آخر شب کے ہم سفر

308

یہ تین دن پہلے کی بات تھی۔ آج وہ سندر بن سے واپس جارہی ہے باگھیر ہاٹ پہنچ کر وہ اسٹیمر کے ذریعے باریسال اور فرید پور کے دریائوں پر سے گزرتی نارائج گنج چلی جائے گی۔

ریحان اب پریشانی کے ساتھ کلکتے کے خفیہ ہیڈکوارٹرز سے کسی اطلاع کا منتظر تھا۔ پارٹی کے سارے بڑے لیڈر دور تپتے ہوئے راجستھان کی دیولی جیل میں بند تھے۔ ان کے پاس سے اسمگل ہو کر کسی نے ڈائریکٹو کا کلکتہ ہوتے ہوئے سندر بن پہنچنا ہفتوں کا نسخہ تھا۔ سندر بن پر بارشیں شروع ہوچکی تھیں۔ میں یہاں جانے کب تک رہوں گا…’’ایسا لگتا ہے کہ جیسے کلکتے کے ساتھی مجھے بھول ہی گئے ہیں‘‘۔ اس نے صبح بڑی ملول آواز میں دیپالی سے کہا تھا۔

اور اب دیپالی چھتری کے نیچے چھپی گھاٹ پر کھڑی تھی اور کچھ فاصلے پر چھتریوں کا میلہ سا لگا تھا۔ سب بار بار آسمان کو دیکھ رہے تھے۔ جھڑی لگتی ہے تو سندر بن کے جنگل اور کھال اور دریا اور ساحل اور سمندر سب پانی میں ڈوب جاتے ہیں۔ جیسے کسی نے ایک بڑے سے واٹر کلر لینڈ اسکیپ کو واش کے بعد پانی کی چلمچی ہی میں چھوڑ دیا ہو۔ اور سارے رنگ پانی میں پھیل کر آپس میں گڈمڈ ہوجائیں۔

ریحان چھتری لگائے دیپالی کے قریب کھڑا تھا۔ اچانک اس نے بڑے غصے سے کہا۔ ’’تم بھی جارہی ہو‘‘۔

’’چلو بیٹی کولثُم…‘‘ مولوی ابوالہاشم نے اسے آواز دی۔ وہ اور زینب بی بی اُسے باضابطہ کلثوم ہی پکارتے تھے۔ انہیں یقین کامل تھا کہ بہت جلد یہ لڑکی ریحان کے ہاتھوں پر مشرف بہ اسلام ہو کر اس سے نکاح کرلے گی۔ جانے ریحان نے ان دونوں بھولے میاں بیوی کو کیا پٹی پڑھا رکھی تھی۔ زینب بی بی نے تو ایک رات ریحان سے بڑی راز داری سے کہا تھا کہ کلثوم کو مولوی صاحب کلمہ پڑھادیں اور شربت کے پیالے پر نکاح ہوجائے۔ یوں بھی یہ برسات کا زمانہ اور شادیوں کا موسم تھا۔ ان بیچاری نے برسوں سے سینت کررکھی ہوئی ایک نئی سوتی ساری بھی نکال کر ریحان کو پیش کردی تھی۔ یہ ساری انہوں نے اپنی بہو کے لیے رکھی تھی۔ اور جب ریحان نے ان کو سمجھایا کہ پہلے اسے گائوں جا کر اپنے باپ سے بھی اجازت لینی ہے۔ تب بھی وہ یہ ساری اپنی طرف سے تحفہ دینے پر مُصر رہی تھیں۔ ریحان کے انکار پر انہوں نے کہا تھا۔ ہمیں غریب سمجھ کر ہم سے یہ تحفہ نہیں لینا چاہتے ہو بھیا اور رونے لگیں تھیں۔ لیکن ریحان بے حد سٹپٹایا تھا۔ اس مندر والے واقعے کے بعد اب دیپالی سے یہ کس طرح کہے کہ یہ سرخ ساری بھی لے لو، جسے پہنا کر زینب بی بی تمہیں دلہن بنانا چاہتی ہیں۔ عجب گھپلا ہورہا ہے یہ خدا کی قسم اِس نے بے حد اُلجھ کر سوچا تھا۔ مگر زینب بی بی کا دل رکھنے کے لیے وہ ساری ان سے لے کر ٹرنک پر رکھے ہوئے اخباروں کے نیچے چھپادی تھی۔ زینب بی بی کے جانے کے بعد دیپالی ریڈیو سننے کے لیے اس کے کمرے میں آئی اور ٹرنک پر بیٹھنے کے لیے اس پر سے اخبار اٹھائے تو نیچے سرخ ساری پر اس کی نظر پڑی اور ریحان خود شرم سے سرخ ہو کر فوراً کمرے سے باہر بھاگ گیا تھا۔

