بہو کے حقوق

358

آج صدیوں پرانا خاندان کا مستحکم ادارہ اور اس میں عورت کا مقام کمزور ہوتا چلا جارہا ہے۔ عورت کی ترقی کا راز خاندان کے استحکام اور اس کے ساتھ وابستگی میں پنہاں ہے۔ مغرب اس راز کو اپنے خاندانی نظام کے ٹوٹ پھوٹ کر بکھر جانے کے بعد جان گیا۔ ہمیں اس سے پہلے ہی اس کا ادراک کرلینا چاہیے۔

عدل و احسان:
ارشادِ ربانی ہے ’’اللہ عدل، احسان اور صلۂ رحمی کا حکم دیتا ہے۔‘‘(النحل:90)

قرآن میں موجود ہر بات پر عمل مومنین کے لیے فرضِ عین ہے۔ لیکن عدل و احسان اور رشتے داروں کے حقوق کی بے پناہ اہمیت و فضیلت واضح کی گئی۔

آج عدل ہی کے مفقود ہونے کے باعث ہر گھر اور ہر ادارے میں کھینچا تانی کے مناظر دیکھنے میں آرہے ہیں۔

عدل قائم کرنا ہر ادارے کے سربراہ کی اہم ترین ذمہ داری ہے۔ ہمارے خاندانی نظام میں سسر گھر کا سربراہ ہے اور ساس اُس کی معاون۔ ان دونوں کا فرض ہے کہ بیٹے کی غیر موجودگی میں بھی بہو کے حقوق کا خیال رکھیں، اُس کی طاقت سے بڑھ کر بوجھ اُس پر ہرگز نہ ڈالیں۔ نندوں، دیور اورجیٹھ کو اُس کے احترام پر مجبور کریں۔ اس بات کا خاص خیال رکھیں کہ تمام اہلِ خانہ اُس کی عزتِ نفس کو ناحق مجروح کرنے سے گریزکریں۔

والدین اپنے بیٹے سے بات منوانے کا حق رکھتے ہیں، نیز اپنی اولادکے غلط اور صحیح رویّے کے بارے میں وہ اللہ کے ہاں بھی جواب دہ ہیں۔ ان کا فرض ہے کہ وہ بیٹے کو بیوی کے حقوق ادا کرنے کی ترغیب دیں۔

نئی دلہن:
اس حقیقت کوکشادہ دلی کے ساتھ تسلیم کرنا چاہیے کہ شادی کے بعد بیٹے کی زندگی میں ایک نئی شخصیت داخل ہوگئی ہے، وہ اس کی رفیقۂ حیات اور ہم سفر ہے۔ اللہ نے ان دونوں میں غیر معمولی الفت و محبت رکھ دی ہے۔ لہٰذا ان دونوں میں دوری ان دونوں کے لیے بھی تباہ کن ہے اور اللہ کی نظرمیں بھی انتہائی ناپسندیدہ ہے۔ لیکن بدقسمتی سے ہمارے ہاں ماں باپ جب یہ دیکھتے ہیں کہ بیٹا بہو کو بہت زیادہ چاہ رہا ہے اور اس سے غیر معمولی محبت کررہا ہے تو خود لڑکے سے بدظن ہونے لگتے ہیں اور بہوکوحریف سمجھ بیٹھتے ہیں۔

