قسمت

226

رشنا کے والدین رشنا کی پڑھائی سے فراغت کے بعد اس کے لیے اچھے رشتے کی تلاش میں تھے۔ ایسا نہیں تھا کہ اس کے رشتے نہیں آتے تھے۔ رشتے تو بہت آتے تھے کیوں کہ وہ پڑھی لکھی، خوب صورت اور بہت سی خوبیوں کی حامل تھی۔ لیکن کوئی کم پڑھا ہوتا، کسی کی رہائش اچھی جگہ نہ ہوتی۔ مگر اسامہ ماشا اللہ پڑھا لکھا، بااخلاق اور جاذبِ نظر تھا۔ اسامہ میں تمام خوبیاں بدرجۂ اتم موجود تھیں جس کی بنا پرامی، پاپا نے چھان پھٹک کے بعد اسامہ کے گھر والوں کو پسندیدگی کا عندیہ دے دیا تھا۔

رشتے کے آنے جانے سے لے کر منگنی کی رسم تک بس ایک بات ہی رشنا کو کھٹک رہی تھی کہ اس کی ساس جو نشست و برخواست اور ظاہری پیراہن سے خاصی روشن خیال محسوس ہوتی تھیں اور ان کی روشن خیالی اس حد تک تھی کہ رشنا کی امی کے منع کرنے کے باوجود انہوں نے بات طے ہوتے ہی اسامہ کو رشنا کا اور رشنا کو اسامہ کا نمبر دے دیا تھا کہ اچھا ہے دونوں ایک دوسرے کو سمجھ لیں گے، مگر ان کی کچھ عادات اور خیالات رشنا کو بہت ناگوار گزرتے۔

’’بہن! آج ہم رشنا کو منگنی کی شاپنگ کرانے آرہے ہیں۔‘‘

اسامہ کی امی کا فون آیا تو امی اور رشنا شاپنگ کے لیے مکمل تیاری کے ساتھ ان کی منتظر تھیں۔ مگر تھوڑی دیر گزرنے کے بعد ان کا معذرت بھرا فون آگیا کہ ہم کچھ ناگزیر وجوہات کی بنا پر آنہیں سکیں گے۔ رشنا کی امی نے وجہ پوچھی تو انہوں نے بات کو ٹال دیا۔

جب رشنا نے اسامہ کو کال کرکے وجہ پوچھی تو اس نے بتایا کہ ’’ہم شاپنگ کے لیے گاڑی میں بیٹھے اور تھوڑا سا ہی آگے گئے تھے کہ ایک کالی بلی نے ہمارا راستہ کاٹ دیا۔ بس امی نے کہا اب اس منحوس نے راستہ کاٹ دیا تو آج سوال ہی پیدا نہیں ہوتا کہ شادی کی تیاری کا کوئی کام شروع ہو۔‘‘

’’کیا! آپ بھی ان باتوں پر یقین رکھتے ہیں؟‘‘ اس نے حیرانی سے پوچھا۔

’’نہیں بھئی، میں تو خود مما کی ان باتوں سے الرجک ہوں۔ اصل میں مَیں اکلوتا ہوں، میرے کئی بہن بھائی پیدائش کے فوراً بعد انتقال کر گئے، اس لیے وہ بہت وہمی ہوگئی ہیں… پاپا بتاتے ہیں کہ پہلے وہ بالکل بھی ایسی نہیں تھیں۔‘‘ اسامہ نے افسردگی سے بات ختم کی۔

منگنی میں جب وہ لوگ آرہے تھے تو رشنا کا فلیٹ جو اسامہ کے گھر کے قریب دسویں منزل پر واقع تھا، ظاہر ہے وہاں بغیر لفٹ آنا جانا ممکن نہ تھا۔ وہ لوگ جب تمام لوازمات کے ساتھ لفٹ میں چڑھے تو لفٹ بیچ میں بند ہوگئی۔ اس دوران اسامہ کی امی دہائی دیتی رہیں: ’’ہائے کیسی بدشگونی ہوگئی، بس بھئی میرا تو دل کھٹا ہورہا ہے۔ اسامہ! چلو چھوڑو کوئی اور لڑکی دیکھتے ہیں۔‘‘

’’مما! اللہ کے واسطے یہاں منگنی ہونے دیں۔ ورنہ میں اپنی پسند سے کسی کو بھی اٹھا کر لے آؤں گا۔ ان جاہلانہ توہمات کو لے کر آپ کئی مرتبہ ایسا کرچکی ہیں۔‘‘ وہ قدرے غصے سے بولا۔

