مزار سے ڈبل روڈ کی جانب جاتی ہوئی سڑک کے اختتام پر قائم کاٹج انڈسٹریل ایریا کے ساتھ والی گلی میں کھڑے شخص کے گرد لوگوں کا جم غفیر دیکھ کر میرے دل میں بھی اس شخصیت سے ملاقات کرنے کی خواہش جاگ اٹھی۔ ظاہر ہے کسی بھی چلتی ہوئی سڑک کے ساتھ قائم انڈسٹریل ایریا کی مرکزی گلی میں کھڑے شخص کے گرد اتنی بڑی تعداد میں لوگوں کا جمع ہونا اس شخص کی معاشرتی حیثیت کا منہ بولتا ثبوت تھا، ایسے میں میرا وہاں سے اُن سے ملے بغیر گزرنا، یا یوں کہیے ایسی شخصیت سے مصافحہ نہ کرنا زیادتی سے کم نہ ہوتا۔ سو میں تیزی سے اس ہجوم کی جانب بڑھنے لگا۔ ابھی چند قدم ہی بڑھا تھا کہ میری نظر سڑک کی جانب کھڑے طاہر پر پڑی۔ طاہر چونکہ میرا اسکول کے زمانے کا دوست ہے اور وہ ایک عرصے بعد دکھائی دیا تھا اس لیے میں اُس کی جانب چل دیا۔ حال چال پوچھنے کے بعد میں نے اُس سے سڑک پر کھڑے لوگوں سے مصافحہ کرنے والے شخص کے بارے میں پوچھنے کے ساتھ اس کے اتنا عرصہ منظرعام سے غائب رہنے کے بارے میں بھی سوالات کرنا شروع کردیے۔
میری باتیں سن کر طاہر میرے چہرے پر گہری نظر ڈالتے ہوئے بولا: ’’تم یہاں کیا کررہے ہو اور تمہارا یہاں کیا کام؟ میں خاصی دیر سے تمہیں یہاں دیکھ رہا ہوں، کیا تم نے بھی ٹوکن لینا شروع کردیا ہے؟‘‘
’’یہ ٹوکن کیا ہے، اور ٹوکن لینے سے تمہاری کیا مراد ہے؟‘‘ میں نے طاہر سے فوری طور پر پوچھا۔
’’جب ٹوکن نہیں لینا ہے تو پھر تم یہاں کیوں آئے ہو؟‘‘
’’بھائی کیا بولے جارہا ہے، دماغ تو ٹھیک ہے تیرا! میں یہاں سے گزر رہا تھا، یہاں کھڑے اِس شخص سے لوگ جس طرح مصافحہ کررہے ہیں، یہ دیکھ کر رک گیا ہوں۔ سوچا کوئی مشہور شخصیت ہیں اس لیے میں بھی سلام کرتا چلوں، بس اتنی سی بات ہے، اور تُو نہ جانے کیا کیا بولے جارہا ہے!‘‘
’’بس یہی بات ہے، اس کے علاوہ تو کچھ نہیں ہے نا؟‘‘
’’ہاں ہاں بس یہی بات ہے۔ تُو چھوڑ اِن باتوں کو، اپنی سنا کہاں غائب تھا؟ کیا اب یہاں رہتا ہے؟ پرانا محلہ چھوڑ دیا؟‘‘
’’خدا کا شکر ہے، تیرے متعلق میرے دل میں آنے والے خیالات درست نہ تھے، میں تو ڈر گیا تھا۔‘‘
’’اوبھائی کیا ہوگیا، کیا غلط فہمی ہوگئی ہے؟‘‘
’’کچھ نہیں، تُو چھوڑ ان باتوں کو۔ اور ہاں میں یہاں نہیں رہتا، نہ ہی پرانے محلے میں ہوں۔ ایک عرصہ ہوا نئی آبادی میں شفٹ ہوئے، اب وہیں رہتا ہوں۔ اور ہاں جسے تم مشہور شخصیت سمجھ کر مصافحہ کرنے کا شرف حاصل کرنا چاہتے ہو میں یہاں اسی کے چکر میں کھڑا ہوں۔ یہ کوئی روحانی شخصیت ہے اور نہ ہی اس سے ہاتھ ملانے والے اس کے مرید۔ اس سے ہاتھ ملانے والا ہر شخص نشے کی پڑیا لے رہا ہے۔ میں اس ہیروئن فروش کے پیچھے لگا ہوا ہوں، اسی لیے تمہیں یہاں دیکھ کر پریشان ہو گیا تھا اور نہ جانے کیا کیا بول گیا۔ مجھے معاف کردینا میرے دوست۔‘‘