دیپالی چھتری ذرا اونچی کرکے اس کی طرف مڑی۔ وہ دوسری طرف دیکھنے لگا۔ اتنے میں دونوں کیا دیکھتے ہیں کہ زینب بی بی اپنی شکستہ چھتری لگائے بغل میں ایک بنڈل دابے افتاں دخیزاں پگڈنڈی پر سے بھاگتی چلی آرہی ہیں۔ نزدیک آکر انہوں نے اخبار میں لپیٹی ہوئی سرخ ساری دیپالی کے ہاتھوں میں ٹھونسی اور کچھ کہے سنے بغیر اسی سرعت سے گھاٹ کی بھیڑ میں غائب ہوگئیں۔

چند قطرے ٹپ ٹپ بنڈل کے کاغذ پر گرے۔ دیپالی نے اوپر دیکھا۔ بارش آگئی۔ وہ دووں چپ چاپ کھڑے دریا کے منظر کو دیکھتے رہے۔ کشتیوں نے لنگر اُٹھا دیے تھے۔ بادبان کھول دیے گئے تھے۔ قسم قسم کی کشتیاں سطح آب پر بکھر چکی تھیں۔ مولوی ابوالہاشم نے اپنی کشتی جیٹی سے لگادی اور دوبارہ پکارا۔ ’’کولثم بیٹی۔ اللہ کا نام لے کر آجائو… اللہ تم لوگوں کا نگہبان…‘‘

’’اللہ‘‘۔ دیپالی نے چپکے سے دل میں دہرایا سُرخ ساری کا بنڈل مضبوطی سے بازوئوں میں جکڑ کر آگے بڑھی اور کود کر کشتی میں بیٹھ گئی۔ مولوی صاحب کا چھوٹا لڑکا جواب تک چٹائی کی چھت کے اندر دیپالی کا سامان رکھنے میں مشغول تھا باہر نکلا اور دونوں باپ بیٹوں نے چپو سنبھالے۔ ریحان نے گھاٹ کی سیڑھیوں پر آکر الوداع کے لیے ایک ہاتھ اٹھایا اور پھر گرادیا۔

عین اسی وقت ایک نوکا کشتیوں کی بھیڑ میں سے تیزی سے نکلتی سامنے آکر مولوی صاحب کی کشتی سے لگ گئی۔ مولوی صاحب کا ہم شکل ایک داڑھی والا نوجوان کود کر گھاٹ پر اُترا۔ اس نے اپنے باپ کو اور دیپالی کو آداب کیا اور ریحان کے پاس جا پہنچا۔

’’ریحان بھائی…‘‘
ریحان جواب تک سر جھکائے کھڑا تھا چونک پڑا۔
’’تم اس وقت کیسے؟‘‘

ابوالقاسم نے اپنی تہمد پر بندھی پیٹی کے نیچے سے ایک کاغذ نکالا اور آہستہ سے کہا۔ ’’اُدما دیبی نے آپ کو کلکتے فوراً بلایا ہے۔ کل رات میرے پاس ستیندر…‘‘

