کئی وجوہات کی بنا پریہ توقع کی جا رہی تھی کہ ایران اسرائیل کی طرف سے دمشق میں اپنے قونصل خانے کے اندر اپنے سینئر افسران کی ہلاکت کا جواب ضرور دے گا، ،جن میں سے سب سے اہم وجہ ،فریقین کے درمیان قائم ڈیٹرنس کی ان سرخ لکیروں کو دوبارہ قائم اور مستحکم کرنا تھا جنہیں اسرائیل نے ایرانی سفارت خانہ کو نشانہ بنا کر عبور کرنے کی جسارت کی تھی ۔
یہ حملہ ایک ایسی نظیر ہے جو اس سے پہلے فریقین کے درمیان اس کنٹرولڈ تنازع میں کبھی پیش نہیں آئی تھی اورمشرق وسطی میں موجود تنازعہ ایران کی جانب سے سیاسی حقیقت پسندی اور اسرائیل کی جانب سے امریکی مفادات کی آبیاری کی حد تک محدود تھا۔ ایرانی ردعمل ڈیٹرنس کے مذکورہ توازن کوقائم کرنے کے خیال سے مطابقت بھی رکھتا تھا، لہٰذا ایران نے بھی اس سرخ لائن کو عبور کرنے کا فیصلہ کیا جسے ایران نے اس سے پہلے کبھی نہیں توڑا تھا،ایرانی اقدام اپنی سرزمین کے اندر سے لانچ کیے گئے میزائلوں اور ڈرونز سے اسرائیل پر براہ راست حملہ تھا ۔
گذشتہ کل شام جو ہم نےدیکھا یہ اپنی نوعیت کی اولین مثال ہے کہ ایران نے لبنان، شام، عراق یا یمن سے نہیں، بلکہ ایرانی سرحدوں کے اندر سے، اسرائیل کو کھلم کھلا نشانہ بنایا ہے -اس سے پہلے ایران مذکورہ چار عرب ممالک کے ذریعہ ہی وہ اسرائیل کے ساتھ اپنے اس تنازع کو منظم کرتا آیا ہے یا اسرائیل پر ضرب لگانے کے لیے انہی ممالک کو ایک پلیٹ فارم کے طور پر استعمال کرتا آیا ہے۔
ایران کی طرف سے اسرائیل اورایران کے مابین کھنچی ہوئی سرخ لکیر کو توڑنا،یہ ظاہر کرتا ہے کہ فریقین کے درمیان اسٹریٹجک تنازع چھپی ہوئی بالواسطہ جنگ کے دائرےسے نکل کر براہ راست اور کھلی جنگ کی طرف بڑھنا شروع ہو گیا ہے۔
ہوسکتا ہے کہ ایران نے اسرائیل کے اندر نیتن یاہو کی کمزور پوزیشن، امریکیوں کے ساتھ اس کے تعلقات میں درپیش مسائل اور غزہ جنگ میں اس کی فوجی طاقت کے اضمحلال اور تھکن کا فائدہ اٹھاتے ہوئے براہ راست جواب دینے کا یہ اقدام کیا ہو ، اس لیے کہ اسرائیل ان حالات میں ایران کے ساتھ براہ راست جنگی محاذ کھولنے کا متحمل نہیں ہوسکتا اور اسے یہ خوف بھی کھائے جا رہا ہے کہ مبادا اس کے خلاف دوسرے جنگی محاذ بھی نہ کھل جائیں، خاص طور پر جنوبی لبنان اور گولان کا محاذ علاوہ ازیں یہ ایران کے سیاسی مفاد میں بھی تھا کہ وہ غزہ جنگ کے دوران ہی اسرائیل پر براہ راست حملہ کرکے اس کا جواب دے ، تاکہ فلسطینی مزاحمت کے سب سے اہم فوجی اتحادی کے طور پر اپنی ساکھ اور پوزیشن کو مستحکم کر سکے۔
