قبول ہے۔۔۔

263

استانی جی کی نوبیاہتا بہو کا کمرہ بڑا دل چسپ تھا۔ بلوریں گلدان پر ابھرے نیلے مور سنگھار میز کے شیشے کے دائیں بائیں بنی جگہ پر محافظوں کی مانند جمے کھڑے لگتے تھے۔ 1980ء کی دہائی تھی، اُس وقت معاشی اور جذباتی ہلچل اتنی شدید نہ تھی کہ اردگرد کی خوب صورتی دکھانے کے لیے اشتہار چلانے پڑتے۔ سو سیاہ نفیس سی عینک لگائے دھیمی مگر بارعب، قرآن کی استانی جنہیں ساری لڑکیاں ’’خالہ جان‘‘ کہا کرتیں، کسی غلط بات پر ٹوکتیں تو سرخ بالوں والی بچی سوچتی ان کی آواز اتنی دھیمی کیوں ہے! امی جب ڈانٹتی ہیں تو طوطا بھی ان کی نقل میں چیخ چیخ کر الفاظ دہراتا شور مچاتا ہے، پَر یہ مور کتنے اچھے ہیں، چپ چاپ، خاموش… ان کو تو آواز بھی نہیں پہنچتی ڈانٹ کی۔

خالہ جان کا دو کمروں کا گھر اسے انگریزی کہانیوں کا گرینڈ ما کاٹیج لگتا جہاں ہر شے طریقے قرینے سے ہوتی، حتیٰ کہ خالہ جان کے اکلوتے بیٹے برکت بھائی کے ہاتھ پر بندھی براؤن چمڑے کے اسٹریپ والی گھڑی بھی۔گھڑی کا اسٹریپ بھی کہانیوں میں بنی گھڑی جیسا اسے لگتا۔

برکت بھائی کی بیوی نفیسہ محبت کرنے والی خاتون تھیں، انہوں نے خالہ جان کے گھر آکر ان کی ہر شے اور انسان سے محبت کی۔ جلد خالہ جان کی بہت سی شاگرد بچیاں نفیسہ بھابھی کو سبق سنانے لگیں جسے خالہ جان بہ خوشی قبول کرکے مسکرا دیتیں۔ نفیسہ جس دن میکے جاتی اس کے کمرے کی ہلکی پھلکی صفائی خالہ جان بچیوں کے ذمے لگا دیتیں۔ کسی کو روزمرہ کی ڈسٹنگ تو کسی کو آئینہ کی صفائی کرنی ہوتی۔ ویسے تو کمرہ بظاہر صاف ہی ہوتا ہمیشہ کی طرح۔

برکت بھائی بھی سلیقہ مند تھے لیکن خالہ جان اُن کے گھر سے نکلتے ہی کام والی سے اُن کے کمرے کی جھاڑو اپنے سامنے لگوا کر بچیوں کے پاس آجاتیں جن کی چھٹی بھی جلدی ہوتی۔ یہ سب دوپہر کے اسکول کی طالبات تھیں۔ اسکول ان کی انگنائی کے پچھلے حصے سے نظر بھی آتا تھا۔ سرخ بالوں والی اسی ڈیوٹی میں گلدان اور اس پرکندہ مور بہت قریب سے دیکھ کر دل میں کیا کیا کہانیاں بُن لیتی۔ اخبار کے ٹکڑے سے گلدان اور آئینہ صاف کرتے وہ گنگنانا چاہتی لیکن نہ جانے اس گھر کا ادب یا خالہ جان کا لحاظ اسے روکتا اور وہ سورہ رحمن جذب سے پڑھنا شروع کردیتی جو اسے حال ہی میں حفظ کرائی گئی سورتوں میں سے ایک تھی۔ گو اسے گانے گانا، سننا بہت پسند تھا، نفیسہ بھابھی بھی کبھی دھیمے سروں میں گنگناتیں تو وہ بہت شوق سے ان کے سفید انڈے جیسے چہرے کو دیکھتی جس کے گرد سیاہ گھنے بال تھے، وہ اسے فلمی ہیروئن جیسی خوب صورت لگتیں۔ خالہ جان اور نفیسہ بھابھی دونوں قرآن کے ساتھ جڑنے کے حوالے سے بچیوں کی پسندیدہ ہستیاں تھیں۔ سرخ بالوں والی کو خالہ جان سوتی کپڑوں کے رومال پر کچا ٹانکا، ترپائی اور بٹن ٹانکنا سکھا چکی تھیں، اسے بھی سب بچیوں کی طرح تکمیلِ قرآن کے بعد عم پارہ حفظ کرا دیا گیا تھا، لیکن ڈسٹنگ سے خالہ جان کبھی مطمئن نہ ہوتیں، صفائی کے بعد نہ جانے کہاں سے مٹی ان کی کمزور آنکھوں کو بھی نظر آجاتی اور پھر بڑے اہتمام سے دکھاتے کبھی وہ انگلی مٹی پر پھیر کر بچی کے منہ پر لگاکر کہتیں ’’ایسی صفائی کی ہے؟…لو پائوڈر لگاؤ!‘‘

