کامیابی کا آفاقی آئین: یقین کی دولت

467

(باب نمبر 5 )

کسی بھی شعبے میں بھرپور کامیابی کے لیے لازم ہے کہ آپ اپنے وجود پر پورا بھروسہ رکھتے ہوں یعنی آپ کو اس بات کا پورا یقین ہو کہ آپ باصلاحیت ہیں اور اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کی سکت بھی رکھتے ہیں۔ جو شخص اپنے وجود پر پورا یقین رکھتا ہو وہ کسی بھی شعبے میں قابل رشک حد تک کامیابی سے ہم کنار ہونے کی طرف تیزی سے سفر جاری رکھ سکتا ہے۔ اور اِسی کے ساتھ دوسروں کی صلاحیت اور سکت پر پورا بھروسہ بھی لازم ہے۔ یہ بھروسہ بدگمانی اور غلط فہمی کی فضاء میں کسی طور پروان نہیں چڑھ سکتا۔ اگر کسی سے کام لینا ہے تو لازم ہے کہ اُس کی صلاحیتوں کا علم ہی نہ ہو بلکہ انہیں تسلیم بھی کیا جائے۔ اور جب ہم کسی کی صلاحیتوں کو تسلیم کرتے ہیں تو اُن سے کماحقہ مستفید ہونے کی ذہنی تیاری بھی کرتے ہیں۔ اگر کوئی شخص ہمارے ذہن کے راڈار پر نہ ہو یعنی ہم اُسے تسلیم ہی نہ کرتے ہوں تو ممکن ہی نہیں کہ اس کی صلاحیتوں سے ہمیں کچھ خاص فائدہ پہنچے۔

اب آئیے اِس نکتے کی طرف کہ اپنی ذات پر یقین اور بھروسہ کیا ہے۔ اپنی ذات پر یقین سے عام طور پر یہ مراد لی جاتی ہے کہ انسان اپنی صلاحیتوں اور سکت کو اچھی طرح پہچانتا ہو اور اُن سے کماحقہ مستفید ہونے کو بھی ضروری سمجھتا ہو۔ اگر انسان میں کوئی صلاحیت پائی جاتی ہو اور وہ اُسے بروئے کار لانے میں زیادہ دلچسپی نہ لے تو پھر اُس میں اُس صلاحیت کا ہونا یا نہ ہونا دونوں مساوی کیفیات ہیں۔

اللہ نے ہر انسان کو کسی نہ کسی یا چند خاص صلاحیتوں کے ساتھ اس دنیا میں بھیجا ہے۔ بعض افراد میں بیک وقت متعدد متنوع صلاحیتوں کا ذخیرہ پایا جاتا ہے۔ اگر ہم اپنے ماحول کا جائزہ لیں تو اندازہ ہوگا کہ طرح طرح کی صلاحیتوں کے حامل انسان مختلف شعبوں میں طبع آزمائی کرتے ہیں اور بیشتر شعبوں میں کامیابی ان کے قدم چومتی ہے۔ بعض افراد میں کئی صلاحیتیں خاصی نمایاں حد تک پائی جاتی ہیں۔ مثلاً شوبز میں بعض افراد بیک وقت اداکار، ہدایت کار، گلوکار، موسیقار اور پتا نہیں کیا کیا ہوتے ہیں۔ وہ ہر شعبے میں تو لاجواب یا مثالی کارکردگی کا مظاہرہ نہیں کر پاتے مگر اتنا ضرور ہے کہ ان کی شخصیت مجموعی طور پر مثالی ہوتی ہے۔ لوگ ان میں پائی جانے والی صلاحیتوں کے درشن کرتے ہیں اور داد دیئے بغیر نہیں رہ سکتے۔ مختلف شعبوں سے متعلق سُوجھ بُوجھ ہونے سے معاملات کو سمجھنے اور اچھی طرح انجام تک پہنچانے میں مدد ملتی ہے۔