’’خیر ہے، کوئی بات نہیں، لیکن تُو اس کے پیچھے کیوں لگا ہوا ہے؟ یہ تیرا کام تو نہیں ہے۔ کیا کسی ایسے ادارے میں نوکری کرلی ہے جس کا کام منشیات کی روک تھام ہے؟‘‘
’’ادارے کہاں روکتے ہیں، میں تو خود متاثرین میں سے ہوں، ایک عرصہ ہوا نشے کی لت ایسی لگی کہ زندگی تباہ ہوگئی، اب تو دن پورے کررہا ہوں، سوچتا ہوں جب تک زندہ ہوں اس زہر قاتل کو فروخت کرنے والوں کے خلاف کام کروں اور اپنی نوجوان نسل کو ان درندہ صفت لوگوں کے چنگل سے بچائوں۔‘‘
’’یار اگر اتنی سمجھ ہے تو نشہ چھوڑ دے اور اپنا علاج کرواکر اچھی زندگی گزار، جو ہو گیا اسے بھول جا۔‘‘
’’میرا کوئی علاج نہیں، ڈاکٹروں نے جواب دے دیا ہے۔ یہ زہر سارے ہی وجود میں سرایت کرچکا ہے۔‘‘
’’یہ سب کیسے ہوگیا؟ تُو اچھا خاصا سمجھ دار تھا، کیسے نشہ کرنے لگا؟‘‘
’’دوستی، میرے دوست، دوستی… یہ سب دوستی کے چکر میں ہوجاتا ہے۔ جب حلقۂ احباب اچھا نہ ہو تو اسی قسم کے نتائج آیا کرتے ہیں۔‘‘
’’لیکن…‘‘
’’لیکن ویکن کچھ نہیں ہوتا، یہی سچ ہے کہ ہمارے نوجوان محض دوستوں کے کہنے یا فیشن کو اپنانے کی غرض سے منشیات کا استعمال کرتے ہیں، اور یہی ان کی بربادی کا سبب بنتا ہے۔ منشیات کے عادی افراد ہیروئن اور شراب کا استعمال پہلے ہی کثرت سے کرتے تھے، اب کرسٹل آگیا ہے جسے آئس بھی کہا جاتا ہے۔‘‘
’’شراب، چرس، افیون، ہیروئن یا مختلف ادویہ جنہیں نشے کے طور پر استعمال کیا جاتا ہے، کے بارے میں تو خوب سنا ہے، یہ کرسٹل کسی چڑیا کا نام ہے؟‘‘
’’حیرت ہے تمہیں اس کے بارے میں نہیں معلوم! آج کل تو اسی کی بڑی ڈیمانڈ ہے۔ یہ نشہ میتھ ایمفٹامین نامی ایک کیمیکل سے بنتا ہے، جو چینی یا نمک کے بڑے دانے کے برابر سفید چیز ہوتی ہے، اسے باریک شیشے سے گزار کر حرارت دی جاتی ہے، اس نشے کے لیے عام طور پر بلب کے باریک شیشے کو استعمال کیا جاتا ہے، جب کہ نشہ کرنے والے افراد اسے انجکشن کے ذریعے بھی جسم میں داخل کرتے ہیں۔ یہ ایسا طاقت ور نشہ ہے جو پہلی بار کے استعمال سے ہی انسان کو اپنا عادی بنا لیتا ہے۔ یہ کوئی سستا نشہ نہیں، بلکہ اس کی قیمت انتہائی زیادہ ہوتی ہے۔ آئس کا زیادہ تر استعمال ہائی کلاس پارٹیوں میں اسٹیٹس کی علامت کے طور پر ہونے لگا ہے، اسے عموماً ایک چھوٹے شیشے کے پائپ کی مدد سے پیا جاتا ہے، تاہم کچھ لوگ اسے نگل کر، سونگھ کر یا سرنج کے ذریعے نس میں داخل کرکے بھی استعمال کرتے ہیں۔ ایک گرام کوکین اگر 10 ہزار سے 12 ہزار روپے کے درمیان فروخت ہوتی ہے تو ایک گرام آئس15سو روپے سے 3 ہزار روپے میں مل جاتی ہے۔ آئس کا نشہ کرنے کے بعد انسان کی توانائی وقتی طور پر دُ گنی ہوجاتی ہے اور ایک عام شخص 24 سے لے کر 48 گھنٹوں تک جاگ سکتا ہے، اس دوران وہ چاق چوبند رہتا ہے۔‘‘
’’طاہر! تمہاری باتوں سے تو ظاہر ہوتا ہے جیسے یہ نشہ کوئی ایسا وٹامن ہے جس کے استعمال سے توانائی دگنی ہوجاتی ہے اور انسانی صحت کو کسی قسم کا کوئی نقصان بھی نہ پہنچتا؟‘‘
