آئے مگر بات نہ بنی۔ پھر نانی، خالہ کو یہاں چھوڑ کر واپس سدھاریں اور امی ابا نے مل کر اس مہم کو سر کرنے کا بیڑا اٹھایا۔ پھر خالہ کے رشتے کی بات اعظم گڑھ بستی کے ایک سید گھرانے کے سات بہن بھائیوں میں پانچویں نمبر کے سید امتیاز احمد سے چلی۔ امتیاز صاحب اسٹیٹ بینک میں بطور اسسٹنٹ کام کررہے تھے، تین بھائی اور ایک بہن ان سے بڑے اور دو بہنیں چھوٹی تھیں۔ سب سے چھوٹی ہمشیرہ کی شادی خالہ کی شادی کے ساتھ ہی انجام پائی۔ باقی بہن بھائی پہلے سے شادی شدہ تھے۔

خالہ کا رشتہ طے ہوا اور خالو کے گھر والے مٹھائی لے کر ہمارے گھر آئے۔ خالہ نے شاید امی کا ہی ہلکے گلابی رنگ کا دوپٹہ اوڑھا تھا۔ ناشتے کے لوازمات انہوں نے بنائے اور سارے برتن بھی انہوں نے ہی دھوئے تھے۔

ابا ان سے غیر معمولی لگاؤ رکھتے تھے اور بہت خوش بھی تھے۔ رشتہ طے ہونے کے محض چند ماہ بعد کی تاریخ طے ہوئی۔ امی نے ابا کے آفس کی برنی آنٹی کی مدد سے شادی کی خریداری شروع کی اور ابا کے گہرے دوست یعقوب علی شاہ کی بیگم کی بھی امی کو پوری پوری معاونت حاصل رہی، ورنہ تین بچوں کے ساتھ یہ سب کچھ آسان نہ ہوتا۔ خیر شادی کا وقت قریب آیا تو ہم نے اس میں بھرپور حصہ لیا۔ اُس وقت ہماری اپنی عمرفقط سوا چھ سال تھی۔ گھر کے صحن میں رکھی پانی کی ٹنکی کو محلے کی اپنی ہم عمر اور بڑی بچیوں کے ساتھ بجا بجا کر گیت گائے۔ خالہ کی شادی سے ایک ہفتہ قبل ہی منے چچا کی شادی ہوئی تھی۔ ابا دونوں طرف ہی مصروف تھے۔

خالہ کی شادی سے کچھ عرصہ قبل ہی ہمارا محلے کے پیلے اسکول میں داخلہ ہوچکا تھا۔ اُس دور میں شادی کا تمام انتظام گھر کے دروازے پر ہی کیا جاتا تھا۔ ہمارے عزیزآباد والے گھر کے سامنے ایک بہت بڑا میدان تھا جس میں ایک طرف مسجد صفا اور دوسری طرف گورنمنٹ کا پرائمری اسکول تھا جس میں صبح کی شفٹ میں لڑکوں اور شام میں لڑکیوں کا اسکول لگتا تھا۔ ہم نے بھی پہلی اور دوسری کی تعلیم اسی پیلے اسکول سے حاصل کی ہے۔ خیر جناب! خوب بڑے سے میدان میں نان بائی کھانا بنانے میں مصروف ہوئے۔ بارات کے استقبال کے لیے شامیانے کا پنڈال لگایا گیا۔ ہمارے چھوٹے سے گھر کے ہر کمرے میں مہمان بھرے تھے۔ ایک کمرے میں خالہ کو دلہن بنایا جا رہا تھا۔ اتنے میں بارات کی آمد کا شور اٹھا۔ ابا، ہمارے تمام چچا، پھوپھا بارات کے استقبال کے لیے ہاتھ باندھے کھڑے تھے کہ بارات آگئی۔ ابا ایک قدم آگے بڑھے پھر ٹھٹھک کر دو قدم پیچھے ہوگئے اور بڑے پھوپھا کو آگے کردیا، انہوں نے ہی خالو کا استقبال کیا۔ رخصتی سے تھوڑی دیر پہلے فخر چچا ہمیں خالو سے ملوانے لے گئے اور ہم شاید شرما کر چچا کی ٹانگوں سے ہی لپٹ گئے۔

