ایک جنگل میں ایک شیر اور لومڑی بیٹھے باتیں کررہے تھے، قریب سے گزرتے ہاتھی کو دیکھ کر لومڑی نے کہا: ’’بھائی ہاتھی کہاں چلے؟‘‘
ہاتھی نے جواب دیا: ’’دودن سے کچھ نہیں کھایا، بھوک سے برا حال ہے، سنا ہے قریبی گاؤں کے کاشت کار غلہ منڈی گئے ہیں، سوچا گنے کی تیار فصل چکھ لوں، ویسے بھی گنا کھائے ایک عرصہ ہوگیا ہے، بس اسی ارادے سے جارہا ہوں‘‘۔
لومڑی بڑی چالاک تھی…
’’چھوڑیے پاپا، یہ بہت بورنگ ہے۔ دوسری کہانی سنائیں۔‘‘ ردا نے کہانی سننے سے پہلے ہی اپنا فیصلہ سنا دیا۔
’’اچھا تم بتاؤ کون سی کہانی سناؤں؟‘‘
’’جس میں ڈاکو ایک آدمی کو مارتے ہیں، وہ والی‘‘۔ ردا نے گہری سوچ میں مبتلا ہوکر فرمائش کی۔
’’نہیں بیٹا! لڑائی والی کہانیاں اچھی نہیں ہوتیں، اس سے چوٹ لگتی ہے، کسی کو مارنا اچھا نہیں، چلو میں پری والی سناتا ہوں تاکہ تمہیں میٹھی میٹھی نیند آجائے۔
سنو! ایک پری بہت حسین اور عقل مند تھی، ہر روز شام ہوتے ہی وہ بادشاہ کے محل میں بنی بارہ دری میں آجایا کرتی۔ ایک دن جب وہ چہل قدمی کرتے ہوئے محل میں قائم خوبصورت باغ کی جانب جانے لگی تو اس پر شہزادی کی نگاہ پڑ گئی، شہزادی بھی بہت حسین وجمیل تھی، پری کو باغ میں داخل ہوتے دیکھ کر بولی…‘‘
’’نہیں نہیں پاپا! مجھے نہیں سننی پری وری کی کہانی۔ آپ کے پاس سب بے کار ہے۔ میں بتاتی ہوں، وہ جس میں ایک شیر ہرن کا شکار کرتا ہے اور کھا جاتا ہے، ایک مگرمچھ دریا کے کنارے بیٹھے ہوئے شخص پر جھپٹ پڑتا ہے، یا پھر آدم خور جن کی کہانی سنائیں۔‘‘
رات کا ایک بج چکا تھا اور ردا کی آنکھوں میں نیند نام کو نہ تھی۔ میں خاصی دیر سے اپنے ذہن سے تخلیق کردہ کہانیاں سناکر اُسے سلانے کی ناکام کوشش کرتا رہا، اور اس کی جانب سے ہر بار کوئی نہ کوئی اعتراض لگا کر اپنے ذہن کے مطابق مار دھاڑ سے بھرپور کہانی سننے کی ہی ضد کی جاتی رہی، اور میں ہر مرتبہ اس کے ذہن میں ابھرتے نفی خیالات کو تعمیری سوچ میں بدلنے کی کوشش کرتا رہا۔ خیر اسی کشمکش میں رات کے تیسرے پہر وہ نیند کی وادی میں جا پہنچی۔
یہ معصوم تو سوگئی لیکن اس کی باتوں نے میرے ذہن کے گرد الجھنوں کا وہ حصار کھینچ ڈالا جس سے ابھرتے سوالات نے مجھے ساری رات جاگ کر گزارنے پر مجبور کردیا۔ میں سوچ رہا تھا کہ اتنی کم عمر بچی کو پریوں اور لومڑی کی کہانیوں کے مقابلے میں جانوروں کا چیر پھاڑ کرنا اور گولیاں چلانے جیسے منفی موضوعات کا سننا کیوں پسند ہے؟ آخر ایسا کیا ہے جو اس بچی کے ذہن کو خونیں سوچ کی جانب دھکیل رہا ہے؟ میں کسی نہ کسی نتیجے پر پہنچنا چاہتا تھا لیکن ذہن میں آنے والے مختلف خیالات کی وجہ سے ناکام رہا۔ میں سوچ رہا تھا کہ ایک وہ زمانہ تھا جب گھر کے سارے ہی بچے نانی یا دادی اماں کے بستر میں جا بیٹھتے۔ وہ مزے مزے کی کہانیاں سنایا کرتیں جن میں شیر، لومڑی، بادشاہ، شہزادی، پری اور دوستی جیسے سبق آموز موضوعات ہوتے۔ محلے کی ہر دوسری دکان سے کرائے پر کہانی کی کتابیں مل جایا کرتی تھیں، کہیں بھی اور کسی بھی کتاب میں کوئی ایسی تحریر پڑھنے کو نہ ملتی جس میں قتل عام یا کسی بھی قسم کی دہشت گردی کا ذرہ برابر بھی عنصر شامل ہوتا، اور نہ ہی دو فریق کے درمیان جدید اسلحے کے استعمال کا کوئی ذکر ہوتا۔
کہانی کی کتابیں بچوں کی ذہنی نشوونما بڑھانے اور ان کی پڑھنے کی صلاحیت کو اجاگر کرنے کا بہترین ذریعہ ہوتیں۔ ان کتابوں کو پڑھنے کا ایک مقصد یہ بھی تھا کہ چھوٹی عمر سے ہی بچوں میں نہ صرف نئے الفاظ جاننے کی جستجو ہوتی، بلکہ ان میں ابلاغ کی صلاحیتیں بھی پیدا ہوتیں جو بعد کی زندگی میں ان کے بہت کام آتیں۔ اور یہ حقیقت ہے کہ کتابیں پڑھنے سے دماغ پر حیرت انگیز اثرات مرتب ہوتے ہیں جن میں یادداشت میں اضافہ، سمجھنے کی بہتر قوت اور خود اپنے مسائل حل کرنے کی زبردست صلاحیت پیدا ہوتی ہے۔
مجھے یاد ہے اُس وقت ہم ’ساتھی‘ رسالہ پڑھا کرتے جو ہماری تربیت کا بہترین ذریعہ تھا۔
یہی صورتِ حال اُس زمانے میں بنائی جانے والی فلموں کی بھی تھی، جو معاشرے کی اصلاح اور حب الوطنی جیسی کہانیوں پر مبنی ہوا کرتیں۔ بچوں میں ’’اے وطن کے سجیلے جوانو! میرے نغمے تمہارے لیے ہیں‘‘ اور ’’دل دل پاکستان، جان جان پاکستان‘‘ جیسے قومی نغمے سننے اور وطنِ عزیز کے لیے کچھ کر گزرنے کا جوش و جذبہ ہوتا… تاریخِ اسلام اور اسلامی فتوحات پر بنائی جانے والی فلمیں اور ڈرامے ہر ایک کی توجہ کا محور ہوتے۔
وقت بدلتے ہی دنیا میں طاقت ور بننے کی جنگ شروع ہوگئی۔ حصولِ اسلحہ کی دوڑ میں ہر کوئی ایک دوسرے سے آگے نکلنے کی کوشش کرنے لگا۔ مہلک ہتھیاروں کی فروحت کی خاطر ملکوں پر جنگیں مسلط کی جانے لگیں، جس کے معاشرے پر ایسے اثرات پڑے کہ طاقت ہی دنیا پر حکمرانی کی علامت بن گئی۔ یہ سلسلہ اب تک جاری ہے جس کی تازہ مثال اسرائیل کی جانب سے نہتے فلسطینیوں کا قتلِ عام ہے۔ دنیا کو اپنی طاقت دکھانے کے چکر میں اسرائیل نے انسانیت کو پامال کرنے کی ساری حدیں عبور کر ڈالیں، وحشت و سفاکی کا وہ کھیل کھیلا جس کی مثال نہیں ملتی، چھوٹے چھوٹے بچوں پر آگ کے گولے برسائے گئے۔ خیر، وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ ایسی تبدیلی آئی جسے روکنا ممکن نہ رہا۔ ڈرامے، فلمیں، بچوں کے کھیلنے کے الیکٹرونکس گیم، یہاں تک کہ پلاسٹک کے کھلونوں میں بھی مختلف قسم کے ہتھیاروں کی مانگ میں اضافہ ہونے لگا۔