دیپالی نے صرف اتنا ہی سنا۔ اُدما دیبی نے آپ کو کلکتے بلایا ہے۔ ادما دیبی نے آپ کو فوراً… اُدما دیبی نے آپ کو … اُدما دیبی نے آپ کو فوراً… اُدما دیبی نے…

کشتی گھاٹ سے الگ ہو کر پانی میں پہنچ چکی تھی۔
اُدما دیبی نے آپ کو فوراً بلایا ہے… اُدما دیبی نے۔
’’شوکتی…‘‘ گھاٹ پر سے ریحان کی آواز آئی۔ ’’ٹھہرو۔ میں تمہارے ساتھ چل رہا ہوں‘‘۔

’’میں سیدھی ڈھاکے جائوں گی‘‘۔ اس نے یک لخت ذرا خشکی سے جواب دیا۔
’’ہاں۔ ہاں۔ لیکن کچھ دور تک…‘‘

ریحان تازہ انگریزی اخباروں کا پلندہ ابوالقاسم کے ہاتھ سے لے کر اس کے ساتھ آہستہ آہستہ گفتگو میں مصروف ہوگیا۔ اب وہ دیپالی کے وجود سے بالکل بے خبر ہوچکا تھا۔

وہ چند منٹ تک اسی طرح کشتی میں بیٹھی رہی۔ پھر مولوی ابوالہاشم نے آنکھوں آنکھوں میں اسے اشارہ کیا کہ وہ گھاٹ پر اُتر آئے۔

بوڑھے مولوی صاحب دنیا دیکھ چکے تھے۔

(16)

ارجمند منزل
نواب قمر الزماں چودھری کا کتب خانہ ارجمند منزل کے بیرونی، طویل برآمدے کے ایک سرے پر تھا۔ اس کمرے سیاہ و سفید ٹائلوں کے فرش پر بیش قیمت کشمیری قالین بچھا تھا۔جس میں بنا ہوا۔ ’’شجرِ حیات‘‘ کا ایرانی نمونہ اب کافی گھس چکا تھا۔ دیواروں کے برابر لحیم شمیم الماریاں ایستادہ تھیں۔ بڑے دریچے کے نیچے، جو پہلو کے باغ میں کھلتا تھا۔ نواب صاحب کی آرام کرسی بچھی تھی۔ بڑے دریچے کے نیچے، جو پہلو کے باغ میں کھلتا تھا۔ نواب صاحب کی آرام کرسی بچھی تھی۔ اور چاندی کی نقشین پتر چڑھی نیچی چوکی پر پیچوان دھرا تھا۔ دیواروں پر سرسید، حالی، سرسلیم اللہ اور شیر بنگال اے کے فضل الحق کی تصاویر آویزاں تھیں۔ ڈھاکے کے مغل قلعے لال باغ کا بڑا دلآویز واٹر کلر، آتشدان کے اُوپر اور بوڑھی گنگا کے کنارے شائستہ خاں کے دور میں بنی ست گنبد مسجد کا واٹر کلر مقابل کی دیواروں پر سجا تھا۔ بی بی پری کے مقبرے اور حُسینی دالان کی مختصر تصاویر ایک الماری کے اوپر رکھی تھیں۔ جناح صاحب کا دستخط شدہ پورٹریٹ میز کی عقبی دیوار پر آویزاں تھا۔ مسلم بنگال کے پرانے اور نئے بنگلہ اخبار شدھاکر، نوبونور، بنگو مسلمانیرّ شاہتیہ پتریکا، اسلام پرچارک، المسلم اور مہیسر کے مجلّہ فائل اور الہلالؔ، پیسہ اخبار، ہمدم، زمیندار اور ڈھاکے سے شائع ہونے والے پرانے اردو رسالوں جادو اور المشرق کے فائل ایک الماری میں مقفل تھے۔ دوسری الماریوں میں بنگلہ، فارسی اور اردو کی کتابوں اور قدیم نسخوں کا اچھا خاصہ ذخیرہ موجود تھا۔ انگریزی کتابوں کی تعداد مقابلناً کم تھی۔