خالہ سے ہماری انسیت اور لگاؤ ہمیشہ بہت زیادہ رہا۔ اُس وقت بھی جب وہ ہم سے ملی نہیں تھیں، اور تب بھی جب وہ پاکستان آگئیں۔ خالہ جب کبھی بھی ہمارے گھر آتیں، ہم ہر بات کے لیے اُن کی طرف ہی دیکھتے۔ خالہ شادی کے بعد رخصت ہوکر ناظم آباد میں اپنے جیٹھ کے گھر گئی تھیں۔ بعد ازاں وہ خالو کے ذاتی گھر کورنگی منتقل ہوگئیں۔ کچھ عرصہ وہاں رہنے کے بعد ہمارے گھر آگئیں۔ پھر ہمارے گھر سے چار گلی آگے، خالو نے اسٹیٹ بینک کے قرضے کے عوض اٹھارہ ہزار میں 120 گز کا مکان خرید لیا جس کے دو کمروں میں انہوں نے رہائش اختیار کی اور دو کمرے کرائے پر دے دیے۔ یوں عزیزآباد کے اسی گھر سے خالہ کی زندگی کی ابتدا ہوئی۔

خالہ کی چھ اولادیں وہیں پیدا ہوئیں اور بیاہی بھی وہیں سے گئیں۔ خالہ کے اس دنیا سے چلے جانے کے پندرہ سال بعد بھی اس گھر میں ان کی اولاد اور شوہر آج بھی رہائش پذیر ہیں۔ خالہ کی پہلی اولاد طلعت تھیں اور سب سے چھوٹے عقیل میاں جو ابھی ماشا اللہ پچھلے دنوں ہی رشتہ ازدواج میں منسلک ہوئے ہیں۔ خالہ کا پڑوس میں بہت اچھا دوستانہ تھا۔ بالکل گھر جیسا تعلق تھا جو آج بھی اسی طرح قائم ہے۔ہم 1973ء تک اسی محلے میں رہائش پذیر رہے۔ اُس وقت تک ٹی وی ہر گھر تک نہیں پہنچا تھا، لوگ فلم اور ڈراموں کے لیے کسی نہ کسی کے گھر جاتے، ہم بھی ہر اتوار کو بہانے سے خالہ کے گھر آتے اور پھر اُن کے پڑوس میں فلم دیکھتے۔ خالہ بہت بے تکلفانہ مزاج رکھتی تھیں۔ اپنی پڑوسن کو وہ خالہ کہتی تھیں۔ جتنی دیر فلم ٹی وی پر چلتی رہتی، خالہ کا ہاتھ ہمارے سر میں ہوتا اور وہ ہمیں ڈانٹتے ہوئے صفائی پر لیکچر دیتیں اور سر سے جوئیں صاف کرتی جاتیں۔ آج ان کی محبت کا انداز بہت یاد آتا ہے۔

خالہ نے ہماری اماں کی بیماری میں اپنے اوپر تلے کے تین بچوں کے ساتھ ہم لوگوں کی بہت خدمت کی۔ وہ ہمارے گھر کھانا بناتیں، ہمیں نہلاتیں، اپنے گھر کے کام خود کرتیں اور پھر ہمارے گھر آکر بھی ہم سب کی خدمت انجام دی۔

ہم 1973ء میں ناظم آباد شفٹ ہوگئے، اکتوبر 1973ء میں خالہ کے تیسرے بیٹے منیر کی ولادت ہوئی۔ وہ ہمارے ہاں اکثر و بیشتر اپنے بچوں کے ساتھ رہنے کے لیے بھی آتی تھیں۔ پھر دھیرے دھیرے بچوں کی تعلیم اور دیگر معاملات میں الجھ کر آنے جانے میں کمی واقع ہونے لگی۔

خالہ کے ساتھ ساتھ خالو بھی ہمارے ہاں آتے، اور انہوں نے مجھے انگریزی کی مضمون نویسی بھی سکھائی۔ اس طرح وہ میرے استاد بھی رہے۔ ہم بھی خالہ کے ہاں ہر موقع پر موجود ہوتے۔ چاہے طلعت کی سہیلیوں کی دعوت ہو، عتیق یا عقیل کی سالگرہ کا دن ہو، ہم بہنیں پہنچی ہوتیں۔ ہمارا شوق کھانا پکانا تھا، اس لیے ہم تو فوراً ہی باورچی خانہ سنبھال لیتے۔ پھر ہم سب مکمل آزادی کے ساتھ پکاتے بھی اور سب کو کھلاتے بھی۔ خالہ خود بھی بہت شوقین تھیں طرح طرح کی اشیا بنانے کی۔ اس لیے اُن کے پاس مختلف قسم کے اچار، مربے، حلوے وغیرہ موجود ہوتے تھے۔

