بار بار گلے کی خراش کو سنجیدہ لیں،سینئر سرجن ڈاکٹر یوسف سے گفتگو

406

یہ 1990ء کی ایک سرد رات تھی۔ میں سول اسپتال کراچی کے کارڈیا لوجی ڈپارٹمنٹ میں ہائوس جاب کر رہا تھا۔ ہمارے وارڈ کے ساتھ میڈیکل یونٹ 5 تھا۔ ڈاکٹر ظفر اقبال صاحب کا فون آیا نجیب بھائی (معروف صحافی ‘ پریس کلب کے سابق سیکرٹری نجیب پیجی) کی طبیعت خراب ہے‘ ایمرجنسی میں آئے ہیں۔ میں اپنے مریض کا معائنہ کرکے روانہ ہوا تو پتا چلا نجیب بھائی کو ICU میں شفٹ کر دیا گیا ہے۔ نجیب بھائی کو Heart Failure تھا۔ سانس میں مشکل تھی۔ بخار بھی تھا۔ میں اور ڈاکٹر ظفر اقبال باری باری ان کے ساتھ ICU میں رہتے۔ ان کے بڑے بھائی بشیر مستقل ساتھ رہتے تھے۔

نجیب بھائی کو بچپن میں گلے کی خرابی کی شکایت بار بار رہتی تھی۔ مقامی ڈاکٹروں نے علاج بھی کرایا لیکن وہ بس بخار ہوا‘دوا دی اور علاج ختم۔ اس نامکمل علاج کی وجہ سے انہیں سانس کی تکلیف ہونے لگی اور بعد میں معلوم ہوا کہ دل میں خرابی ہوگئی ہے۔ انہیں ماہانہ انجکشن لگائے جاتے۔

نجیب بھائی نے یونیورسٹی میں داخلہ لیا اور اسلامی جمعیت طلبہ کے پلیٹ فارم سے طلبہ کی خدمت کرنے لگے۔ جمعیت کے اس دور کے ناظم اسامہ بن رضی صاحب نے بتایا کہ نجیب بھائی ہر وقت خدمتِ خلق میں مصروف رہتے‘ پڑھائی کے علاوہ لوگوں کے مسائل حل کرانا ان کا محبوب مشغلہ تھا۔ زیادہ وقت ہاسٹل میں رہتے۔ یونیورسٹی کے اساتذہ‘ عام طلبہ و طالبات اور کراچی میں باہر سے آئے ہوئے طلبہ سب سے اچھے تعلقات رکھتے۔ وہ طلبہ جو قوم پرستی کی علامت تھے ان کے مخالف تھے‘ یا کمیونزم سے تعلق رکھنے والے اساتذہ جو ہر وقت جمعیت کی مخالفت کرتے‘ نجیب بھائی سب سے اچھے تعلقات رکھتے۔

اسامہ بن رضی صاحب نے بتایا کہ ایک پروفیسر صاحب جنہوں نے جمعیت کے طلباء داخلہ اپنے ڈپارٹمنٹ میں بند کرا دیا تھا۔ انہیں قوم پرستوں نے اسلحہ کے زور پر آفس میں یرغمال بنا لیا۔ انہوں نے پیغام دیا ’’اسامہ میری مدد کرو۔‘‘ آرٹس کے ناظم نجیب بھائی اکیلے گئے اور ان قوم پرست اسلحہ برداروں سے مذاکرات کرکے پروفیسرصاحب کو راہا کرایا۔

ان کے تعلقات کا ایک اور واقعہ جب حکومت نے مخصوص اخبارات کے خلاف پابندی لگائی تو نجیب بھائی نے تمام صحافتی تنظیموں کو اکٹھا کرکے پابندی کے خلاف جدوجہد کی۔

نجیب بھائی پریس کلب میں آئے تو دائیں بازو والے‘ بائیں بازو والے سب کے ساتھ اچھے تعلقات‘ سب کے مسائل کے لیے محنت کرتے۔ وہ الیکشن میں کھڑے ہوئے تو مخالف گروپ کے گھر والے نجیب بھائی کو اعلانیہ ووٹ ڈالتے۔

