آخرشب کے ہم سفر

228

’’تازہ ڈان اخبار…‘‘ نواب صاحب نے کہا۔ ’’نیرّ میاں سے پوچھو۔ وہ تو نہیں اُٹھا لے گئے۔ ان سے کہنا ہمیں پاکستان کا نقشہ چاہئے‘‘۔
’’حضور… پاکستان کا نقشہ تو نیرّ میاں نے اس میں کاٹ کر باہر برآمدے میں دیوار پر لگا دیا ہے۔ فرمائیے تو اکھیڑ لائوں۔ مگر دیوار خراب ہوجائے گی‘‘۔
’’اوہ… اچھا۔ ٹھیک ہے۔ رہنے دو۔ جائو‘‘۔
ملازم باہر چلا گیا۔ نواب صاحب پھر لکھنے میں مصروف ہوگئے۔
اور اُس وقت عبدالقادر کوچوان کی کھڑکھڑاتی ہوئی گھوڑا گاڑی ارجمند منزل کی برساتی میں داخل ہوئی۔

دیپالیؔ سرکار گاڑی کے دروازے کی چٹخنی کھول کر نیچے اُتری۔ عبدالقادر کو کرایہ ادا کیا۔ عبدالقادر حسب معمول سر جھکائے گھوڑے کو ہنکاتا آگے بڑھ گیا۔ سرجھکائے دیپالی برآمدے کی سیڑھیاں چڑھی لیکن اندر جاتے ہوئے اس کی نظر صدر دروازے کے برابر والی دیوار پر پڑ گئی جہاں پام کے گملے کے اوپر نیرّ الزماں نے مجوزہ پاکستان کا نقشہ ڈرائنگ پنوں کے ذریعے لگا دیا تھا۔
دیپالی ٹھٹھک گئی اور آنکھیں پھیلا کر اسے دیکھنے لگی۔ پنجاب، آسام، بنگال، کشیر، سرحد و سندھ، بلوچستان… وہ تیوری پر بل ڈال کر بڑے غور سے اس نقشے کو دیکھ رہی تھی۔ اس وقت تک ملازم ہال میں کرسیاں لگا کر جا چکے تھے۔ اور طویل برآمدہ خاموش پڑا تھا۔

اتنے میں ایک گمبھیر، نرم آواز نے اسے چونکا دیا۔
’’دیپالیؔ بیٹی… دھیان سے کیا دیکھ رہی ہو…؟‘‘
اُس نے مڑ کر دیکھا۔ نواب قمر الزماں اپنے کتب خانے کے دروازے میں کھڑے شفقت سے مسکرا رہے تھے۔

اُسے جہاں آراء کے بابا بہت اچھے لگتے تھے۔ اس قدر مہذب اور نفیس اور خوش اخلاق گو ان سے باتیں کرنے کا بہت کم اتفاق ہوتا تھا، لیکن وہ خود اپنے باپ کی اتنی منہ چڑھی اور لاڈلی تھی۔ اس لیے نواب صاحب سے بھی بے تکلفی سے بات کرلیتی تھی اور ان سے ذرا خائف نہ تھی۔ اب اس نے آنکھیں پھیلا کر انہیں دیکھا اور پوچھا۔ ’’یہ کیا ہے۔ کاکا…؟‘‘

’’بیٹی، تم کو تو جاننا چاہئے۔ ایک روز بہت جلد۔ ان شاء اللہ جب پاکستان بن جائے گا تو تم پاکستانی ہوگی‘‘۔
’’میں… کاکا…؟‘‘ اُس نے اسٹڈی کے دروازے کی طرف جاتے ہوئے دریافت کیا۔

نواب صاحب نرمی سے ہنسے… اپنی ساری اولاد میں جہاں آراء ان کو سب سے زیادہ پیاری تھی۔ اس وجہ سے جہاں آراء کی سہیلیوں کا وہ بڑا خیال کرتے تھے۔ علاوہ ازیں دیپالیؔ ان کے پرانے دوست کی لڑکی تھی۔

