تعلیم کی بنیادیں

549

دنیامیں تمام انقلابات اساتذہ کی فکری تربیت کے وجہ سے برپا ہوئے ہیں

کائنات میں اللہ کی سب سے عمدہ اور احسن تخلیق انسان ہے، کیوں کہ انسان کو اللہ نے خلیفۃ الارض بنایا ہے۔ ’’لَقَد خَلَقنَا الاِنسَانَ فِی اَحسَنِ تَقوِیمٍ‘‘ (ہم نے انسان کی بہت احسن طریقے سے تخلیق کی۔) (سورہ التین:4)

آدم کی تخلیق کے وقت فرشتوں نے جب اللہ سے فریاد کی کہ باری تعالیٰ آپ ایسی مخلوق کو پیدا کررہے ہیں جو زمین میں فساد برپا کرے گی اور ایک دوسرے کو قتل کرے گی۔ اللہ نے فرمایا: جو میں جانتا ہوں وہ تم نہیں جانتے۔ پھر اللہ تعالیٰ نے فرشتوں سے اشیا کے نام پوچھے تو فرشتوں نے اپنی لاعلمی کا اظہار کیا۔ اللہ تعالیٰ نے آدمؑ کو تمام اشیا کے علوم سکھائے اور آدمؑ نے فرشتوں کو اشیا کے علوم سنائے۔ آغازِ کائنات سے لے کر رہتی دنیا تک جتنی بھی اشیا ایجاد یا دریافت ہوئیں اور آئندہ ہوں گی سب آدم کے بیٹے اور بیٹیوں کے خمیر میں ودیعت کی جا چکی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ غاروں میں رہنے والا انسان اور آج سمندر اور خلاؤں میں سفر کرنے والا انسان اسی وراثتی علمی اثاثے کی وجہ سے حیرت انگیز ترقی کے مراحل طے کررہا ہے۔

ما بعد الطبیعیات تعلیمی بنیادیں یعنیMetaphysical basis of education ایک خمیری علم ہے جو آدم کی اولاد میں فی زمانہ جینیاتی خصوصیات کی وجہ سے ہے۔ لہٰذا بچپن سے ہی انسان سماعتوں، مشاہدات اور حرکات و سکنات کے ذریعے سیکھنا شروع کردیتا ہے۔ تمام ماہرینِ حیاتیات اس بات پر متفق ہیں کہ جب بچہ مادرِ رحم میں نطفے کی صورت ہوتا ہے اور تین ماہ کے بعد اس کا وجود مکمل ہونا شروع ہوتا ہے اُسی وقت سے اس پر اپنی ماں کی خوراک، عادات، طبیعت اور مزاج کا اثر ہونا شروع ہوجاتا ہے۔

امام غزالیؒ نے اپنی کتاب ’’کیمیائے سعادت‘‘ میں لکھا ہے کہ آدمؑ جس مٹی سے بنائے گئے ہیں اس میں چار مخلوقات کے خمیر شامل ہیں۔ پہلا فرشتوں کا، دوسرا حیوان کا، تیسرا درندوں کا اور چوتھا شیطان کا۔ مگر اللہ نے انسان کو صفاتِ ملکوتی کے حصول کے لیے تخلیق کیا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ ایک لاکھ چوبیس ہزار انبیائے کرام اور آخر میں ختمِ رسل حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کے ذریعے نیک اور بد، حرام و حلال، مفید اور نقصان دہ، صراطِ مستقیم اور صراط مغضوبین کی تمام راہیں واضح طور پر بتا دی گئی ہیں۔

’’دین میں کوئی تنگی نہیں ہے اور نیک و بد دونوں کو الگ کردیا گیا ہے۔‘‘ (البقرہ)’’مجھے اس نفس کی قسم جس کو میں نے پیدا کیا اور ہموار کیا، اس پر فجور و تقویٰ واضح کردیا۔‘‘ (سورہ الشمس)

یہی وجہ ہے کہ ہر دور کے انسانوں میں ان چاروں صفات کے لوگ پائے جاتے ہیں۔ ’’یہ اپنی حرکتوں سے نیچوں میں نیچ ہو جاتا ہے۔‘‘ (سورہ التین)

انسان ابتدائی طور پر تین دائروں میں سیکھتا ہے۔ پہلا دائرہ ماں کی گود، باپ کا کاندھا اور گھر کا آنگن ہے۔ یہ انسان کا پہلا مدرسہ ہے۔ ماں باپ اور گھر کے بزرگ ہر انسان کے پہلے مدارس ہیں جن کی ہر چیز کی نقل بچہ کرتا ہے۔ چوں کہ میری پوری زندگی درس و تدریس میں گزری ہے اور میں پیشے کے لحاظ سے مدرّس ہوں، اس لیے اس ابتدائی تعلیم کا ایسا تجربہ قارئین کے سامنے پیش کررہا ہوں جو 40 سال گزرنے کے باوجود میرے حافظے میں محفوظ ہے۔

