انکم ٹیکس والے

180

منکر نکیر اور محکمہ انکم ٹیکس کے انسپکٹروں میں یہی فرق ہے کہ منکر نکیر مرنے کے بعد حساب مانگتے ہیں اور موخر الذکر مرنے سے پہلے‘ بلکہ یہ کہ منکر نکیر صرف ایک بار مانگتے ہیں اور انکم ٹیکس کے انسپکٹر بار بار نیز یہ کہ منکر نکیر گناہوں کا حساب لیتے وقت ثواب کو نظر انداز نہیں کرتے مگر انکم ٹیکس تجویز کرنے والے صرف گناہوں میں دل چسپی رکھتے ہیں، ثواب سے انہیں کوئی سروکار نہیں۔ آمدنی کو گناہ میں اشتراکیوں کی اصطلاح میں کہہ رہا ہوں۔ ملاحظہ ہو ایک اشتراکی فلاسفر کا نظریہ کہ’’تمام صاحب جائداد چور ہیں۔‘‘

اِدھر مارچ کا مہینہ آیا اُدھر اُن کے پیام آنے شروع ہو ئے کہ صاحب ایک ہفتے کے اندر اندر آمدنی کا نقشہ پُر کر کے دفتر میں بھیج دیجیے ورنہ آپ پر زیر دفعہ ’’فلاں‘‘ مقدمہ چلایا جائے گا۔ اسے کہتے ہیں مفت خوری اور سینہ زوری۔ بھلا کوئی ان سے پوچھے کہ صاحب! جب ہم سارا دن دفتر میں پنسل گھساتے تھے، افسروں کی گھڑکیاں سہتے تھے، سپرنٹنڈنٹوں کے ناز اٹھاتے تھے‘ اُس وقت آپ کہاں تھے؟ کبھی پھوٹے منہ سے یہ نہ کہا، ’’لائو ان رقموں کی میزان میں کردوں، یا اس فائل سے میں نپٹ لوں گا۔‘‘ اور جب پیسوں کا منہ دیکھنا نصیب ہوا تو آپ آ دھمکے اور لگے رعب جمانے کہ ہمارا حصہ لائو۔ اگر عاجزی سے مانگیں تو کوئی عیب نہیں کہ راہِ خدا ہم غریبوں کو بھی دو ’’ہے ملی گر تم کو ثروت چند روز۔‘‘

مگر یہاں تو اس کروفر سے مطالبہ کیا جاتا ہے گویا ہم کماتے ہی ان کے لیے ہیں او یہ بیوی بچوں کا قصہ تو گویا الف لیلہ کی داستان ہے۔ مگر صرف مطالبے پر ہی معاملہ ختم نہیں ہو جاتا، آمدنی کا نقشہ پر کرنے کے بعد ایک دن دفتر میں بھی تشریف لائیے تاکہ اندراج کی تصدیق کی جا سکے۔ اور جب آپ اپنا قیمتی وقت ضائع کر کے وہاں جاتے ہیں تو آپ کی کیا گت بنائی جاتی ہے؟ بر آمدے میں جہاں آپ کو گھنٹوں انتظار کرنا ہے، کوئی بینچ یا کرسی نہیں۔ دوسرے جتنا عرصہ آپ بر آمدیمیں کھڑے رہتے ہیں دفتر میں کام کرنے والے بابو اور چپڑاسی آپ کو اس طرح گھور گھور کر دیکھتے ہیں گویا آپ جیل سے بھاگے ہوئے مجرم ہیں۔ مگر سب سے بڑی کوفت یہ کہ محکمہ انکم ٹیکس کے انسپکٹر اپنے آپ کو فرعون یا کم از کم ہٹلر سے کم نہیں سمجھتے، اس لیے جب آپ جھک کر سلام بجالاتے ہیں تو وہ یا تو منہ دوسری طرف پھیر لیتے ہیں یا پھر سگار کا دھواں آپ کے منہ کی طرف چھوڑتے ہوئے آ پ پر یوں نگاہ غلط انداز ڈالتے ہیں جیسے آپ انسان نہیں بلکہ رینگنے والے کیڑے اور اس کے بعد گستاخانہ استفسارات کا سلسلہ۔