اسامہ رضی صاحب نے بتایا کہ نجیب بھائی نے تمام صحافتی تنظیموں کو اکٹھا کیا اور صحافیوں کے مسائل کے حوالے سے منظم آواز اٹھائی۔ ان کی کوششوں سے صحافیوں میں باہم مل کر مسائل کے حل کے لیے کوشش کرنے کا جذبہ بیدار ہوا اور مشترکہ جدوجہد کی راہ ہموار ہوئی۔

انہوں نے بتایا کہ وہ انتہائی مخلص‘ پرخلوص‘ انسانوں سے محبت کرنے والے‘ اللہ سے ڈرنے والے اور مخلوق خدا کو مسائل سے نکالنے کی جدوجہد کو ذوق و شوق سے کرنے والے انسان تھے۔ اسامہ رضی صاحب نے بتایا کہ نجیب بھائی جیسا بڑا جنازہ میں نے زندگی میں کسی صحافی کا نہیں دیکھا جس میں صحافی برادری اور بڑے اخبار کے مالکان تک سب دو میل تک پیدل جنازے کے ساتھ چلتے دعائیں کرتے غم زدہ نظر آئے۔ اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ وہ اپنے نبی پاکؐ کے اس سچے عاشق کی جس کی گواہی ہر طبقۂ فکر کے انسانوں نے دی‘ مغفرت فرمائے۔

نجیب بھائی کی بیٹی کشمالہ صاحبہ‘ جو خود بھی صحافی ہیں‘ نے بتایا کہ ابا امی سے زور دے کر کہتے کہ ’’بچوںکے گلے خراب ہونے پر نظر رکھیں‘ اس کی وجہ سے دل میں خرابیاں پیدا ہوتی ہیں۔‘‘

نجیب بھائی کے اس پیغام کو عام کرنا ہے اور قوم کے بچوں میں شعور پیدا کرنا ہے اس حوالے سے ہم نے ناک‘ کان گلے کے سینئر سرجن ڈاکٹر یوسف سے گفتگو کی۔

ڈاکٹر یوسف نے بتایا کہ گلے کی خراش عام تکلیف ہے جو بچوں‘ نوجوانوں میں ہوتی رہتی ہے اس کی بہت سی وجوہات ہیں۔ یہ تکالیف الرجی کی وجہ سے بھی ہوتی ہیں‘ وائرس کے انفکشن کی وجہ سے اور جراثیم کی وجہ سے بھی ہوتی ہیں۔

الرجی اور وائرس کی وجہ سے گلے کی خراش چند دن تک رہتی ہے اور بھاپ لینے‘ غرارے کرنے‘ جوشاندہ پینے‘ گولیاں چوسنے‘ قہوہ پینے سے اس تکلیف میں کمی آجاتی ہے اور وہ ٹھیک بھی ہو جاتی ہے۔ لیکن بعض دفعہ گلے میں ہونے والی ان تکالیف کی وجہ سے گلے کی مدافعت کم ہو جاتی ہے اور جراثیم کا حملہ ہو جاتا ہے اس کا علاج کرانے کے لیے معائنہ ضروری ہے۔ عام طور پر ڈاکٹر اینٹی بائیوٹک دیتے ہیں لیکن یہ دوا پوری مدت تک دینی چاہیے لیکن اگر دوا کو کم مدت تک استعمال کیا جائے یعنی پورا کورس نہ کیا جائے یا کم مقدار میں دو دی جائے تو یہ خطرناک صورت حال اختیار کر لیتی ہے۔ اس میں ایک بیکٹریا Streptococal کے خاندان کا بہت خطرناک ہوتا ہے۔ اس بیکٹریا کا مقابلہ کرنے کے لیے جسم Anti bodies یا اپنے میزائل تیار کرتا ہے۔ ان بیکٹیریا کی شکل جسم کے اعضا جیسی ہوتی ہے اس وجہ سے جب یہ اینٹی باڈیز یا میزائل خون میں آتے ہیں تو جراثیم کو بتاہ کرنے کے علاوہ انسانی اعضا کو بھی نقصان پہنچا دیتے ہیں جس میں گردوں پر حملہ‘ دل پر حملہ‘ جوڑوں پر حملہ ہو سکتا ہے۔

دل پر حملہ بہت خطرناک ہوتا ہے‘ دل کی دیواروں اور دل کے والوو (دروازوں) کو جو دل کے مختلف حصوں کے درمیان ہوتے ہیں‘ نقصان پہنچتا ہے۔ دل کے کام کرنے کی صلاحیت شدید متاثر ہو سکتی ہے۔ دل کے متاثر ہونے کی اوّلین علامت سانس پھولنا ہوتی ہے۔

