خطرناک مہم

279

سفر کا پہلا مرحلہ مکمل ہو چکا تھا۔ آج کی آج میں انھوں نے نوسو کلو میٹر کا راستہ طے کر لیا تھا۔ اس دوران ان کے والد صاحب نے کہیں بھی اس بات کہ ضرورت محسوس نہیں کی تھی کہ راستے میں رفتار کے متعلق دی ہوئی ہدایات سے زیادہ رفتار بڑھائی جائے۔ ویسے تو وہ بھی محتاط ڈرائیونگ کے ہی قائل تھے لیکن وہ بلاکے ماہر ڈرئیور بھی تھے اور کئی مرتبہ ایمرجنسی کی صورت میں وہ تیز رفتاری کے باوجود اپنی گاڑی کو قابو رکھنے کے سلسلے میں کئی ریکارڈ بنا چکے تھے۔ یہ بات پولیس ڈپارٹمنٹ کے علم میں خوب اچھی طرح تھی۔ وہ اس وقت کی حقیقی ہنگامی صورتِ حال سے بھی خوب اچھی طرح آگاہ تھے اور شاید وہ اسی لیے پولیس چالانوں سے بچتے رہے ہوں۔ آج ان کے ماضی کے کئی ریکارڈز کی وجہ سے انھیں ٹریفک کی خصوصی ہدایات دی گئی ہونگی۔

جہاں ٹھہرے تھے وہاں ایک اوسط درجے کا ہوٹل تھا جس میں جمال اور کمال کے والد ایک دو کمروں والا سوٹ لینے میں کامیاب ہو گئے تھے۔ سارا دن چلچلاتی دھوپ کا سامنا رہا لیکن گرمی کا مکمل احساس اس لیے نہیں ہو سکا کہ ان کے استعمال میں دی جانے والی گاڑی اے سی تھی۔ لیکن اب جبکہ اچھی خاصی رات ہو چکی تھی اس لیے موسم کافی حد تک خوشگوار ہو چکا تھا۔ والد صاحب تو کھانا کھا کر آرام کی غرض سے اپنے کمرے میں چلے گئے تھے۔ شاید اس لیے بھی کہ بلا تکان، وہ مسلسل گاڑی چلاتے رہے تھے اور سوچتے ہوں کہ اگلی صبح جب وہ دوبارہ ڈرائیونگ سیٹ سنبھالیں تو تر و تازہ ہوں، اس لیے انھوں نے یہی سوچ کر آرام کرنے کو زیادہ فوقیت دی ہو گی۔ کسی حد تک نیند لینے کی ضرورت جمال اور کمال بھی محسوس کر رہے تھے لیکن وہ باہر کی فضا میں کچھ دیر چہل قدمی کرنا چاہ رہے تھے۔

چہل قدمی کے دوران جمال نے کمال سے کہا کہ یہ بات تو ٹھیک ہے کہ اٹیچی کیس میں رکھے گئے ڈانگری یا کورآل نما لباس کے بارے میں ہمیں سب کچھ بتا دیا گیا ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اسے پہننے کی ضرورت ہمیں کیوں پیش آئے گی۔ ہم تو گھر سے خالصتاً تفریح ہی کی غرض سے روانہ ہوئے تھے لیکن لگتا ہے شاید ہمیں تفریح کا لطف اٹھانے سے پہلے ہی کسی مہم کا سامنا کرنا پڑے۔

کمال نے کہا کہ لگتا تو ایسا ہی ہے، دیکھتے ہیں کیا ہونے والا ہے۔

کمال نے جمال سے کہا کہ سارے راستے میں نے ایک بات بہت شدت سے محسوس کی اور وہ یہ تھی کہ جیسے ہماری گاڑی کے پیچھے پیچھے کوئی گاڑی تعاقب کرتی رہی ہو لیکن ہر بار ایسا لگا کہ شاید یہ میرا شک ہی ہو کیونکہ جس گاڑی کو میں نے میلوں اپنی گاڑی کے پیچھے آتے دیکھا وہ جیسے کسی اور جانب مڑ گئی ہو۔ یوں سمجھو کہ میں نے محسوس کیا کہ کوئی 100 ڈیڑھ سو کلو میٹر تک کوئی گاڑی کافی فیصلے سے ہماری گاڑی کے پیچھے پیچھے آتی رہی اور اس نے ایک بار بھی ہم سے آگے جانے کی کوشش نہیں کی لیکن جہاں کہیں ہم راستے میں چائے پینے یا کھانا کھانے رکے، وہاں سے آگے کسی اور ماڈل اور رنگ کی گاڑی ٹھیک اسی فاصلے اور اسی انداز سے ہماری گاڑی کے پیچھے پیچھے مسلسل لگی رہی۔ یہی بات میں سارے راستے نوٹ کرتا رہا۔

جمال نے کہا کہ کہہ تو تم صحیح رہے ہو، یہ بات خود میں نے بھی نوٹ کی تھی لیکن جب سے ہم یہاں پہنچے ہیں، نہ تو ان میں سے کوئی گاڑی آس پاس نظر آئی اور نہ ہی کوئی ایسا شخص جس پر کسی قسم کا شبہ کیا جا سکے۔ اب دیکھتے ہیں کہ اگلے مرحلے میں کیا ہوتا ہے۔

