مفت خوری ہے کہ بڑھتی جائے ہے

604

دوسروں کے وسائل کا سہارا لے کر جینے کی عادت پاکستانی معاشرے کی جان نہیں چھوڑ رہی

کچھ دن قبل ایک خبر آئی تھی کہ ایک ایئر ہوسٹس نے کسی چینی جوڑے کا تمسخر اڑایا اور اِس کی وڈیو بھی سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کی۔ اُس ایئر ہوسٹس کو برطرفی کا سامنا کرنا پڑا۔ کارپوریٹ کلچر میں اس امر کو بہت اہمیت دی جاتی ہے کہ کسی بھی کسٹمر کا کسی بھی سطح پر تمسخر نہ اڑایا جائے اور اُسے مدد کی ضرورت ہو تو اُس کی زبان یا کسی اور معاملے کی بنیاد پر اُس کا تماشا بنانے کے بجائے صرف مدد کرنے پر توجہ دی جائے۔

اب ایک بھارتی ڈیٹا سائنٹسٹ کو برطرفی کا سامنا کرنا پڑا ہے۔ یہ معاملہ کسی کا تمسخر اڑانے کا نہیں بلکہ اپنی ہی ذات کو تماشا بنانے کا ہے۔ میہُل پرجاپتی نے ایسی گندی اور بے ڈھنگی حرکت کی ہے جس کے نتیجے میں وہ تماشا بن کر رہ گیا ہے۔

ذرا سوچیے کوئی شخص کینیڈا میں ہے۔ ایک بڑے ادارے (ٹی ڈی کینیڈا) میں کام کر رہا ہے اور تنخواہ بھی قابلِ رشک ہے۔ اس قابلِ رشک تنخواہ کے رشک میں سے “ر” وہ خود ہی نکال دیتا ہے۔ جی ہاں، اپنے ہی پیروں پر کلہاڑی مار بیٹھتا ہے، تباہی کی طرف چل پڑتا ہے اور واپسی کی گنجائش بھی باقی نہیں رہتی۔ ایسے شخص کو آپ کیا کہیں گے؟ یہ شخص ان پڑھ تو ہے نہیں کہ آپ جاہل قرار دیں۔ یہ پڑھا لکھا اور معقول پیشہ ورانہ تربیت کا حامل شخص ہے۔ یہ کوئی کلرک یا مزدور نہیں بلکہ ڈیٹا سائنٹسٹ ہے اور کینیڈا جیسے ترقی یافتہ ملک میں ایسی تنخواہ پر کام کر رہا ہے جس کی مدد سے قابلِ رشک معیارِ زندگی برقرار رکھنا ہر اعتبار سے ممکن ہے۔

پھر اچانک کچھ ایسا ہو جاتا ہے کہ یہ شخص آسمان سے زمین پر آ رہتا ہے۔ کیوں؟ تو جناب، ہوا یہ کہ میہُل پرجاپتی نے بس یونہی روا روی میں، ممکنہ عواقب کے بارے میں سوچے بغیر، ہر ماہ محض چند سو ڈالر بچانے کی خاطر کچھ ایسا کیا کہ اُس کا حتمی، منطقی نتیجہ سامنے آنے پر دنیا انگشت بہ دنداں رہ گئی۔

سالانہ ایک لاکھ کینیڈین ڈالر (2 کروڑ 2 لاکھ 93 ہزار پاکستانی روپے!) تنخواہ پانے والا میہُل عادت کے ہاتھوں مجبور ہوکر کچھ ایسا کر بیٹھا کہ جب ہوش آیا تب سب کچھ ہاتھ سے جاچکا تھا۔ اچھی خاصی معقول تنخواہ کے ہوتے ہوئے میہُل کے لیے کسی بھی طور لازم نہ تھا کہ گزارے کے لیے کسی بھی شخص یا ادارے کی طرف دیکھتا مگر ایسا ہی ہوا۔ کینیڈا میں کئی خیراتی و امدادی ادارے مالی مشکلات میں گِھرے ہوئے لوگوں کے لیے کھانے پینے کی پکی پکائی یا کچی اشیا فراہم کرتے ہیں۔ اِس سلسلے میں ملک بھر میں فوڈ بینک قائم ہیں جہاں سفید پوش افراد، گھرانے اور طلبہ اپنی ضرورت کے مطابق سامان لیتے ہیں اور اپنے وجود کو تماشا بنائے بغیر مشکل وقت کسی نہ کسی طور ٹالنے میں کامیاب رہتے ہیں۔