سوال: اس خطرناک بیماری کا پتا کیسے چلے گا؟

ڈاکٹر یوسف: علامت میں دل‘ جوڑوں وغیرہ کی تکلیف ہوتی ہے‘ لیبارٹری ٹیسٹ ASO جو اس جراثیم کے بعد بننے والی اینٹی باڈی (میزائل) کے تعداد معلوم کی جاتی ہے۔ وہ بتاتی ہے کہ حملے کی شدت کتنی ہے دل میں انفکیشن ہو تو پینسلین کی بڑی تعداد ہر ماہ انجکشن میں دی جاتی ہے۔

ASO اینٹی باڈی (جسم کا تیار کردہ میزائل جراثیم کا مقابلہ کرنے کے لیے بنتا ہے) جتنا زیادہ جراثیم کا حملہ ہوتا ہے اتنا زیادہ یہ میزائل جسم بناتاہے۔ اگر اس ASO کی مقدار جسم میں زیادہ ہوتی ہے تو اس کا مطلب ہے جسم پر جراثیم کا بڑا حملہ ہوا اور یہ میزائل جسم کو زیادہ نقصان پہنچائیں گے اس لیے مریض کو بڑی مقدار میں اینٹی بائیوٹک کی ضرورت ہوتی ہے۔ اس مسئلے کے حل کے لیے بڑی مقدار میں اینٹی بائیوٹک پنسلین دی جاتی ہے۔ اگر شدت اور علامات کم ہوں تو 5 سال تک مہینے میں ایک مرتبہ پنسلین کا زیادہ دورانیہ والا انجکشن دیتے ہیں اور اگر زیادہ مسئلہ ہے تو 10 سال تک ہر مہینے ایک انجکشن لگانا پڑتا ہے۔ یہ تفصیلات آپ کا ڈاکٹر ہی طے کرے گا۔

سوال: ڈاکٹر صاحب! یہ گلے کی خرابی کس عمر میں ہوتی ہے؟

ڈاکٹر یوسف: گلے کی خرابی عام طور پر 4 سے 14 سال کی عمر میں ہوتی ہے۔ بچوں میں مسائل زیادہ ہوتے ہیں کھانے پینے کی چیزوں میں کھٹی چیزیں کھانا‘ بازار کی گندی مٹھائیاں کھانا‘ چٹنی‘ چپس۔ بازارکے چپس میں گندا تیل استعمال ہوتا ہے یہ عام اشیا ہیں جو بچے استعمال کررہے ہیں۔ ہم نے بچپن سے دیکھاہے کہ بچوں کو ’’چیز‘‘کے پیسے روزانہ دیے جاتے ہیں۔ اب بازار میں بہت ہی کم کوالٹی کی ٹافیاں‘ کیمیکل کی چیزیں موجود ہیں۔ ہر گلی محلے میں ’’چیز‘‘ کے نام پر بچے یہ کم معیار کی چیزیں کھاتے ہیں۔ ان میں جراثیم کے علاوہ کیمیکل بھی استعمال ہوتا ہے جو کھانے کی کوالٹی کا نہیں بلکہ عام طور پر رنگنے کی کوالٹی کا ہوتا ہے۔ چیزوں کے استعمال سے گلے کو نقصان پہنچتاہے۔ اس کے علاوہ آلودہ پانی پینا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ ایک گلاس میں کروڑ سے زیادہ جراثیم ہوتے ہیں۔ بازار کے کین میں عام طور پر فلٹر شدہ پانی ہوتا ہے اسے اگر اُ بال کر نہ پیا جائے تو نقصان ہوتا ہے۔

جراثیم جسم میں زیادہ جا رہے ہوں تو جسم کی مدافعتی قوت کم ہو جاتی ہے اور Strcp Throat گلے کے خطرناک جراثیم کے حملہ کرنے کے امکانات بڑھ جاتے ہیں۔