اب اگر اسرائیل دوبارہ ایرانی حملے کا جواب ایرانی سرزمین پر حملہ کرکے دیتا ہے تو معاملات دونوں فریقوں کے درمیان معمول کی ڈیٹرنس گیم سے ہٹ جائیں گے اور مستقبل میں تنازعہ کے دائرہ کار کو کنٹرول میں رکھنا بے حد مشکل ہو جائے گا،یہ کیفیت خاص طور پر ان امریکیوں کے لیے بے حد پریشان کن ہے جو اس تنازعے اور اس کے میدان اور مدت کو کنٹرولڈ اور لمیٹڈ رکھنے کےشدید خواہشمند ہیں۔
اسرائیل پر ایرانی حملے کے مضمرات کا خلاصہ کئی زاویوں سے کیا جا سکتا ہے، جس میں غزہ کی جنگ اور فلسطین کی عمومی صورت حال پر اس کے اثرات، اور پھر اس جنگ کا عرب سیاق و سباق ، خاص طور پر مشرقی بحیرہ احمر اور مشرقی بحیرہ روم کے خطے اور ممالک پر اس کے اثرات شامل ہیں۔ اس پر بھی غور کرنا ہوگا کہ آیا اسرائیل پر یہ ایرانی حملہ ایک طویل، کثیر مقصدی، کثیر جہتی جنگ اور تصادم کا آغاز ہے، یا یہ دونوں فریقوں کو اپنی چپقلش کے معمول کے روایتی حدود و آداب کے اندر واپس لوٹنے پر مجبور کردے گا۔
غزہ کی جنگ کے تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے: اسرائیل پر کوئی بھی ایرانی حملہ – خواہ وہ کتنا ہی علامتی کیوں نہ ہو -اس وقت غزہ کے لوگوں کے لیے فائدہ مند ہے، کیونکہ ایسا حملہ انھیں اس وحشیانہ جنگ کے بوجھ سے نجات دلاتا ہے جو اسرائیل ان کے خلاف گذشتہ چھ ماہ سے جاری رکھے ہوئے ہے۔ غزہ کے لوگوں کو کو اس ایرانی حملہ کا اولین روز سے ہی فائدہ پہنچا ہے ۔ دمشق میں ایرانی قونصل خانے کو نشانہ بنانے کے فوراً بعد، اسرائیل نے غزہ سے اپنی زیادہ تر افواج کا انخلاء شروع کر دیا تھا، لگتا یہ تھا کہ لبنان اور شام کے ساتھ لگی اپنی شمالی سرحدوں پر کسی بھی ممکنہ تصادم کی روک تھام کی تیاری کر رہا ہے خصوصا اس لیے کہ ایران ہی اسرائیل کے شمال میں واقع ان دونوں محاذوں پر سٹریٹجک کنٹرول رکھتا ہے۔
غزہ کے لیے اس محاذ آرائی میں اور بھی بہت سے فوائد مضمر ہیں جیسا کہ :
اس نئی صورت حال نے اسرائیلیوں کو غزہ میں جنگ روکنے پر مجبور کردیا ہے ۔ وہ ہمیشہ سے اور بیک وقت دو محاذوں جنوب میں غزہ ، اور اپنے شمال میں لبنان اور گولان کے محاذ پر بیک وقت لڑائی سےپہلو بچاتا آیا ہے۔ اسرائیلی غزہ پر مسلط کردہ اپنی وحشیانہ جنگ کے دوران اس امر کی شدید خواہش رکھتے آئے ہیں حتی کہ امریکیوں کو اسرائیل کے شمال میں ممکنہ جنگ کو روکنے کے لیےبراہ راست بھی دباؤ ڈالنا پڑا۔
اس ایرانی حملہ اور اس سے ممکنہ طور پر مشرق وسطی میں چھڑنے والی کسی جنگ کے خدشہ کے پیش نظر ،امریکہ مجبور ہو سکتا ہے کہ غزہ میں اسرائیلی جنگ کو مکمل طور پر بند کروادے خصوصاً ایک ایسے وقت میں جب غزہ کی جنگ میں امریکہ کے شرمناک کردار کی وجہ سے خطے میں امریکہ کی پوزیشن پہلے ہی داو پر لگ چکی ہے ۔ اسی طرح فلسطینی مزاحمتی تحریک کے لیے ایرانی فوجی اور تکنیکی مدد میں مقدار اور معیار کا اضافہ – اسرائیل کے خلاف نفرت اور اس کے خلاف جوابی کارروائی کے جذبہ سے اگر ہو گیاتو غزہ میں موجود تحریک مزاحمت کی کارکردگی اور استعداد و قابلیت میں بے تحاشا اضافہ کا باعث ہو جائے گا۔
