دعا کے آداب

381

(دوسرا اور آخری حصہ)

نبیؐ نے فرمایا:
’’سب سے بڑا عاجز وہ ہے جو دعا کرنے میں عاجز ہے‘‘ (طبرانی)
اور نبیؐ نے یہ بھی فرمایاکہ: ’’اللہ کے نزدیک دعا سے زیادہ عزت و اکرام والی چیز اور کوئی نہیں ہے‘‘ (ترمذی)

مومن کی شان ہی یہ ہے کہ وہ رنج و راحت، دکھ اور سکھ، تنگی اور خوشحالی، مصیبت اور آرام، ہر حال میں اللہ ہی کو پکارتا ہے، اسی کے حضور اپنی حاجتیں رکھتا ہے اور برابر اس سے خیر کی دعا کرتا رہتا ہے۔
نبیؐ کا ارشاد ہے:’’جو شخص اللہ سے دعا نہیں کرتا، اللہ اس پر غضب ناک ہوتا ہے‘‘ (ترمذی)

-10 دعا کی قبولیت کے معاملے میں اللہ پر بھروسہ رکھیے، اور اگر دعا کی قبولیت کے اثرات جلد ظاہر نہ ہورہے ہوں، تو مایوس ہوکر دعا چھوڑ دینے کی غلطی کبھی نہ کیجیے۔ قبولیت دعا کی فکر میں پریشان ہونے کے بجائے صرف دعا مانگنے کی فکر کیجیے۔

حضرت عمرؓ فرماتے ہیں:
’’مجھے دعا قبول ہونے کی فکر نہیں ہے، مجھے صرف دعا مانگنے کی فکر ہے۔ جب مجھے دعا مانگنے کی توفیق ہوگئی تو قبولیت بھی اس کے ساتھ حاصل ہوجائے گی‘‘۔

نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’جب کوئی مسلمان اللہ سے کچھ مانگنے کے لئے اللہ کی طرف منہ اٹھتا ہے تو اللہ کا سوال ضرور پورا کردیتا ہے، یا تو اس کی مراد پوری ہوجاتی ہے، یا اللہ اس کے لئے اس کی مانگی ہوئی چیز آخرت کے لئے جمع فرما دیتا ہے، قیامت کے دن اللہ ایک بندۂ مومن کو اپنے حضور طلب فرمائے گا اور اس کو اپنے سامنے کھڑا کرکے پوچھے گا، اے میرے بندے! میں نے تجھے دعا کرنے کا حکم دیا تھا اور یہ وعدہ کیا تھا کہ میں تیری دعا قبول کروں گا۔ تو کیا تو نے دعا مانگی تھی؟ وہ کہے گا پروردگار! مانگی تھی پھر اللہ فرمائے گا۔ تو نے مجھ سے دعا مانگی تھی میں نے وہ قبول کیا، کیا تو نے فلاں دن یہ دعا نہ کی تھی کہ میں تیرا وہ رنج و غم دور کردوں جس میں تو مبتلا تھا اور میں نے تجھے اس رنج و غم سے نجات بخشی تھی؟ بندہ کہے: ’’بالکل سچ ہے پروردگار!‘‘ پھر خدا فرمائے گا: ’’وہ دعا تو میں نے قبول کرکے دنیا ہی میں تیری آرزو پری کردی تھی اور فلاں روز پھر تو دوسرے غم میں مبتلا ہونے پر دعا کی کہ الٰہی اس مصیبت سے نجات دے مگر تو نے اس رنج و غم سے نجات نہ پائی اور برابر اس میں مبتلا رہا تھا‘‘۔ وہ کہے گا، بے شک پروردگار!‘‘ تو اللہ فرمائے گا میں نے اس دعا کے عوض جنت میں تیرے لئے طرح طرح کی نعمتیں جمع کر رکھی ہیں، اور اس طرح دوسری حاجتوں کے بارے میں بھی دریافت کرکے یہی فرمائے گا‘‘۔

پھر نبیؐ نے فرمایا:
’’بندہ مومن کی کوئی دعا ایسی نہ ہوگی جس کے بارے میں خدا یہ بیان نہ فرمادے کہ یہ میں نے دنیا میں قبول کی اور یہ تمہاری آخرت کے لئے ذخیرہ کرکے رکھی۔ اس وقت بندہ مومن سوچے گا کاش میری کوئی دعا بھی دنیا میں قبول نہ ہوتی۔ اس لئے بندے کو ہر حال میں دعا مانگتے رہنا چاہیے‘‘ (حاکم)

-11 دعا مانگتے وقت ظاہری آداب، طہارت پاکیزگی کا پورا پورا خیال رکھیے اور قلب کو بھی ناپاک جذبات، گندے خیالات اور بے ہودہ عقائد سے پاک رکھیے۔ قرآن میں ہے:

