ڈیجیٹل زہر

299

ایک آدھ ہفتہ اسمارٹ فون سوشل میڈیا کے بغیر ہم کس طور جی سکتے ہیں؟کیا ڈیجیٹل ڈیٹاکس کے نام پر ہفتہ بھر اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا سے دور رہنا یکسر ناممکن ہے؟

وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ انسانی ذہن پر دباؤ بڑھتا جارہا ہے۔ اس کا بنیادی سبب یہ ہے کہ انسان اس حوالے سے منصوبہ سازی نہیں کررہا۔ ہر عہد میں چند پیچیدگیاں پیدا ہوتی ہی ہیں۔ دنیا کبھی یکساں نہیں رہتی۔ بدلتے رہنا اِس کا کام ہے۔ آج کی دنیا میں بھی ایسا بہت کچھ ہے جو پہلے نہیں تھا۔

انفارمیشن ٹیکنالوجی میں حیران کن پیش رفت نے انسان کو عجیب و غریب الجھنوں سے دوچار کررکھا ہے۔ آئی ٹی سیکٹر کی بدولت انٹرنیٹ کے ذریعے انسان کو بہت کچھ ملا ہے۔ ساتھ ہی ساتھ بہت کچھ ایسا بھی ملا ہے جو انسان کے لیے بلائے جان ہوا جاتا ہے۔ اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا کا بھی کچھ ایسا ہی معاملہ ہے۔

سائبر اسپیس میں توسیع ہوتی جارہی ہے۔ انٹرنیٹ پر مواد بڑھتا ہی جارہا ہے۔ سوشل میڈیا پورٹلز پر آئٹمز بڑھتے جارہے ہیں۔ اِس کے نتیجے میں انسان کے اُس وقت کا تناسب بھی بڑھتا جارہا ہے جو ضائع ہورہا ہے۔ دن رات مواد اَپ لوڈ کیا جارہا ہے، وڈیوز ڈالی جارہی ہیں۔ انٹرنیٹ کا ذخیرہ اتنا بڑھ چکا ہے کہ اب کام کی چیز تلاش کرنا بہت بڑے دردِ سر میں تبدیل ہوچکا ہے۔ گوگل کے سرچ انجن کی مدد سے کوئی چیز تلاش کیجیے تو اُس سے ملتا جلتا بہت کچھ سامنے آجاتا ہے، اور یوں مطلوب چیز کہیں گم ہوکر رہ جاتی ہے یا اچھی خاصی ڈیٹا مائننگ کے بعد سامنے آتی ہے۔

اب سوال یہ ہے کہ اپنے آپ کو فضول مواد سے کیونکر بچایا جائے؟ ہم انٹرنیٹ کے ذریعے اپنی زندگی میں ایسا بہت کچھ پاتے ہیں جو ہم سے متعلق ہوتا ہے اور نہ ہی ہمارے کام کا ہوتا ہے۔ تو پھر ہم اُس غیر متعلق مواد کو قبول ہی کیوں کرتے ہیں؟ بات کچھ یوں ہے کہ ہم بہت سے معاملات میں خالص میکانیکی انداز سے سوچنے لگے ہیں۔ انٹرنیٹ پر پیش کیے جانے والے مواد سے مستفید ہونے کا معاملہ بھی ایسا ہی ہے۔

سوشل میڈیا پلیٹ فارم پر جو کچھ بھی اَپ لوڈ کیا جاتا ہے وہ سب کا سب معیاری ہوتا ہے نہ لازمی طور پر ہمارے کام کا۔ سوشل میڈیا پلیٹ فارم ہمیں ایسے بہت سے مواد تک رسائی دیتے ہیں جو وقت ضائع کرنے سے زیادہ کچھ نہیں کرتا۔ ہم سوشل میڈیا کی وڈیوز دیکھنے کے محض عادی نہیں بلکہ رسیا ہیں۔ اس کے نتیجے میں ہمارا وقت بھی ضائع ہوتا ہے اور ذہن پر بوجھ بھی بڑھتا ہے۔

