-1 حج کرنے میں تاخیر اور ٹال مٹول ہرگز نہ کیجیے۔ جب بھی اللہ اتنادے کہ آپ اس خوشگوار فریضے کو ادا کرسکیں تو پہلی فرصت میں روانہ ہوجایئے۔ زندگی کا کوئی بھروسہ نہیں کہ آپ اس فریضے کو ایک سال سے دوسرے سال پر ٹالتے رہیں۔ قرآن میں ہے:
’’اور لوگوں پر اللہ کا یہ حق ہے کہ جو اس کے گھر تک پہنچنے کی استطاعت رکھتا ہے وہ اس کا حج کرے اور جو اس حکم کی پیروی سے انکار کرے تو اسے معلوم ہونا چاہیے کہ خدا سارے جہان والوں سے بے نیاز ہے‘‘۔
انسان کی اس سے بڑی تباہی اور محرومی کیا ہوگی کہ اللہ اس سے بے نیاز اور بے تعلقی کا اعلان فرمائے۔
حدیث میں ہے: ’’جو شخص حج کا ارادہ کرے اسے حج کرنے میں جلدی کرنی چاہیے کیونکہ ممکن ہے وہ بیمار پڑ جائے، ممکن ہے اونٹنی کھو جائے اور ممکن ہے کوئی اور ایسی صورت پیش آجائے کہ حج ناممکن ہوجائے‘‘ (ابن ماجہ)
مطلب یہ ہے کہ وسعت ہونے کے بعد خواخواہ ٹال ٹول نہ کرنی چاہیے۔ معلوم نہیں آئندہ یہ ذرائع اور وسعت و سہولت باقی رہے یا نہ رہے اور پھر خدانخواستہ آدمی حج بیت اللہ سے محروم ہی رہ جائے۔ اللہ اس محرومی سے ہر بندہ مومن کو بچائے رکھے۔ نبیؐ نے ایسے لوگوں کو انتہائی سخت انداز میں تنبیہ فرمائی ہے۔ حدیث میں ہے:
’’جس شخص کو کسی بیماری نے یا کسی واقعی ضرورت نے یا کسی ظالم و جابر حکمران نے نہ روک رکھا ہو اور پھر بھی وہ حج نہ کرے تو چاہے وہ یہودی مرے چائے وہ نصرانی مرے‘‘ (سنن کبریٰ جلدی4)
اور حضرت عمرؓ کو یہ کہتے سنای گیا کہ ’’جو لوگ قدرت رکھنے کے باوجود حج نہیں کرتے میرا جی چاہتا ہے کہ ان پر جزیہ لگادوں، وہ مسلمان نہیں ہیں، وہ مسلمان نہیں ہیں‘‘۔ (المنتقی)
-2اللہ کے گھر کی زیارت اور حج محض اپنے اللہ کو خوش کرنے کے لیے کیجیے کسی اور دنیوی غرض سے اس پاکیزہ مقصد کو آلود نہ کیجیے۔ قرآن پاک میں ہے:
’’اور نہ ان لوگوں کو چھیڑو، جو اپنے رب کے فضل اور اس کی خوشنودی کی تلاش میں احترام والے گھر کی طرف جارہے ہیں‘‘ (المائدہ: 2/5)
’’حج اور عمرے کو محض اللہ کی خوشنودی کے لیے پورا کرو‘‘ (البقرہ: 196/2)
اور نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’حج مبرور (حج مبرور وہ حج ہے جو محض اللہ کی خوشنودی حاصل کرنے کے لیے پورے آداب و شرائط کے ساتھ کیا گیا ہو) کا صلہ تو جنت سے کم ہے ہی نہیں‘‘ (مسلم کتاب الحج)
-3 حج کے لیے جانے کا چرچا نہ کیجیے۔ خاموشی سے جایئے اور آیئے اور ہر اس رسم اور طریقے سے سختی کے ساتھ بچئے جس میں نمود و نمائش اور دکھاوے کا شائبہ ہو۔ یوں تو ہر عمل کے عمل صالح اور عمل مقبول ہونے کا انحصار اس پر ہے کہ وہ محض اللہ کے لیے ہو اور کسی دوسری خواہش کا اس میں آمیزہ بھی نہ ہو لیکن خاص طور پر حج میں اس کا دھیان رکھنا اس لیے ضروری ہے کہ یہ روحانی انقلاب اور تزکیہ نفس و اخلاق کی ایک آخری تدبیر ہے اور جو روحانی مریض اس جامع علاج سے شفایاب نہ ہو پھر اس کی شفایابی کی امید کسی دوسرے علاج سے بہت ہی کم رہ جاتی ہے۔