’’اتنی دیر میں کیوں آئیں، تمہارا صبح سے انتظار کیا جارہا ہے‘‘۔ انہوں نے کہا۔ ’’اب جائو جلدی اندر۔ جہاں آراء تمہارے لیے بہت سا کام لئے بیٹھی ہے‘‘۔

’’ابھی جاتی ہوں کاکا۔ مگر پہلے آپ سے کچھ پوچھنا چاہوں گی‘‘۔ دیپالیؔ نے سنجیدگی سے کہا۔
’’ہاں۔ ہاں پوچھو بیٹی۔ آئو‘‘۔ نواب صاحب نے پردہ ہاتھ سے ایک طرف کو اُٹھا دیا۔ دیپالیؔ اسٹڈی میں داخل ہوئی۔ نواب صاحب جا کر اپنی آرام کرسی پر بیٹھ گئے۔ دیپالی قریب ایک صوفے پر ٹِک گئی۔
’’تمہارے باپ کیسے ہیں‘‘۔
’’اچھی طرح ہیں‘‘۔

’’اچھا ذرا میں یہ کاغذ پتّر سمیٹ لوں، پھر تم سے بات کرتا ہوں‘‘۔ نواب صاحب نے عینک کیس میں رکھ کر کاغذات ٹھیک کرتے ہوئے کہا۔

ڈاکٹر سرکار اسکول میں نواب قمر الزماں کے ہم جماعت تھے۔ ڈاکٹری پاس کرنے کے بعد کچھ عرصہ وہ ارجمند منزل کے فیملی ڈاکٹر رہے۔ مارے دوستی کے فیس نہیں لیتے تھے۔ اس لیے نواب صاحب نے فیس کے بجائے تحفے تحائف اُن کے گھر بھجوانے شروع کئے۔ ڈاکٹر سرکار نے ارجمند منزل ہی آنا چھوڑ دیا۔ نواب صاحب کو اُن کی مالی حالت کا خوب اندازہ تھا۔ دُرگا پوجا اور عید کے مواقع پر جہاں آراء نے دیپالیؔ کو ساریاں تحفے میں دیں تو ان کو دیکھ کر ڈاکٹر سرکار کا منہ اُتر گیا۔ انہوں نے دیپالی سے کہا۔ ’’جب تم اس کو کچھ دے نہیں سکتیں تو اس سے لیتی کیوں ہو‘‘۔ لہٰذا یہ سلسلہ بھی منقطع ہوگیا۔

’’بھئی ہم کیا کریں…‘‘ نواب قمر الزماں نے اخباروں کا پلندہ ایک تپائی پر سرکاتے ہوئے کہا۔ ’’ہمارے یہاں تم جانتی ہو۔ بیماری کا سلسلہ کتنا رہتا ہے۔ جہاں آراء کی ماں اختلاجِ قلب کی مریضہ ہیں۔ آئے دن ڈاکٹر کی حاجت۔ مگر تمہارے باپ ایسی اُلٹی کھوپڑی کے آدمی ہیں۔ مجبوراً ہم نے ڈاکٹر گھوش کو لگالیا۔ بتائو بھلا اگر ڈاکٹر اور وکیل دوستوں سے فیس لینا چھوڑ دے، تو کیا کرے…‘‘

’’آپ ان کو سمجھائیے…‘‘ دیپالیؔ نے کہا۔
’’خبطی ہیں، اُن کو کون سمجھا سکتا ہے۔ تم بتائو بیٹی۔ ایسی پریشان سی کیوں نظر آرہی ہو۔ اور تمہارا شانتی نکیتن کیسا چل رہا ہے؟‘‘
’’ٹھیک ہے کاکا‘‘۔
’’بنوئے بابو ایک روز ملے تھے، بتلا رہے تھے کہ تم چھٹیوں میں گھر آنے کے بجائے لوک گیت جمع کرنے سنتھال پر گنہ چلی گئیں‘‘۔
’’جی ہاں۔ کاکا‘‘۔ دیپالیؔ نے بڑی بے چینی سے مجرموں کی طرح صوفے پر پہلو بدلا۔