واقعہ یوں ہے کہ ایک 5 سال کی بچی اپنی کلاس میں بچوں کو گالیاں دیتی تھی۔ میڈم کے کہنے پر میں نے جب اس بچی کو بلایا تو رونے لگی، جب میں نے پیار سے پوچھا ’’بیٹی آپ گالی کیوں دیتی ہو؟ اس سے اللہ ناراض ہوں گے‘‘، تو اس نے روتے ہوئے یہ بات بتائی کہ ’’سر! میرے ابو میری امی کو اسی طرح گالیاں دیتے ہیں۔‘‘

دوسرا واقعہ لندن کے ایک اخبار میں شائع ہوا تھا، وہ یہ کہ لندن کے ٹیوب ریلوے میں سفر کے دوران ایک مسلمان شخص نے جو کہ لندن کے ماحول میں پلا بڑھا تھا، چار سکھوں کو مار مار کر لہولہان کردیا، وجہ یہ تھی کہ ان چاروں سکھوں نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی شان میں گستاخی کی تھی۔ گرفتار ہوا، پولیس نے جب تحقیق کی تو پتا یہ چلا کہ یہ شخص مذہبی خیالات کا حامل نہیں ہے، پھر کیوں ایسا کیا؟ تحقیق کے بعد یہ معلوم ہوا کہ اس کی ماں راسخ العقیدہ مسلمان ہے اور بچپن میں اس کی تربیت ایسے ہی ماحول میں ہوئی تھی۔

ان دو واقعات سے پہلی تعلیم گاہ جس کو مابعد الطبیعیات تعلیمی بنیادیں کہتے ہیں، جہاں مستقبل کا انسان تیار ہوتا ہے، عمر کے ساتھ وہ کیسا بنے گا یہ طے ہوجاتا ہے۔

دوسری تعلیم گاہ اسکول اور مدرسہ، پھر کالج اور یونیورسٹیاں ہیں جہاں نسلِ نو کی آبیاری کرنے والے اساتذہ نہ صرف فنی تعلیم سے آراستہ کرتے ہیں بلکہ اپنی عادات، فکر و خیال اور نظریہ بھی شاگردوں میں منتقل کرتے ہیں۔

ارسطو اور سقراط سے وقت کے حکمراں اسی لیے خائف تھے، دنیا کے تمام انقلابات اساتذہ کی فکری تربیت کی وجہ سے برپا ہوئے ہیں۔ انبیا اور رسولوں کی مخالفت کسی عام آدمی نے نہیں بلکہ وقت کے فرعونوں، نمرودوں اور سرداروں نے کی ہے، کیوں کہ انبیائے کرام اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کی جانب سے معلم بنا کر بھیجے گئے تھے۔

تاریخ اس بات کی گواہ ہے کہ بنگلہ دیش بنانے میں مشرقی پاکستان میں کالج اور یونیورسٹیوں میں ہندو اساتذہ کا بڑا کردار تھا۔ چانکیہ کی تعلیمات اور چندر گپت موریا کی سلطنت کا دوام اسی استاد کی استادی تھی جس کی کتاب ارتھ شاستر (کوتلیہ) پر اور میکاولی کی کتاب “The Price” پر آج کے ظالم اور مکار حکمران عمل کرتے ہیں۔ تیسرا دائرہ معاشرہ ہے جس کی صحبت میں اچھی اور بری عادات انسان سیکھتا ہے۔

صحبتِ صالح ترا صالح کند
صحبتِ طالح ترا طالح کند

(اچھے کی صحبت میں آدمی اچھا اور برے کی صحبت میں آدمی برا بنتا ہے۔)

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر تم لوہار کی دکان پر بیٹھو گے تو تپش محسوس کرو گے اور اگر عطر فروش کی دکان پر بیٹھو گے تو خوشبو ملے گی۔‘‘

خربوزے کو دیکھ کر خربوزہ رنگ پکڑتا ہے۔ لہٰذا معاشرے میں صحبت بھی تعلیم گاہ ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ’’اگر تم کسی ایسی محفل سے اٹھے ہو جو اللہ اور رسول کے ذکر سے خالی تھی تو گویا تم کسی مُردار گدھے کی صحبت سے اٹھے ہو۔‘‘

انسان کی تمام تر عقلی، فکری، نظریاتی، اخلاقی، دینی تعلیم و تربیت کے یہ تینوں دائرے ہیں جن میں آدمی بچپن سے جوان اور پھر بوڑھا ہوکر مر جاتا ہے۔ باقی دیگر صفات اور عادات خمیری ہوتی ہیں۔