اپنی بیٹیوں کے لیے تو والدین کے دل نہایت ہی نرم اورشفیق ہوتے ہیں، ان کی ہرکوتاہی کے لیے عذر تراش لیتے ہیں۔ بہو بھی توکسی کی لاڈلی اور پیاری ہے، کسی ماں باپ کی طویل محنت کا ثمر ہے، جنہوں نے آپ سب پر اعتماد کرکے اپنے جگر کا ٹکڑا پیش کیا ہے۔ وہ اپنا سب کچھ چھوڑکر آپ کے گھر آئی ہے۔ آخر بچی ہے، ناتجربہ کار ہے۔ نئے گھر اور نئے ماحول میں آئی ہے۔ دل لگتے لگتے بھی وقت لگتا ہے۔ یہ ضروری نہیں کہ پہلے روز ہی سسرال کے رنگ میں رنگ جائے۔ ضرورت اس بات کی ہے کہ اُس کی غلطیوں اور کوتاہیوں کو نظرانداز کرکے اُس کے اندر کی خوبیوں کو نکھرنے کا موقع دیا جائے۔ بڑی سے بڑی تادیبی کارروائی بعض اوقات اتنی مفید ثابت نہیں ہوتی جتنا وضاحت کے ساتھ نہایت ہی نرم لہجے میں سمجھا دینے سے خاطر خواہ نتائج برآمد ہوسکتے ہیں۔ شروع کے دنوں میں آپ اُس کا سہارا بن جائیں، اللہ نے چاہا تو تمام عمر خدمت گزار رہے گی۔

حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے لوگوں سے پوچھا ’’جانتے ہو قیامت کے روز کون لوگ سب سے پہلے پہنچ کر اللہ کے سائے میں جگہ پائیں گے؟‘‘ عرض کیاگیا ’’اللہ اور اللہ کے رسولؐ ہی بہتر جانتے ہیں۔‘‘

فرمایا ’’وہ جن کا حال یہ تھا کہ جب ان کے آگے حق پیش کیا گیا تو انہوں نے قبول کرلیا، جب اُن سے حق مانگا گیا تو انہوں نے ادا کردیا، اور دوسروں کے معاملے میں ان کا فیصلہ وہی کچھ تھا جواپنی ذات کے معاملے میں تھا۔‘‘ (مسنداحمد)

گھریلو جھگڑے:
سب افرادِ معاشرہ اور تمام رشتے اگر مذکورہ بالا (النحل:90) قرآنی اصولوں کو رہنما بنا لیں تو ایک دوسرے کی حق تلفی نہیں ہوگی اور سب جھگڑوں کا خاتمہ ہوجائے گا۔ اسلام میں بڑوں کے احترام کی تاکیدکے ساتھ ساتھ چھوٹوں سے محبت کو بھی لازمی قرار دیا گیا ہے۔ ہمارے اکثر گھروں میں سسرال والوں کے رویّے میں بہو کے لیے وقعت و عزت کی کوئی جھلک نہیں ہوتی تو اُس کے دل میں محرومی کا ایسا خلا پیدا ہوجاتا ہے جو محض پراگندہ خیالات اور بیمار جذبات ہی سے پُر ہوتا ہے۔ رات دن وہ انہی میں گھری رہتی ہے جو اُس کی زندگی اجیرن کردیتے ہیں۔ اس طرح وہ اکثر غصیلی، بد مزاج، نافرمان اور زبان دراز بن جاتی ہے۔ جو دوسروں کے لیے جتنی آسانیاں فراہم کرے گا اللہ اُس کی زندگی کو اسی قدر سہل بنا دے گا۔

ارشادِنبویؐ ہے: ’’اللہ تعالیٰ خود مہربان ہے، نرمی اور مہربانی کرنا اس کو محبوب بھی ہے، نرمی پر وہ اتنا دیتا ہے جتنا سختی پر نہیں دیتا، اور جتنا نرمی کے سوا کسی چیز پر بھی نہیں دیتا۔‘‘ (مسلم شریف)

اللہ رب العزت نے انسان کو آزاد پیدا کیا ہے۔ ہر ایک کی پسند اور مزاج دوسرے سے مختلف ہے۔ اصول عمل کے لیے ہی ہوتے ہیں لیکن فروعی معاملات میں بہرحال نرمی برتنے ہی میں حکمت ہے۔ ہر معاملے میں بے جا، بے موقع مداخلت اور بات بات پر کیوں، کیا، کیسے، کہاں، کب جیسے جملوں کی بھرمار سے اکثر گھر کا ماحول خراب ہوتا ہے۔ خدا کے لیے ایسا رویہ ہرگز اختیار نہ کریں کہ آپ کی بہوئیں آپ کی موت کا انتظارکرنے لگیں۔ آج وطنِ عزیز میں ایسے بزرگوں کی کمی نہیں جو اپنی حماقت و جہالت کے باعث رحمت بننے کے بجائے اچھی خاصی زحمت بن چکے ہیں۔ حضرت علیؓ کا فرمان ہے ’’زبان ایک درندہ ہے، چھوڑ دو تو کاٹ کھائے۔‘‘