-4 حج کو جانے کی وسعت نہ ہو تب بھی اللہ کے گھر کو دیکھنے کی تمنا اور روضہ رسولؐ پر سلام پڑھنے کی آرزو اور حج سے پیدا ہونے والے ابراہیمی جذبات سے اپنے سینے کو آباد اور منور رکھیے۔ ان جذبات کے بغیر کوئی سینہ مومن کا سینہ نہیں بلکہ ایک ویران کھنڈر ہے۔ نبی اکرمؐ کا ارشاد ہے:
’’حج اور عمرے کے لیے جانے والے اللہ کے خصوصی مہمان ہیں، وہ اللہ سے دعا کریں تو خدا قبول فرماتا ہے اور مغفرت طلب کریں تو بخش دیتا ہے‘‘ (طبرانی)
-5 حج کے لیے بہترین زاد راہ ساتھ لیجیے، بہترین زاد راہ تقویٰ ہے۔ اس پاکیزہ سفر کے دوران اللہ کی نافرمانیوں سے بچنے اور حج بیت اللہ کی برکتوں سے زیادہ سے زیادہ مستفیض ہونے والا بندہ رہیے جو ہر حال میں اللہ سے ڈرتاہے اور اس کی خوشنودی حاصل کرنے کا والہانہ جذبہ رکھے۔ قرآن میں ہے:
’’اور سفر حج کے لیے زاد راہ ساتھ لو اور سب سے بہتر زاد راہ تقویٰ ہے‘‘۔
-6 حج کا ارادہ کرتے ہی حج کے لیے ذہنی یکسوئی اور تیاری شروع کردیجیے۔ حج کی تاریخ کو تازہ کیجیے اور حج کے ایک ایک رکن کی حقیقت پر غور کیجیے اور اللہ کا دین، حج کے ان ارکان کے ذریعے بندۂ مومن کے دل میں جو جذبات پیدا کرنا چاہتاہے انہیں سمجھنے کی کوشش کیجیے اور پھر ایک باشعور مومن کی طرح پورے شعور کے ساتھ حج کے ارکان ادا کرکے ان حقیقتوں کو جذب کرنے اور ان کے مطابق زندگی میں صالح انقلاب لانے کی کوشش کیجیے، جس کے لیے اللہ نے مومنوں پر حج فرض کیا ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے:
’’اور اللہ کو یاد کرو، جس طرح یاد کرنے کی اس نے تمہیں ہدایت کی ہے‘‘ (البقرہ: 198/2)
اور یہ حقیقت ہے کہ تم لوگ اس سے پہلے ان حقیقتوں سے بھٹکے ہوئے تھے۔
اس مقصد کے لیے قرآن پاک کے ان حصوں کا گہری نظر سے مطالعہ کیجیے جن میں حج کی حقیقت و اہمیت اور حج سے پیدا ہونے والے جذبات کا اظہار کیا گیا ہے اور اس کے لیے احادیث رسولؐ اور ان کتابوں کا مطالعہ مفید رہے گا جن میں حج کی تاریخ اور حج کے ارکان کی حقیقت پر گفتگو کی گئی ہو۔
-7 حج کے دوران جو مسنون دعائیں حدیث کی کتابوں میں ملتی ہیں انہیں یاد کیجیے اور نبیؐ کے الفاظ میں اللہ سے وہی مانگیے جو اللہ کے رسولؐ نے مانگا تھا۔
-8 اپنے حج کی پوری پوری حفاظت کیجیے اور دھیان رکھے کہ آپ کا حج کہیں ان دنیا پر ستوں پر حج نہ بن جائے جن کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے۔ اس لیے کہ وہ آخرت سے آنکھیں بند کرکے سب کچھ دنیا میں ہی چاہتے ہیں۔ وہ جب بیت اللہ پہنچتے ہیں تو ان کی دعا یہ ہوتی ہے:
