تعصب کیا ہے؟

657

لفظ ’’تعصب‘‘ ایک ایسا زہر ہے جو احساسِ برتری، تکبر اور حسد کے تخمِ خبیثہ سے پیدا ہوتا ہے اور اپنے جیسے انسانوں کو رنگ و نسل، قبائل، لسانیت، دولت، طاقت، دنیاوی جاہ و جلال، مذہب، عقیدے، مسلک، فرقے کی بنیاد پر نہ صرف حقیر سمجھتا ہے بلکہ ان کے وجود کے درپے ہوکر انہیں اپنا غلام بنا لینے کی کوشش کرتا ہے، جس کی وجہ سے جنگ و جدل اور قتل و غارت گری شروع ہوجاتی ہے۔ انگریزی میں یہ بات کہی جاتی ہے کہ:

Men are slaught ered for the sake of glory.

اس دھرتی پر جب سے انسان آباد ہوا ہے اُس وقت سے آج تک یہ تعصب ختم نہیں ہوا بلکہ اس کی بنیاد پر بڑی بڑی جنگیں لڑی گئی ہیں۔ ہزار سال سے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف صلیبی جنگ جاری ہے۔ اب تو یہود ونصاریٰ اور ہنود کے اتحادِ خبیثہ نے اسلام اور مسلمانوں کے خلاف سفاکی اور قتل و غارت گری کا بازار گرم کررکھا ہے۔

تعصب اس لیے ایک متبادل دین ہے کہ یہ مغلوب قوموں اور انسانی گروہوں کو اپنی تہذیب و ثقافت اور نظام زندگی کے مطابق چلنے کا پابند بناتا ہے۔ اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی بعثت سے قبل قبائلِ عرب تعصب کی بنیاد پر جنگ و جدل میں مبتلا تھے۔ دورِ جاہلیت کی تین مشہور جنگیں چالیس سال تک چلتی رہی ہیں۔ وہ داہس و غبرا کی لڑائی تھی جو گھڑ دوڑ میں بے ایمانی کرنے کے نام پر شروع ہوئی تھی اور چالیس سال تک چلتی رہی، جس پر مولانا حالیؔ نے کہا تھا:

کہیں تھا مویشی چَرانے پہ جھگڑا
کہیں پہلے گھوڑا بڑھانے پہ جھگڑا
لبِ جُو کہیں آنے جانے پہ جھگڑا
کہیں پانی پینے پلانے پہ جھگڑا

بسوس نام کی ایک بڑھیا کی اونٹنی کو دوسرے قبیلے والے نے زخمی کردیا تو لڑائی شروع ہوئی اور چالیس سال تک چلتی رہی۔ فجار کی لڑائی محترم مہینوں میں شروع ہوئی اور40 سال تک ایک قبیلے والے دوسرے قبیلے والوں کی گردنیں کاٹتے رہے۔ اس جنگ و جدل کے حالات کو سورہ العادیات میں اللہ تعالیٰ نے اس طرح بیان کیا ہے ’’دوڑتے ہوئے گھوڑوں کی قسم جو پھنکار مارتے ہوئے دوڑتے ہیں اور اپنی ٹاپوں سے چنگاریاں جھاڑتے ہیں۔ پھر صبح کے وقت چھاپا مارتے ہیں۔ پھر غبار اُڑاتے ہیں اور دشمنوں کی جماعت میں گھس جاتے ہیں۔‘‘

ان آیات میں عرب کے اس جاہلانہ معاشرے کی عکاسی کی گئی ہے جس میں قبائلی تعصب و نفرت پر مبنی قتل و غارت گری تھی۔

اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو اسلامی معاشرہ قائم کیا اور مدینے میں اخوت اور بھائی چارے کی بنیاد پر جو چمنِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم وجود میں آیا اس میں مدینے کے انصار اور مکے کے مہاجر، فارس کے سلمانؓ فارسی، حبشہ کے بلالؓ حبشی اور روم کے سہیلؓ رومی حقیقی بھائیوں سے زیادہ محبت و اخوت سے رہتے تھے۔ آپؐ نے فرمایا ’’ایک مسلمان دوسرے مسلمان کا بھائی ہے‘‘۔ ’’مومن توجسدِ واحد کی مانند ہیں،ایک حصے کا درد دوسرا حصہ محسوس کرتا ہے‘‘ یعنی ایک مسلمان جہاں کہیں کا رہنے والا ہو اگر اُس کو تکلیف پہنچتی ہے تو عالمِ اسلام کے سارے مسلمان درد محسوس کرتے ہیں۔