میہُل نے سوچا موقع اچھا ہے، کچھ بچالیا جائے۔ وہ کسی بھی درجے میں مستحق نہ تھا بلکہ دوسروں کی مدد کرنے کی پوزیشن میں تھا۔ پھر بھی اُس نے عادت کا فطرت کے ہاتھوں مجبور ہوکر فوڈ بینک سے مال بٹورنا شروع کیا۔ سبزی، پھل، دودھ، ڈبہ بند خوراک، جُوس اور دیگر اشیا بٹور کر وہ ہر ماہ اپنے کھانے پینے کا خرچہ بچالیا کرتا تھا۔ کینیڈا میں کھانے پینے کی اشیا کے نرخ معقول ہیں اور معیار بھی بہت بلند ہے۔ معقول تنخواہ پانے والوں کے لیے اچھا کھانا پینا کسی بھی لحاظ سے کوئی مسئلہ نہیں۔ ایسے میں میہُل کا کسی بھی فوڈ بینک سے سبزیاں، پھل، گوشت، جُوس، دودھ، مسالے اور اناج وغیرہ بٹورنا کسی بھی اعتبار سے قابلِ قبول عمل نہ تھا۔ فوڈ بینک اور ایسے ہی دیگر ادارے نادار افراد کے لیے ہوتے ہیں۔ یہ ادارے اُن کی مدد کرتے ہیں جو اپنی آمدنی کی حدود میں ڈھنگ سے جی نہیں پاتے۔ طریقہ بہت آسان ہے۔ فوڈ بینک کی گاڑیاں علاقوں میں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ جسے جو درکار ہوتا ہے وہاں سے حاصل کرکے گھر لے جاتا ہے۔ قطاربند ہوکر شرمندگی سے دوچار ہونا بھی لازم نہیں ہوتا۔

میہُل کئی سال تک یہ سب کچھ کرتا رہا۔ پھر یوں ہوا کہ اُسے شامت اعمال نے گھیرلیا اور اُس نے سوچا کہ جو “کارنامہ” وہ باقاعدگی سے انجام دیتا آرہا ہے اُس کے بارے میں دنیا والوں کو بھی کچھ بتایا جائے! اُس نے ایک فوڈ بینک سے بٹوری جانے والی چیزیں (سبزی، پھل، دودھ، جُوس وغیرہ) اپنے گھر کے فرش پر سجائیں اور اُن کی وڈیو بنائی۔ وڈیو میں اُس نے بتایا کہ وہ ہر ماہ فوڈ بینک سے مال اٹھاکر سیکڑوں ڈالر بچانے میں کامیاب رہتا ہے۔ یوں وہ اب تک کئی ہزار ڈالر بچاچکا ہے۔ یہ وڈیو اُس نے اپنے انسٹاگرام اکاؤنٹ پر اپ لوڈ کردی۔

یہ تھی شامتِ اعمال۔ فوڈ بینک سے بٹورے جانے والے سامان کی وڈیو کے سوشل میڈیا پر اپ لوڈ کیے جانے کی دیر تھی کہ ہر طرف سے میہُل پر شدید نکتہ چینی کی جانے لگی۔ لوگوں نے اُسے بہت ذلیل کیا یعنی آج کی زبان میں کہیے تو خوب “ٹرولنگ” کی۔ ناقدین کا کہنا تھا کہ جو فوڈ بینک مالی مشکلات کا سامنا کرنے والے طلبہ اور عام نادار، کم آمدنی والے گھرانوں کی مدد کے لیے کام کرتے ہیں اُن سے کسی ایسے شخص کو مستفید ہونا زیب نہیں دیتا جو سالانہ ایک لاکھ ڈالر کی جاب کرتا ہو۔