اور تو اور اکھاڑوں میں ہونے والے دیسی مقابلوں کو ہی دیکھ لیجیے کہ دو پہلوان کس طرح ایک دوسرے کے خون کے پیاسے ہوتے ہیں، خاص طور پر جنگلہ بند ریسلنگ میں انتہائی خونیں مناظر دیکھنے کو ملتے ہیں۔
1990ء کی دہائی میں سیاست کے نام پر جب کراچی پر قبضے کی جنگ کا باقاعدہ آغاز ہوا تو پلاسٹک سے بنے ہتھیار نما کھلونے ہی بچوں میں سب سے زیادہ مقبول ہوئے۔ میں ذاتی طور پر اس بات کا گواہ ہوں کہ بچے کس طرح ایک دوسرے کے خلاف ٹولیاں بناکر چھرّے والی بندوقوں کا استعمال کیاکرتے تھے۔
اگر دیکھا جائے تو ماضی کے مقابلے میں آج غیر ملکی فلموں، اور جرائم پر بنائے جانے والے ڈراموں کے اثرات نئی نسل میں اس سے بھی زیادہ ہولناک دکھائی دے رہے ہیں۔ اس کی مثال پولیس کے ایک آپریشن کی ہے جس میں نوجوان ڈکیتوں کو گرفتار کرکے میڈیا کے سامنے پیش کیا گیا۔ پولیس سربراہ نے ڈکیت گروہ کے حوالے سے چونکا دینے والے انکشافات کرتے ہوئے بتایا کہ گروہ کے تمام کے تمام کارندے پڑھے لکھے اور خوشحال گھرانوں سے تعلق رکھنے کے باوجود صرف اس لیے بینک ڈکیتیاں اور جرائم کرتے ہیں کہ وہ انڈین اور انگریزی فلموں سے متاثر ہیں۔ انہوں نے اپنے ساتھیوں کے حوالے سے بتایا کہ ان میں سے اکثر کو سنجے دت کی فلمیں پولیس گیری، واستو اور کھل نائیک… اس کے علاوہ سلمان خان کی دبنگ، وانٹڈ اور ایک تھا ٹائیگر بے انتہا پسند تھیں اور وہ ان میں پیش کیے گئے کرداروں سے بے حد متاثر تھے۔ اسی طرح نجی ٹی وی چینلز پر جرائم میں ملوث گرفتار افراد اور مختلف گروہوں کی جانب سے پولیس کے سامنے دورانِ تفتیش دیے گئے بیانات پر دکھائے جانے والے ڈرامے بھی معاشرے میں جرائم کی وارداتیں سیکھنے کا بڑا ذریعہ بنتے جارہے ہیں۔ اپنے آشنا کے ساتھ مل کر شوہر کو موت کے گھاٹ اتارنے جیسے ہولناک واقعات ہمارے معاشرے میں سرایت کرتے جارہے ہیں۔
اس تناظر میں دیکھا جائے تو آج کی نئی نسل فلموں کی طاقت سے اس حد تک متاثر ہے کہ وہ ایک قدم آگے بڑھ کر عملی زندگی میں ان پہلوؤں کا اظہار چاہتی ہے جن سے وہ فلموں کے انداز میں متاثر ہوئی ہے۔ اہم شخصیات کی زندگیوں پر یا پھر معاشرے میں ظلم و ستم اور استحصال کا شکار افراد کی زندگیوں پر فلمیں ضرور بنتی ہیں، تاہم وہ ظلم، استحصال، درندگی اور سفاکی کا منطقی انجام دکھانے سے قاصر رہتی ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ معاشرے کے مسائل کو اجاگر کرنے والی فلمیں مسائل کو اجاگر کرنے کے ساتھ ساتھ ان میں کمی کے بجائے اضافے کا سبب بن جاتی ہیں۔