’’میں نے ایسا کب کہا؟ جس طرح دوسری نشہ آور اشیاء انسانی زندگی کے لیے انتہائی خطرناک ہیں، اسی طرح اِس نشے کے بھی سائیڈ ایفیکٹ ہوتے ہیں، مثلاً آئس کے عادی افراد کو نشہ اترنے کے بعد زیادہ نیند اور تھکاوٹ محسوس ہوتی ہے، جب اس نشے سے پیدا ہونے والے فرحت بخش احساسات و جذبات ختم ہوتے ہیں تو نشہ کرنے والے پر اس کی علامات ظاہر ہونا شروع ہوجاتی ہیں، جن میں آنکھوں کی پتلیوں کا بڑا ہوجانا، منہ کا خشک ہونا، بہت زیادہ پسینہ آنا، حرکتِ قلب میں بے ترتیبی، بلڈ پریشر اور جسمانی حرارت میں اضافہ، متلی اور قے، سانس پھولنا اور بھوک میں کمی شامل ہیں۔ جبکہ نفسیاتی اعتبار سے آئس کے عادی افراد خللِ دماغ، چڑچڑے پن،گھبراہٹ، تھکاوٹ، ڈپریشن اور ہیجانی رویّے کا شکار ہوتے ہیں۔‘‘
’’طاہر تم کسی ریسرچر سے کم نہیں، تم نشہ آور اشیاء کے بارے میں خاصی معلومات رکھتے ہو، مجھے تمہاری باتیں سن کر حیرت ہورہی ہے۔‘‘
’’جیسے کہ پہلے ہی بتا چکا ہوں میں خود بھی نشے کا عادی ہوں اسی لیے اتنا سب کچھ جانتا ہوں۔ میری زندگی کا تو اب اختتام ہے، مرنے سے پہلے بس یہی خواہش ہے کہ اپنی نوجوان نسل کو اس لعنت سے بچا سکوں، اسی لیے منشیات فروشوں کے خلاف جو بن پڑتا ہے کرتا رہتا ہوں۔ کبھی پولیس، تو کبھی اینٹی نارکوٹکس کنٹرول جیسے اداروں کو باخبر کرتا رہتا ہوں، لیکن خاطر خواہ کامیابی نہیں ملتی۔ المیہ یہ بھی ہے کہ نشہ آور ادویہ کی ڈاکٹر کے نسخے کے بغیر فروخت پر پابندی ہے لیکن ایسی بڑی تعداد میں شربت، گولیاں اور کیپسول سرِعام چھوٹے موٹے میڈیکل اسٹورز پر فروخت ہورہے ہیں جو نشے کے عادی افراد نشہ نہ ملنے کی صورت میں استعمال کرتے ہیں۔ یہ دکان دار ان ادویہ کی منہ مانگی قیمت وصول کرتے ہیں بلکہ بعض اسٹورز کی ساری آمدنی ان ہی ادویہ کی فروخت سے ہے۔ بات یہیں ختم نہیں ہوتی بلکہ ایک مشہور ادارے کی جانب سے نزلہ، زکام کے لیے بنائی جانے والی معجون بھی نشے کے طور پر استعمال کی جاتی ہے، اور ہاں، شہر بھر میں ہونے والی وارداتوں میں زیادہ تر نشے میں مبتلا افراد شامل ہوتے ہیں، میرا مطلب ہے کہ مختلف جگہوں سے گاڑیاں چوری کرنے اور ان کی بیٹریاں نکالنے والوں میں بڑی تعداد نشہ خوروں کی ہے۔ یہ دیکھ اور سن کر بہت افسوس ہوتا ہے، مجھے یقین ہے کہ جس کام پر لگا ہوں اُس میں خدا کی ذات مجھے ضرور کامیاب کرے گی۔‘‘
’’یار طاہر! تم جس کام پر لگے ہو یہ آسان نہیں، اس کے لیے تو ادارے بنے ہوئے ہیں جو نشہ کرنے والوں کا پوری توجہ سے علاج کرکے انہیں معاشرے کے ساتھ رہنے اور اچھی زندگی گزارنے کی تربیت دیتے ہیں۔‘‘