بہو آنے والی نسلوں کی ماں ہے، اگر اس سے تعلقات درست نہ رہ سکے تو پوتے پوتیوں کی تربیت میں کمی رہ جائے گی اور اُن کے دل میں کبھی سچی محبت پیدا نہ ہوسکے گی، مزید برآں بیٹے کی صحت پر لازماً برے اثرات پڑیں گے۔ پھر یہ بھی ہے کہ گھرکی خاتون خواہ کتنی ہی عمدگی سے بہترسے بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرے اس کی حوصلہ افزائی نہیں کی جاتی۔ انسان کام کی زیادتی سے اتنا نہیں تھکتا جتنا حوصلہ شکنی سے تھک جاتا ہے۔ صنفِ نازک ہونے کے باعث عورت اس سے زیادہ متاثر ہوتی ہے اور بعض حالات میں اعصابی اور ذہنی مریضہ بن جاتی ہے۔ ارشادِ نبویؐ ہے: ’’جس نے لوگوں کا شکر ادا نہیں کیا اُس نے اللہ کا بھی شکر ادا نہیں کیا۔‘‘

ہمارے چند بولوں سے کسی بیٹی کا دل خوش ہوجائے اور اُس کی زندگی میں بہار آجائے تو یہ کس قدرخوش نصیبی ہے۔

طلاق کی کثرت:
جدید تہذیب آندھی طوفان کی طرح حیا کا چلن اور آغوشِ مادرکی ٹھنڈی چھاؤں ہم سے چھین لینے کے درپے ہے۔ دوسری طرف جاہلانہ رسوم و رواج عورت کو اُس کے لازمی بنیادی حقوق سے بھی محروم کررہے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طلاق کی شرح خوف ناک حد تک بڑھتی چلی جارہی ہے۔

میاں بیوی کے رشتے کا ٹوٹنا شیطان مردود کو سب سے زیادہ پسند ہے۔ میاں بیوی کے تعلقات کو خوش گوار بنانے کی بھرپور کوشش کی جائے۔ قرآن کی تعلیم یہ ہے کہ زوجین کے تعلقات جب بگڑتے نظر آئیں تو اس سے پہلے کہ معاملہ سنگین صورت اختیار کرے، گھر میں ہی اصلاح کی کوشش کی جائے۔ ہمارے ہاں بدقسمتی سے لڑکی کے میکے اور سسرال والے رحمن کے راستے کے بجائے شیطانی منہج پر رواں دواں نظر آتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ طلاق کی شرح میں روزبہ روز اضافہ ہوتا چلا جارہا ہے۔

آج ہمارے دشمن ہمارے خاندانی نظام کو توڑنے کے لیے اس قدرٹھوس بنیادوں پر کام کررہے ہیں کہ ہم کوشش کے باوجود بھی سنبھل نہیں پارہے۔ اب لڑکیاں ذمے داریوں اور پابندیوں سے گھبرانے لگی ہیں۔ لڑکی کے میکے سے فضول ہدایات دی جاتیں اور مداخلت کی جاتی ہے جو حد درجہ نقصان دہ ہے۔ بیٹیوں کی تربیت میں یہ بات اُن کو ذہن نشین کرانی چاہیے کہ سسرال، خاص طور سے شوہر کے معاملات میکے میں نہ پہنچائیں، یہ ازدواجی تعلقات کے لیے حد درجہ نقصان دہ ہے۔ دراصل یہ سب ہمارے دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کرنا اور ہمارے خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ میں برابر کا شریک ہونا ہے۔ ہمارے لوگ اس جرمِ عظیم میں مبتلا ہو کر اپنے آپ پر، اپنی نسلوں پر اور اپنے معاشرے پرظلم کررہے ہیں۔

حصہ