’’بے چارے بہت سخت پریشان تھے کہ برسات کا زمانہ ہے۔ جانے کہاں ماری ماری پھر رہی ہوگی۔ کہیں بیمار نہ پڑ جائے‘‘۔
دیپالیؔ اپنے آپ سے نظریں چرا کر دریچے سے باہر دیکھنے لگی جہاں کاسنی پھول کھلے تھے۔ کیسا پُرسکون سہانا اتوار کا دن تھا۔ مگر نہ جانے کیوں دل کو پنکھے سے لگ گئے اور پاکستان کا نقشہ… اس نے بابا کو اتنا بڑا دھوکا دینے کے احساس کو نظر انداز کرنے کی سعی کرتے ہوئے دوبارہ نواب صاحب کو مخاطب کیا ’’پاکستان واقعی بن جائے گا کاکا…؟‘‘

’’ان شاء اللہ…‘‘اب وہ کاغذات ایک طرف رکھنے کے بعد آرام کرسی پر نیم دراز ہو کر کسی سوچ میں کھو چکے تھے۔ دیپالی نے اُن کے خیالات میں مخل ہونا مناسب نہ سمجھا۔ اور دیوار پر لگے واٹر کلرز کو دیکھنے لگی… دھاکے کے آثار الصنادید… قلعہ لال باغ۔ ست گنبد مسجد۔ بی بی پری کا مقبرہ حسینی دالان۔

نواب قمر الزماں بنگال کے اس اسلامی ماضی کے وارث ہیں۔ دیپالی نے سوچا۔ اور اسے یاد آیا۔ اُس کی جنم بھوم میمن سنگھ کے وسیع و عریض، سر سبز علاقے میں، ہندو اور بودھ بنگال کے پرفسوں اور لرزہ خیز، کھنڈر بھی موجود ہیں تو میں صرف اس ہندو ماضی کی وارث ہوں؟ اس ماضی اور اس اسلامی ماضی کی وراثت کا آپس میں کوئی رشتہ نہیں…؟

لیکن ریحان نے سُندر بن میں ایک روز اُس سے کہا تھا۔ تاریخ آپ سے آپ ہمیں سمجھا دیتی ہے اس لئے کہ ہم خود تاریخ ہیں۔ ہماری انفرادی اور اجتماعی زندگیاں تاریخ کی مجموعیت کی سب سے بڑی تفسیر ہیں۔

نواب صاحب آنکھیں بند کئے، پیچوان کے آہستہ آہستہ کش لگا رہے تھے۔ اور غالباً دیپالیؔ کی موجودگی سے بے خبر ہوچکے تھے۔ دیپالی نے انہیں دیکھا۔ مہذب، نیک نفس، شریف انسان، مسلم لیگ کے لیڈر۔ لیکن اپنی نیک نفسی اور خلوص نیت کے باوجود اُن کو عبدالقادر کوچوان کے مسائل کا صحیح احساس ہے؟ عبدالقادر کوچوان پاکستان کے قیام سے مستفید ہوگا…؟ مجھے یہ سب کون سمجھائے؟