’’یہ نقشہ آپ نے پر کیا ہے‘‘
’’جی ہاں‘‘
’’آپ ہی کا نام ہے دین دیال‘‘
’’جی ہاں‘‘
’’آپ کہاں پروفیسر ہیں‘‘
’’کلچرل کالج میں‘‘
’’آپ کی تنخواہ‘‘
’’ایک سو بیس روپیہ ماہانہ‘‘

اور آپ دل ہی دل میں جھنجلا کر کہتے ہیں، کم بخت اندھا ہے، پڑھ نہیں سکتا؟ نقشے میں ان تمام سوالوں کے جواب لکھ تو دیئے تھے۔ اس قسم کے تین چار بے ضرر سوالات کرنے کے بعد آمدم بر سر مطلب والا معاملہ شروع ہوتا ہے۔

’’ہاں تو آپ نے تنخواہ کے علاوہ اپنی بالائی آمدنی کیوں نہیں دکھائی۔‘‘

’’جناب‘‘ آپ منکسرانہ لہجے میں کہتے ہیں، ’’تنخواہ کے علاوہ میری کوئی اور آمدنی نہیں۔‘‘

’’ہوں‘‘ وہ منہ سے پائپ یا سگار نکال کر طنزیہ انداز میں فرماتے ہیں، ’’اور وہ جو جناب نے کبوتر نامہ لکھا تھا، اس کی رائلٹی کیا ہوئی۔‘‘

’’جی کیا عرض کروں، بندہ پرور، سال بھر میں کل تین کاپیاں فروخت ہوئی جن پر ساڑھے تیرہ آنے رائلٹی ملی۔‘‘

’’ساڑھے تیرہ آنے سے مطلب نہیں۔‘‘ وہ گرج کر فرماتے ہیں، ’’آمدنی کے نقشے میں اسے بھی دکھانا چاہئے۔‘‘

آپ دبی زبان سے اپنی غلطی کا اعتراف کرتے ہیں۔ وہ غرا کر پھر پوچھتے ہیں۔

’’اور وہ جو آپ کو ریڈیو سے معاوضہ ملا، وہ کیوں نہیں دکھایا۔‘‘

’’اجی حضرت وہ کیا معاوضہ تھا۔ ڈھائی منٹ کے لیے بچوں کے ایک فیچر پروگرام میں گیدڑ کا پارٹ ادا کیا تھا۔ جس کے ڈھائی روپے ملے۔ ا ب میں وہ کیا آمدنی کے نقشہ میں دکھاتا۔‘‘

وہ اسی فرعونیت کے ساتھ جواب دیتے ہیں، ’’کچھ بھی ہو اندراج مکمل ہونا چاہئے۔‘‘

چند ثانیوں کی اذیت بخش خاموشی کے بعد وہ پھر آپ سے مخاطب ہوتے ہیں، ’’ہاں اور وہ جو آپ رائے بہادر مستیا مل کی لڑکی کو بطور معلم پڑھاتے رہے، وہ ٹیوشن فیس آپ نے درج نہیں کی۔‘‘

’’جناب، رائے بہادر بیس روپے ماہوار ہی تو دیتے تھے اور ان کی کوٹھی تھی غریب خانے سے چھ میل دور، پندرہ روپے ماہوار تانگے والا لے لیتا۔ باقی رہے پانچ۔ ان سے بمشکل سگریٹ پان کا خرچ چلتا۔‘‘