’’بے شک اللہ کے محبوب وہ بندے ہیں جو بہت زیادہ توبہ کرتے ہیں جو نہایت پاک و صاف رہتے ہیں‘‘ (البقرۃ: 222/2)
اور سورۂ مدثر میں ہے:
وَ رَبَّكَ فَكَبِّرْوَ ثِیَابَكَ فَطَهِّرْ(مدثر: 4,3)

-12 دوسروں کے لیے بھی دعا کیجیے۔ لیکن ہمیشہ اپنی ذات سے شروع کیجیے۔ پہلے اپنے لیے مانگیے اور پھر دوسروں کے لیے۔ قرآن پاک میں حضرت ابراہیمؑ اور حضرت نوحؑ کی دو دعائیں نقل کی گئی ہیں جن سے یہ سبق ملتا ہے:

’’اے میرے رب! مجھے نماز قائم کرنے والا بنا، اور میری اولاد سے بھی (ایسے لوگ اٹھا جو یہ کام کریں) پروردگار! میری دعا قبول فرما اور مجھے اور میرے والدین اور سارے مسلمانوں کو اس دن معاف فرمادے جب کہ حساب قائم ہوگا‘‘ (ابراہیم: 41,40)

’’میرے رب! میری مغفرت فرما اور میرے ماں باپ کی مغفرت فرما اور ان مومنوں کی مغفرت فرما جو ایمان لاکر میرے گھر میں داخل ہوئے اور سارے ہی مومن مردوں اور عورتوں کی مغفرت فرما‘‘(نوح: 28)

حضرت ابی بن کعبؓ فرماتے ہیں کہ نبیؐ جب کسی شخص کا ذکر فرماتے تو اس کے لیے دعا کرتے اور دعا اپنی ذات سے شروع کرتے۔ (ترمذی)

-13 اگر آپ امامت کررہے ہوں تو ہمیشہ جامع دعائیں مانگیے اور جمع کے صیغے استعمال کیجیے۔ قرآن پاک میں جو دعائیں نقل کی گئی ہیں، ان میں بالعموم جمع ہی کے صیغے استعمال کئے گئے ہیں۔ امام دراصل سب متقدیوں کا نمائندہ ہے، جب وہ جمع کے صیغوں میں دعا مانگے تو متقدیوں کو چاہیے کہ وہ آمین کہتے جائیں‘‘۔

-14 دعا میں تنگ نظری اور خود غرضی سے بھی بچیے اور اللہ کی عام رحمت کو محدود سمجھنے کی غلطی کرکے اس کے فیض وبخشس کو اپنے لیے خاص کرنے کی دعا نہ کیجیے۔ حضرت ابوہریرہؓ فرماتے ہیں کہ مسجد نبویؐ میں ایک بدو آیا، اس نے نماز پڑھی، پھر دعا مانگی اور کہا اے خدا مجھ پر اور محمدؐ پر رحم فرما اور ہمارے ساتھ کسی اور پر رحم نہ فرما۔ تو نبیؐ نے فرمایا:

لقد تحجَّرتَ واسعًا’’تو نے اللہ کی وسیع رحمت کو تنگ کردیا‘‘(بخاری)

-15دعا میں بے تکلف قافیہ بندی سے بھی پرہیز کیجیے اور سادہ اندا میں گڑ گڑا کر دعا مانگیے۔ گانے اور سر ملانے سے اجتناب کیجیے۔ البتہ اگر بغیر کسی تکلیف کے کبھی زبان سے موزوں الفاظ نکل جائیں یا قافیے کی رعایت ہوجائے تو کوئی مضائقہ بھی نہیں ہے۔ نبیؐ سے بھی بعض دعائیں ایسی منقول ہیں جن میں بے ساختہ قافیہ بندی اور وزن کی رعایت ہوگئی ہے۔ مثلاً آپؐ کی ایک نہایت ہی جامع دعا حضرت زید بن ارقمؓ سے روایت ہے:

’’الٰہی! میں تیری پناہ میں آتا ہوں اس دل سے جس میں صبر نہ ہو، اس علم سے جو نفع بخش نہ ہو، اور اس دعا سے جو قبول نہ ہو‘‘ (ترمذی)

-16 اللہ کی بارگاہ میں اپنی ضرورت و حاجت رکھنے سے پہلے اس کی حمد و ثنا کیجیے۔ پھر دو رکعت نماز پڑھ لیجیے اور پھر اللہ کی حمد و ثنا کرے اور نبیؐ پر درود و سلام بھیجے (اس کے بعد اللہ کی بارگاہ میں اپنی ضرورت بیان کرے) (ترمذی)