’’الٰہی! ہمیں جو کچھ دینا ہے بس اسی دنیا میں دے دے، ایسے (دنیا پرست) لوگوں کا آخرت میں کوئی حصہ نہیں ہے‘‘۔ (البقرہ: 200/2)
آپ حج کے ذریعہ دونوں جہان کی سعادت و کامرانی طلب کیجیے اور اللہ سے دعا کیجیے کہ پروردگار میں تیرے حضور اس لیے آیا ہوں کہ دونوں زندگیوں میں مجھے کامران و بامراد بنا اور یہ دعا کرتے رہیے:
’’الٰہی! ہمیں اس دنیا میں بھی بھلائی دے اور آخرت میں بھی بھلائی دے اور ہمیں آگ کے عذاب سے بچا‘‘ (البقرہ: 201/2)
-9 حج کے دوران اللہ کی نافرمانی سے بچنے میں انتہائی حساس رہیے، حج کا سفر اللہ کے گھر کا سفر ہے۔ آپ اللہ کے مہمان بن کر گئے ہیں، اس عہد بندگی تازہ کرنے گئے ہیں، حجر اسود پر ہاتھ رکھ کر آپ گویا اللہ کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر عہد و پیمان باندھتے ہیں اور اس کو بوسہ دے کر اللہ کے آستانے پر بوسہ دیتے ہیں۔ بار بار تکبیر و تہلیل کی صدائیں بلند کرکے اپنی وفاداری کا اظہار کرتے ہیں، ایسی فضا میں غور کیجیے، کسی معمولی گناہ اور خطا کی آلودگی بھی کتنی گھنائونی ہے۔ اللہ نے اپنے دربار میں حاضر ہونے والے بندوں کو ہوشیار فرمایا ہے:
وَلا فُسُوقَ ’’اللہ کی نافرمانی کی باتیں نہ ہونی چاہیں‘‘۔
-10 دوران حج لڑائی جھگڑے کی باتوں سے پوری طرح بچے رہیے۔ سفر کے دوران جب جگہ جگہ بھیڑ ہو، زحمتیں ہوں، قدم قد پر مفاد ٹکرائیں، قدم قدم پر جذبات کو ٹھیس لگے تو اللہ کے مہمان کا کام یہ ہے کہ وہ فراخ دلی اور ایثار سے کام لے اور ہر ایک کے ساتھ عفوو درگزر اور فیاضی کا برتائو کرے،یہاں تک کہ خادم کو ڈانٹنے سے بھی پرہیز کرے، اللہ کا ارشاد ہے:
’’اور حج کے دوران لڑائی جھگڑے کی باتیں نہ ہوں‘‘۔
-11 دوران حج شہوانی باتوں سے بھی بچنے اور بچے رہنے کا پورا پورا اہتمام کیجیے، دوران سفر جب جذبات کے برانگیختہ ہونے اور نگاہ کے آزاد ہوجانے کا اندیشہ کچھ زیادہ ہوتا ہے۔ آپ بھی زیادہ چوکنے ہوجائیں اور نفس و شیطان کی چالوں سے خود کو محفوظ رکھنے کی زیادہ سے زیادہ کوشش کریں اور اگر آپ کا جوڑآ آپ کے ساتھ ہو تو نہ صرف یہ کہ اس سے مخصوص تعلق قائم نہ کیجیے بلکہ ایسی باتوں سے بھی شعور کے ساتھ بچے رہیے جو شہوانی جذبات کو بھڑکانے کا باعث بن سکتی ہو۔ اللہ نے ہوشیار کرتے ہوئے فرمایا:
’’حج کے مہینے سب کو معلوم ہیں جو شخص ان مقررہ مہینوں میں حج کی نیت کرے، اسے خبردار رہنا چاہیے کہ حج کے دوران شہوانی باتیں نہ ہوں‘‘ (البقرہ: 197/2)