آپؐ نے فرمایا ’’جو مسلمانوں کے معاملات سے لاتعلق رہتا ہے وہ مجھ میں سے نہیں ہے۔‘‘

مدینے کے منافقِ اعظم عبداللہ بن ابی نے پانی کے تنازع پر انصار و مہاجرین کے درمیان فساد برپا کرنے کی کوشش کی تو اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سخت ناراض ہوئے اور یہ آیت نازل ہوئی:

’’اللہ کی رسّی کو مضبوطی سے تھام لو اور آپس میں تفرقہ نہ ڈالو۔ اُس وقت کو یاد کرو جب تم ایک دوسرے کے دشمن تھے، اللہ نے تمہارے دلوں میں الفت ڈال دی اور تم اس کی رحمت سے آپس میں بھائی بھائی بن گئے۔ تم آگ کے گڑھے کے کنارے پہنچ گئے تھے، اللہ تعالیٰ نے تمہیں بچا لیا۔ اللہ اس طرح اپنی نشانیاں بیان کرتا ہے تاکہ تم کو ہدایت نصیب ہو۔‘‘ (سورہ آل عمران 103)

گھر کی وحدت ہو، بستی کی مجموعی بھلائی ہو، قومی حفاظت اور سلامتی ہو یا مسلمانوں کی بقا… سب کا دارومدار اتحاد و یگانگت پر ہے۔

جب مسلمانوں کا اتحاد برقرار تھا تو سارے عالم میں مسلمانوں کا طوطی بولتا تھا اور کوئی ان کی طرف آنکھ اٹھاکر دیکھنے کی ہِمت نہیں کرسکتا تھا، اور اس اتحاد کو اللہ کی نصرت و تائید بھی حاصل تھی۔ ارشادِ باری تعالیٰ ہے ’’اللہ اُن سے شدید محبت کرتا ہے جو اللہ کے راستے میں سیسہ پلائی دیوار بن کر لڑتے ہیں۔‘‘ (سورہ الصف)

حجۃ الوداع کے موقع پر اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے جو خطبہ دیا اس کو ’’منشورِ انسانیت‘‘ کہتے ہیں۔ آپؐ نے انسانوں کے درمیان تمام تفریق کی صرف نفی ہی نہیں کی بلکہ حقارت سے اس کو اپنے پیروں تلے روند ڈالا۔

آپؐ نے فرمایا ’’لوگو! سنو، ہوسکتا ہے میں آج کے بعد اس طرح کے مجمع سے مخاطب ہونے کے لیے نہ رہوں۔ لوگو! تم سب آدم کی اولاد ہو، اللہ نے آدم کو مٹی سے پیدا کیا۔ آج کے بعد کسی عربی کو کسی عجمی پر، کسی گورے کو کسی کالے پر، کسی امیر کو کسی غریب پر، اور نہ کسی کو حسب و نسب کی بنیاد پر برتری حاصل ہے۔ اللہ کی نظر میں وہی سب سے زیادہ برگزیدہ ہے جو اللہ سے سب سے زیادہ ڈرنے والا ہے۔ میں بڑائی کے تمام دعووں کو جو اِن تعصبات پر مبنی ہیں اپنے پیروں تلے روندتا ہوں۔‘‘ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سورہ التحریم کی آیت 13 کی تلاوت کی:

(ترجمہ)’’اے انسانو! اللہ نے تم کو ایک مرد اور ایک عورت سے پیدا کیا اور تمہیں مختلف قبائل میں تقسیم کردیا تاکہ تم ایک دوسرے کو پہچان سکو۔ تمہارے درمیان وہی سب سے زیادہ عزت والا ہے جو سب سے زیادہ پرہیزگار ہے۔ بے شک اللہ جاننے والا اور باخبر ہے۔‘‘