سماجی اور نفسی امور و علوم کے ماہرین کہتے ہیں کہ آج کے انسان کو اپنے ذہن پر سے دباؤ گھٹانے کے لیے بہت کچھ محض کرنا نہیں ہے بلکہ کرتے رہنا ہے۔ اگر ایسا نہ کیا جائے تو ذہن ڈھنگ سے سوچنے کے قابل ہی نہ رہے گا۔ آج کے انسان کو سوشل میڈیا کی شکل میں ایک بہت بڑی عِلّت کا سامنا ہے۔ یہ عِلّت دن بہ دن توانا تر ہوتی جارہی ہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ انسان کو وقفے وقفے سے اپنے ذہن پر چھایا ہوا گرد و غبار ہٹانا چاہیے۔ یہ کیسے ممکن ہے؟ سوشل میڈیا سے دوری کی صورت میں! سیل فون یا اسمارٹ فون کے بغیر جینا ممکن ہے؟ نہیں مگر ہاں، ہر ماہ کچھ دن اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا سے دور رہ کر دل و دماغ کے لیے راحت کا سامان ضرور کیا جاسکتا ہے۔ یہ مشق یومیہ بنیاد پر شروع کی جاسکتی ہے، یعنی روزانہ ڈیڑھ دو گھنٹے تک اسمارٹ فون اور اُس پر سوشل میڈیا سے دور رہتے ہوئے دل و دماغ کو سکون کے چند لمحات سے محظوظ ہونے کا موقع دیا جاسکتا ہے۔ اِسی مشق کی توسیع سے ذہن کو ڈھنگ سے سوچنے کے قابل رہنے میں مدد دینا بھی ممکن ہے۔

کیا آپ ایک ہفتے تک سیل فون، لیپ ٹاپ کمپیوٹر اور دیگر گیجیٹس کے بغیر رہ سکتے ہیں؟ اگر ہاں، تو ایسی صورت میں آپ اپنے وجود کے لیے سُکون کے چند لمحات کا اہتمام کر پائیں گے۔ مگر یہ ایسا آسان نہیں جیسا دکھائی دیتا ہے۔ جن کا کام ہی اسمارٹ فون کے ذریعے چلتا ہے وہ اُس سے الگ کیسے رہ سکتے ہیں؟ درست، مگر معاشی سرگرمیوں سے ہٹ کر تو سیل فون کا استعمال روکا جاسکتا ہے، گھٹایا جاسکتا ہے۔

وقفے وقفے سے سیل فون اور دیگر گیجیٹس کا استعمال ترک کرکے ذہن کے لیے سکون کی راہ ہموار کرنے کو ماہرین ڈیجیٹل ڈیٹاکس کہتے ہیں، یعنی ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے جو زہر ذہن میں داخل ہوا ہے اُسے نکالنا۔

سب سے پہلے ہمیں اچھی طرح سمجھنا ہوگا کہ ڈیجیٹل ڈیٹاکس ہے کیا۔ سائیکو تھیراپسٹ اور ’گیٹ وے آف ہیلنگ‘ نامی گروپ کی بانی ڈائریکٹر ڈاکٹر چاندنی ٹگنیٹ کہتی ہیں ’’ہر انسان کو ایک خاص وقفے کے بعد موبائل، ٹیلی وژن یا کمپیوٹر کی اسکرین سے الگ ہونا ہی چاہیے۔ اس کے لیے لازم ہے کہ انسان سیل فون، لیپ ٹاپ کمپیوٹر، ٹی وی اسکرین، الیکٹرانک بک ریڈر اور ایسے ہی دیگر گیجیٹس سے دوری اختیار کرے۔ اس دوران ای میلنگ اور سوشل میڈیا سے بھی دور رہنا ہوتا ہے۔ اس مشق کا بنیادی مقصد ذہن کو آرام کا موقع دینا ہے۔‘‘

انسان اپنے ماحول سے، باقی دنیا سے کٹ کر تو زندہ نہیں رہ سکتا مگر یہ کہاں لازم ہے کہ جو کچھ بھی دنیا میں ہورہا ہے وہ سب کا سب آپ کے ذہن تک پہنچے یا اُسے ذہن تک پہنچنے دیا جائے! اسکرین ٹائم گھٹاکر ذہن کو ڈھنگ سے سوچنے کے قابل رہنے میں مدد دی جاسکتی ہے۔