نبیؐ کی شہادت ہے کہ بندے کی جو دعا اللہ کی حمد و ثنا اور نبیؐ پر درود و سلام کے ساتھ پہنچتی ہے وہ شرف قبول پاتی ہے۔ حضرت فضالہؓ فرماتے ہیں کہ: ’’نبیؐ مسجد میں تشریف فرما تھے کہ ایک شخص آیا، اس نے نماز پڑھی اور نماز کے بعد کہا: ’’الٰہی میری مغفرت فرما‘‘۔

آپؐ نے یہ سن کر اس سے کہا تم نے مانگنے میں جلد بازی سے کام لیا۔ جب نماز پڑھ کر بیٹھو تو اللہ کی حمد و ثنا کرو، پھر درود شریف پڑھو، پھر دعا مانگو، آپؐ یہ فرما ہی رہے تھے کہ دوسرا آدمی آیا اور اس نے نماز پڑھ کر اللہ کی حمد و ثنا بیان کی، درود شریف پڑھا۔ نبیؐ نے فرمایا: ’’اب دعا مانگو، دعا قبول ہوگی‘‘ (ترمذی)

-17 اللہ سے ہر وقت اور ہر آن دعا مانگتے رہیے۔ اس لیے کہ وہ اپنے بندوں کی فریاد سننے سے کبھی نہیں اکتاتا۔ البتہ احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ کچھ خاص اوقات اور حالات ایسے ہیں جن میں خصوصیت کے ساتھ دعائیں جلد قبول ہوتی ہیں، لہٰذا ان مخصوص اوقات اور حالات میں دعائوں کا خصوصی اہتمام کیجیے۔

(1)رات کے پچھلے حصے کے سناٹے میں جب عام طور پر لوگ میٹھی نیند کے مزے میں مست پڑے ہوتے ہیں، جو بندہ اٹھ کر اپنے رب سے راز و نیاز کی گفتگو کرتا ہے اور مسکین بن کر اپنی حاجتیں اس کے حضور رکھتا ہے تو وہ خصوصی کرم فرماتا ہے۔

نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’اللہ ہر رات کو آسمان دنیا پر نزول فرماتا ہے یہاں تک کہ جب رات کا پچھلا حصہ باقی رہ جاتا ہے تو فرماتا ہے کون مجھے پکارتا ہے کہ میں اس کی دعا قبول کروں، کون مجھ سے مانگتا ہے کہ میں اس کو عطا کروں، کون مجھ سے مغفرت چاہتا ہے کہ میں اسے معاف کروں‘‘ (ترمذی)

(2) شب قدر میں زیادہ سے زیادہ دعا کیجیے کہ یہ رات اللہ کے نزدیک ایک ہزار مہینوں سے زیادہ بہتر ہے اور یہ دعا خاص طور پر پڑھیے (ترمذی)

’’الٰہی! تو بہت زیادہ معاف کرنے والا ہے، معاف کرنے کو پسند کرتا ہے پس تو مجھے معاف فرمادے‘‘۔

(3)میدان عرفان میں جب 9 ذوالحجہ کو اللہ کے مہمان جمع ہوتے ہیں۔ (ترمذی)

(4) جمعہ کی مخصوص ساعت میں جو جمعہ کا خطبہ شروع ہونے سے نماز ختم ہونے تک ہے یا نماز عصر کے بعد سے نماز مغرب تک ہے۔

(5)اذان کے وقت اور میدان جہاد میں جب مجاہدوں کی صف بندی کی جارہی ہو۔ نبیؐ کا ارشاد ہے:

’’دو چیزیں اللہ کے دربار سے رد نہیں کی جاتیں، اذان کے وقت کی دعا، دوسری جہاد (میں صف بندی) کے وقت کی دعا‘‘ (ابودائود)
(6) اذان اور تکبیر کے درمیان وقفے میں۔

نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’اذان اور اقامت کے درمیانی وقفے کی دعا رد نہیں کی جاتی۔ صحابہ کرام نے دریافت کیا، یارسولؐ اللہ اس وقفے میں کیا دعا مانگا کریں۔ فرمایا یہ دعا مانگا کرو:

’’الٰہی! میں تجھ سے عفووکرم اور عافیت و سلامتی مانگتا ہوں، دنیا میں بھی اور آخرت میں بھی‘‘۔

(7) رمضان کے مبارک ایام میں بالخصوص افطار کے وقت (بزار)۔

(8) فرض نمازوںکے بعد (چاہے آپ تنہا دعا کریں یا امام کے ساتھ) (ترمذی)

(9) سجدے کی حالت میں۔

نبیؐ کا ارشاد ہے:
’’سجدے کی حالت میں بندہ اپنے رب سے بہت ہی قربت حاصل کرلیتا ہے پس تم اس حالت میں خوب خوب دعا مانگا کرو‘‘۔