مسئلہ فلسطین کے عمومی تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے؛ فلسطین میں اسرائیلی آبادی کے خلاف خوف و ہراس سےزیادہ طاقتور اور کارگر کوئی ہتھیار نہیں ہے اور اسرائیلی معاشرے میں خوف و ہراس کا پھیل جانا کل شام کے ایرانی حملے کا سب سے اہم نتیجہ اور ثمرہ ہے۔
جو کوئی بھی فلسطینی کاز پر اس حملے کی اہمیت کو کم سمجھتا ہے وہ یا تو ان لوگوں میں سے ہے جو جنگوں کے نفسیاتی پہلو کو نہیں سمجھتے یا پھر ان لوگوں میں سے ہےجو صہیونی معاشرے کے کھوکھلے پن اور کمزوری اور ضعف سے قطعاً واقف نہیں ہیں ، یہ ایک ایسا معاشرہ ہے جو دنیا بھر سے لائے گئے تارکین وطن سے تشکیل پایا ہے اور اس کے زیادہ تر باشندے اب بھی دوہری شہریت رکھتے ہیں۔ عدم تحفظ اورامن وامان کی عدم دستیابی کا ادنی سا بھی احساس اس مصنوعی معاشرے کے ایک بڑے حصے کو فرار اور بھاگ جانے پر مجبور کر سکتا ہے اور اس طرح یہ صہیونی منصوبہ معدوم اور ختم ہو جائے گا ۔
اسرائیلی اخبار (یروشلم پوسٹ) نے دو روز قبل اشارہ کیا تھا کہ ایرانی قونصل خانے پر اسرائیلی حملے کے بعد سے اسرائیلی معاشرے میں ہسٹیریا اور خوف و ہراس کی سی کیفیت طاری ہے۔ اس نے بتایا تھا کہ اسرائیلی گھبراہٹ اور خوف کے عالم میں اے ٹی ایم مشینوں سے نقد رقم نکال رہے ہیں، پانی ذخیرہ کر رہے ہیں اور بازار میں دستیاب بجلی کے ہر قسم کے جنریٹر خرید رہے ہیں۔
برسوں پہلے تل ابیب یونیورسٹی میں قائم سینٹر فار ایرانی اسٹڈیز نے ایک سروے کرایا تھا جس کے نتائج اسرائیلی اخبار Haaretz نے شائع کیے تھے ان میں انکشاف کیا گیا تھا کہ اگر ایران کی طرف سےجوہری ہتھیار حاصل کرنے کا اعلان کیاجائے گا تقریباً ایک چوتھائی اسرائیلیوں کا کہنا تھا کہ ہم مستقل طور پر اسرائیل سے ہجرت کرنے پر غور کر رہے ہیں۔
عرب خطے کی اسٹریٹجک صورتحال کے تناظر میں یہ کہا جا سکتا ہے: بحیرہ احمر اور بحیرہ روم کے مشرق کے تمام عرب ممالک، چاہے وہ اسے پسند کریں یا نہ کریں ،ایران اور اسرائیل کے درمیان کراس فائر کی لپیٹ میں ہیں،۔ اس خطے میں :
یا تو وہ ممالک ہیں جن کی فوجی اور سیاسی ہمدردیاں ایران کے ساتھ ہیں اور وہ فلسطینی کاز کے حامی ہیں وہ اس جنگ میں ایران اور غزہ کی مدد و حمایت کے یے پر عزم اور متحرک ہیں۔ یا پھر وہ ممالک ہیں جو مکمل طور پر اسرائیل پر انحصار کیے ہوئے ہیں ۔ایسے ممالک یقیناً ایران اور اس کے اتحادیوں کی طرف سے ممکنہ جوابی انتقامی کارروائی کے خدشے سے لرزاں ہیں، اور ہم حال ہی میں اس طرح کے ایک ملک کے لیے ایرانی دھمکی سن بھی چکےہیں۔
