مجھے عشق ہے اپنی اردو زباں سے

300

کوئی جا کے کہہ دے یہ اہلِ جہاں سے
مجھے عشق ہے اپنی اردو زباں سے

ہمارا ملکی آئین شاہد ہے کہ اردو ہماری قومی زبان ہے مگر اس زبان کی بدقسمتی، بے بسی اور بیچارگی ملاحظہ فرمائیں کہ 76 سال سے آئین کی کتاب میں ایک قیدی کی حیثیت سے زندگی گزار رہی ہے نہ ہی اسے قید خانے سے باہر نکالا جاتا ہے اور نہ ہی عزّت و احترام سے نوازا جاتا ہے اور نہ ہی اس کا وہ حق ادا کیا جاتا ہے جس کی وہ متقاضی ہے ۔

ہمارے قائدین اور سرکاری عہدے داران اپنی خالہ اماں کی زبان یعنی انگریزی کے دلدادہ ہیں قوم بھی بے حسی کا شکار ہے اپنی زبان ہوتے ہوئے بھی زبانِ غیر سے رشتہ اُستوار کر رکھا ہے زبانِ غیر ہم پر اس طرح مسلّط کر دی گئی ہے کہ ہم دورانِ گفتگو جب تک انگریزی زبان کے دو چار الفاظ اپنی گفتگو میں شامل نہ کر لیں احباب ہمیں پڑھا لکھا سمجھتے ہی نہیں… یعنی انگریزی زبان کے اثرات ہم پر اس قدر حاوی کر دیے گئے ہیں کہ ہماری زبان ہمیں اپنی ہی نظروں میں کمتر لگنے لگی ہے یا یوں کہہ لوں کہ حقیر لگنے لگی ہے ہم اپنی زبان کے استعمال سے گریز بلکہ پرہیز کرتے ہیں کہ کہیں لوگ ہمیں جاہل نہ سمجھ بیٹھیں۔ہم خود اپنی زبان کے قاتل ہیں۔

نئی نسل فخریہ بیان کرتی ہے کہ ہمیں تو اردو صحیح سے آتی ہی نہیں بس کسی طرح میٹرک اور انٹر رٹ رٹا کر پاس کر لیا …بڑے شرم کی بات ہے کہ اپنی زبان اور اس سے اس قدر بے اعتنائی… مزے کی بات تو یہ ہے کہ جس زبان کو انہوں نے اپنی زبان پر فوقیت دی ہے وہ بھی انہیں صحیح سے نہیں آتی لکھتے ہیں تو غلط مکمل طور پر اس زبان میں گفتگو کرنا ان کے لیے خاصامشکل ہے صرف چند الفاظ اپنی گفتگو میں ٹھونس ٹھانس کر اپنے آپ کو تعلیم یافتہ ثابت کرنے کی کوشش کرتے ہیں ،دستخط انگریزی زبان میں کرنا فخر سمجھتے ہیں ،اردو میں دستخط نہ کرنے کا اگر کوئی جواز ہے تو ہمیں بھی بتائیں ہم ممنون ہوں گے۔

سب سے زیادہ عجیب و غریب بات یہ ہے کہ شادی یا کسی تقریب کا دعوت نامہ انگریزی زبان میں شائع کروا کر اپنے برتر ہونے کی خوش فہمی میں مبتلا رہتے ہیں حالانکہ جن احباب کو دعوت نامہ ارسال کیا جاتا ہے ان میں کسی کی بھی ماں انگریز نہیں ہوتی اور اگر فون پر یا روبرو انہیں دعوت دی جائے گی تو وہ بھی اپنی ہی زبان میں ادا کی جائے گی کبھی بھی انگریزی زبان میں نہیں ہوگی مگر دعوت نامہ شائع کرتے وقت پتا نہیں کون سا انگریز’ جن‘ ہے جو انہیں اپنی زبان سے بغاوت کرنے پر آمادہ کرلیتا ہے میرا اپنا نظریہ ہے کہ جو لوگ ایسا کرتے ہیں وہ صرف اور صرف احساسِ کمتری اور ذہنی غلامی کا شکار ہیں اور اسی احساسِ کمتری اور ذہنی غلامی نے قوم کو پستی کے گڑھے میں دھکیل دیا ہے۔ ہم کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتے، ہم ایک سوئی تک چین سے منگا کر اپنے پھٹے پرانے کپڑے سیتے ہیں۔یہ بات باعثِ شرم بھی ہے اور باعثِ صد افسوس بھی۔

میرے ہر دل عزیز بھائیو، بہنو، اوربیٹیو …خدارا اس احساسِ کمتری اور ذہنی غلامی کے حصار سے باہر آ جائیں شادی کے دعوت نامے، اپنی دستخط، گھر کے باہر نام کی تختیاں سب اپنی زبان میں لکھ کر فخر محسوس کریں اور اپنی قومی زبان کا حق ادا کریں۔اردو زبان کے نامور شاعر انور مسعود فرماتے ہیں کہ تاریخ گواہ ہے کہ دنیا کی کوئی بھی قوم اس وقت تک ترقی نہیں کر سکتی جب تک اس نے اپنی زبان نہ اپنائی ہو، چین جاپان اور دیگر ممالک کی مثالیں ہمارے سامنے ہیں جن قوموں نے اپنی زبان سے بے وفائی کی وہ قومیں مٹ گئیں ان کی تہذیبیں ختم ہو گئیں۔یاد رکھیے گا زبان سے تہذیب بنتی ہے اور تہذیب سے قومیں وجود میں آتی ہیں اپنی زبان سے محبت کریں اس سے پیار کریں… اور فخریہ کہہ سکیں۔

حصہ