سوال: کیا گلے کی بیماری سے بچنے کے لیے صرف کھانے پینے میں احتیاط کرنی چاہیے؟

ڈاکٹر یوسف: انسانی گلے میں کھانے اور سانس لینے دونوں کا راستہ گزرتا ہے‘ گلے کو جن چیزوں سے نقصان پہنچتا ہے اس میں سانس میں جانے والے جراثیم‘ وائرس‘ الرجی والی اشیا‘ کیمیکل سب شامل ہیں۔ قالین کا استعمال‘ بچوں کے کمرے میں لگے پردے جس میں دھول مٹی جمع ہو‘ فیکٹری یا کارخانہ کے علاقے میں رہائش‘ بچوںکے کمرے میںکیمیکل کا اسپرے‘ بچوں کے کمرے میںزیادہ کیمیکل والے میک اَپ کا استعمال‘ صفائی میں بہت زیادہ Formal Dehyde کیمیکل کا پوچھا استعمال کرنا بھی گلے کی بار بار خرابی کی وجہ بنتا ہے۔

سوال: ڈاکٹر صاحب پھر کیا اقدامات کریں؟

ڈاکٹر یوسف: گھر ایسے علاقے میں رکھیں جہاں دھواں‘ دھول‘ مٹی کم ہو۔

٭بچوں میں ہاتھ دھونے کی عادت ڈالیں‘ خود بھی جب باہر سے آئیں تو ہاتھ دھو کر بچوں سے ہاتھ ملائیں۔

٭ کھانسنے‘ چھینکنے سے جراثیم ایک دوسرے میں منتقل ہوتے ہیں‘ کھانسی آئے تو آستین کے اندر کی طرف کھانسیں اور چھینکیں۔ یاد رکھیں کھانسنے‘ چھینکنے کی رفتار 100 کلو میٹر فی گھنٹہ سے زیادہ ہوتی ہے۔ اس لیے لازمی کہنی کے اندر کی طرف کھانسیں۔

٭ بچوں کو کے جی‘ نرسرسی کلاس سے کھانسنے‘ چھینکنے کا طریقہ سکھائیں تاکہ کلاس روم اور اسکول وین میں وہ احتیاط کرسکیں اور دیگر بچے بیماری سے بچ سکیں۔

گلے کی خراش کے بارے میں اہم بات یاد رکھیں گلے کی خراش کو سنجیدہ لیں‘ اگر بار بار بچے کا گلا خراب ہو رہا ہے تو ڈاکٹر سے معائنہ کرائیں۔ ڈاکٹر اینٹی بائیوٹک دوا دے تو کورس مکمل کریں۔ یہ رویہ کہ علامات کم ہوئیں‘ دوا چھوڑ دی بڑی خرابی کا باعث بنتا ہے۔

مائیں اپنے تجربات سے دوسری مائوں کو فائدہ پہنچانے کی کوشش نہ کریں۔ یہ مشورہ اکثر نقصان دہ ہی ثابت ہوتاہے۔ بعض مرتبہ شدید بیماری ہوتی ہے لیکن گولیاں چوس کر اس کو دبا دیتے ہیں اور بعد میں بیماری بڑھ جاتی ہے۔

پاکستان میں گلے کی خرابی کی وجہ سے دل کی بیماری غریب آبادی میں تیزی سے بڑھ رہی ہے‘ جہاں غربت اور تعلیم دونوں مسائل ہیں۔ صحت کی سہولیات بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ دنیا کے اکثر ممالک خاص طور پر حکومت کا محکمہ صحت اس کی آگاہی کی مہم چلاتا ہے کہ گلے کی بیماری سے کیسے بچیں تاکہ دل کے مسائل سے اپنی نئی نسل کو بچا سکیں۔

کراچی پریس کلب کے سیکرٹری شعیب خان سے ہماری گفتگو ہوئی انہوں نے کہا کہ نجیب بھائی نے صحافیوں کے ہر طرح کے مسائل کے لیے جو گراں قدر خدمات دی ہیں ہم سب اس کے معترف ہیں اور نجیب بھائی کے صدقۂ جاریہ کے لیے ہم گلے کی خرابی سے بچنے کی آگاہی کو مشن کے طور پر آگے بڑھائیں۔ شعیب خان نے دعا کرتے ہوئے کہا کہ اللہ تعالیٰ ہمیں نجیب بھائی کے مشن پر کام کرنے کی توفیق دے‘انہیں جنت الفردوس میںاعلیٰ مقام عطا فرمائے‘ آمین۔

حصہ