بزم یاران سخن کا راغب مراد آبادی کی یاد میں مشاعرہ

234

ایم پی اے ہائوس کراچی میں بزمِ یاران سخن کے زیر اہتمام راغب مراد آبادی کی یاد میں مذاکرہ اور مشاعرے کا انعقاد کیا گیا۔ اس پروگرام کی صدارت اکرم کنجاہی کے نام تھی جو کہ بوجوہ تشریف نہ لا سکے لہٰذا اختر سعیدی نے صدارت کی۔ آئیرن فرحت نے نظامت کے فرائض انجام دیے۔ موصوفہ قابل قدر نظامت کار ہیں اور کراچی کے بے شمار پروگرام میں بہ حسن و خوبی اپنی صلاحیتوں کے جوہر دکھا رہی ہیں۔ نظر فاطمی نے تلاوتِ کلام مجید کی سعادت حاصل کی۔ عابد شیروانی نے نعت رسولؐ پیش کی۔ بزم یارانِ سخن کراچی کے صدر سلمان صدیقی نے خطبہ استقبالیہ میں کہا کہ ان کی تنظیم 1974ء سے تواتر کے ساتھ علمی و ادبی تقریبات منعقد کر رہی ہے ہم اپنے ہر پروگرام میں وقت کی پابندی کرتے ہیں اور تاخیر سے آنے والے شعرا سے کلام نہیں سنتے یہ بات ریکارڈ پر ہے کہ ہم اس سلسلے میں کوئی سمجھوتہ نہیں کرتے۔ انہوں نے مزید کہا کہ حضرت راغب مراد آبادی ہمہ جہت شخصیت تھے اور اردو زبان و ادب کے قادرالکلام شاعر تھے۔ ان کی ادبی خدمات سے انکار ممکن نہیں۔ وہ عروض داں‘ بدیہہ گو اور ماہر لسانیت تھے۔ انہوں نے مختلف سرکاری اداروں میں خدمات انجام دیں۔ وہ 1930ء سے شعر کہہ رہے تھے‘ ان کی شائع شدہ کتابوں میں قومی و ملی شاعری کے حوالے سے عزم و ایثار‘ ہمارا کشمیر‘ آزادی‘ موجود ہیں ہنگامی و صحافتی شاعری میں جو کتابیں ان کے نام ہیں تحریک‘ روشنیوں کا شہر‘ اوویشن ٹو چائنا‘ ان کا منظوم سفر نامہ ہے جس میں 158 رباعیات شامل ہیں۔

ڈاکٹر خالد محمود قیصر نے کہا کہ ان کا شمار بلند پایہ اساتذہ‘ علم و فن میں ہوتا تھا یوں تو انہیں تمام مروجہ اصنافِ سخن پر عبور حاصل تھا مگر تاریخ گوئی اور فی البدیہہ کلام کہنے میں کوئی بھی ان کا نعم البدل نہیں ہے۔ زبان و بیان اور رموزِ فنِ شاعری کے حوالے سے وہ استاد کا درجہ رکھتے تھے‘ ان کی ایک اور بڑی شناخت ان کی رباعیات ہیں ان کے کلام میں زبان کی سلاست اور سہولتِ اظہار کے ساتھ تمام محاسن غزل نظر آتے ہیں۔ ان کے ہاں جدت پسندی اور نئی لفظیات کے پیراہن میں خوب صورت استعارے موجود ہیں‘ ان کے کلام میں رجاعیت کا بھرپور انداز موجود ہے‘ ان کے ہاں زبان و بیان کی مہارت و ندرت کے ساتھ حزن و ملال کا رنگ بھی جھلکتا ہے۔ انہوں نے برصغیر ہند و پاک میں انگریزی کی لسانی و ثقافتی یلغار کے خلاف بھی مزاحمتی شاعری کی ہے۔ اکرم کنجاہی نے آن لائن گفتگو کرتے ہوئے کہا وہ اپنی اہلیہ کی طبیعت خراب ہونے کی وجہ سے اس پروگرام میں شریک نہیں ہو سکے جس کا بہت افسوس ہے یہ بڑی خوش آئند بات ہے کہ بزم یارانِ سخن کراچی ہر برس راغب مراد آبادی کی یاد میں پروگرام ترتیب دیتی ہے۔ ہمارا فرض ہے کہ اپنے ادب کے گراں قدر قلم کاروں کو یاد کرتے رہیں ان کے کلام سے استفادہ کریں۔ انہوں نے مزید کہا کہ راغب مرآد بادی بڑی خوبیوں کے آدمی تھے‘ خوش مزاج ہونے کے علاوہ علوم شاعری پر مکمل دسترس رکھتے تھے۔ راغب مراد آبادی کا محور عشقِ رسولؐ ہے خاص طور پر ان کا سفر نامہ حجاز‘ جادۂ رحمت ایک اہم شعری تجربہ ہے چار سو رباعیات کا مشتمل یہ سفر نامہ منفرد خصوصیت کا حامل ہے۔ مدحت خیرالبشر‘ نعتیہ مجموعہ ہے جو کہ مرزا غالب کی 6 غزلوں کی زمین میں راغب مراد آبادی کا نعتیہ کلام ہے۔ بدرالدجیٰ بھی نعتیہ کلام ہے۔ غزلوں کا مجموعہ رگ گفتار ہے راغب مراد آبادی کی ہائیکوز بھی قابل ستائش ہیں اس کے علاوہ بھی ان کی بہت کتابیں ہیں جو کہ مارکیٹ میں دستیاب ہیں ان کے اشعار میں روایت پسندی کے ساتھ ساتھ جدید اسلوبِ اظہار ملتا ہے‘ ان کے ہاں کلاسکیت اور رواں مصرعے ہیں‘ انہوں نے زمانے کی قدرِ ناشاسی کو بھی لکھا ہے اور ہمیں نیک راہ پر چلنے کی ہدایت بھی کی ہے۔ ان کا ادبی کام بہت ہے ان پر پی ایچ ڈی اور ایم فل کے مقالے بھی لکھے جا چکے ہیں۔ انہوں نے غزل میں نئے نئے تجربات کیے جو سب کے سب کامیاب ہوئے۔ انہوں نے جوش ملیح آبادی کی طرز پر سیاسی اور انقلابی نظمیں بھی کہی ہیں۔ زمانے کے حالات و واقعات اور حیاتِ انسانی کے روّیوں کو بھی انہوں نے موضوع سخن بنایا ہے۔ انہوںنے قومی اور ملّی نغموں کے ذریعے مسلمانانِ ہند میں آزادی کی تحریک پیدا کی ان کے نزدیک شاعری وہ فن ہے جو بے حسوں کو بھی چونکا دیتی ہے۔ یہ اخلاق کی استواری اور روح کی بیداری کا نام ہے۔ انہوں نے اپنی شاعری میں حضرت امام حسینؓ کو بھی خراج عقیدت پیش کیا ہے کہ اس واقعہ نے اسلامی تاریخ مین سچائیوں کا ایک اہم باب رقم کیا اور ہمیں اصولوں پر قائم رہنے اور باطل قوتوں کے مقابلے میں ڈٹ جانے کا درس دیا ہے۔