اس فرمانِ باری تعالیٰ اور ہدایاتِ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد اگر کوئی مسلمان تعصبات کی بنیاد پر مسلمانوں کی اجتماعیت میں دراڑیں ڈالتا ہے تو وہ مسلم امہ کا دشمن اور کفر کا آلۂ کار ہے۔ آپؐ کی رحلت کے ساتھ ہی خاندانی اور قبائلی تعصبات سر اٹھانے لگے تھے۔ حضرت عمر فاروق رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے پسِ پردہ جو محرکات نظر آتے ہیں اور آپؓ کے قاتل ابولولو فیروز کے شجرۂ نسب کو دیکھا جائے تو اس میں ایرانی شہنشاہیت اور زرتشتیت کے خاتمے کا انتقام ہے۔ لیکن اس کے بعد ایران کے اندر ابولولو فیروز کا مزار اور اس کی ذات سے عقیدت اور اس کے مزار کا طواف چہ معنی دارد؟ پھر عثمان غنی رضی اللہ تعالیٰ عنہ کی شہادت کے بعد قصاص کے حوالے سے دو خوف ناک جنگیں، خلافت کا ملوکیت میں تبدیل ہوجانا اور اس کے بعد کربلا کے الم ناک واقعے میں امام حسین رضی اللہ تعالیٰ عنہ کے ساتھ اہلِ بیت کی شہادت… اس کے پیچھے خاندانی رقابت کے سوا کیا ہوسکتا ہے؟ اس کے بعد سے آج تک اُمتِ مسلمہ متحد نہیں ہوسکی اور اس المیہ خلیج کو پاٹنے کے بجائے منافقینِ اسلام نے کفر کا آلۂ کار بن کر امت کے ٹکڑے ٹکڑے کردیے۔ حیرت کی بات ہے کہ جس امت کا رسول ایک، قرآن ایک، کلمہ ایک، قبلہ ایک، نمازوں کی تعداد ایک، روزوں کے ایام ایک، پھر بھی یہ امت اگر فرقے، مسلک، قبائل، زبان، رنگ و نسل، برادری اور طبقاتی تعصبات میں مبتلا ہوکر تقسیم در تقسیم کا شکار ہے اور ایک دوسرے کو کافر قرار دے رہی ہے اور ایک دوسرے کا قتل بھی جائز ٹھیراتی ہے تو اس کی ہوا نہیں اکھڑے گی تو کیا ہوگا!

میں مسلم دنیا میں ہونے والے سانحات اور سقوطِ غرناطہ تا بغداد، دہلی تا دکن، سقوطِ بنگال تا ڈھاکا کے عوامل کا ذکر کروں گا جن کی بنیاد تعصبات کے ساتھ ساتھ شیطانی طاقتوں کی سازش بھی تھی، اس لیے کہ کافروں اور مشرکوں کو یہ بات اچھی طرح معلوم ہے کہ مسلمانوں کو اُس وقت تک شکست نہیں دی جا سکتی جب تک یہ آپس میں ایک دوسرے کے دشمن نہ بن جائیں۔ ترک خلافت کا خاتمہ جہاں حکمرانوں کی بدبختی تھی وہیں لارنس آف عربیہ کے کہنے پر ترکوں کے خلاف عربوں کی بغاوت تھی۔ اسپین کی 800 سالہ مسلم حکومت کا خاتمہ عربوں اور بربروں کی آپسی چپقلش کے ساتھ ساتھ بنواُمیہ کے خلاف بنوعباس کی کارستانی بھی تھی۔ ہلاکوخان بغداد کی اینٹ سے اینٹ بجانے میں اُس وقت کامیاب ہوا جب خلیفہ معتصم باللہ کے وزیراعظم یحییٰ علقمی نے غداری کی۔ سقوطِ بنگال میر جعفر کی غداری، سرنگا پٹنم ٹیپو سلطان کے خلاف میر صادق کی سازش، سقوطِ دہلی بہادر شاہ ظفرکے وزیراعظم کی غداری اور سقوطِ ڈھاکا یحییٰ خان، بھٹو اور مجیب الرحمن کی مشترکہ پاکستان دشمنی اور اقتدار کی ہوس کی وجہ سے ہوا۔ اس کے پیچھے نہ صرف ذاتی اغراض تھیں بلکہ حکمرانوں کے استحصال کے ساتھ ساتھ بنگالیوں کی غیر بنگالیوں سے نفرت بھی تھی۔

