20 اپریل کو ایکسپو سینٹر کراچی میں ادبی تنظیم ساکنانِ شہرِ قائد نے 29 ویں عالمی مشاعرے کا اہتمام کیا جس میں کم و بیش دس ہزار سامعین شریک تھے جب کہ افتخار عارف صدر مشاعرہ‘ پروفیسر سحر انصاری‘ پروفیسر ڈاکٹر قاسم رضا صدیقی‘ انور شعور‘ خالد عرفان‘ عاطف توقیر‘ محبوب خان‘ راجیش ریڈی‘ ثمرین ندیم ثمر‘ عباس زیدی‘ شکیل جاذبہ‘ ڈاکٹر خورشید رضوی‘ عباس تابش‘ سید وصی شاہ‘ رحمن فارس‘ احمد حسین مجاہد‘ احمد عطا اللہ‘ احمد سولنگی‘ منیر مومن‘ اظہر فروغ‘ وحید انور‘ فرخ اقبال‘ ڈاکٹر جاوید منظر‘ جاوید صبا‘ اجمل سراج‘ اقبال خاور‘ ریحانہ روحی‘ علا الدین خانزادہ‘ توقیر اے خان ایڈووکیٹ‘ ناصرہ زبیری‘ راقم الحروف ڈاکٹر نثار‘ محمد علی گوہر‘ فرخ اظہار صدیقی‘ ثبین سیف‘ ڈاکٹر مانا عظیمی‘ شائستہ مفتی‘ مزمل اطہر اور ولید احمد نے اپنا کلام نذر سامعین کیا۔ اس عالمی مشاعرے میں زندگی کے تمام طبقے کے لوگ شامل تھے ان میں وفاقی وزیر قیصر احمد شیخ‘ ملیر کراچی مرتضیٰ وہاب‘ کمشنر کراچی حسن نقوی‘ ڈاکٹر فاروق ستار‘ حیدر عباس رضوی‘ کشور زہرہ‘ چیئرمین کے پی ٹی سید رضا زیدی‘ رکن قومی اسمبلی مرزا اختیار بیگ شامل ہیں۔ مشاعرے میں کراچی کے شعرا کے علاوہ چاروں صوبوں کے شعرا کی نمائندگی تھی۔ ٹھیک رات بارہ بجے قومی ترانہ پڑھا گیا مشاعرے میں موجود تمام خواتین و حضرات نے اس میں شرکت کی‘ تمام لوگوں نے ہاتھوں میں موجود قومی پرچم لہرایا۔ مشاعرے کے سامعین اختتام مشاعرہ تک پنڈال میں موجود تھے۔ ساکنان شہرِ قائد کا عالمی مشاعرہ کراچی کی شناخت بن چکا ہے اس طرح کا بڑا پروگرام پاکستان کے کسی بھی شہر میں نہیں ہوتا۔ آج سے 28 برس قبل ساکنانِ شہر قائد مشاعرے کا آغاز اطہر عباس ہاشمی (مرحوم) نے کیا تھا۔ 29 ویں عالمی مشاعرے کے نظامت کاروں میں عنبرین حسیب عنبر‘ وجیہ ثانی اور آغا شیرازی شامل ہیں ان لوگوں نے بہترین نظامت کی اور کسی بھی موقع پر مشاعرے کا ٹیمپو ٹوٹنے نہیں دیا۔ اذانِ فجر تک جاری رہنے والے اس مشاعرے میں عنبرین حسیب عنبر اور وجیہ ثانی نے بھی اپنا کلام سنایا۔کچھ ٹی وی چینل اس پروگرام کو براہِ راست نشر کررہے تھے جب کہ سوشل میڈیا نے اس مشاعرے میں چار چاند لگا دیے۔
مشاعرے میں گورنر آف سندھ کامران خان ٹیسوری بہ حیثیت مہمان خصوصی شریک ہوئے۔ رات پونے دس بجے سے صبح 5 بجے تک جاری رہنے والے اس مشاعرے میں کامران خان ٹیسوری نے کہا کہ آج کا مشاعرہ بہت شان دار ہے جس کا سارا کریڈٹ مشاعرے کے منتظم اعلیٰ اور ان کی ٹیم کو جاتا ہے۔ کراچی زندہ دلوں کا شہر ہے اور مشاعرے بھی ہماری مشرقی روایت کا حصہ ہیں جو لوگ اس تہذیبی اقدام کو زندہ رکھے ہوئے ہیں میں انہیں سلام پیش کرتا ہوں۔ اردو زبان و ادب کی ترویج و اشاعت ہمارا فرض ہے۔ مشاعروں سے زبان پروان چڑھتی ہے۔ ہر مشاعرہ ذہنی آسودگی فراہم کرتا ہے اور علم و ادب کے فروغ میں اپنا حصہ شامل کرتا ہے۔ شاعری ایک خدادا صلاحیت ہے جو لوگ اس فن سے آراستہ ہیں وہ بھی قابل ستائش ہیں۔ اس موقع پر گورنر سندھ نے کئی اشعار سنا کر داد و تحسین حاصل کی۔21 اپریل 2024ء کو گورنر ہائوس میں شان دار مشاعرہ ہوا جس میں محمود احمد خان نے خطبۂ استقبالیہ میں کہا کہ وہ اپنے اسلاف کی روایتوں کے علمبردار ہیں‘ یہ میرا خواب تھا کہ میں عالمی مشاعرہ آرگنائز کروں‘ خدا کا شکر ہے کہ میں اس پروگرام کو مرتب کر رہا ہوں۔ میرے ساتھ بہت اچھے لوگ شامل ہیں جو کہ ہر طرح سے مجھے سپورٹ کر رہے ہیں‘ میں ان سرکاری اور غیر سرکاری اداروں کا بھی بہت شکر گزار ہوں جنہوں نے میری معاونت کی۔ گورنر سندھ اور دیگر شخصیات نے میری حوصلہ افزائی کی‘ میرے کام کو سراہا۔ تمام سامعین اور شعرا کا تہہ دل سے شکریہ ادا کرتا ہوں کہ انہوں نے اپنی مصروفیات سے وقت نکال کر اس پروگرام کو کامیاب بنایا۔
صاحب صدر افتخار ملک نے خطبۂ صدارت میں کہا کہ آج کے کامیاب مشاعرے میں بہترین شاعری پیش کی گئی۔ یہ مشاعرہ اردو ادب کے فروغ میں اہم کردار کا حامل ہے۔ انہوں نے مشاعرے کے منتظمین کو مبارک باد پیش کی۔ انہوں نے مزید کہا کہ شاعر اپنے معاشرے کا نباض ہوتا ہے‘ وہ اپنے اردگرد کے ماحول پر گہری نظر رکھتا ہے۔ شاعری اور زندگی کا آپس میں گہرا رشتہ ہے۔
پروفیسر سحر انصاری نے اپنے اشعار پیش کرنے سے پہلے کہا کہ آج کا مشاعرہ بہت عرصے تک یاد رکھا جائے گا۔ دبستان کراچی میں شاعری اپنے عروج پر ہے۔ پروفیسر ڈاکٹر قاسم رضا صدیقی نے بھی مشاعرے کی تعریف کی اور انتظامات کو سراہا۔ مشاعرے میں اختر سعیدی‘ اوجِ کمال‘ شاہین مصور‘ فاروق عرشی‘ کشور عروج‘ طارق جمیل‘ حامد اسلام‘ شیرافگن جوہر‘ یاسر سعید صدیقی‘ سرور چوہان‘ جواد حسین صدیقی اور احسن فرید پراچہ نے بھی شرکت کی۔