کوئی آٹھ سے دس منٹ بعد لفٹ روانہ ہوئی اور وہ لوگ رشنا کے گھر پہنچے۔

اس کے گھر والے بار بار شرمندگی کے باعث معذرتیں پیش کرتے رہے، مگر ساس صاحبہ کے تیوری کے بل کم ہی نہ ہوئے۔

وہ تو اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ منگنی کے ایک ہفتے بعد ہی اسامہ جو کئی ماہ سے ایک بڑی کمپنی میں ملازمت کے لیے کوشش کررہا تھا‘ وہاں سے اس کا تقرر نامہ آگیا۔ بھاری بھرکم تنخواہ کے ساتھ ایک بڑی گاڑی بھی اسامہ کو مل گئی جس کی وجہ سے رشنا ساس کی نظر میں نیک شگون ثابت ہوگئی۔

اُن کا فون آیا کہ وہ بہت جلد شادی کی تاریخ طے کرنے آرہی ہیں۔ رشنا کی خواہش تھی کہ اس کی شادی اس کی سالگرہ والے دن ہو۔

رشنا کی امی نے یہ بات سمدھن کے گوش گزار کی تو وہ بے نیازی سے بولیں ’’محرم، صفر اور شعبان اگر ان مہینوں کے سوا کوئی بھی مہینہ ہوا تو رکھ لیں گے۔‘‘

اتفاق سے اس سال رشنا کی سالگرہ کی تاریخ صفر میں تھی۔ رشنا اپنا دل مسوس کے رہ گئی۔

23 مارچ کی چھٹی جمعرات کو آرہی تھی۔ ابو نے اسامہ کے پاپا سے کہا 23 مارچ کی تاریخ ٹھیک رہے گی۔

فوراً اسامہ کی امی بولیں ’’نہیں بھائی صاحب! تین، تیرہ اور تیئس کے سوا کچھ بھی رکھ لیں،کیوں کہ تین کا ہندسہ نحوست کی نشانی ہے۔‘‘

’’اُف!‘‘ رشنا کا جی چاہا کہ وہ اپنا سر پیٹ لے۔ آج اس نے تہیہ کرلیا تھاکہ وہ گھر والوں کو صاف منع کردے گی۔

’’ابو، امی! پلیز میں یہاں شادی نہیں کرسکتی، میں تو ان مہینوں، دنوں اور تاریخ کے حساب کتاب میں پاگل ہوجاؤں گی۔آپ منع کردیں۔‘‘ اس نے ابو کے سامنے ہاتھ جوڑے۔

’’دیکھو بیٹا! اتنی اتنی سی باتوں پر اچھے رشتے نہیں ٹھکرائے جاتے، اور اسامہ تو بہت اچھے خیالات کا حامل ہے، وہ تو خود اپنی ماں کی باتوں سے زچ ہوتا ہے۔‘‘ ابو نے اس کو سمجھایا۔

رشنا کا موڈ ان سب باتوں کی وجہ سے بہت خراب تھا اور وہ الجھن کا شکار تھی۔ اس کے دماغ میں یہی چل رہا تھاکہ کل کلاں کو کہیں میں بھی کسی بنیاد پر نحوست زدہ نہ ٹھیرائی جاؤں۔

اسامہ کی کال اٹھاتے ہی اس نے اپنے خیالات کا اظہار کیا اور پھوٹ پھوٹ کے رونے لگی۔

’’نہیں رو پلیز! دعا کرو کہ سب اچھا ہو۔‘‘اسامہ بے بسی سے بولا۔

انہی وہمات کے درمیان آخر رشنا بیاہ کر اسامہ کے گھر آگئی۔

بہت عرصے سے پاپا کی ایک بہت قیمتی زمین کا مقدمہ چل رہا تھا، ان کی شادی کے کچھ ہفتوں بعد ہی وہ مقدمہ پاپا جیت گئے۔ بس پھر تو ساس صاحبہ رشنا کے صدقے واری ہوتے نہ تھکتیں، حالاں کہ رشنا نے کہا بھی کہ مما! ایسا کچھ نہیں ہوتا۔ کوئی دن، تاریخ یا مہینہ منحوس نہیں ہوتا‘ سب اللہ کی جانب سے بنائے گئے ہیں۔

پھر بھی رشنا رب کا شکر ادا کرتے نہ تھکتی کہ اللہ نے اس کو سرخرو کردیا تھا۔ اس کی قسمت پر تو خوش بختی کی مہر ثبت ہوگئی تھی۔

