اب تو یہ کہتے ہوئے بھی شرمندگی محسوس ہوتی ہے کہ کراچی مسائل کا گڑھ بن چکا ہے۔ جہاں جائیں، جدھر دیکھیں ہر جگہ بنیادی سہولیات کے حصول کے سلسلے میں احتجاج ہوتا دکھائی دیتا ہے۔ کسی علاقے کا رخ کرلیں ’’پانی دو‘‘، ’’بجلی دو‘‘ کی دہائیاں سنائی دیتی ہیں۔ ایک طرف غریب عوام بوند بوند پانی کو ترس رہے ہیں، تو دوسری جانب ٹینکر مافیا 5000روپے فی ٹینکر فروخت کرکے لاکھوں روپے کما رہا ہے۔ انتہائی سخت موسم میں جبکہ ہیٹ ویو کی وارننگ بھی جاری کردی گئی ہے، پانی کی بندش عوام کو موت کے گھاٹ اتارنے کے مترادف ہے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں پانی کی سپلائی نہ ہونے کے باعث عوام کے صبر کا پیمانہ لبریز ہوتا جارہا ہے، ایسے حالات پیدا ہوچکے ہیں کہ بنیادی سہولیات کی عدم فراہمی اور بڑھتے ہوئے عوامی مسائل کا ذکر کرنا، یا بے بس عوام کی التجائیں تحریر کرنا مذاق بن گیا ہے۔ ظاہر ہے جب کوئی سننے والا نہ ہو تو ندامت کے سوا کیا حاصل! پینے کے صاف پانی کی سپلائی بند ہونے پر عوام میں بڑھتی ہوئی بے چینی کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ پچھلے دنوں میرا گزر 362 روڈ گرین بیلٹ لانڈھی نمبر چار سے ہوا جہاں انوکھے انداز میں احتجاج کیا جارہا تھا جو واٹر بورڈ کے عملے کی چالاکی کے باعث آپسی جھگڑے میں تبدیل ہوگیا تھا، یعنی مختلف علاقوں کے رہنے والے لوگ ایک دوسرے سے دست و گریباں تھے۔ ایک گروپ میرٹ پمپ اسٹیشن کے ساتھ نصب والو کھولنے، جبکہ دوسرا گروپ والو بند کرنے کی ضد پر اَڑا ہوا تھا۔ ایسے میں بھلا کون ثالث کا کردار ادا کر سکتا تھا! شور شرابے کے باعث کان پڑی آواز سنائی نہیں دے رہی تھی۔ اس سے پہلے کہ حالات مزید کشیدہ ہوتے میری نظر سڑک کے کنارے کھڑے اُس شخص پر پڑی جس کے گرد لوگوں کا جم غفیر تھا، وہ شخص مستقل بولے جارہا تھا۔ اس کا نکتہ نظر کیا تھا، بس یہی جاننے کے لیے میں اس کے قریب جا پہنچا۔ میرے تعارف کروانے اور مسئلے کی نوعیت جاننے کے سوال پر وہ شخص مجھے سڑک کی دوسری جانب لے گیا اور اپنا نام شاہ زیب بتاتے ہوئے پوچھے گئے سوال پر کچھ یوں گویا ہوا:
’’اس علاقے میں کئی روز سے پانی کی سپلائی بند ہے۔ سپلائی واٹر بورڈ کے میرٹ پمپنگ اسٹیشن سے بند ہے۔ اصولاً تو عوام کو چاہیے کہ وہ واٹر بورڈ کے خلاف احتجاج کریں، لیکن یہ لوگ آپس میں الجھ رہے ہیں، ان کی سوچ یہ ہے کہ پانی نہ ملنے کی بڑی وجہ سپلائی لائن پر نصب والو ہے، ان کے بقول اگر مین سپلائی لائن پر نصب والو کھول دیا جائے تو پانی کی سپلائی دوسرے سیکٹر کی جانب ہوجائے گی اور ان کے علاقے کو پانی نہیں ملے گا، اور اگر والو بند کردیا جائے تو پانی کا رخ ان کے علاقے کی جانب ہوجاتا ہے۔ اس لیے ایک گروپ والو پلیٹ نکالنے اور دوسرا اسے لگے رہنے کی جدوجہد کرنے میں مصروف ہے۔ ایک گروپ کے نزدیک والو پلیٹ نکالنے کا مقصد ’نہ رہے بانس نہ بجے بانسری‘ کے مصداق ہے۔‘‘