سوال صرف باصلاحیت ہونے کا نہیں بلکہ صلاحیتوں سے باخبر ہونے، اُن سے کماحقہ مستفید ہونے یعنی انہیں بروئے کار لانے کی ذہنی تیاری کا بھی ہے۔ ہر دور کی طرح اس وقت بھی دنیا باصلاحیت لوگوں سے بھری پڑی ہے مگر مسئلہ ان صلاحیتوں کو بروئے کار لانے کا ہے۔ ہمیں اپنے ماحول میں ایسے لوگ بھی بڑی تعداد میں ملیں گے جو متعدد صلاحیتوں کے حامل ہوتے ہیں مگر اُنہیں ڈھنگ سے بروئے کار لانے پر توجہ نہیں دیتے، کبھی مطلوبہ حد تک سنجیدگی اور دلچسپی کا مظاہرہ نہیں کرتے۔ مثلاً یہ تو ہوسکتا ہے کہ کسی کو اللہ نے بہت اچھی آواز سے نوازا ہو مگر وہ اپنی آواز کو کسی بہتر کام کے لیے استعمال کرنے میں ذرا بھی دلچسپی نہ لے۔ ایسی بہت سی مثالیں آپ کو مل جائیں گی کہ کسی کو اللہ نے اچھی خاصی صلاحیتوں سے نوازا مگر وہ اپنے آپ کو پہچان نہ سکا یا اپنی صلاحیتوں کا ادراک ہوتے ہوئے بھی لاپروائی اور تغافل کی حالت میں رہا اور اِسی حالت میں اِس دنیا سے چلا گیا۔ ہوسکتا ہے کہ آپ کے اپنے بنیادی یا اندرونی حلقے میں بھی ایسے لوگ پائے جاتے ہوں۔ دنیا بھر میں ایسے ان گنت کیسز ہیں۔ لوگ زندگی بھر اپنی صلاحیتوں سے بے خبر رہتے ہیں اور کچھ کرنے کی لگن اپنے اندر پیدا نہیں کر پاتے۔ ایک بڑی الجھن یہ بھی ہے کہ اپنی صلاحیتوں سے بے خبر افراد کو اگر بتائیے کہ اُن میں تو صلاحیتوں کا خزانہ بھرا ہوا ہے تو وہ زیادہ متوجہ نہیں ہوتے۔ یہی سبب ہے کہ وہ زیادہ کامیاب بھی نہیں ہو پاتے۔ یہ عرفانِ ذات کا معاملہ ہے۔ جب تک ہم اپنی ذات سے اچھی طرح واقف نہ ہوں تب تک بہتر انداز سے زندگی بسر کرنے کے قابل نہیں ہوسکتے۔

عام طور پر یہ تصور کیا جاتا ہے کہ دنیا کا ہر انسان اچھی طرح جانتا ہے کہ وہ کیا کرسکتا ہے یعنی وہ اپنی صلاحیت یا صلاحیتوں سے بخوبی واقف ہوتا ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ کم ہی لوگ اپنی صلاحیتوں سے کماحقہ واقف ہوتے ہیں۔ معاشرے کا بغور جائزہ لیجیے تو اندازہ ہوگا کہ جو لوگ بہت کچھ کر رہے ہوتے ہیں اور بہت باعمل دکھائی دیتے ہیں وہ بھی اپنی تمام یا بیشتر صلاحیتوں سے کماحقہ واقف نہیں ہوتے۔ اب اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ جو کچھ کر ہی نہیں رہے وہ اپنے معاملات میں عدم واقفیت کے کس درجے میں ہوں گے!

اگر دل میں کچھ کر گزرنے کی تمنا ہے تو پہلا مرحلہ اپنے آپ کو جاننے اور پہچاننے کا ہے یعنی انسان کچھ بھی کرنے کے لیے اپنے آپ کو ذہنی و جسمانی طور پر اسی وقت تیار کرسکتا ہے جب اسے کسی بھی حوالے سے اپنی صلاحیت اور سکت کا خوب علم ہو۔ اب سوال یہ ہے کہ انسان کو اپنی صلاحیتوں کا علم ہو تو کیسے ہو؟ اس کے لیے اپنے وجود میں دلچسپی لینا لازم ہے۔ جو لوگ کچھ کرنا چاہتے ہیں وہ اپنی ذات میں ایک خاص حد تک گم رہتے ہیں تاکہ اپنی تمام صلاحیتوں اور سکت سے بخوبی واقف ہوں۔ ساتھ ہی ساتھ وہ متعلقہ شعبوں کے افراد سے بھی رابطے میں رہتے ہیں تاکہ وقتاً فوقتاً ان سے مشورہ کرکے اپنے لیے بہتر راہ کا انتخاب کرسکیں۔ باعمل ہونے کے حوالے سے لگن اور یقین پیدا کرنے کی بہترین صورت یہی ہے۔