جولائی 41ء کے ایک اتوار کی صبح نواب قمرالزماں چودھری اپنی آرام کرسی پر نیم دراز پیچوان کی نَے منہ سے لگائے صوبائی مسلم لیگ کے ماہانہ جلسے کے لیے جو تیسرے پہر کو ارجمند منزل کے بڑے ہال میں منعقد ہونے والا تھا، اپنی تقریر لکھنے کا ارادہ کررہے تھے۔ تازہ اخبارات کا انبار اُن کے نزدیک اخروٹ کی کشمیری میز پر موجود تھا۔ نواب صاحب آنکھیں بند کیے اپنی بلند پیشانی پر اُنگلی پھیرتے ہوئے تقریر کا افتتاحی پیراگراف سوچ رہے تھے۔ چند منٹ بعد انہوں نے فائونٹن پن اُٹھا کر بنگلہ میں تقریر لکھنی شروع کردی۔

نواب قمر الزماں چودھری بڑی بڑی آنکھوں والے ایک وجیہہ و ملیح پچاس سالہ ثقہ، وضعدار ارسٹوکریٹ تھے۔ اُن کے والد نواب نور الزماں مرحوم ضلع فریدپور کے بہت بڑے زمیندار تھے۔ انہوں نے ہی ارجمند منزل تعمیر کروا کرکے ایبسنٹی لینڈ لارڈ کی حیثیت سے ڈھاکے میں اقامت اختیار کی تھی۔ نواب صاحب مرحوم نے خود کو نواب ڈھاکہ کے توڑ کا رئیس سمجھنے کے شوق میں راگ رنگ تھیٹر اور دوسرے رئیسانہ مشاغل پر بے تحاشا روپیہ اُٹھایا تھا۔ اس وجہ سے اب بھی ان کے جانشین نواب قمر الزماں کا شہر کے چوٹی کے مسلمان رئوسا میں شمار ہوتا تھا۔ نواب نور الزماں مرحوم کو سیاست سے بھی دلچسپی تھی۔ 1906ء میں ڈھاکے میں مسلم لیگ کا قیام عمل میں آیا تو وہ اس کے اولین اراکین اور سرپرستوں میں شامل تھے۔ ڈھاکے کے اکثر مسلمان رئیسوں کی مانند نواب صاحب مرحوم کے یہاں بھی اردو کا چرچا تھا۔ اور بچوں کو گھر پر بنگلہ کے ساتھ ساتھ اردو پڑھائی جاتی تھی۔ نواب قمر الزماں کی والدہ نورالنساء بیگم دہلی اور لاہور کے زنانہ رسالوں عصمت اور تہذیب نسواں کی خریدار تھیں اور ’’مرسلہ بیگم نور الزماں چودھری، ڈھاکہ بنگال‘‘ کی طرف سے کبھی کبھی اصلاح معاشرت پر ان کے مضامین ان جریدوں میں شائع ہوا کرتے تھے۔ ان کی بہو یعنی بیگم قمر الزماں کُشتیا ضلع کے ایک خالص ’’بنگالی اسپیکنگ‘‘ زمیندار کی بیٹی تھیں انہیں اردو بالکل نہیں آتی تھی، مگر جہاں آرا اور اس کے بھائی اور بہنوں کو گھر پر اردو پڑھائی گئی تھی۔

اس وقت جبکہ نواب قمر الزماں اپنی خاموش اسٹڈی میں سکون سے بیٹھے تقریر لکھ رہے تھے۔ باہر کافی شور مچ رہا تھا۔ کوٹھی کے وسطی ہال میں لیگ کے جلسے کے لیے ایک قطار میں کرسیاں بچھائی جارہی تھیں پوربی مالی رام سرنؔ اسٹیج کی میز پر رکھے گلدان میں پھول سجا رہا تھا۔ باقی دوسرے ملازمین کمرے کی صفائی میں لگے تھے۔

