لالچ کا انجام

206

ترکستان کے ایک سوداگر کی درھم کی ایک تھیلی راستہ میں کہیں گرپڑی۔ اس نے گاؤں میں منادی کردی کہ تھیلی جس کوملی ہو واپس کردے۔ تھیلی میں جس قدر درھم ہوں اس کے نصف انعام کا وہ حقدار ہوگا۔ اس تھیلی میں دوسودرہم تھے۔

یہ تھیلی کسی جہاز کے ملاّح کو ملی تھی منادی سن کر وہ اس آدمی کے پاس گیا اورتمام واقعہ بیان کر کے کہا۔ ’’اگراس تھیلی کا مالک نصف یعنی سودرھم حسب وعدہ دے تو اس کے بدلہ میں تھیلی واپس کرنے پر تیار ہوں۔ شرط یہ ہے کہ مجھے انعام پہلے مل جائے‘‘۔

جب تھیلی کی خبرسوداگر کو ملی۔ جو بڑا لالچی تھا۔ تو اس نے خیال کیا کہ کسی طرح سے میں انعام کی رقم سے بھی بچوں اور میری پوری رقم مجھے مل جائے۔ اس لیے اس نے ایک ترکیب کی اورملاّح سے کہا کہ اس تھیلی میں ایک ہیرا تھا اگر وہ مجھے مل جائے تو مجھے انعام کی رقم دینے میں کوئی عذرنہیں۔ ملاّح نے کہا۔ تھیلی میں دوسودرھم کے سوا کچھ نہ تھا۔ اور میں اس تھیلی کو اقرار کے موافق انعام حاصل کئے بغیر نہیں رہ سکتا۔

آخرکار یہ جھگڑا قاضی صاحب کے پاس عدالت میں پیش ہوگیا۔ قاضی صاحب نے ملاّح سے دریافت کیا کہ تمہیں تھیلی دینے میں کیا عذرہے۔ ملاح نے جواب دیا حضور سوداگر صاحب نے پہلے نصف یعنی سودرھم انعام کا اقرار کیا تھا اوراب اس کو ٹالنے کے لیے تھیلی میں ہیرا بتلا رہے ہیں۔ دراصل تھیلی میں کوئی ہیرا وغیرہ نہیں ملا۔ میں یہ قسم کھا کرعرض کرتا ہوں۔

اب قاضی صاحب نے سوداگر سے دریافت کیا کہ وہ ہیرا تم نے کہاں سے کب اورکتنی قیمت میں اورکس کے ذریعہ سے خریدا تھا۔ تفصیل کے ساتھ بیان کرو۔ یہ سن کرسوداگرنے جواب دیا۔ لیکن چونکہ ہیرے کا واقعہ غلط اور بناوٹی تھا۔ اس لیے جواب میں اختلافات پیدا ہوگئے۔ وہ بہت گھبرایا۔ قاضی صاحب پر ظاہر ہوگیا کہ ہیرے کا واقعہ بناوٹی اورغلط ہے۔ اس لیے حکم دیا کہ سوداگر کی تھیلی کھو گئی ہے۔ جس میں ایک ہیرا بیان کیا جاتا ہے اور ملاّح کو بغیر ہیرے والی تھیلی ملی ہے۔ سوداگر کوچاہئے کہ وہ پھرمنادی کریں اورتھیلی میں ہیرا ظاہر کریں اور ملاّح کو حکم ہوا کہ تم اس تھیلی کو اپنے پاس چالیس دن تک رکھو اس عرصہ میں اگرکوئی یہ تھیلی کا ثبوت پہنچا کر لے جائے تو بہتر۔ ورنہ پوری تھیلی پرتمہارا قبضہ ہوگا۔

سوداگر نے لالچ سے اپنے درھم بھی کھو دیئے اور ہاتھ ملتا رہ گیا۔ طمع بُری چیز ہے۔ تم ہمیشہ اس سے دور رہنا۔

حصہ