کسی بھی شخص کے لیے اپنے وجود سے واقفیت حاصل کرنا لازم ہے تاکہ اُسے اچھی طرح اندازہ ہوسکے کہ وہ کیا کیا کرسکتا ہے، کس کس طرح اپنے ماحول کو زیادہ سے زیادہ مفید بنانے میں نمایاں اور قابلِ ستائش کردار ادا کرسکتا ہے۔ مختلف شعبوں کے کامیاب ترین افراد کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کرنے سے ہمیں بخوبی معلوم ہوسکتا ہے کہ اپنے آپ کو پہچاننا، اپنی صلاحیتوں سے واقف ہونا اور پھر ایک بڑی زندگی کے لیے خود کو تیار کرنا کیا ہوتا ہے۔ بڑی شخصیات کے بارے میں زیادہ سے زیادہ پڑھنے سے ہمیں یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ عمومی زندگی کی سطح سے بلند ہوکر خود کو بڑی زندگی کے لیے تیار کرنے کے مراحل کیا ہوتے ہیں۔ عمومی سطح سے بلند ہونا دنیا کے ہر انسان کے لیے ایک دشوار گزار مرحلہ ہے۔ اپنی کارکردگی کا گراف اور معیار بلند کرکے دنیا کو اپنی طرف متوجہ کرنے کے لیے تیاری بھی بڑے پیمانے پر کرنی پڑتی ہے۔ اس دنیا میں جس جس نے غیر معمولی کامیابی حاصل کی ہے اُس نے تیاری بھی غیر معمولی کی ہے۔ اور غیر معمولی تیاری اسی وقت ممکن ہو پاتی ہے جب انسان کو اپنی صلاحیتوں کا علم ہو یعنی وہ اچھی طرح جانتا ہو کہ وہ کس حد تک جاسکتا ہے، کیا کیا کرسکتا ہے۔

جو لوگ کچھ کرنا چاہتے ہیں، کسی شعبے میں فقید المثال یا قابلِ ذکر کامیابی حاصل کرنا چاہتے ہیں ان کے لیے لازم ہے کہ اپنی تمام صلاحیتوں اور سکت سے بخوبی واقف ہونے کے لیے زندگی کے دھارے کا رخ تبدیل کریں۔ عمومی انداز کی زندگی بسر کرنے کی صورت میں انسان عمومی انداز ہی کی کامیابی حاصل کر پاتا ہے یعنی ایسی صورت میں کوئی بھی آپ کے وجود کا نوٹس لینے، آپ کو کسی قابل سمجھنے کے لیے زیادہ تیار نہ ہوگا۔ جب ہم بڑوں کے بارے میں زیادہ پڑھتے ہیں تو ہمیں اندازہ ہوتا ہے کہ اُن پر اپنی تمام صلاحیتیں کس طور منکشف ہوئی تھیں اور کس طرح انہوں نے اپنے آپ کو ایک بڑی زندگی کے لیے تیار کیا تھا۔ بڑوں کے بارے میں زیادہ سے زیادہ جاننے سے ہم یہ جان پاتے ہیں کہ کسی بھی انسان کے لیے حقیقی زندگی اس وقت شروع ہوتی ہے جب وہ اپنے وجود کو سمجھنے میں کامیاب رہتا ہے۔ اس ایک کامیابی کے دامن میں بہت سی کامیابیاں چھپی ہوتی ہیں۔

اپنے بارے میں بہت کچھ جان لینے کی صورت میں انسان کا اپنے وجود پر اعتماد بڑھتا ہے۔ جب کسی کو یہ معلوم ہو جاتا ہے کہ اس میں کئی صلاحیتیں پائی جاتی ہیں تو وہ کسی بھی شعبے میں آگے بڑھنے کے لیے مطلوب اعتماد کا بھی حامل ہوتا چلا جاتا ہے۔ باصلاحیت ہونے کا احساس اعتماد کا گراف اور معیار بلند کرتا ہے۔ صلاحیتوں کو پروان چڑھانا یعنی انہیں مہارتوں میں تبدیل کرنا اعتماد کا گراف بلند کرنے کا وسیلہ بنتا ہے۔

