خطرناک مہم

188

راستے میں ان کا قیام جہاں جہاں بھی ہوا، اس کو ساری ہدایات یاد رہیں لیکن کسی بھی فرد کو ایسا نہیں پایا جس پر یہ گمان گزرا ہو کہ وہ اس نے اسے پہلے بھی کہیں دیکھا ہوگا۔ یہاں پہنچ کر فاطمہ کو کچھ ایسا محسوس ہونے لگا تھا کہ جیسے انسپکٹر حیدر علی کو کسی کے تعاقب کا جیسے خیال ہی نہ رہا ہو۔ یہ تبدیلی اسے بڑی پُر اسرار سی لگی۔ جس کے تعاقب میں انھوں نے لگ بھگ 2000 کلو میٹر کا فاصلہ بہت ہی منصوبہ بندی کے ساتھ کیا آخر یہ کیا ماجرا ہے کہ اس کے تعاقب سے اس طرح رخ موڑا جا رہا ہے جیسے اس کا تعاقب کرنا کوئی مذاق تھا۔ فاطمہ خاموشی سے یہ سب کچھ دیکھتی اور محسوس ضرور کرتی رہی لیکن انسپکٹر حیدر علی سے کچھ بھی دریافت کرنے کی کوشش نہیں کی۔ وہ جب بھی ذہنی کشمکش کا شکار ہوتی تو یا تو اپنے والدین کے ساتھ کسی سیر کو نکل جاتی یا بھر انسپکٹر حیدر علی کے ساتھ آس پاس کے ہوٹلوں کے چکر لگانے لگتی۔ یہاں آئے کئی گھنٹے گزر چکے تھے اور فاطمہ کو ایسا محسوس ہو رہا تھا کہ شاید یہ ان کا آخری اسٹیشن ہے اور ممکن ہے کہ یہیں سے ان کی واپسی ہو جائے۔
یہ حقیقتاً ایک بہت خوبصورت وادی تھی۔ ہوٹل ایک پہاڑی دریا کے کنارے واقع تھا۔ اس دریا کے کنارے پر دور دور تک ہوٹل ہی ہوٹل تھے چاروں جانب بلند و بالہ پہاڑ تھے۔ پوری وادی اونچے اونچے درختوں اور سبزے سے ڈھکی ہوئی تھی۔ انسپکٹر حیدر علی کے ساتھ فاطمہ نے تین چار ہوٹلوں کے وزیٹرز کے بیٹھنے کی جگہوں کا جائزہ بھی لیا لیکن راستوں سے لیکر ہوٹلوں کے وزیٹرز لاؤنچوں تک اسے کوئی ایک فرد ایسا نہ مل سکا جس کی مہک پر یہ گمان گزرے اس کے ساتھ کچھ وقت گزارا ہو۔ فاطمہ اور انسپکٹر حیدر علی جب چوتھے ہوٹل سے باہر نکل ہی رہے تھے تو ہوٹل کے دروازے اور سڑک کے درمیان ایک لش پش جیپ حائل ہونے کی وجہ سے ہوٹل سے باہر آنے والی آخری سیڑھی پر رک جانا پڑا۔ اگر چیپ کا دروازہ نہ کھلا ہوا ہوتا تو ممکن تھا کہ وہ دونوں آخری سیڑھی سے اتر کو اپنے ہوٹل کی جانب روانہ بھی ہو جاتے۔ اتنے میں جیپ کا دروازہ کھلا اور ایک درمیانی عمر والا ڈرائیونگ سیٹ پر بیٹھا شخص جیپ سے اتر کر جیسے ہی ہوٹل میں داخل ہونے کےلیے فاطمہ کے قریب سے گزرا تو فاطمہ بے اختیار چوکنے پر مجبور ہو گئی کیونکہ اس شخص کی مہک نے اس کے ذہن میں ایک ہلچل سی برپا کردی تھی۔ فاطمہ تو اس کی مہک پر چونکی لیکن وہ یہ نہ دیکھ سکی کہ جس کی مہک کو محسوس کرکے وہ چونکی تھی، وہ خود فاطمہ پر نظر پڑتے ہی کیوں چونکا تھا۔ آنے والا شخص بے شک ایک کامیاب میک اپ کئے ہوئے تھا لیکن اسے یہ نہیں معلوم تھا کہ فاطمہ بھی اسے اپنی خداداد صلاحیت کی وجہ سے پہچان چکی ہے۔ وہ شخص رکے بغیر ہوٹل میں داخل ہو چکا تھا۔ اس کی گاڑی آگے بڑھ چکی تھی جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا تھا کہ وہ شخص کچھ نہ کچھ دیر یہاں ضرور ٹھہرے گا۔ فاطمہ نے ہدایات کے مطابق انسپکٹر حیدر علی کو ایک مخصوص اشارہ کیا تو انسپکٹر حیدر علی نے سوالیہ نظروں سے اس کی جانب دیکھا۔ فاطمہ نے دیر لگائے بغیر اندر بیٹھے شخص کی جانب اشارہ کیا لیکن یہ اشارہ اتنی ہوشیاری سے کیا گیا کہ کوئی بھی فرد اس بات کو نوٹ نہیں کر سکا ہوگا۔ ہوٹل کی سامنے کی دیواریں شیشے کی تھیں جس کی وجہ سے اندر بیٹھے افراد صاف دکھائی دے سکتے تھے۔ وہ شخص بالکل بھی ان کی جانب متوجہ دکھائی نہیں دیتا تھا اور موبائل فون پر کسی سے مسلسل رابطے میں تھا۔ انسپکٹر حیدر علی نے فاطمہ کو اشارہ کیا کہ وہ اپنے ہوٹل میں واپس جائے اور دوسری ہدایات تک اپنے کمرے سے باہر نہ نکلے۔ یہ بات سن کر فاطمہ اپنے ہوٹل میں واپس آ گئی تھی۔ اس کے والدین نے کہا کہ بیٹی آج تم نے کافی دیر باہر گزار دی۔ کیا حیدر علی بھی واپس آئے ہیں تو اس نے کہا کہ وہ مجھے ہوٹل واپس چھوڑ کر خود کسی کی نگرانی پر چلے گئے ہیں۔ اپنے بیان میں بے شک کچھ غلو سے کام لیا لیکن یہاں ایسا کہنا اور کسی بات کو قدرِ چھپانا زیادہ مناسب تھا۔
انسپکٹر ادارے کی ہدایت کے مطابق اس شخص کی نگرانی پر لگا کر خود اپنے ہوٹل میں واپس آ رہے تھے۔ جس کو اس شخص کےلیے چھوڑا تھا اسے یہیں کے کسی ادارے نے ان کے پاس بھیجا تھا۔ حیدر علی کو وہ اور حیدر علی اس کو پہچانتے نہیں تھے لیکن حیدر علی کو بتا دیا گیا تھا کہ وہ اپنے تعارف کےلیے کیا کہے گا جس کے جواب میں آپ کو کیا کہنا ہے۔ چنانچہ دونوں نے اپنے اپنے خفیہ کوڈ دہرائے۔ حیدر علی نے بتایا کہ اب وہ ہوٹل کے کمرہ نمبر 301 میں جا چکا ہے اور اس کی گاڑی کا یہ نمبر ہے جبکہ گاڑی وہ شخص لے جا چکا ہے جو کمرے میں موجود شخص کے ساتھ آیا تھا۔
اس سب کاروائی میں حیدر علی کو کافی دیر ہو چکی تھی۔ فاطمہ کے والدین کے کمرے کی روشنیاں گل ہو چکی تھیں جس سے اس بات کا اندازہ لگانا مشکل نہیں تھا کہ فاطمہ سمیت اس کے والدین بھی سو چکے ہیں۔ دو کمرے چھوڑ کر انسپکٹر حیدر علی کا کمرہ تھا۔ کیونکہ وہ بہت دیر سے باہر تھا اور باہر جانے سے پہلے وہ کمرے کی تمام لائٹیں آف کرکے گیا تھا اس لیے اس کا کمرہ بھی تاریکی میں ڈوبا ہوا تھا۔ اس نے چابی سے اپنا دروازہ کھولنے کے بعد جیسے ہی لائٹیں روشن کی تو ایک اور چونکا دینے والا منظر اس کے سامنے تھا۔ تیں نقاب پوش اس کی جانب غیر ممنوعہ بور کی پستولیں تانے کھڑے تھے۔ ابھی وہ اس ماحول کو سمجھ بھی نہیں پایا تھا کہ دروازے کے قریب کھڑے ایک نقاب پوش نے دروازے کو بند کرکے اسے دروازے سے دور دھکا دیدیا۔ دھکا اتنا شدید تھا کہ انسپکٹر حیدر علی گرتے گرتے بچا۔ ابھی وہ سنبھلا بھی نہیں تھا کہ اس کے بیڈ پر تنی ہوئی چادر کو ہٹایا گیا تو اس پر فاطمہ بندھی ہوئی پڑی تھی۔ وہ اس صورتِ حال کے متعلق ابھی کچھ پوچھنے ہی والا تھا کہ اس کے چہرے کے قریب اسپرے کیا گیا۔ یہ کیسا اسپرے تھا جس کی وجہ سے انسپکٹر حیدر علی کو ایسا لگا جیسے وہ گر ہی جائے گا۔ پھر ہوا یہ کہ سنبھل کی کوشش کے باوجود بھی وہ فرش پر ڈھیر ہوتا چلا گیا لیکن گرتے گرتے بھی اس نے یہ دیکھ لیا تھا کہ فاطمہ کے چہرے پر بھی وہی اسپرے کیا جا رہا تھا۔
(جاری ہے)

حصہ