یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی

223

سعد اور معاذ دونوں بہت اچھے دوست تھے اور پڑوسی بھی دونوں کھیل اور تعلیم کے میدان میں ہمیشہ ساتھ نظر آتے تھے اس کے باوجود ان دونوں کے نظریات ایک دوسرے سے کچھ مختلف تھے سوچ کا انداز بھی الگ تھا۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد دونوں ایک اچھے ادارے میں جاب کر رہے تھے۔ ہر چھٹی کے روز دونوں پارک میں صبح واک کرنے کے بعد ذرا تفصیلی ملاقات کیا کرتے تھے۔ ایسے ہی ایک دن معاذ نے کہا : سعد جانتے ہو زندگی کیا ہے ؟

سعد نے ہنستے ہوئے کہا :زندگی زندہ دلی کا نام ہے۔

معاذ نے کہا : یہ مذاق کاوقت نہیں ہے میں سنجیدہ ہوں *زندگی درحقیقت انسان کو اللہ کی جانب سے دی گئی مہلت عمل ہے۔

سعد: زندگی محنت اور مشقت سے عبارت ہے۔ زندگی حرکت کا نام ہے اور جمود موت ہے۔

معاذ :بالکل ٹھیک ! در حقیقت انسان کو زندگی عیش و آرام کے لیے نہیں بلکہ بحیثیت خلیفۃ اللہ فی الارض بطور امتحان و آزمائش عطا ہوئی ہے۔ یعنی اللہ کی جانب سے انسان کو عبادت و اطاعت الٰہی ، حصول رضائے الہٰی،۔حقوق و فرائض کی ادائیگی کے ساتھ ساتھ امر بالمعروف و نہی عنہ المنکر کا فریضہ انجام دیتے ہوئےاللہ رب العزت کی زمین پر اللہ کا نظام قائم نافذ و غالب کرنے کا کام تفویض کیا گیا ہے۔

سعد : زندگی لمحہ لمحہ پگھلتی برف کی مانند ہے یا تیزی سے آگے سرکتے وقت کے مثل ہے جو کبھی پلٹ کر دوبارہ آنے والا نہیں ہے ۔

معاذ : ٹھیک کہا ! لیکن انسان کو لالچ ۔حرص و ہوس۔ خود نمائی۔خود غرضی و خود ستائشی نے اپنے مقصد زندگی سے غافل کردیا ہے۔ اس سرمایہ دارانہ نظام نے انسان کو آسائش زندگی کے حصول کی دوڑ میں دھکیل کر اسلام کے عادلانہ نظام سے دور کردیا ہے جو ہر دور میں انسانوں اور انسانیت کی فلاح کا ضامن رہا ہے۔ اس نظام کو قائم کرنے کے لیے اخلاص نیت کے ساتھ جہد مسلسل ضروری ہے۔

سعد : ارے بھائی! بقراط نہ بنو جو ہے جیسا ہے جیسا چل رہا ہے چلتا رہے ہمیں کیا؟ ہم کوئی خدائی فوجدار تو نہیں ہیں ۔ بلکہ ہم اس سرمایہ دارانہ نظام کا حصہ ہیں ہمارے ملک میں بہت کچھ غلط ہورہا ہے لیکن ہم ہر چیز کو روک نہیں سکتے یہ حکومت کا کام ہے اداروں کا اور میڈیا کا کام ہے ہمارے بس کی بات نہیں ۔

معاذ : اچھا یہ بتاؤ جب تمہارے گھر میں مچھر مکھی آتے ہیں تو کیا کرتے ہو؟

سعد : ظاہر ہے. صفائی اور اسپرے کرتے ہیں میٹ وغیرہ لگاتے ہیں ۔

معاذ: اور جب تیز طوفانی ہوائیں چلتی ہیں تو کیا کرتے ہو؟

سعد : ارے بھئی کھڑکیاں اور دروازے بند رکھتے ہیں دعائیں پڑھتے ہیں۔ اتنا بھی نہیں جانتے ہو کیا ؟

معاذ : اچھا یہ بتاؤ کیا یہ وطن ہمارا گھر نہیں ہے ؟ کبھی سوچا اس وطن میں جو کرپشن اور لاقانونیت کا گند اور بگاڑ پھیلا ہوا ہے اسے ہم کیسے صاف کر سکتے ہیں ؟ یہ سوچنے کا کام ہے۔ یہ ہمارے کرنے کا کا کام ہے ۔