لیکن اندر زنان خانے میں جس قدر چہل پہل اور رونق تھی اس کی وجہ یہ تھی کہ تین دن بعد نواب قمر الزماں چودھری کے فرزند اور جانشین نواب زادہ نیرّ الزماں کی بارات چڑھنے والی تھی۔ شادی کے جوڑے سِل رہے تھے۔ جوہری پھیرے لگارہے تھے۔ گیت گائے جارہے تھے۔ فرید پور سے رشتہ دار آنے شروع ہوگئے تھے۔ بارات دیناجؔ پور جائے گی۔

تقریر لکھتے لکھتے نواب صاحب نے اُٹھ کر رسالوں کی الماری میں سے المشرق کی فائل نکالی۔ یہ ماہانہ رسالہ تقسیم بنگال کے بعد جب لارڈ کرزن نے آسام اور مشرقی بنگال کو ملا کر مسلم اکثریت کا ایک صوبہ بنا دیا تھا، مسلم بنگال کی ایک مشہور ہستی، حکیم حبیب الرحمٰن نے 1906ء میں نکالا تھا، تاکہ اردو کے ذریعہ بقیہ مسلمانانِ ہند سے ذہنی اور سیاسی رابطہ قائم کیا جاسکے۔ یہ پاکستان کی اوّلین داغ بیل تھی۔ نواب قمر الزماں نے اپنی تقریر میں اس رسالے کے پہلے شمارے کے ایڈیٹوریل سے ایک اقتباس نقل کیا۔ ’’16 اگست 1906ء اگر غور سے دیکھئے تو کیسی سعید تاریخ ہے کہ اس دن ہم کو زندگی اور موت اور مرض اور صحت کا پورا پورا احساس ہوا اور ہم خواب اور نیم خوابی سے گھبرا کر چونک پڑے۔ مسلمانوں کے لیے اب کوئی چارہ کار نہیں کہ وہ بحیثیت برٹش انڈیا کے ایک مستقل آرگنائزیشن قائم کریں۔ بنگالی اخباروں کے طرز تحریر اور درشت لہجے سے اب ہمارا کلیجہ منہ کو آگیا ہے۔ اور ہم کچھ نہیں جانتے کہ آخر ہماری حالت کیا ہوگی؟ ہم اپنے لیڈروں کے متعلق کون سی پھبتی ہے جو روزانہ نہیں سنتے۔ ہمارے لیڈر کیوں بُرے ہیں۔ اس لیے کہ وہ بہت سا ذاتی نقصان برداشت کرکے صرف اس لیے پارٹیشن کے موئید ہیں کہ یہ مسلمانوں کے لیے مفید ہے۔ اس لیے کہ انہوں نے باوجود ملکی ہمدرد ہونے کے نام پر نہاد سودیشی تحریک میں جو پارٹیشن کے استراد کے لیے ایک آلہ ہے، شرکت گوارا نہ کی کہ اس سے اپنی قوم گھاٹے میں رہتی‘‘۔

اقتباس کا بنگالی ترجمہ کرنے کے بعد انہوں نے فائل بند کیا اور 1906ء سے لے کر اب تک کی سیاسی جدوجہد کا مختصر تذکرہ قلم بند کرنے کے بعد میز پر بکھرے ہوئے اخباروں میں مسلم لیگ کے ہفتہ وار اخبار ڈان کا تازہ شمارہ تلاش کرنے لگے۔ اس شمارے میں مجوزہ پاکستان کا تفصیلی نقشہ شائع ہوا تھا اور نواب صاحب اس نقشہ کے حوالے سے بنگال و آسام کے متعلق چند اہم نکات اپنی تقریر میں شامل کرنا چاہتے تھے۔ جب وہ پرچہ نہیں ملا جو کل شام کی ڈاک میں دہلی سے آیا تھا تو انہوں نے ذرا بے داغ ہو کر گھنٹی بجائی۔

ایک ملازم کتب خانے کے دروازے کا پردہ سرکا کر اندر داخل ہوا۔
(جاری ہے)

حصہ