اپنی ذات پر یقین اُسی وقت پروان چڑھتا ہے جب انسان خود کو کائنات سے ہم آہنگ کرنے کی کوشش کرتا ہے۔ ہم جس کائنات کا حصہ ہیں اُس کے چند بنیادی اصول ہیں اور تمام معاملات اِن بنیادی اصولوں کے گرد ہی گھوم رہے ہیں۔ پوری کائنات ہماری خدمت کے لیے حاضر اور دستیاب ہے۔ ہم قدرت کی بخشی ہوئی کسی بھی نعمت سے بھرپور استفادہ کرسکتے ہیں۔ بہتر امکانات کی تلاش میں ہم کائنات کو سمجھنے کی بھرپور کوشش کے ذریعے اپنی ہر مشکل آسان کرسکتے ہیں۔ یہ کائنات ہمیں بہت کچھ دینا چاہتی ہے۔ سوال صرف یہ ہے کہ ہم کچھ لینا چاہتے بھی ہیں یا نہیں۔ اگر ہمارا جواب اثبات میں ہے تو پہلے ہمیں اپنے وجود پر غیر متزلزل یقین سے ہم کنار ہونا پڑے گا۔ ہم اس کائنات سے اُسی وقت کماحقہ مستفید ہوسکتے ہیں جب ہمیں اپنے وجود پر پورا یقین ہو۔ اس کے لیے لازم ہے کہ ہم اپنے آپ کو پہچانیں اور بڑی کامیابی کے لیے کی جانے والی تیاری کی راہ پر گامزن ہوں۔ خود کو بڑی کامیابی کے لیے تیار کرنے کے بعد ہمیں اس کائنات پر نظر ڈالنا ہوگی تاکہ اندازہ ہوسکے کہ کیا کیا ہے جو ہمارے لیے زیادہ کارگر ثابت ہوسکتا ہے۔ ہم کائنات سے بے خبر اور بے نیاز رہتے ہوئے بھرپور زندگی بسر کرسکتے ہیں نہ فقید المثال کامیابی ہی یقینی بنا پاتے ہیں۔

کائنات سے ہم آہنگ ہونے کا ایک مفہوم یہ بھی ہے کہ ہم میں بھی کائنات کی طرح فراوانی ہو، وسعت ہو۔ اس کائنات میں کہیں بھی قلت کا تصور نہیں پایا جاتا۔ قلت کا تصور انسان نے اپنے ذہن میں پیدا کرکے اپنی دنیا پر مسلط کیا ہے۔ ترقی کی دوڑ تیز ہونے پر اشیاء و خدمات کا پیداواری حجم بھی بڑھا ہے مگر اس کے باوجود قلت کا تصور ہے کہ جان نہیں چھوڑ رہا۔ جب ہم کسی بھی معاملے میں قلت کے تصور کو تسلیم کرلیتے ہیں تو اپنے آپ کو محدود کرنے کی طرف بڑھنے لگتے ہیں۔ کائنات سے ہم آہنگ ہونے کی صورت میں ہمارا ذہن حقیقی فراوانی کے احساس سے ہم کنار ہوتا ہے۔ ایسے میں اپنے وجود پر یقین بڑھتا ہے۔ جس نے ہمیں خلق کیا ہے وہ بھی یہی چاہتا ہے کہ ہم اپنے وجود پر یقین سے محروم نہ ہوں۔ جس نے اپنی ذات پر شک کرنا شروع کیا اُس نے گویا زندگی کو تباہی کے گڑھے میں دھکیلنے کی ابتدا کی۔

بھرپور کامیابی اور مسرت کا حصول یقینی بنانے کی بنیادی شرط یہ ہے کہ یقین کی کیفیت کسی بھی مرحلے پر کمزور نہ پڑے۔ یہ کائنات اُنہی لوگوں کے لیے ہے جو ہر معاملے میں یقین کی دولت سے مالا مال رہتے ہیں۔ جنہیں اپنی ذات اور کائنات پر کامل یقین ہو وہ کسی بھی کام کو بے دِلی کے ساتھ نہیں کرتے۔ اُن کی ہر بات میں زندہ دِلی نمایاں ہوکر جھلکتی ہے۔ کائنات کی وسعتوں کو اپنے ذہن میں سمونے والے یقین کی دولت سے مالا مال رہتے ہیں۔ اپنی ذات اور کائنات پر یقین ہی اُنہیں بھرپور محنت کرنے کا جذبہ عطا کرتا ہے۔ یہ یقین ہی اُنہیں زندگی اور کائنات سے متعلق کوئی واضح کردار متعین کرنے میں مدد دیتا ہے۔