بہت سوں کا یہ حال ہے کہ سیل فون اور سوشل میڈیا کے بغیر دس پندرہ منٹ بھی نہیں رہ سکتے۔ اگر اُن کے کام کی نوعیت ہی ایسی ہو تو خیر کوئی بات نہیں، مگر دیکھا گیا ہے کہ ضرورت نہ ہونے پر بھی لوگ خود کو سیل فون اور لیپ ٹاپ وغیرہ سے باندھے رکھتے ہیں۔ ایسا کرنے کا کسی بھی طور کوئی جواز نہیں کیونکہ اسمارٹ فون، لیپ ٹاپ کمپیوٹر اور سوشل میڈیا کی ایسی غلامی ذہن کو کسی کام کا نہیں رہنے دیتی۔ ڈاکٹر چاندنی ٹگنیٹ کا کہنا ہے کہ ذہن پر مرتب ہونے والے غیر معمولی اور متواتر دباؤ سے نجات پانا لازم ہے اور اِس کی ایک ہی صورت ہے … یہ کہ انسان اپنے آپ کو اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا سے دور رکھے۔ غیر ضروری ڈیجیٹل انٹر ایکشن یعنی تفاعل صرف خرابیاں پیدا کررہا ہے۔

ڈیجیٹل ڈیٹاکس یعنی ڈیجیٹل میڈیا کے ذریعے ذہن میں پیدا ہونے والے ’’زہر‘‘ سے نجات پانے کا عمل… یہ عمل اس لیے ناگزیر ہے کہ اگر آپ ڈھنگ سے جینا چاہتے ہیں تو ذہن کو آزادی سے کام کرنے کی گنجائش دینا ہوگی۔ یہ گنجائش اُسی وقت پیدا ہوسکتی ہے جب آپ طے کریں کہ اپنا وقت سوشل میڈیا یا ای میلنگ میں ضائع نہیں کریں گے۔ اگر کام کی چیزیں بھی بہت زیادہ دیکھی جائیں تو خرابیاں پیدا کرتی ہیں۔ ایسے میں یہ کس طور ممکن ہے کہ فضول چیزیں دیکھنے سے وقت ضائع نہ ہو اور ذہن کی الجھن نہ بڑھے؟

جس طرح کسی مشینری کو تادیر سلامت اور کام کی حالت میں رکھنے کے لیے اُس کی مینٹی نینس لازم ہوتی ہے بالکل اُسی طرح دل و دماغ کو بھی سکون کی ضرورت ہے۔ اُن کی مینٹی نینس کا واحد معقول طریقہ یہ ہے کہ اُن پر مرتب ہونے والے غیر ضروری دباؤ کی راہ مسدود کی جائے۔ اِس کے لیے ڈیجیٹل ڈیٹاکسنگ لازم ہے۔

دہلی کے بی ایل کے میکس سپر اسپیشلٹی ہاسپٹل کی وزٹنگ کنسلٹنٹ اور کلینکل سائیکولوجسٹ ڈاکٹر دینیکا آنند کا کہنا ہے ’’ڈیجیٹل ڈیٹاکس کے بہت سے فوائد ہیں مگر اِس کا مدار اِس بات پر ہے کہ آپ کا اسکرین ٹائم اور سوشل میڈیا انٹرایکشن کتنا ہے۔ ہر شخص کے لیے ڈیجیٹل ڈیٹاکس کا طریقہ اور دورانیہ الگ ہوسکتا ہے۔ انتہائی ضروری مواد سے تو پیچھا نہیں چھڑایا جاسکتا تاہم غیر ضروری مواد سے گلوخلاصی کے بغیر بات بنتی نہیں۔ بہرکیف، دورانیہ کم ہو تب بھی ڈیجیٹل ڈیٹاکس کے ذریعے انسان کو راحت کے لمحات میسر ہوتے ہی ہیں اور وہ زندگی میں کچھ ترتیب پیدا کرنے کے قابل ہوپاتا ہے۔ جو لوگ ہر وقت یہ محسوس کرتے ہیں کہ وہ کسی گڑھے کے کنارے کھڑے ہیں اور گرنے ہی والے ہیں اُنہیں ڈیجیٹل ڈیٹاکس سے بہت مدد مل سکتی ہے۔ غیر ضروری باتوں کا بوجھ ذہن کو تھکادیتا ہے کیونکہ انسان کو جب کسی بات کا علم ہوتا ہے تو اُس کے بارے میں سوچتا بھی ہے اور پریشان بھی ہوتا ہے۔ اگر معلومات کا راستہ نہ روکا جائے تو وہ آتی رہیں گی اور دل د دماغ پر بمباری کرتی ہی رہیں گی۔‘‘