جب ٹی ڈی بینک کو میہُل کی سوشل میڈیا پوسٹ کے بارے میں پتا چلا تو اُس نے فوری کارروائی کرتے ہوئے اُسے برطرف کردیا۔ ادارے نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر ایک پوسٹ میں کہا کہ جو کچھ میہُل نے کیا وہ اس ادارے کی اقدار کے خلاف ہے۔ مستحق افراد کے لیے قائم کیے گئے اداروں سے کچھ بھی لینا کسی ایسے انسان کے لیے بالکل ناموزوں ہے جو اچھا کماتا ہو۔ اور یہ کہ میہُل نے جو کچھ کیا اُس سے ادارہ بھی بدنام ہوا۔

میہُل نے سوشل میڈیا پلیٹ فارم انسٹاگرام پر جو وڈیو اپ لوڈ کی تھی وہ اب اکاؤنٹ سمیت ڈیلیٹ کی جاچکی ہے۔ لوگوں کو اس وڈیو کے بارے میں اُس وقت معلوم ہوا جب ایک شخص نے اس وڈیو کو سوشل میڈیا پلیٹ فارم ایکس پر شیئر کیا۔ یہ وڈیو بہت تیزی سے وائرل ہوئی اور میہُل پر ہر طرف سے تنقید کے اولے برسنے لگے۔ بیشتر ناقدین نے کہا کہ میہُل کی تنخواہ شاندار تھی اس لیے اُسے کسی بھی فوڈ بینک سے مستفید ہونے کا حق ہی حاصل نہیں تھا۔

جب میہُل کی وڈیو کے بارے میں سوشل میڈیا پلیٹ فارمز پر اچھی خاصی بحث چھڑگئی تو ٹی ڈی بینک نے سخت نوٹس لیا اور اس کے نتیجے میں میہُل کی ملازمت ختم کردی گئی۔ جب وہ ملازمت سے ہاتھ دھو بیٹھا تب پہلی بار اس کی وڈیو ایکس پر شیئر کرنے والے نے لکھا کہ “فوڈ بینک ڈکیت” برطرف ہوچکا ہے۔

سوشل میڈیا پر ایک شخص نے لکھا “کینیڈا کے طول و عرض میں بہت سے فوڈ بینک کام کر رہے ہیں۔ طریقہ بہت آسان ہے۔ فوڈ بینک کی گاڑیاں اشیائے خور و نوش لے کر رہائشی علاقوں یا تعلیمی اداروں کی حدود میں کھڑی ہو جاتی ہیں۔ جسے جو کچھ بھی درکار ہوتا ہے وہاں سے حاصل کرلیتا ہے۔ میں بھی ایک فوڈ بینک میں رضاکار کی حیثیت سے کام کرتا رہا ہوں۔ لوگ آتے ہیں، چپ چاپ اپنی ضرورت کے مطابق سامان اٹھاتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ کسی کی عزتِ نفس متاثر نہیں ہوتی کیونکہ قطاربند نہیں ہونا پڑتا۔ میں نے یہ بھی دیکھا ہے کہ لوگ اُسی وقت فوڈ بینک کا رخ کرتے ہیں جب وہ واقعی بے دست و پا ہوچکے ہیں اور اُتنا ہی سامان لیتے ہیں جو اُن کی ضرورت کے مطابق ہو۔ مگر خیر، کچھ لوگوں میں تو شرم ہی نہیں پائی جاتی۔”

ایکس پر ایک شخص نے لکھا کہ پریشان حال لوگوں کی مدد کے لیے پیش کی جانے والی اشیا پر کسی غیر مستحق کی طرف سے ہاتھ صاف کرنا انتہائی شرمناک ہے۔