یا پھر خطے میں وہ ممالک ہیں جن کے ہاں امریکی فوجی اڈے قائم ہیں، انہیں بھی اب اس بات کا خدشہ ہے کہ ان کی سرزمین جنگ میں بدل جائے گی اور ان کے پاس اسے روکنے کا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ یاپھر اسرائیل کی سرحد سے ملحقہ وہ ممالک ہیں ،جو جغرافیائی طور پر اور سیاسی بندھنوں میں اس کے ساتھ بندھے ہوئے ہیں اور اس بڑھتی ہوئی کشیدگی میں ان کا موقف جو بھی ہو وہ اس کے اثرات سے کسی طرح اپنا دامن بچا نہیں سکتے۔
کچھ عرب ممالک مذکورہ چار میں سے ایک سے زیادہ خصوصیات اور وجوہات رکھتے ہیں۔ خطے کا یہ منظر نامہ در اصل مشرقی بحیرہ روم اور مشرقی بحیرہ احمر میں واقع عرب ممالک کی نازک اسٹریٹجک صورتحال کی طرف اشارہ کررہا ہے۔ یہ عرب ملک ایران اور اسرائیل کے مابین چھڑنے والے اس جنگی تصادم یا کراس فائر کے براہ راست نشانہ پر ہیں ۔اور اگر جنگ کی حدت بڑھتی ہے یہ ممالک ایک ایسی جنگ کا میدان اور ایندھن ہوں گےجسے روکنا اور چھیڑنا ان کے ہاتھ میں نہیں ہوگا ۔بدترین صورت حال سے دوچار وہ ملک ہیں جو ایک طرف اسرائیل کے ساتھ نارملائزیشن کی پینگیں بڑھائے ہوئے ہیں اور دوسری طرف ایران کے ساتھ جغرافیائی قربت رکھتے ہیں ،یہ ممالک آج پوری طرح سے ایرانی طاقت کے سامنے ایکسپوزڈ ہیں ، اور ان کی اخلاقی پوزیشن بھی بدحالی کا شکار ہے اور اسٹریٹجک پوزیشن کی کمزوری اس پر سوا ہے۔
آخر میں، آج کا اہم سوال باقی ہے: کیا اسرائیل پر شام ایران کا براہ راست حملہ ایک طویل جنگ کا نقطہ آغاز ہے،ایک ایسی جنگ جو مقاصد کے لحاظ سےمتنوع ہو اور کثیر الجہت بھی ؟ یا ایران اور اسرائیل باہم ڈیٹرنس کے معمول کے ان اصولوں پر واپس آ جائیں گے ، اگرچہ تھوڑی مدت کے لیے ہی سہی ؟ ہمارا خیال ہے کہ ایران ایک غیر ذمہ دار ملک نہیں ہے، اور وہ خودکش انداز میں نہیں سوچتا، بلکہ اس کی نمایاں خصوصیت اس کا اسٹریٹجک صبر ہے۔ جو لوگ ایران کو جانتے ہیں وہ یہ توقع نہیں رکھتے کہ ایران اسرائیل کے ساتھ ایک ایسی جنگ میں الجھے گا -کہ جب اسرائیل اور اس کے پیچھے امریکہ اور پورے مغرب کا ہاتھ ہو – خصوصا اس وقت تک تو ہر گز نہیں الجھے گا جب تک کہ وہ اپنے جوہری پروگرام کو مکمل کر کے مطلوبہ جوھری ڈیٹرنٹ نہ حاصل کر لے۔
کل شام، ایران نے باہم قائم ڈیٹرنٹ کی سرخ لکیر کو پھلانگ کر اوراسرائیلی حملہ کے جواب میں۔اپنی سرزمین سے براہ راست میزائلوں اور ڈرونز کی یلغار کرکے ایک اہم مثال قائم کی ہے تاہم، یہ دلچسپ منظر جسے ہم نے اور پوری دنیا نے دیکھا ہے – یہ ایران کی طرف سے صرف ایک ردعمل ہے۔ جہاں تک بالواسطہ ایرانی ردعمل کا تعلق ہے۔ ایران کی جانب سے ایرانی سرزمین کے باہر سے لبنان، عراق اور یمن میں موجود ایرانی اتحادیوں کے ہاتھوں، اسرائیل کو نشانہ بنانا – اس کی حد اور قوت کا ابھی تک تعین نہیں کیا گیا ہے۔ بالواسطہ ایرانی ردعمل ، یقیناً اوربہر حال براہ راست ایرانی ردعمل سے زیادہ تکلیف دہ جسے روکنا مشکل ہی نہیں ناممکن بھی ہے۔