ریحان نے کہا تھا… دیپالیؔ… ہندوستان کے نوے فی صدی انسان مفلس ہیں اور اہلِ ثروت مفلسی کی تلخی، کم مائیگی، کمتری اور بے عزتی کے احساسات کو سمجھ ہی نہیں سکتے۔ زندہ رہنے کی جدوجہد کلچر اور اخلاق اور مذہب اور فلسفے پر پانی پھیر دیتی ہے۔ انسان کو جھوٹا اور گھٹیاں اور کمینہ اور کردار سے عاری بنادیتی ہے۔ ہم ہندوستانی اسی لیے جھوٹے اور کمینے اور کردار سے عاری اور بے ایمان ہیں۔ ماضی سنہرا تھا، کیوں کہ آبادی کم اور گیہوں اور چاول وافر تھا۔ لیکن کولونیل نظام اور بڑھتی ہوئی آبادی نے ملک کا کچومر نکال دیا۔ ہندوستان والوں کو جھوٹا اور بے ایمان بنادیا۔ ہر کولونیل ملک کے باشندے لامحالہ گھٹیا اور کردار سے عاری ہوجاتے ہیں۔ غلامانہ ذہنیت بے معنی اصطلاح نہیں ہے۔

سورج اب نصف النہار پر پہنچنے والا تھا۔ کتب خانے کے وسیع دریچوں میں سے آتی ہوئی اس کی کرنوں نے شہنشاہ اورنگزیب عالمگیر کے بیٹے، صوبے دار بنگال، شہزادہ محمد اعظم کے بنوائے قلعہ لال باغ کی بڑی پینٹنگ کو جھلملا دیا۔ دیپالی مسحور ہو کر اس پینٹنگ کو دیکھا کی۔ ریحان نے کہا تھا ۔ (وہ اب اس طرح سوچ رہی تھی۔ جس طرح پادری بنرجی بات بات پر اس سے کہا کرتے تھے۔ یسوعؑ نے کہا تھا‘‘) ریحان نے کہا تھا۔ ہمارے بنگال کی، ڈھاکے کی مسجدیں، قلعے، پرانے محلات، ہماری مصنوعات، ہماری سنگیت اور سنگتراشی، یہ سب اس سنہرے، رومانی ماضی کی یادگار ہیں لیکن اسی ڈھاکے شہر کا موجودہ فرقہ وارانہ کھنچائو اور افلاس برطانوی کو لونیلزم کا ثبوت ہیں، جس دھرتی پر کھانے کو کم ملے گا وہاں فرقہ وارانہ کشمکش ناگزیر ہے کہ سب ایک دوسرے کے منہ سے روٹی چھین کر اپنے پیٹ کی آگ بجھانا چاہتے ہیں۔ یہ جنگل کا قانون ہے۔ برطانوی نظام ایک ایسی دکان ہے جس کے سامنے کھڑے ہوئے قطار اندر قطار مختلف ہندوستانی فرقے اپنے اپنے کشکول سنبھالے، جھولیاں پھیلائے ایک دوسرے کو دھکیل کر آگے بڑھنا چاہ رہے ہیں اور سر پھٹول میں مصروف ہیں۔ اور یہ بھوکے فرسٹریٹڈ اب نارمل عوامل آپس میں فساد کرکے ملک کی قسمت کا آج کل فیصلہ کروا رہے ہیں۔

’’ہاں بھائی دیپالی، کیا پوچھنا چاہتی تھیں‘‘۔ نواب صاحب نے ایک دم زور سے پیچوان گڑگڑا کر آنکھیں کھولتے ہوئے دریافت کیا۔

دیپالی چونک پڑی۔ پھر اس نے کہا۔ ’’کاکا۔ آپ کیوں چاہتے ہیں کہ ملک تقسیم ہوجائے؟‘‘۔

نواب صاحب چند سیکنڈ تک پیچوان گڑگڑاتے رہے اور پھر رسان سے کہا۔ ’’بیٹی تم کو یہ معلوم ہے کہ سارے ہندوستان کے مسلمان تباہ حال ہیں؟ ایک وقت تھا کہ اسی بنگال کا مسلمان خوش حال اور آسودہ تھا۔ صرف اس صوبے میں ایک لاکھ اسلامی مدارس تھے بیٹی… ایک لاکھ مدرسے۔ اب یہاں مسلمانوں کی غربت اور جہالت کی کیا حالت ہے؟ خود تمہارے گرودیو ٹیگور بنگالی مسلمانوں کی اقتصادی پسماندگی اور ان کے ساتھ سماجی بے انصافی کا اعتراف کرچکے ہیں‘‘۔