میہُل کی وڈیو کے وائرل ہونے پر خیراتی اداروں سے کچھ لینے کی قانونی حیثیت کے حوالے سے بھی بحث چھڑگئی۔ بہت سے سوشل میڈیا یوزرز نے کہا کہ ایسا قانون بنایا جانا چاہیے کہ معقول آمدنی والا کوئی بھی شخص خیراتی اداروں سے کچھ وصول نہ کرسکے۔

ایک صاحب نے یہ تجویز پیش کی کہ کسی بھی خیراتی ادارے سے کچھ وصول کرنے سے قبل یہ تصدیق کرلینا لازم ہونا چاہیے کہ امداد لینے والا شخص واقعی مستحق ہے اور کسی کا حق نہیں مار رہا۔ اگر کسی کی آمدنی معقول ہے تو اُسے کسی بھی خیراتی ادارے سے کچھ بھی حاصل کرنے کا کوئی حق نہیں۔

یہ تو ہوا میہُل کا معاملہ۔ اُس نے جو کیا اُس کا نتیجہ بھی بھگت لیا۔ یہ بیماری ہمارے ہاں بھی عام ہے۔ ذرا سوچیے جب کوئی شخص ایک لاکھ کینیڈین ڈالر کی جاب ہوتے ہوئے مفت کے ٹکڑوں پر نظر گاڑ سکتا ہے تو ہمارے ہاں اِس سے کہیں کم مگر بہرحال معقول آمدنی کی صورت میں بھی مفت کے مال پر نظریں جمائے رہنے والوں کی کمی ہوگی؟

پاکستانی معاشرے میں مفت خوری مختلف شکلوں میں مزاج یا فطرت کا حصہ رہی ہے۔ فوڈ بینک وغیرہ کے ذریعے امدادی اشیا بٹورنے اور مفت خوری کے مزاج کے ہاتھوں اِدھر اُدھر ہاتھ مار کر کسی نہ کسی طور کچھ نہ کچھ ہتھیانے کی ذہنیت میں بہت فرق ہے۔ ہمارے ہاں امدادی ادارے روزانہ دستر خوان لگاتے ہیں جن پر بیٹھ کر مستحق افراد پیٹ بھرتے ہیں۔ ماہانہ اٹھارہ یا بیس ہزار روپے تک کی تنخواہ پر کام کرنے والے گارڈز بے چارے کھانے پر کچھ خرچ کردیں تو گھر والوں کو کیا دیں؟ آپ نے پرائیویٹ کمپنیوں کے بیشتر گارڈز کو سڑک پر لِفٹ مانگتے دیکھا ہوگا۔ وہ ایسا کرنے پر مجبور ہوتے ہیں۔ اگر وہ روزانہ کام پر جانے کے لیے سو ڈیڑھ سو روپے خرچ کر بیٹھیں تو اُن کے پاس بچے گا کیا؟ ایسے لوگ خیراتی دستر خوان پر بیٹھ کر پیٹ بھریں تو بات سمجھ میں آتی ہے مگر یہاں تو معاملہ یہ ہے کہ لوگ اچھا خاصا کمانے پر بھی مفت خوری کے عارضے میں مبتلا رہنا پسند کرتے ہیں۔

طریقِ کار کے تھوڑے سے فرق کے ساتھ ہمارے ہاں بھی ایسے لوگ بڑی تعداد میں ہیں جو میہُل کی طرح قابلِ رشک حد تک کماتے ہیں مگر جائز طریقے سے کچھ خرچ کرتے ہوئے اُن کی جان جاتی ہے۔ ایسے لوگ زندگی بھر اپنی اچھی خاصی کمائی کو ایک طرف ہٹاکر دوسروں کے مال پر جینے کو ترجیح دیتے رہتے ہیں۔ یہ ذہنی اور اخلاقی بیماری چند ہزار نہیں بلکہ لاکھوں افراد میں پائی جاتی ہے۔ ہر دور میں ہمارے ہاں ایسے لوگ رہے ہیں جو اللہ کا شکر ادا کرنے کے بجائے محض حالات کا رونا روتے رہتے ہیں اور اُن کی کوشش ہوتی ہے کہ کسی نہ کسی طور اِدھر اُدھر سے کچھ بٹور کر کام چلاتے رہیں۔ ایسے لوگ اپنی کمائی کو سینت سینت کر رکھتے ہیں اور املاک خرید کر اُن کے کرائے بھی بٹورتے ہیں مگر اپنی مفت خوری کی روش ترک کرنے کے لیے تیار نہیں ہوتے۔