یقین اور خوف کبھی ایک مقام پر جمع نہیں ہوسکتے۔ جب یقین آتا ہے تو خوف رخصت ہو جاتا ہے۔ اِسی طور خوف توانا ہو تو یقین کی دولت سے محرومی انسان کا مقدر بنتی ہے۔ دنیا میں جو کچھ بھی ہو رہا ہے وہ ہم میں مختلف سطحوں پر اور مختلف وجوہ کے تحت خوف بھی پیدا کرتا ہے۔ جب خوف کو راہ ملتی ہے تو بے یقینی بھی ساتھ چلی آتی ہے۔ بے یقینی کے ساتھ زندگی بسر کرنے کی صورت میں انسان کا اپنے ہی وجود سے یقین اٹھتا چلا جاتا ہے۔ بلند تر زندگی بسر کرنے کے خواہش رکھنے والوں کے لیے ناگزیر ہے کہ یقین کی دولت سے مالا مال ہوں اور کسی بھی مرحلے پر بے جا خوف کو دامن گیر نہ ہونے دیں۔ خوف کے ساتھ جینے کی صورت میں انسان قدم قدم پر ہر عمل کے انجام یا نتیجے کے بارے میں سوچ سوچ کر پریشان ہوتا رہتا ہے۔ خوف اور یقین کا میل ممکن ہی نہیں۔ جہاں خوف ہی خوف پایا جاتا ہو وہاں یقین کا شائبہ تک نہیں ہوتا۔ ایسی حالت میں زندگی کا دائرہ سکڑتا چلا جاتا ہے۔ جب یقین نہیں ہوگا تو کچھ بھی کر گزرنے کا جذبہ بھی پیدا نہیں ہوگا۔ جب یہ جذبہ نہیں پایا جائے گا تو کچھ بھی ایسا نہیں ہوگا جو شاندار نتائج پیدا کرے۔ یہ بالکل سامنے کی بات ہے مگر لوگ غور نہیں کرتے اور جب غور نہیں کرتے تو سمجھ بھی نہیں پاتے۔

دنیا ہم سے قدم قدم پر بہت سے تقاضے کرتی ہے۔ بہتر زندگی بسر کرنے کے لیے بدلتی ہوئی دنیا کو ذہن نشین رکھتے ہوئے چلنا پڑتا ہے۔ ہمیں بہت سے معاملات میں ایڈجسٹمنٹ کرنا پڑتی ہے۔ ایڈجسٹمنٹ کیے بغیر ہم بہتر زندگی بسر کرنے کے قابل نہیں ہو پاتے۔ کسی بھی تبدیلی اور ایڈجسٹمنٹ کے لیے خود کو تیار کرنا اُسی وقت ممکن ہو پاتا ہے جب ہم یقین کی دولت کے حامل ہوں۔ یقین کی دولت حاصل ہو تو خوف خود بخود رختِ سفر باندھ لیتا ہے۔ اس حقیقت کو جس قدر جلد سمجھ لیا جائے اُسی قدر اچھا ہے۔ بھرپور کامیابی یقینی بنانے کے لیے لازم ہے کہ انسان بھرپور یقین سے مالا مال ہو اور یہ کامل یقین اُس کے افکار و اعمال سے جھلکتا بھی ہو۔

خوف خاص ذہنی کیفیت کا نام ہے۔ اگر آپ نے سوچ لیا ہے کہ کسی معاملے میں خوفزدہ رہنا ہے تو آپ خوفزدہ رہیں گے۔ جب تک آپ خود فیصلہ نہیں کریں گے تب تک خوف دامن گیر رہے گا، جان نہیں چھوڑے گا۔ سوال یہ ہے کہ لوگ خوفزدہ کیوں رہتے ہیں؟ ہم زندگی بھر مختلف حوالوں سے شدید عدمِ تحفظ کے احساس سے دوچار رہتے ہیں۔ دنیا ہر آن بدل رہی ہے۔ کبھی یہ عمل بہت تیز ہوتا ہے اور کبھی ذرا کم تیز۔ بہر حال، دنیا کا کام ہی بدلتے رہنا ہے۔ دنیا کا ہر آن بدلتے رہنا ہماری ذہنی ساخت کو شدید متاثر کرتا ہے کیونکہ مختلف حوالوں سے تشویش لاحق رہتی ہے جو خوف کا باعث بنتی ہے۔ یہی خوف ہماری سوچ کو محدود کرنے کا باعث بنتا ہے۔ ہم اگر خوف کی زیادہ آؤ بھگت کریں تو یہ ہمارے پورے وجود کو دیمک کی طرح چاٹنا شروع کردیتا ہے اور ہمیں اِس کا احساس بھی نہیں ہو پاتا۔ اور ہوش تب آتا ہے جب پُلوں کے نیچے سے اچھا خاصا پانی گزر چکا ہوتا ہے۔