غیرت کے نام پر قتل معاشرے کا حساس پہلو ہے، تاہم اس موضوع پر بننے والی فلم کے بعد غیرت کے نام پر قتل کے واقعات میں مزید اضافہ ہوگیا۔ ٹی وی اور فلموں میں دکھائے جانے والے تفریحی پروگرام اوّل تو سبق آموز نہیں ہوتے، اور بالفرض اگر ہوتے بھی ہیں تو تکنیکی طور پر وہ تمثیلی انداز میں عوام کو کوئی سبق دینے سے قاصر نظر آتے ہیں، جبکہ دیکھنے والے جرائم کے نت نئے انداز ضرور سیکھ لیتے ہیں۔ فلموں میں معاشرے کی برائیوں کو پیش کرنا اور ان برائیوں کے خاتمے اور ان کے سدباب کو پیش نہ کرنا دراصل وہ پہلو ہے جس پر کوئی نہیں سوچ رہا، اور یہی وجہ ہے کہ فلم بنانے والوں کو یہ نہیں معلوم کہ فلم میں بُرائی کے خاتمے کا پہلو کس طرح دکھانا ہے کہ وہ دیکھنے والوں کے ذہنوں میں بُرائی اور نیکی کے فرق کو واضح کرسکے۔ بچے انتہائی حساس ہوتے ہیں، اس لیے معاشرے میں ہونے والی تبدیلیاں اُن پر زیادہ ہی اثرانداز ہوتی ہیں۔ مجھے یاد ہے والد صاحب کہا کرتے تھے ’’جو دیکھنا وہی سیکھنا‘‘، یعنی انسان اپنے اردگرد جو کچھ بھی دیکھتا ہے وہ اس کے ذہن پر ضرور اثرانداز ہوتا ہے۔
ہمارے بچے فلموں میں جو کچھ دیکھتے ہیں وہ لامحالہ اُن کے کردار اور شخصیت کو بگاڑنے، انہیں منفی سمت میں موڑنے اور نفسیاتی طور پر الجھانے کا باعث بنتا ہے۔ اس پر ستم یہ کہ ہر بچہ ایکشن مووی سے متاثر ہوکر موبائل فون لیے مختلف انداز میں ٹک ٹاک بنانے میں مصروف ہے، یہی وجہ ہے کہ ایکشن سے بھرپور ٹک ٹاک بنانے کے چکر میں کئی بچے مختلف حادثات کی نذر ہوگئے یعنی کئی نوجوان اپنی زندگی سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
قصہ مختصر یہ کہ ایسے حالات پیدا ہوچکے ہیں کہ نہ تو آج کے دور میں بننے والی فلم یہ موقع دیتی ہے اور نہ ہی ہم جیسے والدین کو اس بات کا موقع ملتا ہے کہ اپنے بچوں کو نیکی اور بدی یا اچھائی اور برائی میں تمیز سکھا سکیں یا انہیں یہ بتا سکیں کہ ان کے لیے کیا بہتر ہے۔ اگر کہا جائے کہ آج کا معاشرتی نظام انتہائی پستی کی جانب چل پڑا ہے تو غلط نہ ہوگا، یہی وجہ ہے کہ نہ صرف میری بیٹی ردا بلکہ اس جیسے لاکھوں بچوں کے ذہن میں مار دھاڑ سے بھرپور خیالات کا آنا فطری عمل ہے۔