اور نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’جو شخص اللہ کے اس گھر کی زیارت کے لیے یہاں آیا اور وہ بے حیائی اور شہوانی باتوں سے بچا رہا اور فسق و فجور میں بھی مبتلا نہ ہو تو وہ پاک و صاف ہوکر اس طرح لوٹتا ہے جس طرح وہ ماں کے پیٹ پاک و صاف پیدا ہوا تھا‘‘ (بخاری و مسلم)
-12 شعائر اللہ کا پورا پورا احترام کیجیے۔ کسی روحانی و معنوی حقیقت کو محسوس کرانے اور یاد دلانے کے لیے اللہ نے جو چیز علامت کے طور پر مقرر کی ہے اس کو ’’شیعرہ‘‘ کہتے ہیں۔ شعائر اس کی جمع ہے، حج کے سلسلے میں ساری ہی چیزیں اللہ پرستی کی کسی نہ کسی حقیقت کو محسوس کرانے کے لیے علامت کے طور پر مقرر کی گئی ہیں۔ ان سب کی تعظیم کیجیے، قرآن میں اللہ کا ارشاد ہے:
’’اور اے مومنو! اللہ پرستی کی ان نشانیوں کی بے حرمتی نہ کرو، نہ حرمت کے ان مہینوں کی بے حرمتی کرو، نہ قربانی کے جانوروں پر دست درازی کرو۔ نہ ان جانوروں پر ہاتھ ڈالو جن کی گردنوں میں نذرانہ خداوندی کی علامت کے طور پر پٹے پڑے ہیں اور نہ ان لوگوں کی راہ میں رکاوٹ ڈالو جو اپنے پروردگار کے فضل اور اس کی خوشنودی کی تلاش میں مکان محترم (کعبہ) کی طرف جارہے ہوں‘‘ (المائدہ: 2/5)
اور سورہ حج میں ہے:
’’اور جو اللہ پرستی کی ان نشانیوں کا احترام کرے، جو اللہ نے مقرر کی ہیں تو یہ دلوں کے تقویٰ کی بات ہے‘‘ (الحج: 32/22)
-13 ارکان حج ادا کرتے ہوئے انتہائی عجز و احتیاج بے کسی اور بے بسی کا اظہار کیجیے کہ اللہ کو بندے کی عاجزی اور درماندگی ہی سب سے زیادہ پسند ہے۔ نبیؐ سے کسی نے پوچھا حاجی کون ہے؟ فرمایا: ’’جس کے بال پریشان ہوں اور میلا کچیلا ہو‘‘۔
-14 احرام باندھنے کے بعد، ہر نماز کے بعد، ہر بلندی پر چڑھتے وقت اور ہر پستی کی طرف اترتے وقت اور ہر قافلے سے ملتے وقت اور ہر صبح کو نیند سے بیدار ہوکر بلند آواز س تلبیہ پڑھیے، تلبیہ یہ ہے:
لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ ، لَبَّيْكَ لاَ شَرِيكَ لَكَ لَبَّيْكَ ، إِنَّ الْحَمْدَ وَالنِّعْمَةَ لَكَ وَالْمُلْكَ ، لاَ شَرِيكَ لَكَ (مشکوۃ)
’’میں حاضر ہوں الٰہی! میں حاضر ہوں۔ تیرا کوئی شریک نہیں، میں حاضر ہوں۔ بے شک ساری تعریف تیرے ہی لیے ہے، نعمت سب تیری ہی ہے، ساری بادشاہی تیری ہی ہے، تیرا کوئی شریک نہیں‘‘۔
-15 عرفات کے میدان میں حاضر ہوکر زیادہ سے زیادہ توبہ و استغفار کیجیے، قرآن کی ہدایت ہے:
’’پھر تم (اہل مکہ) بھی وہیں سے پلٹو جہاں سے اور سارے لوگ پلٹتے ہیں اور اللہ سے مغفرت چاہو، بلاشبہ خدا بہت زیادہ معاف فرمانے والا اور بہت زیادہ رحم کرنے والا ہے‘‘۔