’’مگر کاکا… آزاد متحدہ ہندوستان میں بھی تو مسلمان خوشحال ہوسکتے ہیں‘‘۔

’’متحدہ ہندوستان میں…؟ ہرگز نہیں‘‘۔ انہوں نے گہرا سانس لے کر کہا۔ ’’اور ہندوستان متحد کب تھا۔ اسے انگریزوں نے متحد کیا… دیپالی۔ تم میری بچی ہو۔ میں تم سے کیا بحث کروں، میں تو اب تمہارے بابا سے بھی بحث نہیں کرتا۔ جوانی کے زمانے میں ہم دونوں خوب خوب جھگڑتے تھے۔ جب وہ احمق الدین اپنے باپ دادا کی بچی کھچی زمینیں بیچ کر کانگریس میں گھس گئے تھے جیل چلے گئے تھے…‘‘ انہوں نے پھر پیچوان کی نے منہ سے لگائی۔

’’کاکا۔ میں بچی نہیں ہوں‘‘۔ دیپالی نے الجھ کر کہا۔ ’’میں آپ سے یہ باتیں ڈسکس کرنا چاہتی ہوں‘‘۔

نواب صاحب نے ذرا اُداسی سے مسکرا کر اسے غور سے دیکھا اور کہنے لگے…’’ میں بھول گیا تھا تم اس سر پھرے بیچارے دینیش بابو کی بھتیجی ہو۔ تم بھی سر پھری ہوگی۔ مگر آج ایک نصیحت کرتا ہوں۔ قومی جدوجہد کے چکر میں تم کسی آفت میں نہ پھنس جانا۔ تمہارے باپ پہلے ہی ایک بہت بڑی قربانی دے چکے ہیں‘‘۔

’’قربانی…‘‘ دیپالی نے ہنس کر کہا… ’’تیاگ اور قربانی تو اس دیس کی پرانی روایت ہے کاکا۔ گوتم بدھ سے لے کر مہاتما گاندھی اور جواہر لال نہرو تک سب قربانیاں دیتے آئے ہیں۔ تیاگ اور قربانی… تیاگ اور قربانی…‘‘

’’ہوں…‘‘ نواب صاحب ذرا مسکرا کر چپ ہو رہے۔

’’نہیں کاکا‘‘۔ دیپالی نے بڑے دکھ سے کہا۔ ’’ملک کو تقسیم نہ ہونے دیجئے‘‘۔

’’بیٹی…‘‘نواب صاحب نے دھیمے لہجے میں جواب دیا۔ ’’میرا تمہارا نقطہ نظر اب بالکل جداگانہ ہے۔ میں تم سے کیا کہوں…‘‘ پھر انہوں نے کرسی پر پہلو بدلا اور قریب کی میز پر سے اپنی نامکمل تقریر اٹھا کر بے دھیانی سے اس کے اوراق پلٹتے ہوئے دہرایا۔ ’’بالکل جداگانہ ہے۔ ہم 1906ء کی تقسیم بنگال سے خوش تھے کیونکہ اس میں ہمارا اقتصادی فائدہ تھا۔ تم لوگوں نے اسے اپنی سیاسی عزائم پر ضرب کاری سمجھا۔ اور اس کو ختم کرنے کے لئے تشدد کی تحریک شروع کردی اور بم پھینکنے لگے۔ یہ بم پھینکنے والے تمہارے ہیرو قرار پائے۔ بیٹی معاف کرنا۔ تم نے ہی یہ ذکر چھیڑا ہے اور تم کہتی ہو کہ تم اب بڑی ہوگئی ہو اور سمجھ دار ہو۔ اس لئے میں تم سے کہہ رہا ہوں۔ اسی ڈھاکے میں تقسیم کے خلاف احتجاج کرنے کے لئے انگریزوں پر بم پھینکنے والوں کے پانچ سو خفیہ گروہ تھے‘‘۔