عابد شیروانی ایڈووکیٹ نے کہا کہ راغب مراد آبادی 40 سے زائد کتابوں کے مصنف ہیں‘ حکومتِ پاکستان نے انہیں تمغہ حسن کارکردگی سے نوازا ہے‘ ان کا شمار بھی ان ممتاز صاحبانِ فکر اساتذہ میں ہوتا ہے جو کلاسیکل روایات کی باریکیوں کا خیال رکھتے ہیں۔ ان کی شاعری میں مومن‘ میر‘ غالب‘ اقبال اور سیِماب اکبر آبادی کا رنگ نمایاں نظر آتا ہے۔ ان کا کلام تہذیب‘ اخلاق اور اصلاح معاشرت کے سبق آموز مضامین سے مالا مال ہے۔ ان کے قطعات کا مجموعہ اس قابل ہے کہ اسے نصابِ تعلیم میں شامل کیا جائے۔ انہوں نے مذہبی شاعری بھی کی اور غزلیات میں بھی انہیں کمال حاصل ہے ان جیسے قادرالکلام شاعر صدیوں میں پیدا ہوتے ہیں۔ انہوں نے فی البدیہہ نظامت کاری بھی کی‘ وہ قلم برداشتہ اشعار میں بھی اپنا جواب نہیں رکھتے تھے۔ راغب مراد آبادی کی شاعری‘ نظم‘ نثر اور سیاسی و معاشی افکار پر ایک سیمینار کی ضرورت ہے‘ ان کے شاگردوں کی تعداد بھی بہت ہے‘ ان کے لیے راغب اکیڈمی قائم ہونی چاہیے۔ ان کے کام پرمطالعاتی اور تحقیقی ریسرچ کی ضرورت ہے۔ میں بزم یارانِ سخن کراچی کو مبارک باد پیش کرتا ہوں کہ اس ادارے نے ایک شان دار پروگرام آرگنائز کیا۔

اختر سعیدی نے راغب مراد آبادی پر نظم پڑھی جس میں ان کے فن اور شخصیت پر مکمل بات کی گئی۔ اس موقع پر اختر سعیدی نے اپنی غزلیں بھی پیش کیں‘ ان کے علاوہ افتخار ملک ایڈووکیٹ‘ حجاب عباسی‘ سحرتاب رومانی‘ زاہد حسین جوہری‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار احمد‘ اختر شاہ ہاشمی‘ مقبول زیدی‘ شاعر علی شاعر‘ احمد سعید خان‘ سلیم شہزاد‘ صفدر علی انشاء‘ رانا خالد محمود‘ نظر فاطمی‘ جمیل ادیب سید‘ فخر اللہ شاد‘ شجاع الزماں خان‘ عارف نظیر‘ یاسر سعید صدیقی‘ کامران صدیقی‘ فرح کلثوم‘ سلمیٰ رضا سلمیٰ‘ کشور عروج‘ سرور چوہان‘ ہما ساریہ‘ آئیرن فرحت‘ شہزین حسنین ناز اور عفت مسعود نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ سرور چوہان نے کلماتِ تشکر ادا کیے۔

حصہ