دلی کی معروف ماہرِ نفسیات ڈاکٹر شینا سُود کا کہنا ہے کہ ڈیجیٹل ڈیٹاکس کے متعدد فوائد ہیں۔ مثلاً

پہلا فائدہ: صحت مند عادتوں کی بحالی

سوشل میڈیا اور گیجیٹس میں الجھ کر ہم ایک طرف تو کھانے پینے کے معاملے میں غیر متوازن ہوجاتے ہیں۔ ورزش کی عادت جاتی رہتی ہے اور نیند کا شیڈول بھی بگڑ جاتا ہے۔ نیند کا شیڈول اس لیے بگڑ جاتا ہے کہ کچھ جاننے سے رہ جانے کے خوف میں مبتلا ہوکر ہم وقت بے وقت سوشل میڈیا اور مین اسٹریم میڈیا کو چیک کرتے رہتے ہیں۔ اپ ڈیٹس کے چکر میں ہم آؤٹ ڈیٹیڈ ہوتے جاتے ہیں۔ ڈیجیٹل ڈیٹاکس کی صورت میں ہم کھانے پینے پر بھی دھیان دیتے ہیں اور ورزش کا اہتمام بھی کرتے ہیں۔

دوسرا فائدہ : کسی بھی چیز کی لَت پڑنے کا امکان محدود ہوجاتا ہے

گیجیٹس اس لیے لَت بن جاتے ہیں کہ وہ ڈوپامائن نامی ریوارڈ ہارمون خارج کرتے ہیں۔ یہ ہارمون ہمیں اچھا محسوس کرنے کی طرف لے جاتا ہے۔ یوں ہم گیجیٹس کے عادی ہوتے جاتے ہیں۔ ہم یہ بھول جاتے ہیں کہ جیسے جیسے ہم اسمارٹ فون کی اسکرین پر وڈیوز اور مواد کو نیچے کرتے جاتے ہیں مزید کی طلب جاگتی رہتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہم پست درجے کا مگر چٹخارے دار مواد اپنے ذہن میں انڈیلنے کے عادی ہوتے جاتے ہیں۔ یہ ایک جال ہے جس میں ہم پھنستے چلے جاتے ہیں اور پھر نکلنے کی کوئی صورت دکھائی نہیں دیتی۔

تیسرا فائدہ: اپنی نظر میں بلند ہونے کا موقع

سوشل میڈیا کے ٹرینڈز انسان کو بہکاتے رہتے ہیں، اور یوں وہ اپنے بارے میں غیر حقیقت پسندانہ انداز سے سوچنے کا عادی ہوجاتا ہے۔ ہم کیسے نظر آنا چاہتے ہیں اِس کا مدار ہماری سوچ پر ہونا چاہیے۔ اس بات کی کچھ زیادہ اہمیت نہیں کہ لوگ ہمیں کس طرح کا دیکھنا چاہتے ہیں۔ بہت سے لوگ سوشل میڈیا کے ٹرینڈز کی بنیاد پر جاب تلاش کرتے ہیں۔ جاب یا کیریئر کا انتخاب اپنی لیاقت اور رجحان کے مطابق ہونا چاہیے۔ ڈیجیٹل ڈیٹاکس کی صورت میں اپنے بارے میں سوچنے کی گنجائش پیدا ہوتی ہے اور انسان دوسروں کی پسند و ناپسند کے بارے میں زیادہ سوچنے کے بجائے خود اپنے بارے میں سوچتا ہے۔

چوتھا فائدہ: ڈیجیٹل ڈیٹاکسنگ کی صورت میں پُرسکون اور گہری نیند آتی ہے

ڈیجیٹل ڈیوائسز نیلی روشنی خارج کرتے ہیں جو ہمارے جاگنے اور سونے کے قدرتی عمل کو متاثر کرتی ہے۔ اس کے نتیجے میں ہماری نیند کچی رہ جاتی ہے۔ اوّل تو نیند مشکل سے آتی ہے اور اُس میں بھی بار بار خلل واقع ہوتا ہے۔ سونے سے کئی گھنٹے قبل ڈیجیٹل ڈیٹاکسنگ کی صورت میں پُرسکون اور گہری نیند آتی ہے جو جسم کے لیے ناگزیر ہوتی ہے۔

