پاکستان میں کلچر کی سیاست

335

پاکستان اسلام کے نام پر تخلیق ہوا تھا، اس لیے یہاں صرف اسلام کے نام پر سیاست ہونی چاہیے تھی، لیکن یہاں فوج کے نام پر سیاست ہوئی، سیکولرزم کے نام پر سیاست ہوئی، سوشلزم کے نام پر سیاست ہوئی، صوبوں کے نام پر سیاست ہوئی، زان کے نام پر سیاست ہوئی۔ یہاں تک کہ اس چیز کے نام پر سیاست ہوئی جسے عرف عام میں ’’کلچر‘‘ کہا جاتا ہے اور جس کو سب سے زیادہ غیر سیاسی سمجھا جاتا ہے۔ پاکستان میں کلچر کے نام پر سیاست کی پہلی اور سب سے بڑی مثال مشرقی پاکستان (بنگلہ دیش) ہے، جہاں بنگالی زبان کو کلچر کی سب سے بڑی علامت بناکر پیش کیا گیا۔ کہا گیا کہ بنگالیوں کو اپنی زبان سے بڑی محبت ہے، اس لیے کہ بنگالی رابندر ناتھ ٹیگور اور نذرالاسلام کی زبان ہے۔ اس سلسلے میں نسل پرست بنگالیوں کا تعصب اتنا بڑھا ہوا تھا کہ 1948ء میں جب قائداعظم نے کہاکہ ’’پاکستان کی سرکاری زبان صرف اور صرف اردو ہوگی، تو بنگالیوں کے ایک چھوٹے سے طبقے نے سہی اس کے خلاف احتجاج کیا۔

انہوں نے اس سلسلے میں اس بات تک پر غور نہ کیا کہ قائداعظم کی اپنی مادری زبان گجراتی ہے، وہ خود نہ اردو رسم الخط میں اردو پڑھ سکتے ہیں اور نہ لکھ سکتے ہیں۔ یہاں تک کہ ان کی ساری تعلیم و تربیت انگریزی کی فضا میں ہوئی ہے۔ قائداعظم اس تعلیم و تربیت کے باعث انگریزی سے اتنے مانوس تھے کہ وہ اپنی اہلیہ تک سے انگریزی میں بات کرتے تھے۔ ان حقائق کے باوجود قائداعظم کہہ رہے تھے کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی۔ قائداعظم کی اردو سے یہ محبت شخصی معاملہ نہیں تھی۔ قائداعظم کو تین حقائق کا ادراک تھا: انہیں معلوم تھا کہ عربی اور فارسی کے بعد دین اسلام اور ادب کا سب سے بڑا سرمایہ اردو کے پاس ہے۔ انہیں معلوم تھا کہ اردو برصغیر میں رابطے کی واحد زبان ہے۔ انہیں اس امر کا پورا پورا احساس تھا کہ اردو نے دو قومی نظریے کے بعد پاکستان کی تخلیق میں سب سے اہم کردار ادا کیا ہے، مگر بنگالیوں نے ان میں سے کسی بات کا ادراک نہ کیا۔ وہ بنگالی بنگالی کرتے رہے اور ان کی زبان کی جائز محبت، زبان کی پوجا میں تبدیل ہوگئی۔ پھر جب مشرقی پاکستان بنگلہ دیش بن گیا تو منظرنامہ یکسر تبدیل ہوگیا۔ آج بنگلہ دیش کی عملاً سرکاری زبان بنگای نہیں انگریزی ہے اور بنگلہ دیش کے کروڑوں شہری بھارتی فلموں کے حوالے سے اردو کو گلے لگائے ہوئے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ یہ کیسی کلچر پرستی ہے جو بانی ملک کی بات نہیں سنتی مگر ’’مجبوری‘‘ اور ’’فلموں‘‘ کی بات سنتی ہے۔

پاکستان میں کلچر کی سیاست کی ایک مثال الطاف حسین ہیں، جن کی اصل شکایت معاشی تھی، مگر ان کی مفاد پرستی کی سیاست نے معاشی شکایت کو کلچر کی سیاست میں ڈھال دیا۔ اردو پورے برعظیم کی زبان تھی، مگر الطاف حسین اسے صرف مہاجروں کی زبان بناکر کھڑے ہوگئے۔ کلچر کی سیاست نے انہیں کُرتا پاجامہ پہناکر کھڑا کردیا، مگر الطاف حسین کی اردو پرستی بھی جھوٹی تھی اور ان کا کُرتا پاجامہ بھی محض ایک دھوکا تھا۔ الطاف حسین کا اصل مسئلہ ان کی اپنی شخصیت تھی۔ چنانچہ ان کی سیاست سے پہلے مہاجر سمندر کی علامت تھے، لیکن الطاف حسین کی سیاست نے انہیں کنویں کی علامت بنادیا۔ اس علامت سے بوری بند لاشوں اور بھتہ خوری کا کلچر برآمد ہوا۔ اس سے ’’پرتشدد تہذیب‘‘ نے جنم لیا۔ اس سے لطاف حسین کی نادم نہاد ’’جلاوطنی کے تمدن‘‘ نے سرا بھارا۔ اس سے ’’ٹیلی فونک خطاب‘‘ کی ’’موسیقی‘‘ پیدا ہوئی ہے۔ اس سے دوسری ثقافتوں کی نفرت کے آرٹ نے جنم لیا۔ سوال یہ ہے کہ کیا کلچر کی سیاست اسی کا نام ہے؟