باتیں کرتے کرتے وہ ہوٹل میں واپس آ چکے تھے۔ کمرے میں پہنچ کر انھوں نے دیکھا کہ ان کے والد دوسرے کمرے میں گہری نیند سو چکے ہیں۔ نیند تو جمال اور کمال کو بھی آ رہی تھی لیکن سونے سے پہلے جمال نے کمرے میں موجود ٹی وی کو ہلکی آواز میں آن کردیا۔ یہ خبروں کا وقت تھا۔ سارا دن تو کہیں خبریں سننے کا وقت نہیں مل سکا تھا۔ جب ٹی وی آن کیا تو خبروں کے وقت میں ابھی ایک منٹ باقی تھا اسے لیے خبروں سے قبل کا اشتہار کا سلسلہ چل رہا تھا۔ خبروں کا آغاز ہوا تو جمال اور کمال کی ساری توجہ ٹی وی کی جانب مبذول ہو گئی۔ دونوں ہر وقت ہر قسم کے حالات سے باخبر رہنے کی کوشش کرتے تھے۔ جس قسم کے ان کے مزاج اور دلچسپیاں تھیں، ان کا تقاضا بھی یہی تھا کہ نہ صرف لمحے لمحے کی بدلتی ہوئی صورت حال ان کے علم میں ہو بلکہ ہر قسم کے حالات کے مطابق وہ ذہنی طور پر تیار بھی رہیں۔

ان دنوں شمالی سرحدوں کی جانب کافی ناپسندیدہ صورتِ حال کا سامنا تھا۔ مختلف مقامات پر عسکری تنصیبات پر حملے معمول بنتے جا رہے تھے جس کی وجہ سے کافی جوانوں کی شہادتیں بھی سننے میں آ رہی تھیں۔ اغوا برائے تاوان اور قتل کی وارداتوں میں اضافہ ہوتا جا رہا تھا۔ یہ صورتِ حال ملک کےلیے کوئی اچھی نہیں تھی۔ اب عالم یہ ہوتا جا رہا تھا کہ لوگ نے شمالی علاقوں کی تفریح گاہوں کی جانب جانا بہت کم کر دیا تھا۔ غیر ملکیوں نے تو تقریباً اس جانب آنا بالکل ہی چھوڑ دیا تھا۔ ایسے میں ان کا شمالی علاقوں کا رخ کرنا کسی حد تک خطرناک بھی ہو سکتا تھا۔ اب کچھ کچھ یہ بات سمجھ میں آنے لگی تھی کہ روانگی سے قبل ان کو پوری ایک اٹیچی حیرت انگیز لباسوں سے بھری کیوں حوالے کر دی گئی تھی۔ یہ مخصوص لباس کافی حد تک ان کی حفاظت کا ذریعہ بن سکتا تھا۔ وہ اپنی معمول کی خبریں سن ہی رہے تھے کہ اچانک ”بریکنگ” نیوز کا اسٹیکر چلنے لگا۔ معمول کی خبروں کو روک کر ”بریکنگ نیوز نشر کی جانے لگی۔ خبریں سنانے والی کہہ رہی تھی کہ ایک نیم فوجی دستہ جو ایک سرحدی چوکی سے دوسری چوکی کی جانب جا رہا تھا اسے شر پسندوں نے چاروں جانب سے گھیر لیا اور اس قافلے میں شامل 14 جوانوں کو اٹھا کر لے گئے۔ یہ ایک ایسا راستہ تھا جو ایک تنگ پہاڑی راستے سے گزر رہا تھا کہ اچانک آگے جانے والے راستے پر پتھروں کی جیسے بارش ہونے لگی۔ کمانڈ کرنے والا جوان اس کو ”سلائیڈنگ” سمجھا اور پورے قافلے کو رک جانے کا اشارہ کیا جیسے ساری گاڑیاں ایک دوسرے سے جڑ کر کھڑی ہوئیں، قافلے کی پچھلی جانب کے راستے پر بھی جیسے پتھروں کی برسات شروع ہونے لگی۔ یعنی راستہ دونوں جانب سے بند ہو گیا۔ لیکن جس کو وہ معمول کی سلائیڈنگ سمجھ رہے تھے، وہ شرپسندوں کی کارروائی تھی۔ اس سے پہلے کہ جوان سمجھ اور سنبھل پاتے، میگا فون کی چیختی چلاتی آواز نے سب کو چونکا دیا۔ کہا جا رہا تھا کہ ہتھیار پھینک کر ہاتھ بلند کر لو ورنہ ہم سب کو بھون کر رکھ دیں گے۔ ہم پر گولی چلانے یا کوئی ایکشن لینے سے پہلء پہاڑیوں کے دونوں جانب نظریں اٹھاؤ۔ سب نے دیکھا کہ درجنوں مورچہ بند شرپسند پہاڑیوں پر موجود تھے جن کے ہاتھوں میں راکٹ لانچرز اور جدید ترین ہتھیار موجود تھے۔ ہتھیار ڈالنے کے علاوہ اور کوئی راستہ نہیں بچا تھا۔ شرپسندوں نے جوانوں کے ہتھیار ڈالنے کے بعد نیچے اتر کر نہ صرف جوانوں کے سارے ہتھیاروں اور گولہ و بارود اپنے قبضے میں کر لیا بلکہ 14 جوانوں کو بھی اپنے ساتھ لے گئے۔(جاری ہے)

حصہ