خالہ خاصی خوش شکل، خوش گفتار اور خوش گلو ہونے کے ساتھ ساتھ بہت ہی ملنسار طبیعت کی مالک تھیں۔ محلے میں ان کا حلقۂ احباب بہت جلد ہی وسیع ہوگیا تھا۔ ہر چھوٹی بڑی عورت اور لڑکی کی ’’نورن باجی‘‘ تھیں اور اسی نام سے پکاری اور پہچانی جاتی تھیں۔ میلاد کی محفلوں میں بھی بہت شوق سے حصہ لیتیں۔

میری شادی کے موقع پر خالہ نے بہت گرم جوشی سے تیاریاں کیں۔ شادی سے قبل میرے لیے ابٹن بناکر لائیں اور ساتھ پینڈیاں بھی۔ شادی کے بعد لطیف کی بہت خاطر داری کی، اُن کو پراٹھے بنا کر کھلائے۔ بعد میں بے تکلفی بڑھی تو اکثر لطیف سے مذاق بھی کیا کرتیں۔ امامہ کی شادی پر ابھی ابا کو گزرے صرف چھ ماہ ہوئے تھے اور امی تو گزشتہ دو سال سے صاحبِ فراش تھیں تو ہم لوگوں نے پھوپھی کو ابا کی جگہ اور خالہ کو امی کی جگہ محسوس کیا۔

جیسے جیسے وقت گزرتا گیا ہم تینوں بہنیں اپنی تعلیم مکمل کرکے اپنی عملی زندگی میں آگے بڑھ گئیں، تو خالہ اپنے ملنے والوں سے ہمارا خوب تذکرہ کرتیں۔ وہ نہ جانے کیا کہتی ہوں گی مگر ان کا پورا حلقہ احباب ہم لوگوں سے بہ خوبی واقف تھا۔

خالہ کی زندگی میں یقینا دکھ اور پریشانی بھی ہوگی، مگر وہ خدا کی بندی ایسی کہ ہر تکلیف و پریشانی کو اپنے بلند قہقہے میں چھپا لیتیں۔ خالہ اپنی زندگی میں اپنے تین بچوں کو بیاہ چکی تھیں اور لئیق کے رشتے کی بات چلا چکی تھیں، جو اُن کے انتقال کے بعد تکمیل کو پہنچا۔ انتقال سے دو دن پہلے مجھے فون کرکے کسی رشتے کی تفصیلات بتائیں اور ساتھ فرمائش کی کہ کہیں گھومنے چلو، کسی فارم ہاؤس پر یا سمندر کے کنارے۔ میں نے ہامی بھر لی کہ پروگرام بناتے ہیں۔ ایک رات قبل امامہ سے ڈھیروں باتیں کیں۔ اُس وقت عثمان میاں 25 دن کے تھے اور تھے بہت کمزور، ان کی صحت کے حوالے سے بہت سمجھایا، اپنی دوسرے دن کی پکنک کا بتایا۔ کیا پتا تھا کہ ان کی تو کہیں اور جانے کی تیاری ہے۔

دوسرا دن 20 جون بروز بدھ تھا، میں آفس میں ہی تھی۔ لطیف نے مجھے فون کیا اور یہ اندوہناک اطلاع دی۔ میں بار بار ان سے پوچھتی رہی کہ ’’میری خالہ یا آپ کی؟‘‘ انہوں نے اصرار کرکے کہا ’’تمہاری… فوراً نیچے آؤ خالہ کے گھر جارہے ہیں۔‘‘

ہم خالہ کے گھر آئے۔ امی بھی کسی نہ کسی طرح وہاں لائی گئیں۔ طلعت، حمیرہ اور میں نے پھوپھی کی سربراہی میں خالہ کو غسل دے کر انہیں آخری سفر کے لیے تیار کیا۔ مجھے بہ خوبی اندازہ ہے کہ میری خالہ اپنے دل میں بہت ساری خواہشات اور خلش لے کر اس جہانِ فانی سے گئی ہیں۔ میری دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ان کی ہر ادھوری خواہش اور خلش کے بدلے انہیں بہترین انعامات سے نوازے اور ان کے درجات بلند کرے۔ جنت میں اعلیٰ مقام عطا کرے۔ ان کی اولاد کو ان کے لیے بہترین صدقۂ جاریہ بنائے، آمین۔

حصہ