پہلے مرحلے میں ہمیں یہ حقیقت تسلیم کرنا ہوگی کہ دنیا ہر آن بدلتی ہے اور تبدیلی کے اس عمل کو کسی بھی طور روکا نہیں جاسکتا۔ جب ہم اس حقیقت کو تسلیم کرلیتے ہیں تو اس کا سامنا کرنے اور اس سے مطابقت رکھتی ہوئی تبدیلی یقینی بنانے کا شعور بھی پیدا ہوتا ہے۔ ہمیں بدلتی ہوئی دنیا کے ساتھ بدلنا ہوتا ہے۔ اگر دل میں یقینِ کامل ہو تو ہم معقول اور موثر انداز سے تبدیل ہوتے ہیں۔ یوں دنیا ہمارے لیے زیادہ قابلِ قبول ہو جاتی ہے اور ہم دنیا کو زیادہ قابلِ قبول دکھائی دیتے ہیں۔

آپ کس حد تک خوفزدہ رہتے ہیں اس کا مدار اس بات پر ہے کہ آپ کی سوچ کیا ہے۔ اور سب سے بڑھ کر یہ کہ آپ کو یقین پر کس حد تک یقین ہے۔ اگر آپ اس بات پر یقین رکھتے ہیں کہ یقین کی دولت کسی بھی ایسی ویسی صورتِ حال سے بہتر طور پر نبرد آزما ہونے کا حوصلہ بخشتی ہے تو آپ میں خوف بہت مشکل سے پیدا ہوگا۔ اپنے وجود اور امکانات پر یقین رکھنے کی صورت میں آپ ایسی زندگی بسر کرسکیں گے جس میں فراوانی بھی ہوگی اور روشن خیالی بھی۔ یقین توانا ہو تو انسان ہر معاملے میں زیادہ کھل کر اور بھرپور تیقن کے ساتھ سوچتا ہے۔ یہ ذہنی کیفیت خوف کو قریب پھٹکنے بھی نہیں دیتی۔

جب ہم یقین کو خیرباد کہتے ہوئے زندگی بسر کرنے کا سوچتے ہیں تب خوف ہمارے ارد گرد ڈیرا جمانے لگتا ہے۔ ایسی حالت میں ہر معاملہ ہمارے لیے نئی پیچیدگیاں لاتا ہے۔ جب خوف ہمارے وجود میں پنجے گاڑنے لگتا ہے تب ہم یقین کے بارے میں زیادہ تیقن کے ساتھ نہیں سوچتے۔ یہی وہ مرحلہ ہے جو ہماری سوچ کو محدود کرتا چلا جاتا ہے اور ہم امکانات کے بارے میں سوچنے کے بجائے صرف اس نکتے پر توجہ مرکوز رکھتے ہیں کہ دنیا میں سبھی کچھ محدود ہے اور ہمیں بھی بہتر زندگی بسر کرنے کے حوالے سے محدود مواقع ملیں گے۔

جو یقین کی دولت سے متصف رہنے پر زیادہ توجہ دیتے ہیں اُنہیں ہر معاملے میں بہترین امکانات سُوجھتے ہیں۔ دل جب یقینِ کامل کی دولت سے مالا مال ہو تو انسان بیشتر معاملات میں زیادہ پُرامید ہوکر سوچتا ہے۔ ایسے میں ذہن خدشات کو ایک طرف ہٹاکر امکانات کے بارے میں سوچتا ہے۔ کسی بھی شعبے میں بھرپور کامیابی اُسی وقت ہاتھ لگتی ہے جب انسان پُرامید رہتے ہوئے محنت کرے اور اس بات پر یقین رکھے کہ اُس کی محنت کسی بھی طور رائیگاں نہیں جائے گی۔

کسی بھی شعبے میں بھرپور کامیابی یقینی بنانے کے لیے لازم ہے کہ انسان اپنے وجود پر پورا یقین رکھے اور ساتھ ہی ساتھ اُسے اس بات پر بھی یقین ہو کہ قدرت نے کسی سے کوئی نا انصافی نہیں کی یعنی سب کو یکساں مواقع فراہم کیے ہیں۔ جب تک ہم اپنے وجود اور اس کائنات کے بارے میں یقین کی دولت کے حامل نہیں ہوتے تب تک ہمارے لیے بہتر امکانات پیدا نہیں ہوتے۔ کامیاب وہی ہوتے ہیں جنہیں اپنے وجود پر غیر متزلزل یقین ہوتا ہے اور دنیا کو بھی جو خاصی پُرامید نظروں سے دیکھ رہے ہوتے ہیں۔

حصہ