’’نہیں نہیں بھائی ایسا کچھ نہیں۔ بات دراصل یہ ہے کہ یہ ادارے نشے میں مبتلا افراد کو چند دن اپنے مراکز میں رکھنے کے بعد چھوڑ دیتے ہیں۔ یوں یہ لوگ محنت مزدوری اور آمدنی کا ذریعہ نہ ہونے کے باعث ایک بار پھر ڈپریشن کا شکار ہوجاتے ہیں اور ایک بار پھر غم کو بھلانے کے لیے ایک دو کش لگاتے ہیں اور پھر سے اس کے عادی ہوجاتے ہیں، اور پھر سڑک کنارے، کسی پل کے نیچے، کوڑا دان کے پاس یا کسی ویران جگہ نشہ کرتے، یا لوگوں سے روٹی اور نشے کے لیے بھیک مانگتے دکھائی دیتے ہیں۔ یہی وجہ ہے کہ بڑی تعداد میں نشے کے عادی افراد اس حد تک قوتِ مدافعت کھو چکے ہوتے ہیں کہ شدید موسمی حالات سردی، گرمی یا نشے کی زیادتی سے ان کی سڑک کنارے ہی موت واقع ہو جاتی ہے۔ ان کے بارے میں جاننے کی کوشش کریں تو ان کی بڑی تعداد اچھے گھرانوں سے تعلق رکھتی ہے، مگر والدین اور گھر والوں کی عدم توجہی، پرورش میں غفلت، ان کی سرگرمیوں اور حلقہ احباب پر نظر نہ رکھنے کی وجہ سے یہ لوگ اس حالت تک پہنچتے ہیں۔ یہ وہ حقائق ہیں جن کا میں خود چشم دید گواہ ہوں۔‘‘
……
طاہر کی باتیں اپنی جگہ سو فیصد درست ہیں۔ گلی محلوں میں کھلے عام فروخت ہوتی نشہ آور اشیاء کے خاتمے اور اپنی نوجوان نسل کو منشیات جیسی لعنت سے محفوظ رکھنے کے لیے ہمیں اینٹی نارکوٹکس فورس سمیت دیگر اداروں کو فعال بنانے کی ضرورت ہے، محکمہ پولیس میں موجود کالی بھیڑوں کے خلاف کارروائی کرنا ہوگی، منشیات فروشی میں ملوث اور منشیات فروشوں کی سرپرستی کرنے والوں سے سختی سے نمٹنا ہوگا، سب سے بڑھ کر ایسے افراد پر نظر رکھنی ہوگی جو کسی بھی سیاسی جماعت کا سہارا لے کر منشیات فروشوں کی سرپرستی کرنے جیسے جرائم میں ملوث ہیں اور پولیس اُن کی اسی حیثیت کے باعث اُن پر ہاتھ نہیں ڈالتی۔
محکمہ پولیس کو اپنی صفوں سے ایسے اہلکاروں کا صفایا کرنا ہوگا جن کی وجہ سے عوام میں یہ تاثر عام ہے کہ پولیس کی جانب سے منشیات کے خلاف جتنی بھی کارروائیاں ہوتی ہیں ان میں منشیات کے عادی افراد کو منشیات فروش ظاہر کرکے یا پھر چھوٹے پیمانے پر منشیات کا کاروبار کرنے والے افراد کو گرفتار کیا جاتا ہے۔ جبکہ ضرورت اس بات کی بھی ہے کہ پولیس کے اعلیٰ حکام منشیات کے بدنام سوداگروں کے کوائف حاصل کرکے تمام تھانوں کے انچارجز کو انہیں فوری طور پر قانون کے کٹہرے میں لانے کی ہدایت کریں۔
سب سے بڑھ کر والدین کو چاہیے کہ وہ از خود نوٹس لیں اور بچوں پر نظر رکھیں۔ ان کی مصروفیات، دوستوں کا حلقہ اور دیگر مقامات جہاں وہ جاتے ہیں مثلاً کوچنگ سینٹر… ان پر بھی نظر رکھیں۔ دیکھنے میں آیا ہے کہ ماں باپ نے اولاد کو بالکل اکیلا چھوڑدیا ہے۔ وہ سمجھتے ہیں کہ تعلیمی اداروں اورکوچنگ سینٹر پہنچ کر ان کی ذمے داریاں ختم ہوگئیں۔یاد رکھیے ایسا نہیں ہے، اولاد کو جوان ہونے یعنی با شعور ہونے تک والدین اور اساتذہ کی رہنمائی کی ضرورت رہتی ہے، اور ایسے میں والدین کی ذمے داریاں بہت بڑھ جاتی ہیں، لہٰذا بچوں کے مشاغل پر نظر رکھنا ضروری ہے۔ ایسے ہی اقدامات سے نہ صرف منشیات جیسی لعنت سے نجات حاصل کی جا سکتی ہے بلکہ شہر میں بڑھتے ہوئے جرائم کا خاتمہ بھی کیا جا سکتا ہے۔