یہود ونصاریٰ اور ہنود نے مل کر مسلم دنیا میں تعصبات اور نفرتوں کو ہوا دینے کے لیے بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری کی ہے۔ برصغیر ہندوپاک اور بنگلہ دیش میں یہ تیر بہ ہدف نسخہ بڑا کارگر ثابت ہوا ہے جہاں پوری دنیا کے مسلمانوں کی آبادی کا 70 فیصد آباد ہے۔ آج پاکستان میں کوئی بھی اپنی پہچان پاکستانی کی حیثیت سے نہیں کراتا بلکہ سندھی، بلوچی، پٹھان، پنجابی، مہاجر ہی کے طور پر اپنی شناخت ظاہر کرتا ہے۔ جہاں تک مسلکی اور فرقہ وارانہ تعصب کا سوال ہے وہ اس قدر بڑھ چکا ہے کہ نہ مسجد، نہ امام بارگاہ اور نہ خانقاہ محفوظ ہے، بم دھماکوں اور آئے روز قتل و غارت گری میں ہزاروں معصوم پاکستانی لقمۂ اجل بن چکے ہیں۔ لسانی تعصب نے کراچی میں ہزاروں نوجوانوں کو خاک و خون میں نہلا دیا۔

ہندوستان میں شیعہ سنی تو کم مگر دیوبندی، بریلوی اور اہلِ حدیث کی نفرت عروج پر ہے اور وہاں کا مسلمان متحد ہوکر ہندتوا کا مقابلہ کرنے کے بجائے آپس میں ہی دست و گریباں ہے۔ بنگلہ دیش میں سیاسی جماعتوں کے درمیان اس قدر نفرت ہے کہ حسینہ واجد اپنے دورِ اقتدار میں جماعت اسلامی، بی این پی اور دیگر اپوزیشن لیڈروں اور کارکنوں کو ماورائے عدالت قتل کروا چکی ہے اور آئے دن سیاسی ہنگاموں میں سیکڑوں لوگ زخمی اور درجنوں ہلاک ہوتے ہیں۔ عرب و عجم کے درمیان نسلی خلیج ہے۔ اس سے بڑھ کر عرب دنیا میں بادشاہت اور آمریت نے اسلام پسندوں کے لیے جینا دوبھر کردیا ہے، یہی وجہ ہے کہ آج حماس اور فلسطینیوں کے خلاف اسرائیل کی سفاکی اور نسل کشی کے خلاف جہاد میں حماس کی حمایت کے بجائے مسلم حکمران اسرائیل کی حمایت کر رہے ہیں۔ جب کہ اس ظلم کے خلاف امریکا اور یورپ کے ساتھ ساتھ آسٹریلیا تک کے انسانوں کا ضمیر جاگ چکا ہے اور لاکھوں کی تعداد میں لوگ سڑکوں پر اسرائیل کے خلاف اور فلسطین کے حق میں نعرہ زن ہیں، مگر مسلم دنیا میں سکوت طاری ہے۔

بے حسی کا زہر پی کر لوگ کب کے سو چکے
پتھروں کے اس نگر میں آدمی مت ڈھونڈیئے
اپنی تہذیب کی لاش پہ رونے والا بھی کوئی نہیں
سب کے ہونٹوں پہ ہے یہ صدا اب یہ میت اٹھائے گا کون

ہزاروں بے گور و کفن بچوں کی لاشوں نے پتھروں کو بھی رلا دیا ہے مگر مسلم دنیا کے بے حس و بے غیرت حکمران خاموش تماشائی بنے ہوئے ہیں۔

مسلمانوں کی عالمی تنظیم او آئی سی کا اجلاس صرف جنگ بندی کی قرارداد منظور کر کے برخواست ہو جاتا ہے۔

آج ہی کے لیے علامہ اقبال نے کہا تھا کہ:

ایک ہوں مسلم حرم کی پاسبانی کے لیے
نیل کے ساحل سے لے کر تا بہ خاکِ کاشغر
٭
سات صندوقوں میں دفن کردو نفرتیں
آج انساں کو محبت کی ضرورت ہے بہت
( بشیر بدر)
اک ہو جائیں تو بن سکتے ہیں خورشیدِ مبیں
ورنہ ان بکھرے ہوئے تاروں سے کیا کام بنے
( ابولمجاہد زاہد)

آؤ محبت کے گیت گنگنائیں
نہ شیعہ نہ سنی نہ دیو بندی بنیں
نماز روزہ قربانی و حج یہ سب باقی ہیں
مگرتُو باقی نہیں ہے

ہم باقی ہوتے تو کشمیر تا فلسطین ، شرق تا غرب ہماری عزتوں کا نیلام گھر نہ لگتا۔

حصہ