پانچواں فائدہ : آف لائن مشاغل اور سرگرمیاں

جب ہم اسمارٹ فون اور دیگر ڈیوائسز استعمال نہیں کررہے ہوتے تب ہمیں اپنے ماحول سے ہم آہنگ ہونے کا موقع ملتا ہے، اور یوں ہم بہت سے ایسے کام کرتے ہیں جو بالعموم نظرانداز کردیے جاتے ہیں۔ اس کے نتیجے میں زندگی میں توازن پیدا ہوتا ہے۔ فطرت کے ساتھ گزارا ہوا وقت ہمیں نئی توانائی بخشتا ہے۔

اب ایک اہم سوال یہ ہے کہ ایک آدھ ہفتہ اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا کے بغیر ہم کس طور جی سکتے ہیں؟ ماہرین کہتے ہیں کہ ہم نے اپنے آپ کو ڈیجیٹل ڈیوائسز کے رحم و کرم پر چھوڑ رکھا ہے۔ ہمیں اِن کی ضرورت ہے مگر اُتنی نہیں جتنی ہم نے سوچ اور سمجھ رکھی ہے۔ اگر سوشل میڈیا ہی کے ذریعے اپنے حلقے کے لوگوں کو بتادیا جائے کہ دن میں چند گھنٹے اور ہر ماہ چند دن آپ اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے الگ رہیں گے تو اُنہیں آپ کے بارے میں کوئی بھی شیڈول بنانے میں زیادہ الجھن کا سامنا نہیں کرنا پڑے گا۔ ڈیجیٹل ڈیٹاکس کی ایک بنیادی شرط ہے اپنی فیملی، رشتے داروں، دوستوں اور دفتر کے ساتھیوں کو مطلع کرنا۔ جب لوگ آپ کے ڈیجیٹل معمول سے باخبر ہوں گے تو غیر ضروری طور پر رابطہ کرنے سے بھی گریز کریں گے۔ جب آپ، لوگوں کو اپنی ترجیحات سے آگاہ کریں گے تب وہ بھی آپ کی سہولت کی خاطر آپ کے شیڈول کا احترام کریں گے اور اُسی وقت رابطہ کریں گے جب آپ دستیاب ہوں گے۔

جب آپ ڈیجیٹل ڈیٹاکس کررہے ہوں تب اگر کسی کو ہنگامی حالت میں آپ سے رابطہ کرنا پڑے تو؟ اس کے لیے اضافی اہتمام کیا جاسکتا ہے، کوئی ایسا نمبر دیا جاسکتا ہے جو آپ کے زیادہ استعمال میں نہ ہو اور جس پر سوشل میڈیا پورٹل نہ ہوں۔

اِسی طور ڈیٹاکس کے دورانیے کے لیے کسی کو ذمہ داریاں سونپی جاسکتی ہیں۔ جو کام آپ کو کرنے ہیں وہ ڈیجیٹل ڈیٹاکس کے زمانے میں دوسروں سے بھی کروائے جاسکتے ہیں۔ بالکل اِسی طور ڈیجیٹل ڈیٹاکس کے زمانے میں آپ آٹو ریسپانڈر بھی استعمال کرسکتے ہیں۔ آپ کو ای میل یا وائس میل کرنے والے کو پتا چل سکتا ہے کہ آپ دستیاب نہیں ہیں۔

ڈیجیٹل ڈیٹاکس کے دوران آپ کا دل بار بار چاہے گا کہ دوبارہ اسمارٹ فون کو گلے لگایا جائے، سوشل میڈیا سے جُڑا جائے۔ اس سے بچنے کے لیے آف لائن مشاغل اور سرگرمیوں کا اہتمام کیجیے۔ ایسے کاموں میں خود کو مصروف رکھیے جن کی مدد سے آپ کے لیے اسمارٹ فون اور سوشل میڈیا کی طرف لپکنے کی گنجائش کم رہے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ ڈیجیٹل ڈیٹاکس کے دوران اپنے سیل فون کو بار بار چیک کرنے کی خواہش حقیقی ہے۔ خیر، پریشان ہونے کی ضرورت نہیں کیونکہ اس خواہش پر قابو پایا جاسکتا ہے۔ معقول ترین طریقہ تو یہ ہے کہ اسمارٹ فون کو محض بند مت کیجیے بلکہ دور بھی رکھیے۔ اُسے دیکھنے کی صورت میں استعمال کرنے کی خواہش بھی جاگے گی۔