مگر وہ دہاڑ کر کہتے ہیں،’’آمدنی آمدنی ہے، پانچ ہو یا پچاس۔‘‘

اور آپ بے حد مرعوب ہوکر سوچنے لگتے ہیں، یہ کم بخت انکم ٹیکس والے حساب دان ہونے کے علاوہ غضب کے سراغ رساں بھی ہیں۔ آپ کی آمدنی کے متعلق آپ سے بھی زیادہ جانتے ہیں۔ حالانکہ آپ نے صرف ریڈیو والوں کی لاج رکھنے کے لئے ڈھائی روپے کی گرانقدر رقم کا ذکر نہ کیا تھا او ر اگر چہ ’’کبوتر نامہ‘‘ کی رائلٹی آپ کے ذہن سے بالکل اتر چکی ہے مگر انہیں سب کچھ یاد ہے۔ آپ کی آمدنی کے تمام ذریعوں کا انہیں پتہ ہے۔ آپ یہ سوچ ہی رہے ہوتے ہیں کہ وہ لال لال آنکھیں نکال کر کہتے ہیں، ’’آپ کو معلوم ہے، آمدنی چھپانا جرم ہے۔‘‘ اور پیشتر اس کے کہ وہ آپ کو تعزیرات کی اس دفعہ کا حوالہ دے سکیں جس کے تحت آپ کو گرفتار کیا جا سکتا ہے آپ معافی مانگنے پر اتر آتے ہیں اور یہ ہے وہ بات جس پر انکم ٹیکس کے انسپکٹروں کو ناز ہے کہ کلچرل کالج کا پروفیسر دین دیال جو ایم اے ہونے کے علاوہ ایل ایل بی بھی ہے ان سے گڑ گڑا کر معذرت کر رہا ہے۔ اور در اصل اسی امر کے لئے تو آپ کو دفتر میں طلب کیا گیا تھا تاکہ انسپکٹر صاحب اپنے احباب میں مونچھوں پر تائو دے کر کہہ سکیں، ’’اجی ہماری موجودگی میں بڑوں بڑوں کے زہرے آپ ہو جاتے ہیں۔ پرسوں کلچرل کالج کے ایک پروفیسر کو اتنا دھمکایا کہ بے چارا تھر تھر کانپنے لگا۔‘‘

سگار کے دو چار کش اور لگانے کے بعد وہ آپ کی معذرت قبول فرما لیتے ہیں جس کا پتہ اس بات سے چلتا ہے کہ وہ آپ کو بیٹھنے کے لیے کرسی پیش کرتے ہیں۔ مگر رخصت ہوتے وقت یہ خوش خبری آپ کے گوش گزار کی جاتی ہے کہ انہوں نے آپ کی حالت زار پر رحم کھاتے ہوئے صرف ایک سو بیس روپیہ انکم ٹیکس تجویز کیا ہے جو آپ کی ایک مہینہ کی پوری تنخواہ ہے۔ اس پر بھی آپ ناراض ہونے کے بجائے ان کا شکریہ ادا کرتے ہیں۔

مگر جب گھر لوٹتے ہیں تو دل ہی دل میں کہتے ہیں، ’’آمدنی آمدنی ہے، پانچ ہو یا پچاس۔ خوب مگر کیا خرچ خرچ نہیں۔ پانچ سو ہو یا پانچ ہزار۔‘‘

اور اس وقت آپ کا جی چاہتا ہے کہ کاش یہ زبان دراز افسر آپ کے اخراجات کا بھی جائزہ لے سکتا اور جیسے آپ کی آمدنی کے تمام ذرائع معلوم ہیں کاش اسے آ پ کے خرچ کی تفاصیل بھی اسی طرح ازبر ہوتیں۔ کاش اسے یہ پتہ ہوتا کہ آپ کی آدھی سے زیادہ آمدنی بیوی کی ساڑھیوں پر خرچ ہوتی ہے۔ ایک چوتھائی آپ کے فیملی ڈاکٹر کی جیب میں چلی جاتی ہے اور اگر آپ کا ہمسایہ آپ کو قرض نہ دے تو شاید آپ کو کسی یتیم خانے کی پناہ لینی پڑے اور آپ سرد آہ کھینچ کر کہتے ہیں، صرف ایک سو بیس روپے انکم ٹیکس تجویز کرنے والے مہربان اگر تجھے واقعی میرے اخراجات کا علم ہوتا تو انکم ٹیکس تجویز کرنے کی بجائے گورنمنٹ سے مجھے اسپیشل وظیفہ دلواتا۔ مگر افسوس تو یہی ہے کہ تجھے میرے اخراجات کا علم نہیں۔

حصہ