پاکستان میں کلچر کی سیاست کی ایک علامت بلاول زرداری ہیں۔ انہوں نے کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے پاکستان کو Banistan (پابندیوں کا گھر) قرار دیا تھا اور فرمایا تھا کہ یہاں شادی کے عشائیوں سے لے کر یوٹیوب تک ہرچیز پر پابندی یا Ban لگا ہوا ہے۔ لیکن بلاول بھٹو کی تقریر کی اصل بات Banistan کا تصور نہیں، اس کی تقریر کی اصل بات کلچر کی سیاست ہے۔

کچھ سال پہلے ٹیلی ویژن کے ایک میزبان نے آصف علی زرداری کے لباس کے ’’نمائشی پہلو‘‘ پر اعتراض کیا تھا تو آصف علی زرداری کی ثقافتی رگ پھڑک اٹھی اور انہوں نے صوبہ سندھ میں سندھی ٹوپی کا دن منانے کا اعلان کیا تھا۔ بلاول زرداری نے 15 دسممبر 2013ء کو کراچی میں ایک تقریب سے خطاب کرتے ہوئے اپنے والد کی روایت کو آگے بڑھاتے ہوئے اعلان کیا کہ فروری 2014ء کے پہلے دو ہفتوں میں سندھ میں ’’سندھ کلچر فیسٹیول‘‘ منایا جائے گا۔ اس موقع پر بلاول نے سندھ کی ثقافت سے جس ’’تعلق‘‘ کا مظاہرہ کیا، وہ ذرائع ابلاغ کی زینت بن چکا ہے۔ بلاول جب سندھ کے کلچر سے وابستگی کا اعلان کررہے تھے تو پینٹ شرٹ زیب تن کی ہوئی تھی۔ ان کی شرٹ پر ’’سپرمین‘‘ کی علامت بنی ہوئی تھی اور بلاول زرداری انگریزی میں تقریر کررہے تھے۔ سوال یہ ہے کہ سندھ کے کلچر کی علامت شلوار قمیص، ٹوپی اور اجرک ہے یا پینٹ شرٹ؟ سندھ کے ہیرو شاہ عبداللطیف بھٹائی اور سچل سرمست ہیں یا سپرمین؟ اور سندھ کی زبان سندھی ہے یا انگریزی؟ ہمیں بلاول کے پینٹ شرٹ پہننے، سپرمین کی علامت کو سینے سے لگانے اور انگریزی بولنے پر اعتراض نہیں، لیکن سندھی کلچر، سندھی کلچر کی رٹ لگانے والے کو کم از کم سندھ کے کلچر سے اتنی وابستگی کا مظاہرہ تو کرنا ہی چاہیے تھا کہ وہ سندھی کلچر کے حوالے سے برپا ہونے والی تقریب میں اپنی زبان اور لباس سے ’’سندھی‘‘ نظر آتے۔ لیکن بلاول زرداری کا مسئلہ سندھی کلچر تھوڑی ہے۔ ان کا مسئلہ تو سندھی کلچر کے نام پر سیاست ہے۔

اس کا ایک ثبوت تقریب میں کی گئی بلاول زرداری کی تقریر ہے۔ انہوں نے تقریب سے خطاب کرتے ہوئے کہاکہ ’’ہماری تاریخ یونانیوں اور رومیوں کی طرح باثروت ہے۔ ہم دریائے سندھ کی قابل فخر تہذیب کے امین ہیں۔ ہم اپنی ثقافت کو محفوظ کرنا اور فروغ دینا چاہتے ہیں، تاکہ دنیا کے سامنے ہماری اصل شناخت واضح ہو، نہ کہ تاریخ کی وہ درآمد شدہ اور خیالی داستان جو ہمیں اسکولوں میں پڑھائی جاتی ہے‘‘۔

غور کیا جائے تو بلاول زرداری نے اپنی تقریر میں سندھ کے اسلامی ثقافتی ورثے اور تحریک پاکستان سے متعلق اس کے کردار کی دھجیاں اڑا کر اسے دریائے سندھ میں بہادیا تھا۔ سندھ کی ثقافتی تاریخ کے چار حصے ہیں: سندھ موئن جودڑو کی تہذیب کا مرکز ہے، سندھ راجا داہر کی سرزمین رہا ہے، لیکن سندھ باب الاسلام ہے اور سندھ تحریک پاکستان کا ایک اہم مرکز ہے۔ اس وقت سندھ کے اسکولوں میں باب الاسلام اور تحریک پاکستان کی تاریخ پڑھائی جارہی ہے، تو کیا بلاول کے نزدیک یہی تاریخ درآمد شدہ Fiction یا خیالی ہے؟ اگر ایسا ہے تو بلاول کھل کر اعلان کریں کہ وہ موئن جودڑو اور راجا داہر کی تہذیب کے امین ہیں۔ باب الاسلام اور تحریک پاکستان کی تاریخ کے امین نہیں ہیں۔