اسرائیل کے ساتھ بالواسطہ جنگوں میں ایران نے ہمیشہ اپنی اعلیٰ قابلیت کا مظاہرہ کیا ہے، چاہے وہ لبنانی محاذ پر ہو یا فلسطینی محاذ، یا حال ہی میں اس راہ میں شامل ہونے والے یمنی محاذ پر۔
اسرائیل پر ایرانی حملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ ایران ابھی تک اسرائیل کے ساتھ براہ راست جنگ کے لیے تیار نہیں ہے، اور یہ کہ وہ کم سے کم مستقبل قریب میں اس قسم کی براہ راست جنگ میں اس وقت تک شامل نہیں ہونا چاہتا جب تک کہ اسرائیل اور اس کے امریکی اتحادی ایسی کوئی جنگ اس پر مسلط ہی نہ کر دیں۔ کہا جاسکتا ہے کہ کل کا ایرانی حملہ محدود فوجی اثرات کے ساتھ ساتھ زیادہ تر علامتی پیغام کا حامل تھا۔
تاہم عسکری لحاظ سے محدود اثرات کا اور علامتی ہونے کے باوجود کے باوجود ،طویل مدت میں اس حملے کی سٹریٹجک اہمیت کو کم نہیں قرار دیا جاسکتا اس لیے کہ اس حملے کے اسرائیلی معاشرے پر گہرے نفسیاتی اثرات مرتب ہوں گے اور صہیونی ریاست اور صہیونی معاشرے کے محفوظ ہونے کے نفسیاتی تصور پر بھی اس کا گہرا اثر پڑے گا۔ . 7 اکتوبر2023ء کو حماس اور فلسطین کی تحریک مزاحمت کے بہادرانہ حملے کے صدمے کے بعد، جس نے اسرائیل کی دفاعی لائن اورتصور کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیا تھا ،اب چھ ماہ بعد ہی، ایران اسرائیلی دفاعی سرحدوں کو کھلم کھلا پامال کررہا ہے،یہ ایرانی اقدام ظاہر کررہا ہے کہ صہیونی ریاست اسرائیل جس نے دجل وفریب کے ذریعہ دنیا کے سامنے اپنی ایک جھوٹی تصویر بنائی ہوئی تھی کہ وہ ناقابل تسخیر ہے۔دفاعی لحاظ سے کس قدر نازک صورت حال سےدوچار ہے ۔
لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے؛ 7 اکتوبر 2023 اور 13 اپریل 2024 تاریخ میں دو ایسے دنوں کے طور پر لکھے جائیں گے جن میں صہیونی ریاست نے اپنی مدافعتی قوت کا ایک اہم حصہ کھو دیا، ان حملوں میں اسرائیلی نقصانات کے حجم کی وجہ سے نہیں، بلکہ صہیونیوں کے اپنے اوپر اور اپنی ذات پر خود اعتمادی کو کھوکر،اور یہ کہ ان کی سیاسی ریاست ان کی حفاظت کو یقینی بنانے کے حوالہ سے بے بس ہے ، اوردنیا بھر سے جمع شدہ ان لوگوں کا یہ احساس، کہ انہیں یہاں نہ تحفظ حاصل ہے اور نہ سکون و اطمینان اور ان کا اسرائیلی ریاست سے جڑا ہوا یہ اعتماد کہ اسرائیل ایک طاقت ور ریاست ہےجہاں ان کا مستقبل محفوظ ہے یہ سب کمزور پڑ چکا ہے اور متزلزل ہے اور آخر کو جنگ تو نام ہی عزم و ارادہ کے تصادم کاہے کہ کس کا عزم اور ارادہ قوی تر ہے ۔