کوئی چڑتا یا نہ چڑتا اس بات سے سرخ بالوں والی بچی ضرور چڑتی۔ وہ تھی بھی سب سے مختلف، اسے وہ چیزیں پسند آتیں جو اس کی عمر کے بچوں کو بالعموم سمجھ بھی نہ آتیں۔ وہ تھی بھی کتنی، فقط گیارہ برس کی۔ لیکن خالہ جان کے ہاں پرانی مگر صاف ستھری الماری، نعمت خانہ، پیڑھیاں، نقشین میز سب بہت پُرکشش تھا، وہاں ایک مینا بھی منڈیر پر روز آتی تھی اور کمروں کی دیواروں پر ہلکا گلابی رنگ ہر وقت اجلا رہتا۔ صحن کی دیوار پر ہوا، روشنی کے لیے بنے دائروں سے روشنی بلبلوں کی مانند بکھرتی تو کتنی ہی بار قرآن کی تلاوت کرتے وہ رک کر ان کو دیکھتی۔

اس کا اپنا گھر بھی بہت اچھا تھا لیکن خالہ جان کے گھر میں در و دیوار سے سکون برستا لگتا۔ تکمیلِ قرآن کے کچھ عرصے بعد اُس کا اِس گھر میں آنا ختم ہوگیا۔

’’امی کہتیں کہ قرآن اور قرآن کی تعلیم دیتا استاد زندگی کے سب سے بہترین مددگار ہوتے ہیں۔‘‘ اسے ماں کی یہ بات پورے بچپن سمجھ میں نہ آئی کیوں کہ جب اسے ریاضی کے سوال حل کرنے مشکل لگتے تو خالہ جان یا نفیسہ بھابھی سے اسے کوئی مدد ملتی نہ لگتی، الٹا خالہ جان اور نفیسہ بھابھی کے پڑھائے زندگی کے سبق ان بہت سے مزوں سے اسے روک دیتے جو اسکول کی ساتھی مزے سے آنکھیں میچتے سناتیں۔

نہ اس نے کبھی ٹھیلے پر کھڑے ہوکر چھولے کھائے اور نہ برف کے گولے گھر سے لاکر اسکول کی سیڑھیوں پر کھڑے ہوکر پچھلے گیٹ سے راہ گیروں پر اچھال کر قہقہے لگائے۔ اس کا یہ سب کرنے کو دل چاہتا لیکن ہر بار دماغ میں گونجتی آوازیں مزا روک دیتیں۔ زندگی گیارہ سے اسے سولہ پر لا چکی تھی۔

پچھلے برس خالہ جان کی وفات بھی ہو چکی تھی لیکن گونج انکی باقی تھی۔

بارہ جماعتیں وہ پڑھ چکی تھی … اٹھارہویں سالگرہ آچکی تھی اور نکاح ہونے والا تھا۔ اس شادی سے وہ بالکل خوش نہ تھی، لڑکا اسے پسند نہ تھا، عجیب حلیے کا سرکاری اسکول سے دسویں پڑھا دکان دار۔ اس نے بھلا کہاں یہ سب سوچا تھا! اس کی سہیلیاں تو ناولوں اور فلموں کے ہینڈسم ہیروز کے قصے سناتی تھیں۔ رسالے بھی یہی کہتے تھے کہ سیدھی سادی بے وقوف سی لڑکی پر بھی کوئی خوبرو ذہین جوان عاشق ہوجاتا ہے، لیکن ’’میرے سرخ بالوں، میری ذہانت، میری قابلیت کو بس یہی ملا؟‘‘ وہ سوچتی اور عین نکاح کے دن دھماکے دار اقدام ’’انکار‘‘ کا سوچ کر مطمئن ہوجاتی، گو اطمینان عارضی ہی ہوتا۔ اس طرح دن کھسکتے رہے، شادی مزید قریب آگئی۔

امی، ابو، بڑے بھائی، اپیا سب خوش تھے۔ وہ سب ہی کی من چڑھی تھی، لیکن شادی کے معاملے میں سب نے اس کے ہر اعتراض کی نفی کرتے تیاریاں جاری رکھی تھیں، اسے اب سب سے چڑ ہوچکی تھی۔

