غم پر رقص و موسیقی

283

سورہ الکوثر کی شانِ نزول میں ہم پڑھتے ہیں کہ جب حضورؐ کے بیٹے کا انتقال ہوا تو کفار و مشرکین نے، جن میں آپؐ کا سگا چچا ابولہب بھی شامل تھا، بہت خوشیاں منائیں۔ یعنی ایک طرف اولاد کی جدائی کا غم اور عین اُسی وقت دوسری طرف دشمنوں کی خوشی۔ کیا گزری ہوگی قلبِ مبارک پر، سوچو تو روح کانپ جاتی ہے۔
اب آتے ہیں موجودہ حالات پر۔ آج کل کوئی عام ناخواندہ ذہن بھی امتِ مسلمہ کا لفظ سنے تو ذہن میں فلسطین کے حالات، جسموں کے جلے کٹے اعضا اور ننھے بچوں کی میتیں آنکھوں کے سامنے آجاتی ہیں۔ اہلِ فلسطین تو ایمان پر ثابت قدم رہ کر اپنی آخری منزل آخرت کو سنوار رہے ہیں مگر دیگر امتِ مسلمہ یہ سمجھ نہیں پا رہی کہ یہ صرف اہلِ فلسطین کی آزمائش نہیں ہے، یہ ہر مسلمان کے ایمان کا امتحان ہے کہ اِس وقت اُس کی کتنی ہمدردیاں حق والوں کے ساتھ ہیں، مگر پنجاب میں ہونے والا مقابلۂ موسیقی کہیں ہمیں اُن جیسا تو نہیں کررہا جنہوں نے ہمارے نبیؐ کے غم پہ خوشیاں منائی تھیں؟ پنجاب کے رہنے والو! پاکستان کے مسلمانو! اس مقابلے میں حصہ لینے والو! جب اللہ کے نبیؐ پوچھیں گے کہ میری امت کے جوان شہید ہورہے تھے، حق پہ ڈٹے ہوئے تھے، کٹ رہے تھے، جل رہے تھے، جب امت کی جوان مائیں اپنے پھول جیسے خوب صورت بچوں کی میتیں ہاتھوں میں لیے رو رہی تھیں تب تم مقابلۂ موسیقی میں مگن تھے؟ وہ تو اللہ کے حضور اِن شاء اللہ کامیاب ٹھیریں گے مگر پاکستان کے مسلمان کہاں جائیں گے؟ جب اہلِ فلسطین کو افواج کی ضرورت تھی تو تم نے ہتھیار اٹھانے کے بجائے موسیقی کے آلات ہاتھوں میں اٹھا رکھے تھے، عین اسی وقت جس طرح عاص بن وائل، ابولہب، نبیؐ کے غم کے وقت خوشیاں منا رہے تھے تم بھی رنگ رلیاں منا رہے ہو؟ کہیں یہ مماثلت تمہیں جہنم کے گہرے گڑھے میں نہ گِرا دے… یا کل کو یہ بے حسی ہم پر بھی کوئی برا وقت نہ لے آئے۔ سوچیے اور پھر کچھ کیجیے، اس لیے کہ یہ صرف فلسطین کے مسلمانوں کی آزمائش نہیں، یہ میرا اور آپ کا بھی امتحان ہے۔

حصہ