ایسے مقامات پر جانے سے گریز کیجیے جہاں مفت وائی فائی دستیاب ہو یا ٹی وی اسکرین لگی ہو۔ جب بھی اسمارٹ فون استعمال کرنے کی خواہش جاگے تو فوراً اپنے موجودہ لمحات پر متوجہ ہوجائیے اور گہرے گہرے سانس لیتے ہوئے دوبارہ ایسی سرگرمیوں میں مصروف ہورہیے جو آپ کے ذہن کو بھٹکنے سے روکتی ہوں۔

آپ اپنے گھریلو ماحول میں بھی ٹیکنالوجی فری زون بناسکتے ہیں۔ ہر وقت اور ہر معاملے میں ٹیکنالوجی پر منحصر رہنا لازم ہے نہ سُودمند۔ چھوٹی چھوٹی کامیابیوں میں مسرت محسوس کرنا سیکھیے۔ صحت مند، مثبت رجحان کو پروان چڑھائیے اور اپنے آپ کو متحرک رکھیے۔

ماہرین کہتے ہیں کہ ہفتے بھر کا ڈیجیٹل ڈیٹاکس یقینی بنانے کے لیے مشق بہت ضروری ہے۔ یومیہ بنیاد پر کچھ وقت ڈیجیٹل ڈیوائسز کے بغیر گزارنے کی صورت میں کوئی بھی اپنے آپ کو طویل دورانیے کے ڈیجیٹل ڈیٹاکس کے لیے تیار کرسکتا ہے۔ سوچے سمجھے بغیر شروع کیا جانے والا ڈیجیٹل ڈیٹاکس محض پیچیدگیاں پیدا کرتا ہے۔ فی زمانہ بہت کچھ اسمارٹ فون، دیگر ڈیوائسز اور سوشل میڈیا پلیٹ فارمز سے جُڑا ہے۔ یہ سب کچھ پلک جھپکتے میں اور آسانی سے نہیں چھوڑا جاسکتا۔ اس کے لیے دل و دماغ کو سمجھانا اور رِجھانا پڑتا ہے۔

ڈاکٹر چاندنی ٹگنیٹ کہتی ہیں کہ فی زمانہ ہماری زندگی میں ٹیکنالوجیز کا عمل دخل بہت زیادہ ہے۔ ہم اسمارٹ فون کے ذریعے ادائیگیاں کرتے ہیں۔ فلمیں بھی موبائل فون پر دیکھی جاتی ہیں۔ دنیا بھر کی معلومات بھی اسمارٹ فون ہی سے ملتی ہیں۔ ایسے میں ڈیجیٹل ڈیوائسز یا گیجیٹس سے مکمل طور پر کنارہ کش ہونا بیشتر کے لیے ناممکن ہے۔ جن لوگوں کا روزگار ہی اسمارٹ فون سے وابستہ ہے اُن کے لیے تو یہ معاملہ یکسر ناممکنات میں سے ہے۔ بہرکیف، لوگ چاہیں تو بلا ضرورت اسمارٹ فون پر اِدھر اُدھر کی فضول اپ ڈیٹس دیکھنے سے مجتنب رہ کر اپنی زندگی کو زیادہ پُرسکون اور آسان بناسکتے ہیں۔

کسی بھی انسان کے لیے اب سائبر اسپیس سے لاتعلق رہتے ہوئے جینا ممکن نہیں، کیونکہ بیسیوں کام اسمارٹ فون کے ذریعے ہی کیے جارہے ہیں۔ درجنوں سرگرمیاں اسمارٹ فون کے بغیر ممکن نہیں ہوسکتیں۔ ایسے میں مرحلہ وار آگے بڑھنے کی صورت ہی میں خود کو پُرسکون رکھنا ممکن ہوسکتا ہے۔

حصہ