آدم علیہ السلام کی اولاد میں نیک و بد دونوں پیدا ہوئے۔ ابتدا میں ہی ہابیل اور قابیل کے دو کرداروں سے یہ بات واضح ہوگئی تھی کہ تا قیامت انسانوں کے دو گروہ ہوں گے، ایک نیک دوسرا بد۔ لیکن آدمؑ سے لے کر آج تک یہ بات اظہر من الشمس ہے کہ آدمؑ کو جو علم الاشیا عطا کیا گیا وہ فی زمانہ ان کی اولاد میں منتقل ہوتا رہے گا۔ انبیا تو علم الوحی کے ذریعے انسانوں کی رہنمائی کرتے رہے مگر ان کے امتی بھی روحانی اور فنی تعلیم میں اوجِ ثریا پر فائز رہے۔

جب حضرت سلیمان علیہ السلام نے ایک بڑے جن سے ملکہ صبا کا تخت لانے کو کہا کہ کتنی دیر میں لا سکتے ہو؟ تو جن نے کہا کہ پلک جھپکتے میں۔ مگر دربار میں بیٹھا ایک مومن اس گفتگو کے دوران ہی تختِ صبا لا چکا تھا۔ انبیاء اور رسولوں کو اللہ تعالیٰ نے معجزات کے ذریعے عقل سے ماورا چیزیں عطا کیں۔ ادریس علیہ السلام تو خلاؤں کا سفر کیا کرتے تھے۔ موسیٰؑ کو عصا اور عیسیٰؑ کو مُردوں کو زندہ کرنے، پیدائشی نابیناؤں کو بینائی عطا کرنے اور کوڑھیوں کو شفا دینے والے معجزات عطا کیے۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے کنکریوں کو کلمہ پڑھایا، چاند کے دو ٹکڑے کیے اور معراج کی رات چند ساعتوں میں ساتوں آسمانوں کا سفر کیا اور اللہ تعالیٰ سے شرفِ ملاقات حاصل کرکے واپس آئے۔

دورِ فاروقیؓ میں مسلمانوں کی فوج کی پشت سے پہاڑی کے پیچھے سے دشمن کی فوجیں حملہ آور ہونے والی تھیں کہ عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ نے خطبہ دینے کے دوران یہ آواز دی ’’یا ساریول جبال‘‘ یعنی پہاڑ کے پیچھے سے دشمن۔ یہ آواز سیکڑوں میل دور سپہ سالار تک پہنچ گئی اور دشمن کو منہ کی کھانی پڑی۔ یہ روحانی ارتقاء تھا جو آج کے Digital Technology دور میں نظر آتا ہے۔ مسلمان سائنس دانوں نے تمام شعبوں میں ایجادات اور دریافتوں کو بام عروج پر پہنچایا جس کی بنیاد پر آج کی سائنس اپنا ترقی کا سفر تیزی سے جاری رکھے ہوئے ہے۔

دورِ قدیم کی ایجادات آج کے دور سے بالکل مختلف بلکہ حیرت انگیز تھیں۔ تاریخ میں آتا ہے کہ نمرود کے پاس ہوا میں پرواز کرنے والا تخت تھا، اس کے علاوہ اُس کے پاس حیرت انگیز طلسماتی چیزیں موجود تھیں جس کی بنا پر وہ خدائی کا دعویدار تھا۔ شداد نے تو جنت ہی بنا ڈالی جس کو اللہ نے انسانوں سے اوجھل کردیا۔ عاد و ثمود کے پہاڑوں کو کاٹ کر تعمیر کیے گئے محلات، نینوا کا جھولتا ہوا باغ، فرعونوں کے اہرام، ابوالہول کا مجسمہ، حنوط شدہ لاشیں جو ہزاروں سال کے بعد بھی محفوظ ہیں… یہ سب تعمیراتی انجینئرنگ اور کیمیائی مہارت کے بے مثال کارنامے ہیں جو اللہ کے باغیوں نے سرانجام دیے جو پوری روئے زمین پر موجود ہیں۔ آج کا جدید دور جو سرعت پذیر ترقی کے ساتھ اسرارِ کائنات کے پردوں کو چاک کرتا جا رہا ہے ، اس بات کا ثبوت ہے کہ یہ آدم علیہ السلام کو عطا کیا گیا وہی علم ہے جو آدم کی اولاد میں خمیری طور پر فی زمانہ حسب ِضرورت منتقل ہو رہا ہے اور انسان اس سے استفادہ کر رہا ہے۔