نکاح سے تین دن قبل اس نے امی سے گنے کا جوس باہر جاکر پینے کی فرمائش کی۔ مایوں بیٹھی دلہن کی ایسی فرمائش پوری کرنا آسان تو نہ تھا، لیکن اس کی جھنجھلاہٹ اور بے زاری کو دیکھتے ہوئے سب نے فیصلہ کیا کہ اس کی منشا پوری کردی جائے۔

جوس کے اسٹال پر ابو اسے گاڑی میں چھوڑ کر تازہ جوس نکلوانے میں مصروف ہوگئے، وہ رش میں کھڑے اپنی زرد ہوتی بیٹی کو دیکھتے سوچ میں تھے’’شاید اس کے ساتھ زیادتی ہورہی ہے… حالانکہ ہم نے ایک اچھے لڑکے اور خاندان کو اس کے لیے چنا ہے، جہاں یہ خوش رہ سکے۔‘‘

جب کہ وہ اردگرد کے ماحول سے لاتعلق اپنی دنیا بسائے بیٹھی تھی، جہاں شادی بیاہ سے متعلق سوال کرنے والا کوئی درانداز نہ تھا۔ ابو کی گاڑی بھی بد رنگ ہوچکی ہے اور اس کے لیے بھی ایسا ہی بد رنگ لڑکا پسند کیا ہے جسے وہ پوری طرح ’’قبول نہیں‘‘ کہنے کو تیار تھی۔

اچانک کھڑکی کے قریب آکر کسی نے اسے مخاطب کیا۔ وہ چونک گئی۔ دروازہ کھول کر نیچے اترتے اس نے آنے والی خاتون سے پُرجوش مصافحہ کرتے بے اختیار پوچھا ’’میری شادی کا کارڈ ملا؟‘‘

ابھی وہ ان سے ڈھیروں باتیں کرنا چاہتی تھی، خالہ جان کی، برکت بھائی کی، ان کے بچوں کی اور نیلے موروں کی، لیکن ابو گھر سے لائی بوتل میں رس لا چکے تھے۔

گاڑی میں رکھا قلم پیڈ بڑا کام آیا۔ نمبر نفیسہ بھابھی کے نام سے لکھتے وہ کچھ منٹ قبل کی سوچوں سے یکسر لاتعلق ہوچکی تھی۔ چادر میں دمکتا نفیسہ بھابھی کا پُروقار چہرہ آج بھی اتنا ہی پُرسکون تھا جیسا برسوں قبل تھا، اور جو لڑکا اُن کے پیچھے قدم بڑھاتا روانہ ہوا تھا وہ بالکل ایسا تھا جیسا اس نے اپنے لیے سوچا تھا… نہ جانے وہ کون تھا؟ گھر پہنچنے تک نفیسہ بھابھی کے ساتھ جاتا لڑکا اس کے خیالات پر چھایا رہا۔ لینڈلائن کے دور میں رازداری سے رابطے مشکل ترین تھے، مایوں کی دلہن کو کس نے تنہا چھوڑنا تھا! نہ رابطہ ہوا اور نہ اس کا اضطراب ختم ہوا۔ ہرا گوٹہ لگے زرد لباس سے عروسی لباس کا وقت آگیا۔ وہ دل میں دہراتی رہی کہ وہ ’’قبول ہے‘‘ نہ کہے گی۔

مدھم دھوپ کی صبح تھی۔ نہا دھوکر اس نے نیا سوتی لباس پہنا۔ سب اس کی خاموشی کو نوٹ کرنے کے باوجود سوال کرنے سے گریز کررہے تھے۔ گھر کے دائیں بائیں تایا، چاچا کے گھر تھے، شادی کے دنوں میں گاہے بہ گاہے میلہ لگ جاتا۔ اس وقت بھی کسی کا استقبال زور شور سے کرنے کی آوازیں اس تک پہنچ رہی تھیں۔

جلد ہی جس چہرے نے اس کے کمرے میں جھانکا اسے دیکھ کر وہ کھل اٹھی۔

بھابھی نفیسہ!

ماں مہمان کو بیٹی کے ساتھ چھوڑ کر خاطر مدارات کے لیے چلی گئیں۔

بھابھی نفیسہ نے اسے گلے لگاتے ماتھے پر بوسہ دیا اور اس کا ہاتھ تھامتے بستر پر بیٹھ گئیں۔ ’’تم خوش کیوں نہیں ہو؟‘‘

ان کی سرگوشی کی سی آواز پر اس کا سر جھک گیا۔’’یہ بھی جان گئیں کہ میں خوش نہیں ہوں۔‘‘

’’مجھے وہ پسند نہیں ہے‘‘ کہہ کر وہ خوف زدہ ہوگئی کہ ماں نے بتایا تھا ’’راز زبان سے نکال دیا، پرایا ہوگیا۔‘‘ حالانکہ وہ خود ’’قبول نہیں ہے‘‘ کا دھماکہ کرنے کا سوچ رہی تھی۔