اور نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’اللہ کے نزدیک عرفہ کا دن تمام دنوں سے زیادہ بہتر ہے، اس دن اللہ آسمان دنیا پر خصوصی طور پر متوجہ ہو کر فرشتوں کے سامنے اپنے حاجی بندوں کی عاجزی اور درماندگی کی حالت پر فخر کرتا ہے۔ فرشتوں سے فرماتا ہے فرشتو! دیکھو میرے بندے پریشان، دھوپ میں میرے سامنے کھڑے ہیں یہ لوگ دور دور سے یہاں آئے ہیں۔ میرے رحمت کی امید انہیں یہاں لائی ہے حالانکہ انہوں نے میرے عذاب کو نہیں دیکھا۔ اس فخر کے بعد لوگوں کو جہنم کے عذاب سے آزاد کرنے کا حکم دیا جاتا ہے اور عرفہ کے دن میں اتنے لوگ بخش دیئے جاتے ہیں کہ اتنے کسی دن میں بھی نہیں بخشے جاتے۔ (ابن حبان)
-16 منیٰ میں پہنچ کر انہی جذبات کے ساتھ قربانی کیجیے جن جذبات کے ساتھ اللہ کے دوست حضرت ابراہیم علیہ السلام نے اپنے پیارے بیٹے حضرت اسماعیل علیہ السلام کی گردن پر چھری رکھی تھی اور قربانی کے ان جذبات کو اپنے دل و دماغ پر اس طرح طاری کیجیے کہ زندگی کے ہر میدان میں آپ قربانی پیش کرنے کے لیے تیار رہیں اور زندگی واقعی اس عہد کی عملی تصویر بن جائے کہ:
’’بے شک میری نماز اور میری قربانی میری زندگی اور میری موت ایک اللہ کے لیے ہے جو سارے جہانوں کا رب ہے جس کا کوئی شریک نہیں‘‘۔
-17 حج کے ایام میں برابر اللہ کی یاد میں مشغول رہیے اور کسی وقت دل کو اس کے ذکر سے غافل نہ ہونے دیجیے۔ خدا کی یاد ہی تمام عبادتوں کا اصل جوہر ہے۔ اللہ کا ارشاد ہے:
’’اور اللہ کی یاد میں مشغول رہو گتنی کے ان چند دنوں میں‘‘ (البقرہ: 203/2)
اور فرمایا:
’’پھر جب تم حج کے تمام ارکان ادا کرچکو تو جس طرح پہلے اپنے آبائواجداد کا ذکر کرتے تھے اسی طرح اب اللہ کا ذکر کرو بلکہ اس سے بھی بڑھ کر‘‘۔
حج کے ارکان کا مقصود ہی یہ ہے کہ آپ ان ایام میں مسلسل اللہ کی یاد میں ڈوبے رہیں اور ان دنوں میں اس کی یاد اس طرح دل میں رچ بس جائے کہ پھر زندگی کی ہماہمی اور کش مکش میں کوئی چیز اس کی یاد سے آپ کو غافل نہ کرسکے۔ جاہلیت کے دور میں لوگ ارکان حج ادا کرنے کے بعد اپنے باپ کی دادا کی بڑائی بیان کرتے اور ڈینگیں مارتے تھے۔ اللہ نے ہدایت دی کہ یہ ایام اللہ کی یاد میں بسر کرو اور اسی کی بڑائی کرو جو واقعی بڑا ہے۔
-18 اللہ کے گھر کا پروانہ وار طواف کیجیے، اللہ کا ارشاد ہے:
’’اور چاہیے کہ بیت اللہ کا طواف کریں‘‘۔
نبیؐ کا ارشاد ہے: ’’خدا ہر روز اپنے حاجی بندوں کے لیے ایک سو بیس رحمتیں نازل فرماتا ہے جس میں سے ساٹھ رحمتیں ان کے لیے ہوتی ہیں جو بیت اللہ کا طواف کرتے ہیں، چالیس ان کے لیے جو وہاں نماز پڑھتے ہیں اور بیس ان لوگوں کے لیے جو کعبے کو دیکھتے رہتے ہیں‘‘ (بیہقی)
اور نبیؐ نے یہ بھی فرمایا: ’’جس نے پچیس بار بیت اللہ کا طواف کرلیا وہ اپنے گناہوں سے ایسے پاک ہوگیا جیسے اس کی ماں نے اس کو آج ہی جنم دیا ہے‘‘۔ (ترمذی)