سعد: میرے بھائی ! اپنی خیالی دنیا سے نکل آؤ یہاں وقت ضائع کرنے کا کوئی فائدہ نہیں۔ مقتدر طبقے اور اسٹیبلشمنٹ سمیت تقریباً ہر ادارے میں کرپشن و لاقانونیت کا راج ہے۔ ذہنی غلامی اور اقوام مغرب سے مرعوبیت کے جن سے نمٹنا اتنا آسان نہیں بے انتہا مشکل ہے اسی سے نوے فیصد خرابی ہے برسوں کا بگاڑ ہے اسے درست کرتے کرتے ہم خود ہی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھیں گے بوڑھے ہو جائیں گے اور زندگی کا خاتمہ ہو جائے گا ۔ بس بھائی بس حقیقت کی دنیا میں واپس آ جاؤ ۔

معاذ: میرے دوست میرے بھائی میں اسی حقیقت کی دنیا کو ٹھیک کرنا چاہتا ہوں۔ میں جانتا ہوں کہ میرے اختیار میں اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ میں لوگوں کو بگاڑ دور کرنے کے لیے متوجہ کرواؤں انہیں صحیح غلط کا فرق سمجھاؤں حق پر ڈٹنے حق کے لیے کھڑے ہونے کی جانب مائل کروں یعنی رائے عامہ ہموار کروں۔

سعد: بھلا کیسے کروگے تم یہ یہ کام ؟

معاذ : علامہ اقبال کو جانتے ہو نا؟۔

سعد : شاعر مشرق مفکر پاکستان جنہوں نے اپنی شاعری سے غلام قوم کے اندر جذبہ حریت بے دار کیا۔

معاذ : امام حسن البنا شہید کا نام سنا ہے نا جو مصر کے ایک جید مصلح اور عالم تھے ان سے تعلیم مکمل کرنے کے بعد سوال کیا گیا کی آپ اب آگے کیا کریں گے؟ انہوں نے کہا کہ میں تحریر تقریر تدبیر ہر ممکن ہتھیار سے مدد لے کر معاشرے کی اصلاح کا کام کروں گا ۔ ابتدا میں ان کے ساتھ چند لوگ تھے اور مخالفین بے شمار۔ انہوں نے مشن کے لیے جان تک دے دی ان کے رفقاء اور جانشین آج بھی اس مشن کو جاری رکھے ہوئے ہیں یہ ہے قوت ایمانی یعنی کام کرنے کی اسپرٹ۔

سعد : لیکن معاذ یہ کام تو مشکل ہے بہت ۔

معاذ : ہاں جانتا ہوں مشکل ضرور ہے ناممکن نہیں۔جس طرح پھل دار درخت لگانے والے بزرگوں کو معلوم ہوتا ہے کہ وہ اپنے لگائے درخت کے پھل نہیں کھا سکیں گے لیکن وہ پھر بھی اس امید پر درخت لگاتے ہیں کہ ان کے بعد آنے والوں کو پھل میسر آئیں گے۔ اسی طرح میں بہت پر امید ہوں کہ یقینا ایک نہ ایک دن یہ بگاڑ ختم ہو جائے گا ۔اور میرا ماننا ہے کہ لوگوں میں اسپرٹ یا لگن کو پیدا کرکے کم از کم ہم اپنے حصے کی شمع تو جلادیں باقی کام ہمارے بعد آنے والے کرتے رہیں گے یہاں تک کے منزل مقصود پالیں گے یعنی مشن کو ایک نہ ایک دن مکمل کرلیں گے۔ ان شاءاللہ ۔

بقول شاعر (علامہ اقبال نہیں )

مٹا دے اپنی ہستی کو اگر کچھ مرتبہ چاہے

کہ دانہ خاک میں مل کر گل و گلزار بنتا ہے

سعد : میں سمجھ گیا ہوں۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے۔

جن كے اونچے اور اعلی بخت ہوتے ہی
زندگی میں انہی كے امتحان بھی سخت ہوتے ہیں
میں بھی اب تمہارے ساتھ ہوں ۔ ہاتھ ملاؤ ۔
معاذ : جوش اور خوشی کے ساتھ سعد کے گلے لگ جاتا ہے۔
یہی چراغ جلیں گے تو روشنی ہوگی۔ ان شا اللہ۔

حصہ