عروجِ آدمِ خاکی سے انجم سہمے جاتے ہیں
کہ ٹوٹا ہوا تارا مہِ کامل نہ بن جائے

آدم کے خمیر میں چار مخلوقات کے خمیر موجود ہیں، اس لیے آدمی میں ان چاروں مخلوقات کی صفات رکھنے والے لوگ پائے جاتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ تمام تر ترقی کے باوجود دنیا شر اور فساد سے بھری ہوئی ہے۔ جب کوئی انسان نیکی کرتا ہے اور اُس کے اندر اپنے جیسے انسانوں کی خدمت کا جذبہ پیدا ہوتا ہے تو اس کو دیکھ کر لوگ یہ تبصرہ کرتے ہیں کہ یہ فرشتہ ہے فرشتہ۔ اس کے برعکس کسی آدمی میں بے پردگی، فحاشی اور عریانی کے ساتھ بے راہ روی پائی جاتی ہے تو لوگ اس کو حیوان سے تعبیر کرتے ہیں۔ جب کوئی شخص قتل و غارت گری اور سفاکی کا مظاہرہ کرتا ہے تو اس کو درندہ کہتے ہیں اور چنگیز، ہلاکو اور وقت کے ظالم و جابر سے تشبیہ دیتے ہیں۔ جب کوئی جھوٹ، مکاری، فریب اور دغابازی کا ہنر دکھاتا ہے تو لوگ کہتے ہیں اس سے بچنا، یہ شیطان ہے شیطان۔

آج کی ترقی کو دیکھ کر انسان الف لیلہ کی ہزار داستانوں کی کہانی کو بھول جاتا ہے۔ دنیا کے 8 ارب انسانوں کی غالب اکثریت نہ کسی مذہب سے وابستہ ہے اور نہ خدا کو مانتی ہے پھر بھی کائنات کے اسرار کے پردے آئے روز چاک کرکے اس کی تسخیر میں لگی ہوئی ہے۔ انسان سورج کی شعاعوں کو اپنی گرفت میں لے کر بجلی پیدا کرتا ہے۔ وہ اس لیے یہ سب کچھ کرنے کے لائق ہوا ہے کہ اللہ نے آدم علیہ السلام کو یہ تمام علوم عطا کیے تھے۔ ایک طرف تو انسان زندگی کی سہولیات کے لیے نت نئی ایجادات کررہا ہے اور دوسری جانب یہ اپنی زندگی کے سکون سے محروم ہوچکا ہے کیوں کہ اللہ تعالیٰ نے جنوں اور انسانوں کو صرف اور صرف اپنی عبادت کے لیے پیدا کیا ہے مگر یہ اللہ کا باغی اور شیطان کا پجاری بن چکا ہے۔ اس لیے انسان، انسان کو درندوں کی طرح مارتا ہے۔ حیوانوں کی طرح جینے کو انسانی حقوق کہتا ہے۔ شیطان کی مکاری اور فریب کو ہنر سمجھتا ہے اور اپنے جیسے نیک اور خدا پرست انسان کو اپنا دشمن سمجھ کر اس پر ظلم و زیادتی کرتا ہے بلکہ عالمی سطح پر اس کے خلاف جنگ چھیڑ چکا ہے۔ ٹیکنالوجی اور سائنسی ترقی میں جاپان صفِ اوّل میں ہے، اس نے انسانی سہولیات کے لیے وہ کچھ بنا لیا ہے کہ عقل دنگ رہ جاتی ہے، مگر سب سے زیادہ خودکشیاں اسی ملک کے لوگ کرتے ہیں۔

جاپان مشینوں کا ملک ہے، بہت ساری اخلاقی قدریں ہونے کے باوجود اس ملک کے رہنے والے اب ازدواجی زندگی کو اپنانے سے گریزاں ہیں۔ اس لیے کہ انسانوں کے خالق نے انسان کی زندگی کو پُرسکون اور متوازن بنانے کے لیے جو نظام حیات دیا، اُس سے ناآشنا ہیں۔ یہی حال مغربی ممالک اور نام نہاد ترقی یافتہ ممالک کا ہے۔ مختصر یہ کہ انسان کائناتِ اصغر ہے، اس کے اندر کائناتِ اکبر کی تمام مجموعی اشیا اور صفات موجود ہیں، لیکن وہ اپنے آپ کو پہچاننے اور خود کو تلاش کرنے کے بجائے اپنے سے باہر کی دنیا میں پرواز کررہا ہے۔

ڈھونڈنے والا ستاروں کی گزرگاہوں کا
اپنے افکار کی دنیا میں سفر کر نہ سکا
اپنی حکمت کے خم و پیچ میں الجھا ایسا
آج تک فیصلہ نفع و ضرر کر نہ سکا
جس نے سورج کی شعاعوں کو گرفتار کیا
زندگی کی شبِ تاریک سحر کر نہ سکا
(علامہ اقبال)

حصہ