خالص ثقافتی نقطہ نظر سے بھی دیکھا جائے تو بلاول کا بیان ہولناک تھا۔ کلچر ایک کُل یا whole ہے اور جب کوئی کسی خطے کے کلچر کو ’’اپنا‘‘ کہتا ہے تو وہ اس کے کُل کو اپنا کہتاہے۔ اس اعتبار سے بلاول کو کہنا چاہیے تھا کہ ہم ایک جانب موئن جودڑو کی تہذیب کے امین ہیں اور دوسری جانب باب الاسلام کی تاریخ کے امین ہیں اور تیسری جانب ہم تحریک پاکستان اور قیام پاکستان کے بعد پیدا ہونے والے ثقافتی تجربے کے امین ہیں۔ مگر کلچر پر گفتگو کرتے ہوئے انہیں صرف موئن جودڑو یاد آیا اور وہ باب الاسلام اور قیام پاکستان کے بعد کی ثقافت کو بھول گئے۔

سوال یہ ہے کہ کیا یہی ان کی ’’ثقافتی ایمان داری‘‘ ہے؟ کتنی عجیب بات ہے کہ موئن جودڑو کی جو تہذیب سندھ کا مردہ ماضی ہے، وہ تو بلاول زرداری کا ثقافتی ورثہ ہے اور باب الاسلام کی جو تاریخ سندھ کا زندہ حال ہے، وہ بلاول بھٹو کی تقریر میں جگہ پانے میں ناکام تھا، بلکہ وہ اسے ’’خیالی تاریخ‘‘ کہہ کر پکار رہے تھے۔ بلاول نے سندھ کلچر میلے میں بسنت اور ویلنٹائن ڈے منانے کا بھی اعلان کیا۔ سوال یہ ہے کہ سندھ کے کلچر میں بسنت اور ویلنٹائن ڈے کی جڑیں کہاں پیوست ہیں؟ وہ اہل سندھ کو یہ بھی بتادیتے تو اچھا ہوتا۔

سندھ میں کلچر ازم کے نعرے پر بینا شاہ نے روزنامہ ڈان میں شائع ہونے والے ایک مضمون میں تبصرہ کرتے ہوئے کلچر پرستوں کو بجاطور پر یاد دلادیا ہے کہ سندھی ثقافت کی علامتیں مثلاً ٹوپی اور اجرک ترسیل کا ذریعہ ہیں، بجائے خود معنی نہیں۔ اس بات کا مفہوم یہ ہے کہ کلچر معنی سے زندہ رہتا ہے، معنی کی ترسیل کے آلے سے نہیں۔ مثال کے طور پر سندھی ٹوپی میں ماتھے کی جگہ پر موجود نشان دراصل مسجد کی محراب سے آیا ہے اور مسجد کی محراب حرب سے ماخوذ ہے۔ یعنی سندھی ٹوپی کی محراب دراصل اسلام کے تصور جہاد کی علامت ہے۔ مگر یہ بات بلاول کیا بڑے بڑے سندھی قوم پرستوں کو معلوم نہیں۔ ان کے لیے تو سندھ کی ثقافت، سیاست کا آلہ ہے اور بس۔ لیکن کلچر کی سیاست صرف سندھ تک محدود نہیں۔

پنجاب کے وزیراعلیٰ میاں شہباز شریف نے دس سال پہلے بھارتی پنجاب کا دورہ فرمایا تھا۔ اس دورے میں انہوں نے اعلان کیا تھا کہ پاکستانی اور بھارتی پنجاب کے درمیان زبان، کھانے پینے کے معاملات مشترک ہیں۔ حیرت ہے کہ میاں شہباز شریف کو دونوں ثقافتوں کی ’’بنیادی چیزوں کے امتیازات‘‘ تو یاد نہیں، البتہ ’’ثانوی چیزوں کی مماثلتیں‘‘ انہیں خوب نظر آرہی تھیں۔ میاں شہباز شریف اس دورے میں سکھوں کے ساتھ کتنے گھل گئے تھے، اس کا اندازہ اخبار میں شائع شدہ ہونے والی اس تصویر سے ہوتا ہے جس میں وہ دو سکھ بزرگوں کے درمیان موجود ہیں۔ اس تصویر کے لیے کیپشن واضع کیا جائے تو وہ اس فقرے کے سوا کچھ ہو ہی نہیں سکتا: ’’اس تصویر میں شہباز شریف کون ہے؟‘‘

ایسی ہی ایک تصویر بلاول کے حوالے سے بھی شائع ہوئی تھی۔ اس تصویر کے لیے مناسب ترین کیپشن یہ ہے: ’’اس تصویر میں سندھی کلچر کہاں ہے؟‘‘

حصہ