’’پانچ سو… کاکا…؟‘‘ دیپالی نے آنکھیں پھیلا کر دہرایا۔ اور سوچا۔ میں اُس بم پھینکنے والے خفیہ گروہ کی روایت کی پیرو ہوں۔ اور نواب قمر الزماں چودھری مخالف کیمپ میں ہیں۔ ایسا کیوں؟
’’بنگال کی مسلم اکثریت کا یقیناً اس تقسیم سے فائدہ تھا۔ تم نے تو بیٹی گائوں میں ہندو اور ہندو زمیندار کے پنجے میں پھنسے مسلمان کسان کی حالت نہیں دیکھی‘‘۔
’’آپ بھی تو زمیندار ہیں کاکا‘‘۔
’’ٹھیک ہے‘‘۔ نواب صاحب نے ذرا جھنجھلا کر پیچوان کی نے الگ کی اور گھنٹی بجائی۔
’’جن ملازم ایک تابع فرمان جن کی طرح نمودار ہوا۔ نواب صاحب نے ابرو سے پیچون کی طرف اشارہ کیا۔ ملازم چلم تازہ کرنے کے لئے باہر لے گیا۔ نواب صاحب دیپالی کی طرف متوجہ ہوئے‘‘ کیا’’’ کانگریس میں زمیندار اور سرمایہ دار شامل نہیں؟‘‘
’’میں کانگریسی نہیں ہوں کاکا‘‘۔
’’پھر… پھر کیا ہو…؟‘‘ وہ دفعتاً چونک اٹھے۔ ’’تم بیٹی کہیں کمیونسٹ تو نہیں ہوگئیں؟ بنگال میں آج کل یہ نئی وبا پھیل رہی ہے‘‘۔ انہوں نے بڑی آرزدگی اور تردد سے نظر ڈالی۔
’’جی نہیں… میں کمیونسٹ نہیں ہوں کاکا‘‘۔
نواب صاحب کو اس انکار کا قطعی یقین نہ آیا۔ وہ تاسف کے ساتھ سر ہلایا کئے۔
دیپالی نے ذرا بے خوفی سے کہا: ’’کاکا میں تو محض دیش کی خدمت کرنا چاہتی ہوں۔ آزادی کی خاطر‘‘۔
’’ضرور خدمت کرو بیٹی۔ آزادی حاصل کرو۔ مگر یہ آزادی مسلمانوںکے لیے نہیں ہوگی‘‘۔
اتنی تلخی ان کے خیالات میں ہے۔ دیپالی نے لرز کر سوچا۔ تو ہم لوگ، ریحان اور سارے ؟؟ محض ایک مصنوعی، غیر حقیقی خیالی دنیا آباد کررہے ہیں؟
جن تازہ چلم لے کر اندر آیا۔ چلم پیوان پر رکھی اور چند قدم پیچھے ہٹ کر دروازے سے باہر نکل گیا کہ نواب صاحب ک طرف پیٹھ کرکے نہ جاسکتا تھا۔ دیپالی نے نواب صاحب سے پوچھا کہ ’’کاکا… یہ کیوں کہا جاتا ہے کہ مسلم لیگ صرف نوابوں اور راجائوں کی جماعت ہے، راجہ محمود آباد۔ نواب زادہ لیاقت علی خاں اور جیسے نواب قمر الزماں چوہدری‘‘ وہ کھکھلا کر ہنسنے لگی۔ نواب صاحب نے پتائی سے ٹکی ہوئی چاندی کی موٹھ والی چھڑی اٹھا کر اسے گویا پیٹنے کا ارادہ ظاہر کیا اور پیچوان کا ایک کش لگا کر بولے ’’بنوئے چندر نے اپنے لاڈ پیار میں تجھے بالکل برباد کردیا‘‘۔

حصہ