شاہ زیب المعروف شاہ جی کا کہنا تھا کہ ’’عوام معصوم ہیں جو والو پر جھگڑا کرتے ہیں۔ پانی کی سپلائی تو واٹر بورڈ نے پیچھے سے بند کررکھی ہے۔ یہ لوگ خوامخواہ آپس میں جھگڑتے رہتے ہیں، انہیں کون سمجھائے کہ اگر پانی کے حصول کے لیے کچھ کرنا ہے تو واٹر بورڈ کے دفاتر پر جاکر اُس راشی انتظامیہ کے خلاف احتجاج کیا جائے جو غریب شہریوں کے حصے کا پانی انڈسٹریل ایریا میں قائم فیکٹریوں کو فروخت کرتی ہے، اُس ٹینکر مافیا کے خلاف سڑکوں پر آیا جائے جن کی وجہ سے آج کراچی کے عوام آپس میں ایک دوسرے کے سامنے آکھڑے ہوئے ہیں۔‘‘
شاہ زیب المعروف شاہ جی انتہائی سنجیدہ شخصیت کا مالک تھا، اس کا کہنا تھا کہ ’’یہاں فقط پانی کا مسئلہ نہیں، سب کچھ تباہ و برباد ہوکر رہ گیا ہے، کوئی محکمہ کام کرنے کو تیار نہیں۔ علاقائی سطح پر عوام کو بنیادی سہولیات فراہم کرنے کی ذمہ داری لوکل گورنمنٹ کی ہوتی ہے، لیکن دوسرے محکموں کی طرح بلدیاتی اداروں کی کارکردگی بھی نہ ہونے کے برابر بلکہ زیرو ہے، جبکہ علاقے کی حالت منتخب نمائندوں کی کارکردگی کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ یہاں ایک نہیں بلکہ سارے ہی نااہل ہیں، ہر ادارے میں کرپشن عروج پر ہے۔ جنہیں بازپرس کرنی ہے وہ کرپٹ افسران پر بہت زیادہ مہربان ہیں اور اُن پر اعتماد کرتے ہیں۔ اربابِ اختیار عوامی منصب پر فائز افسران کی غیر قانونی حرکتوں اور کرپشن کو نظرانداز کرتے رہتے ہیں، یہی وجہ ہے کہ علاقے کی جانب جاتی مرکزی سڑک کی تمام اسٹریٹ لائٹس ایک عرصے سے خراب ہونے کے باعث بند پڑی ہیں۔ متعدد بار نشاندہی کے باوجود کبھی کسی نے کوئی سنجیدگی دکھائی اور نہ ہی کوئی نوٹس لیا۔ عوام کا کام تو مسائل سے آگاہ کرنا ہوتا ہے مگر جب کوئی ذمہ دار اس پر چشم پوشی کرے تو کیا کیا جائے! پورا علاقہ کسی گاؤں کا منظر پیش کرتا ہے۔ ‘‘
شاہ زیب نے پانی کی بندش پر بات کو آگے بڑھاتے ہوئے کہا: ’’آپ مزید کچھ دیر یہاں ٹھیر کر دیکھ لیں، وہ تماشا لگے گا جس کی کوئی مثال نہیں۔ مجھے تو یہ ڈر ہے کہ کہیں کوئی بڑا واقعہ رونما نہ ہوجائے۔ مئی کا مہینہ، اوپر سے سخت گرمی، اور لوگوں کے گھروں میں پینے کا پانی نہیں… ایسی صورت میں عوام کے جذبات کو کیسے کنٹرول کیا جاسکتا ہے! لوگ مرنے مارنے پر تیار ہیں۔ واٹر بورڈ نے علاقوں میں پانی کی سپلائی بند کرکے عوام کو ایک دوسرے کے سامنے لاکھڑا کیا ہے، گویا پاکستان اور انڈیا کی افواج۔ میں اور میرے چند ساتھی اس مسئلے پر متعدد مرتبہ واٹر بورڈ کے اعلیٰ افسران سے مل چکے ہیں لیکن کوئی شنوائی نہیں۔ میں دن رات والو مینوں کے پیچھے دوڑتا رہتا ہوں، کبھی اِس علاقے تو کبھی اُس علاقے کی خاک چھانتا پھرتا ہوں تب جاکر تھوڑا بہت پانی مل رہا ہے، اگر میں بھی گھر بیٹھ جاؤں تو یقین کریں حالات قابو سے باہر ہوجائیں گے۔ ماضی میں پانی کی بندش پر لوگ بورنگ کروا لیا کرتے تھے، اُس وقت زیرِ زمین پانی 80 فٹ پر تھا، آج 300فٹ بورنگ کروانا بھی بے سود ہے، اتنی گہرائی میں اگر کہیں پانی مل بھی جائے تو وہ استعمال کے قابل نہیں ہوتا، بلکہ زہریلے مادے شامل ہونے کے باعث انسانی جلد کے لیے انتہائی خطرناک ہوتا ہے۔‘‘