جیسے ہی ان کے گھر خوش خبری آئی کہ رشنا ماں بننے والی ہے تو ساس نے حد ہی کردی۔

بعض اوقات تو وہ روہانسی ہوجاتی۔ اسی دوران رمضان کی آمد نے فضا میں پاکیزہ احساس پیدا کردیا تھا۔ موسم بھی بہت دلکش تھا۔ رشنا کی امی کے گھر ہمیشہ سے رمضان میں قرآن کو ترجمے کے ساتھ پڑھا اور سنا جاتا تھا۔

رشنا نے اپنی ساس سے تذکرہ کیا تو وہ بھی جانے کے لیے فوراً رضامند ہوگئیں، کیوں کہ اس سے پہلے انہوں نے قرآن کا ترجمہ کبھی اس طرح نہیں سنا تھا، اور رشنا بھی یہی چاہ رہی تھی کہ وہ قرآن کے ترجمے کو سن لیں تو شاید توہمات کی دنیا سے باہر آجائیں۔

وہ دونوں صبح جاتیں۔ وہ بہت توجہ اور عقیدت سے درس سنتیں، مدّرسہ سے مختلف سوالات بھی کرتیں۔ تکمیلِ قرآن تک وہ چھوٹے چھوٹے توہمات سے تو باہر آگئی تھیں، لیکن تاریخ وغیرہ کو لے کر اب بھی پریشان رہتیں۔

عید سے فارغ ہوتے ہی ان کے ہاں ڈیلیوری کا وقت قریب آگیا۔ رشنا کا وقت پر فشارِ خون بہت حد تک اوپر چلا گیا جس کی وجہ سے ڈاکٹر کو آپریشن کرنا پڑا۔

بچی تو خیریت سے ہوگئی مگر رشنا کومے میں چلی گئی۔ ڈاکٹر بھی رشنا کی جانب سے خاصے مایوس تھے… سب گھر والے بے حد پریشان تھے اور دادی تو پوتی کو ہاتھ لگانے کو تیار نہ تھیں کہ یہ منحوس ہے، حالاں کہ رشنا کی امی نے نواسی کو سینے سے لگایا ہوا تھا۔ اسامہ بھی بیوی کی وجہ سے بہت فکرمند تھا۔

نہ جانے کیوں آج اسامہ کے دل کا ایک کونا ماں کا ہمنوا ہورہا تھا، کیوں کہ پورے نو ماہ کیس میں کوئی پیچیدگی نہ تھی اور اس کے پیدا ہوتے ہی رشنا کا یہ حال ہوگیا۔

بچی کو بھرپور توجہ چاہیے تھی اس لیے رشنا کی امی اسے اپنے گھر لے گئی تھیں۔ اسامہ نے بھی بچی پر بس ایک سرسری ہی سی نظر ڈالی تھی۔

آج رشنا کی بے ہوشی کو چوتھا ہفتہ تھا۔ اسامہ آفس سے واپسی پر ہی رشنا کے پاس آجاتا۔ وہ بہت دیر تک رشنا کے چہرے کو تکتا رہا۔ اس کے حسین اور توانا چہرے پر زردیاں تھیں۔ وہ اسپتال کے آئی سی یو میں وینٹی لیٹر پر تھی اس لیے وہاں کسی کا رکنا ضروری نہ تھا۔

اسامہ نے اپنا اور رشنا کے والد کا نمبر وہاں درج کروایا ہوا تھا۔

وہ کھانے کی میز پر خاموشی سے آکر بیٹھ گیا۔ مما اس کی جانب امید بھری نگاہوں سے دیکھ رہی تھیں۔ وہ نظریں چرا گیا۔

اچانک اس کا موبائل بج اٹھا۔ اس پر اسپتال کا نمبر دیکھ کر اسامہ کے ہاتھ سے نوالہ گر گیا، جب کہ مما کی چیخ سن کر پاپا بھی وہاں آگئے۔

اس نے لرزتے ہاتھوں سے کال ریسیو کی۔ ’’مسٹر اسامہ! مبارک ہو،آپ کی وائف نے ابھی آنکھیں کھولیں اور بچے کا پوچھا۔‘‘

’’سچ…‘‘ اسامہ پر شادیٔ مرگ کی کیفیت طاری ہوگئی، جب کہ پاپا مما کو اپنے موبائل پر کچھ دکھا رہے تھے۔

موبائل کی اسکرین پر 23-03-2023جگمگا رہا تھا۔

حصہ