اس کو خاموش پاکر نفیسہ بھابھی نے اس کا ہاتھ نرمی سے دبایا، ابٹن اور چنبیلی کے تیل کی ہلکی سی باس بدستور اس کے وجود سے لپٹی تھی۔

’’میں جانتی ہوں وہ کون ہے۔‘‘ اس کے سرخ بالوں میں ریٹھے کا چھلکا پھنسا تھا، اسے چٹکی سے نکالتے نفیسہ بھابھی نے اسے چونکتے دیکھا۔

’’وہ ہیرو جیسا نہیں ہے لیکن تمہارے ساتھ رہ کر وہ تمہاری پسند اپنا سکتا ہے اور تم اس کی، کیونکہ وہ ایک سلجھا ہوا شخص ہے۔‘‘

اس نے نفیسہ بھابھی کی باتیں سنتے سوچا ’’یہ بھی سب جیسی نصیحتیں کررہی ہیں، خود ان کی شادی برکت بھائی جان جیسے فٹ آدمی سے ہوئی ہے، انہیں کیا پتا مس فٹ کا دکھ۔‘‘

اس کی آنکھیں جیسے بول رہی تھیں اور ان کی زبان نفیسہ بھابھی پڑھ چکی تھیں۔

مبہم سی مسکراہٹ کے ساتھ انہوں نے اب اس کے دونوں ہاتھ تھام لیے، گھر والوں میں سے کسی نے ان کی ملاقات میں کسی بھی قسم کی دخل اندازی نہیں کی۔

’’برکت مجھے پسند نہیں کرتے تھے، انہیں خاموش لوگ پسند تھے اور مجھے ہنسنے ہنسانے والے، پورے تین برس ہم نے ایک دوسرے کو سمجھنے کی کوشش میں ہی گزارے۔‘‘

وہ خاموشی سے حیرت زدہ نفیسہ بھابھی کو سنتی رہی کہ ان تین برسوں میں کبھی اسے خالہ جان کے گھر بدمزہ ماحول نہیں ملا، سب کچھ پُرسکون ہی تھا۔

’’ آپ کو ناپسندیدہ شخص کے ساتھ سانس کیسے آتی تھی؟‘‘وہ تعجب زدہ بھی تھی اور بے یقین بھی۔

نفیسہ بھابھی دھیرے سے ہنسیں ’’پتا نہیں کیسے آتی تھی۔ مشکل تھی لیکن اپنے باپ پر یقین تھا کہ انہوں نے خوب سمجھ کر ہی میرے لیے رشتہ قبول کیا ہوگا۔ اب مجھے بہتر کرنے کی کوشش کرنی ہے، بس اسی سوچ نے سانس بھی دی اور آس بھی۔ میں تمہارے ولیمے میں اپنے میاں اور بچوں کے ساتھ شریک ہوں گی۔‘‘

’’ولیمے میں کیوں، بارات میں کیوں نہیں؟‘‘ وہ بے ساختہ بولی۔

’’کیوں کہ اُس دن ہماری شادی کی سال گرہ ہے اور برکت نے میری ہی فرمائش پر ہوٹل میں رات کھانے کی ریزرویشن کرائی ہے۔‘‘

نفیسہ بھابھی نے خور و نوش کی ٹرے رکھ کر دبے پاؤں لوٹتی خادمہ کو دیکھا اور بوسہ اس کی پیشانی پر ثبت کرتی کھڑی ہوگئیں۔

’’وہ برکت سے کہیں زیادہ معاملہ فہم لڑکا ہے، آج کل انگریزی بھی سیکھنے جاتا ہے، برکت کی کزن کا بیٹا ہے، میں نے ہی اس کے لیے تمہارا نام تجویز کیا تھا۔‘‘

وہ حیرت سے نفیسہ بھابھی کی بات سنتی بے اختیار کھڑی ہوگئی۔

جاتے جاتے انہوں نے ٹرے میں رکھی پینڈی توڑکر اس کے منہ میں ڈالتے محبت سے اسے دیکھا۔

’’نکاح کے وقت’’قبول ہے‘‘ پورے اطمینان سے کہنا، کیوں کہ تمہارے پیاروں نے اسے تمہارے لیے چنا ہے۔‘‘

نفیسہ بھابھی جا چکی تھیں، ان کے جاتے ہی پینڈی چباتے وہ ’’قبول ہے‘‘ دہراتی ماں کی بات یاد کررہی تھی ’’قرآن اور قرآن سے جڑے رشتے بہترین مددگار ہوتے ہیں۔‘‘

حصہ