شاہ زیب اپنی بات کرکے ایک مرتبہ پھر لوگوں کے درمیان جا پہنچا۔ وہ مسلسل صبر کی تلقین کررہا تھا، اور میرے ذہن میں عظیم سائنس دان اسٹیفن ہاکنگ کے کہے گئے الفاظ آنے لگے، اُس نے کہا تھا کہ ’’میں دنیا چھوڑ کر جا رہا ہوں، اس کے تین بڑے مسائل ہیں: پہلا پانی، دوسرا دنیا کو خوراک کی فراہمی، اور تیسرا گلوبل وارمنگ۔ ان کے سوا باقی سارے ہی مسائل ثانوی ہیں‘‘۔ اسی طرح کسی نے کہا تھا کہ دنیا میں آئندہ جنگیں پانی پر ہوا کریں گی، اُسے بھی وقت نے سچ کردیا۔10ہزار روڈ کا منظر بتا رہا تھا کہ واقعی آنے والی نسلیں پانی کے حصول کی خاطر لڑیں گی۔ صاف دکھائی دے رہا ہے کہ موسمیاتی تبدیلیاں کرۂ ارض کے فطری نظاموں کے لیے خطرہ بنتی جارہی ہیں، صاف پانی کے سب سے بڑے ذخائر جو گلیشیر کی شکل میں موجود ہیں براہِ راست ان کے نشانے پر ہیں۔ جبکہ پانی کے دیگر قدرتی ذخائر جن میں دریا، ندی، نالے، آبشاریں اور جھیلیں شامل ہیں ان میں بھی کمی واقع ہوتی جارہی ہے۔ اس صورتِ حال میں اگر پانی کے استعمال اور اسٹور کرنے کے طریقہ کار پر سنجیدگی سے توجہ نہ دی گئی تو آئندہ آنے والے برسوں میں پانی کی فراہمی میں 40 فصید تک کمی ہوجائے گی۔
اس وقت دنیا بھر کے 70 فیصد دریائوں کا رخ مختلف سمتوں میں موڑ کر انسانی استعمال کے لیے پانی کو سمندر میں گرنے سے محفوظ کرلیا گیا ہے۔ پانی کی قلت کا مسئلہ نہ صرف کراچی بلکہ پاکستان میں ہر آنے والے دن کے ساتھ شدت اختیار کرتا جارہا ہے۔
بدقسمتی سے ہمارے ملک میں پانی جیسی نعمت کو سیاست کی نذر کردیا گیا ہے۔ ہمارے ملک میں 85فیصد پانی انڈین کشمیر اور افغانستان سے آتا ہے، انڈیا نے ڈیم بنانے شروع کردیے ہیں بلکہ کئی ڈیم تو پایہ تکمیل تک پہنچ گئے ہیں، اس طرح انڈیا نے 30 فیصد پانی کو نہ صرف محفوظ کر لیا ہے بلکہ وہ مزید 500 ڈیم تعمیر کرکے مزید 50فیصد پانی کو بھی محفوظ کرنے کا عزم رکھتا ہے جبکہ سندھ طاس معاہدے کے تحت انڈیا پاکستان آتے پانیوں کا رخ تبدیل کرنے یا اسے روکنے کا حق نہیں رکھتا۔ انڈیا افغانستان میں دریائے کابل پر بنائے جانے والے ڈیم میں بھی سرمایہ لگا رہا ہے۔ اگر یہی صورتِ حال رہی اور پاکستان میں بڑے ڈیم نہ بنائے گئے تو مستقبل میں پاکستان کو پانی کے شدید بحران کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے۔
خدارا ملک وقوم کی خاطر تعصب کی عینک اتار کر آنے والی نسلوں کی بقا کی خاطر ڈیم بنا لیجیے۔ کالا باغ ڈیم پر سیاست کے بجائے حکمت، تدبر اور دانائی کا مظاہرہ کیجیے۔ ان حقیقی اعدادوشمار کو دیکھیے جن کے تحت کالا باغ ڈیم کی تعمیر انتہائی سودمند ہے، یہ معاشی انقلاب کا دروازہ ہے۔ ساری دنیا اس بات کو تسلیم کرتی ہے کہ یہ ڈیم پاکستان کے عوام کو درپیش بنیادی مسائل یعنی توانائی وآب پاشی کے ساتھ ساتھ پانی کی قلت پر قابو پانے کے لیے ایک بہتر اور پائیدار منصوبہ ہے، اس کے علاوہ ڈیم کی جھیل میں جمع ہونے والا پانی ماحول پر مثبت اثرات مرتب کرے گا، ماہرین کی رائے ہے کہ کالا باغ ڈیم کی تعمیر کے بعد قریبی اضلاع کے درجہ حرارت میں کمی واقع ہوگی، ڈیم کی تعمیر کے دوران ابتدائی طور پر 35ہزار افراد کو روزگار ملے گا، ڈیم سے نہری پانی میں اضافہ ہوگا اور نہروں کے ذریعے اُن علاقوں تک بھی پانی پہنچایا جاسکے گا جہاں زراعت کے لیے پانی پہنچانا انتہائی مشکل ہے۔ پاکستان کے دریائوں کا 35 ملین ایکڑ فٹ پانی ہر سال سمندر میں گر کر ضائع ہوجاتا ہے، کالا باغ ڈیم کی تعمیر سے ضائع ہونے والے پانی کو نہ صرف محفوظ کیا جاسکتا ہے بلکہ 24 لاکھ ایکڑ بنجر زمین کو بھی قابلِ کاشت بنایا جاسکتا ہے۔ اس طرح خیبر پختون خوا اور پنجاب کے جنوبی علاقے، بلوچستان کے مشرقی حصے اور سندھ کے زیریں علاقے کالا باغ ڈیم کے پانی کی بدولت قابلِ کاشت بنائے جاسکتے ہیں۔ کالا باغ ڈیم میں تین سال کے لیے پانی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔ کالا باغ ڈیم سے خیبر پختون خوا کے جنوبی اضلاع کرک، بنوں، ٹانک، لکی مروت، اور ڈیرہ اسماعیل خان کو زرعی مقاصد کے لیے مزید 20لاکھ ایکڑ فٹ پانی مل سکے گا۔ اس پانی سے دریائے سندھ کی سطح سے بلندی پر واقع علاقوں میں تقریباً 8 لاکھ ایکڑ زمین زیر کاشت آسکے گی، جبکہ صوبہ سندھ کو 40لاکھ ایکڑ فٹ اضافی پانی مہیا ہوسکے گا۔ یوں صوبہ سندھ میں خریف کی فصل کے لیے بھی پانی دستیاب ہوگا۔ اس کے علاوہ بلوچستان کو 15لاکھ ایکڑ فٹ، پنجاب کو 22 لاکھ ایکڑ فٹ پانی مل سکے گا جس سے جنوبی پنجاب کی 16لاکھ ایکڑ فٹ سے زیادہ زمین قابلِ کاشت ہوجائے گی۔
کالاباغ ڈیم کی تعمیر میں مسلسل تاخیر سے نہ صرف ملک کی خوراک کی ضروریات بری طرح متاثر ہورہی ہیں بلکہ زرِ مبادلہ کا خطیر حصہ مختلف اجناس کی درآمد پر صرف کرنا پڑرہا ہے۔ صورتِ حال یہی رہی تو 2025ء تک ملکی پیداوار میں 43 فیصد تک کمی ہوجائے گی اور تھرمل بجلی کے استعمال کا اضافی بوجھ خزانے پر پڑے گا۔ کالا باغ ڈیم سے 3600میگا واٹ بجلی کی دستیابی ہوگی جو بجلی کی انتہائی طلب کا 20فیصد کے لگ بھگ ہوگا، اورنہ صرف سستی پن بجلی کی فراہمی میں سالانہ11.4بلین یونٹ کا بہترین اضافہ ہوگا بلکہ نیشنل گرڈ کے ترسیلی نظام کے ذریعے صوبوں کو بآسانی بجلی کی سپلائی بھی ممکن بنائی جا سکے گی۔ کالا باغ ڈیم کی تعمیر اور سستی بجلی کی فراہمی سے بجلی کے ٹیرف کو مستحکم بنانے میں مدد ملے گی۔ اِس ڈیم کی تکمیل کے بعد آب پاشی نظام، بجلی کی ترسیل، اور سیلاب کی صورتِ حال کو کنٹرول کرنے کی مد میں سالانہ 60 ارب روپے کا فائدہ ہوگا۔ پاکستان میں ہر برس سیلاب کی صورتِ حال خطرناک حد تک خراب ہورہی ہے،جس سے کھربوں روپے کا نقصان ہوتا ہے۔پاکستان میں کسی بھی نامساعد حالات کے لیے پانی 45 دنوں کے لیے ذخیرہ کیا جا تا ہے۔کالا باغ ڈیم بن جائے تو اس میں 60 دنوں کے لیے پانی ذخیرہ کیا جاسکتا ہے۔یوں ہم اپنی زرعی ضروریات کے لیے 105دنوں کا پانی ذخیرہ کر سکتے ہیں۔