کورونا کی وبا کے دوران بھی ہم نے دیکھا کہ بہت سے لوگوں نے اچھی خاصی مالی حیثیت کے ہوتے ہوئے اِدھر اُدھر سے خیرات کا مال بٹورنے میں کوئی قباحت محسوس نہیں کی۔ عام حالات میں بھی بہت سوں کی ذہنیت کچھ اِسی نوعیت کی ہے۔ فرق اگر ہے تو بس نوعیت اور شدت کا۔ عام معاملات میں بھی ہم دیکھتے ہیں کہ کچھ لوگ کماتے تو اچھا ہیں مگر جب جیب ڈھیلی کرنے کی بات آتی ہے تو اُن کی جان جاتی ہے۔ وہ اپنے عمومی اخراجات کا بوجھ بھی دوسروں پر ڈالنے کی کوشش کرتے ہیں۔

مفت خوری کی ذہنیت ہمارے ہاں جڑیں پکڑ چکی ہے۔ اس ذہنیت کو ختم کرنے کی ضرورت ہے۔ اللہ نے اگر اچھا کمانے کی صلاحیت، سکت اور مواقع فراہم کیے ہیں تو لازم ہے کہ معاملات کو کسی نہ کسی طور اپنے بل پر نمٹایا جائے۔ اچھا کمانے کے بعد بھی کوئی مفت خوری ترک نہ کرے تو اِسے شدید اخلاقی مرض سمجھنا چاہیے۔

بچوں کو یہ ذہن نشین کرانے کی ضرورت ہے کہ انسان کو اپنے بل پر جینا چاہیے، اپنا بوجھ کسی پر نہیں ڈالنا چاہیے اور عزتِ نفس کا احساس ہر حال میں توانا رہنا چاہیے۔ دوسروں کی کمائی اور حق پر ڈاکا ڈال کر اپنا پیٹ اور اپنی جیب بھرنے کی ذہنیت معاشروں کو کھوکھلا کردیتی ہے۔ ہمارے ہاں ایک زمانے سے یہ ذہنیت پنپ رہی ہے اور آج بھی معاملات زیادہ درست نہیں ہوئے۔ جو کچھ اللہ نے دیا ہے اُسے بروئے کار لاکر اپنے معاملات نمٹانے کے بجائے لوگ دوسروں کی کمائی پر نظر رکھتے ہیں اور اس معاملے میں برائے نام بھی شرمندگی محسوس نہیں کرتے۔ یہ بات عجیب سی لگتی ہے مگر حقیقت پر مبنی ہے۔ غور کیجیے تو آپ کو قدم قدم پر ایسے لوگ ملیں گے جو طفیلیے بن کر جینے کے لیے بے تاب رہتے ہیں یعنی اُن کی کوشش یہ ہوتی ہے کہ جو کچھ اُنہیں خرچ کرنا ہے وہ بھی کوئی اور خرچ کرے۔

اس حوالے سے سوچ بدلنے کی ضرورت ہے۔ کورونا کی وبا کے دوران یہ ذہنیت مزید پروان چڑھی ہے۔ ملک بھر میں قدم قدم پر خیراتی دستر خوان لوگوں کو منگتا کر رہے ہیں۔ مانگنے اور مانگتے رہنے کی ذہنیت تیزی سے پنپ رہی ہے، ذہنی ساخت کا حصہ بنتی جارہی ہے۔ والدین اور خاندان کے بزرگوں کو اس حوالے سے بچوں کی تربیت پر خاص دھیان دینا چاہیے تاکہ وہ اپنے بل پر جینے کی ذہنیت کو پروان چڑھائیں۔

حصہ