(10) جب آپ کسی شدید مصیبت یا انتہائی رنج و غم میں مبتلا ہوں (حاکم)۔

(11) جب ذکر و فکر کی کوئی دینی مجلس منعقد ہو (بخاری، مسلم)۔

(12) جب قرآن پاک کا ختم ہو (طبرانی)۔

-18 ان مقامات پر بھی دعا کا خصوصی اہتمام کیجیے۔ حضرت حسن بصریؒ جب مکے سے بصرہ جانے لگے تو اپ نے مکے والوں کے نام ایک خط لکھا جس میں مکے کے قیام کی اہمیت اور فضائل بیان کئے اور یہ بھی واضح کیاکہ مکے میں ان پندرہ مقامات پر خصوصیت کے ساتھ دعا قبول ہوتی ہے:

(1) ملتزم، (2) میزاب کے نیچے، (3) کعبہ کے اندر، (4) چاہ زمزم کے پاس، (5) صفا و مروہ پر، (6) صفا و مروہ کے پاس جہاں سعی کی جاتی ہے، (7) مقام ابراہیمؑ کے پیچھے، (8) عرفات میں، (9) مزدلفہ میں، (10) منیٰ میں، (11) تینوں جمرات کے پاس (حصص حصین)۔

-19 برابر کوشش کرتے رہیے کہ آپ کو اللہ سے دعا مانگنے کے لئے دعا کے وہی الفاظ یاد ہو جائیں جو قرآن پاک اور احادیث رسولؐ میں آئے ہیں۔ اللہ نے اپنے پیغمبروں اور نیک بندوں کو دعا مانگنے کے جو انداز اور الفاظ بتائے ہیں ان سے اچھے الفاظ اور انداز کوئی کہاں سے لائے گا۔ پھر اللہ کے بتائے ہوئے اور رسولوں کے اختیار کئے ہوئے الفاظ میں جو اثر، مٹھاس، جامعیت، برکت اور قبولیت کی شان ہوسکتی ہے وہ کسی دوسرے کالم میں کیسے ممکن ہے۔

اسی طرح نبیؐ سے شب و روز جو دعائیں مانگی ہیں ان میں بھی سوز، مٹھاس، جامعیت اور عبودیت کاملہ کی ایسی شان پائی جاتی ہے کہ ان سے بہتر دعائوں، التجائوں اور آرزوئوں کا تصور نہی کیا جاسکتا۔

قرآن و حدیث کی بتلائی ہوئی دعائوں کا ورد رکھنے اور ان کے الفاظ اور مفہوم پر غور کرنے سے ذہن و فکر کی یہ تربیت بھی ہوتی ہے کہ مومن کی تمنائیں اور التجائیں کیا ہونی چاہئیں۔ کن کاموں میں اس کو اپنی قوتوں کو کھپانا چاہیے اور کن چیزوں کو اس کا منتہائے مقصود ہونا چاہیے۔

بلاشبہ دعا کے لئے کسی زبان، انداز یا الفاظ کی کوئی قید نہیں ہے۔ بندہ اپنے اللہ سے جس زبان اور جن الفاظ میں جو چاہے مانگے، مگر یہ اللہ کا مزید فضل و کرم ہے کہ اس نے یہ بھی بتایا کہ مجھ سے یہ مانگو اور اس طرح مانگو اور دعائوں کے الفاظ تلقین کرکے بتادیا کہ مومن کو دین و دنیا کی فلاح کے لئے کیا نقطہ نظر رکھنا چاہیے اور کن تمنائوں اور آرزوئوں سے دل کی دنیا کو آراستہ رکھنا چاہیے اور پھر دین و دنیا کی کوئی حاجت اور خیر کا کوئی پہلو ایسا نہیں جس کے لئے دعا نہ سکھائی گئی ہو اس لئے بہتر یہی ہے کہ آپ اللہ سے، قرآن و سنت کے بتائے ہوئے الفاظ ہی میں دعا مانگیں اور انہی دعائوں کا ورد رکھیں جو قرآن میں نقل کی گئی ہیں یا مختلف اوقات میں خود نبیؐ نے مانگی ہیں۔

البتہ جب تک آپ کو قرآن و سنت کی یہ دعائیں یاد نہیں ہو جاتیں اس وقت تک کے لئے آپ کم از کم یہی اہتمام کیجیے کہ اپنی دعائوں میں کتاب و سنت کی بتائی ہوئی دعائوں کے مفہوم ہی کو پیش نظر رکھیں۔

آگے، قرآن پاک اور نبیؐ کی چند جامع دعائیں نقل کی جاتی ہیں، ان مبارک دعائو کو دھیرے دھیرے یاد کیجیے اور پھر انہی کا ورد رکھیے۔

حصہ